فلمی دنیا کی خود کشیاں
مئی کا رسالہ ا س وقت سامنے ہے۔ تمام مضامین اچھے لگے۔
فلمی دنیا میں لڑکیوں کی خود کشی پرمشتمل مضمون دیکھ کر خوش کن حیرت ہوئی۔ اس مضمون میں جن حقائق کا تذکرہ ہے وہ لوگوں کے سامنے پیش کرنا ضروری ہیں۔
عالمی سطح پر ہم دیکھتے ہیں کہ فلم انڈسٹری کو دو مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک مقصد تو یہ ہے کہ فلم کی دنیا یا ویژول میڈیا معلومات اور علم کی ترسیل کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ دوسرے یہ سماج میں اقدار کو بنانے اور بگاڑنے میں بھی اہم رول ادا کرتی ہے۔ بے شمار فلمیں ایسی ہیں جن کے ذریعے سماج میں رائج غلط روایات اور برائیوں کے خاتمے کی راہ ہموار ہوئی۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ فلمی دنیا کے ذریعے ہی سماج میں مغربی اقدار اور غلط سوچ کی بھی تبلیغ ہوتی ہے۔
فلمی دنیا گلیمر کی دنیا ہے اور یہاں کمائی بہت ہائی لیول کی ہوتی ہے۔ اسی طرح ان کے اخراجات اور لائف اسٹائل بھی ہے۔ یہاں کفایت شعاری اور میانہ روی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، اسی طرح یہاں کا ماحول اور ا س کی اقدار بھی الگ ہیں۔ خدا اور آخرت کے تصور سے بہت دور۔ اگر ہم اس پر غور کریں کہ خود کشیاں لڑکیاں ہی کیوں کرتی ہیں جب کہ انڈسٹری میں تو مرد و عورتیں دونوں ہیں تو کئی تلخ حقائق ہمارے سامنے آئیں گے۔ ان حقائق پر بھی بحث ہونی چاہیے۔
اچھی صحت میں پاکیزہ جذبات کا رول پسند آیا۔ یہ بڑی حقیقت ہے۔ کاش کہ ہم عملی زندگی میں ان پر عمل کرنے کے قابل ہوجائیں۔
نوشین فاطمہ (بذریعہ ای -میل)
شوق سے پڑھا جانے والا
حجاب اسلامی ہمارے گھر میں بڑے شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ ہمارے ابا کبھی کبھی اس کے مضامین پڑھ کر ہم لوگوں کو سناتے ہیں۔ ہمیں یہ بہت اچھا لگتا ہے۔ آپ پہلے اس میں بچوں کے لیے گوشۂ نو بہار بھی لکھتے تھے مگر پتہ نہیں اب آپ نے اسے کیوں بند کر دیا۔ اگر وہ شروع کر دیں گے تو ہم بھی اس میں مضمون لکھیں گے۔
ہما ریاض صدیقی ممبئی، (بذریعہ ا-میل)
[ہما! جلد ہم آپ کے لیے بچوں کا الگ رسالہ لانے کی فکر کر رہے ہیں۔ اللہ سے دعا کیجیے! جب یہ رسالہ آئے گا تو آپ اور آپ کی ساتھی سہیلیاں بھی اس میں لکھا کریں گی۔ آپ فی الحال مضامین لکھ کر دوسرے رسالوں میں بھیجیں۔ مثلا: نور، ہلال، بچوں کی دنیا، اچھا ساتھی وغیرہ]۔
سمجھوتہ کیا ہے؟
مئی کے حجاب اسلامی میں سارے ہی مضامین اچھے لگے۔ اس رسالے میں ایک مضمون ازدواجیات کے تحت شائع ہوا ہے۔ مضمون بہت اچھا ہے اور اس میں نئے شادی شدہ جوڑوں کے لیے بڑی اچھی ہدایات ہیں۔ یقینا ان ہدایات پر عمل کر کے ازدواجی زندگیوں کو خوشی سے گزارا جا سکتا ہے۔
میرے نزدیک ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ’’سمجھوتا‘‘ برداشت اور تحمