حجاب کے نام!

شرکاء

مشرق و مغرب کی عورت
جون کا حجاب اسلامی اس بار طویل انتظار کے بعد ملا۔ ہمارے یہاں رسالہ ہر ماہ کے آخری ہفتہ میں مل جاتا ہے۔ اس ماہ کم از کم دس دن تاخیر سے ملا۔ معلوم نہیں کیا وجہ ہے۔ انتظار کے بعد رسالہ ملا تو پڑھ کر خوشی ہوئی۔
اس شمارے میں فکر وآگہی کے تحت خواتین کے لیے منفی سوچ کی ایک جھلک پڑھ کر افسوس ہوا۔ وہ یہ کہ آج مساوات مرد و زن کے دور میں بڑے بڑے اور نام نہاد تعلیم یافتہ لوگ بھی عورتوں کے سلسلہ میں کس قدر بودی اور خراب سوچ رکھتے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ مغرب کے آزاد خیال مفکرین اور مغربی سماج کا وہ طبقہ جو مساوات مرد و زن کانعرہ لگاتا ہے، کس قدر دورنگی کا شکار ہے۔ یہ برابری کا نعرہ دراصل برابری کا نعرہ نہیں، بلکہ مردوں کے ذریعے خواتین کے استحصال کا ایک فریب ہے۔ ابھی تک مشرق و مغرب کی عورت اس فریب کو سمجھ نہیں پائی ہے۔ حالانکہ وہاں کے سماج میں اب جو صورتِ حال عورتوں کے سامنے ہے، اسے دیکھ کر باشعور لوگوں کے لیے اس کی تہ تک اترنا آسان ہوگیا ہے اور بہت سی خواتین اب سمجھنے بھی لگی ہیں اور اسلام کے نظریات کا مطالعہ کررہی ہیں، مگر بڑی تعداد ابھی تک اس فریب کو سمجھنے میں ناکام ہے۔
میں سوچتی ہوں کہ اگر واقعی یورپ کے مرد خواتین کو عزت و تکریم اور آزادی دینا چاہتے ہیں تو وہاں کی خواتین اور سماج اس صورتِ حال سے غیر مطمئن اور پریشان کیوں ہیں۔ وہاں کے سماج میں طلاق کی شرح کیوں بڑھ رہی ہے اور وہاں کا خاندانی نظام مستحکم اور مردو عورت کے تعلقات محبت کے اصولوں پر استوار کیوں نہیں ہیں۔ اگر وہ سماج واقعی مردوں اور عورتوں کو یکساں آزادی اور عزت و وقار دینا چاہتا ہے تو خواتین کے خلاف جرائم او رتشدد کا بازار گرم ہونے اور مسلسل گرم ہوتے چلے جانے کا جواز کہیں سے نظر نہ آنا چاہیے۔ مگر ایسا ہی ہورہا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے یہ باتیں محض کھوکھلا نعرہ ہیں اورعورت کے لیے ایک فریب ومکاری کا جال ہیں۔
اگر مشرق کی عورت اس حقیقت کو سمجھ لے یا اس عورت کے درد کو جان لے جو وہاں رہ رہی ہے تو اس آزادی اور برابری سے توبہ کرلے گی۔ کاش کہ مشرق کی عورت اس بات کو تباہی سے پہلے ہی سمجھ لیتی۔
طیبہ راحت، حلیم ڈگری کالج، کانپور
عیادت مریض کا مسئلہ
جون کے حجاب اسلامی میں مریض کی عیادت سے متعلق مضمون پڑھا۔ بہت پسند آیا۔ اس مضمون میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں، وہ اپنی جگہ درست اور لائق توجہ ہیں، میں اس سلسلہ میں ایک دو باتوں کا اضافہ ضروری سمجھتا ہوں۔
ہمارے یہاں مریض کی عیادت کو ایک سماجی رسم کے طور پر لیا جاتا ہے۔ لوگ سوچتے ہیں کہ اگر نہ گئے تو لوگ کیا کہیں گے، رشتہ دار برا منائیں گے اور رشتوں میں گھٹاس پیدا ہوجائے گی۔ یہ تصور غلط ہے۔ بیمار پرسی اللہ اور رسول کا حکم ہے اسے کسی سماجی جبر یا رسم کے طور پر لینا غلط ہے۔
ہمارے یہاں یہ بھی ہوتا ہے کہ مریض کے گھر رشتہ داروں کی بھیڑ کی بھیڑ آکر ٹھہرنے لگتی ہے۔ یہ ایک طرف تو مریض کے رشتہ داروں کے لیے انتظامی اعتبار سے بوجھ ہوجاتا ہے دوسرے معاشی اعتبار سے بھی ان کے لیے پریشانی کا سبب ہوتا ہے۔ وہ مہمانوں کی ضیافت کریں یا مریض کو دیکھیں، مریض کے علاج و معالجے کے اخراجات برداشت کریں یا رشتہ داروں کی ضیافت کا انتظام کریں۔ حد یہ ہے کہ بعض لوگ ایسے موقعوں پر مناسب ضیافت نہ ہونے کا شکوہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔
یہ باتیں میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ خود اس کا شکار ہوچکا ہوں۔ امید کہ قارئین حجاب تو کم از کم ان باتوں پر توجہ ضرور فرمائیں گے۔
نسیم الرحمن قاضی، ورنگل (اے پی)
خواتین کے لیے سماج کی سوچ
مئی کا شمارہ ملا۔ حجاب اسلامی اردو زبان میں چھپنے والے رسالوں میں یہ منفرد رسالہ ہے جو خواتین اور لڑکیوں کے لیے بڑے کام کا اور مفید ہے۔ آپ نے رسالے کو جو رنگ و روپ دیا ہے اور جس طرح کے مضامین شائع کرتے ہیں ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسالہ ہر اردو داں گھر کی ضرورت ہے۔
اس شمارے کے مضامین میں مباحثہ جو مختلف خواتین کے جوابات ہیں کافی پسند آیا۔ یہ سلسلہ بہت دنوں بعد حجاب میں پڑھنے کا ملا۔ اس کے علاوہ ’’بچوں کو کو عینک سے بچائے‘‘ بڑا مفید اور معلوماتی مضمون ہے۔ اس سے والدین یقینا فائدہ اٹھائیں گے۔ افسانوں کا گوشہ اس ماہ بڑا تشنہ محسوس ہوا۔دراصل آپ نے طویل افسانہ شائع کردیا۔ اس کی وجہ سے کئی افسانے پڑھنے سے محروم ہوگئے۔ میری گزارش ہے کہ طویل افسانے شائع کرنے کے بجائے مختصر مگر زیادہ تعداد میں شائع کریں۔ اس سے پڑھنے میں دل لگتا ہے جبکہ طویل افسانہ طبیعت پر بوجھ معلوم ہوتا ہے۔
ہوبہ ہو کے تحت شیش نارائن سنگھ کا مضمون قابلِ ستائش ہے۔ وہ اس لیے نہیں کہ انھوں نے اپنے مضمون میں اسلام کی ستائش کی ہے، بلکہ اس لیے کہ مضمون نگار مغرب کی غلامانہ ذہنیت سے آزاد ہوکر واقعی حقیقت پسندانہ سوچ کے مالک ہیں اور سماجی اور معاشرتی اعتبار سے وہ ان حقائق کو سمجھتے ہیں جن کو متعصب لوگ یا تو سمجھ نہیں پاتے یا سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں عام طور پر اور ہمارے ملک میں خاص طور پر خواتین کی فلاح و بہبود اور ان کو بااختیار بنانے کی جو کوشش ہورہی ہے وہ محض مغرب کی نقالی میں ہورہی ہے۔ حقیقت میں خواتین کو اس وقت تک ’’امپاور‘‘ نہیں کیا جاسکتا جب تک ان کے لیے عزت و وقار پر مبنی سوچ پیدا نہ کردی جائے۔ اور ہمارا سماج فی الحال خواتین کو عزت و وقار اور احترام دینے کے لیے قطعاً تیار نہیں۔ اگر وہ واقعی خواتین کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا تو نہ سماج جہیز کی لعنت میں پھنسا ہوتا اور نہ اس کے لیے لڑکیوں کا قتل ہوتا اور نہ لاکھوں لڑکیاں غربت کے سبب باپ کی چوکھٹ سے بندھی رہتیں۔ اور آخر کار – نہ رحمِ مادر میں ان کا قتل ہوتا اور نہ لڑکے لڑکیوں کا ’’تناسب‘‘ خراب ہوتا۔
میرے خیال میں ایسے صحافیوں اور قلم کاروں کی ٹیم بناکر سماج میں تبدیلی کے لیے راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔
صائمہ صدف (ہاسن)
قسط وار کے سلسلے میں
کافی دنوں سے خط لکھنے کے لیے سوچ رہی تھی۔ قسط وار ’’صداقتوں کے پاسبان‘‘ اچھا جارہا ہے۔ مگر مجھے یہ شکایت ہے کہ قسط بہت مختصر دی جارہی ہے۔ دراصل قارئین کے لیے پچھلا سیاق و سباق یاد رکھنا کبھی کبھی مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے قسطوں کو کچھ اور طویل کریں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ادھر چند دنوں سے پروف کی غلطیاں رہ جاتی ہیں جس سے طبیعت مکدر ہوتی ہے۔ اور ظاہر ہے اس سلسلہ میں میں ہی اکیلی نہیں دیگر بہنوں کو بھی ان باتوں کا احساس ہوگا۔
براہِ کرم قسطوں کو طویل کریں اور پروف کا خیال رکھیں۔
اسما تزئین آکولہ( بذریعہ ای میل)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں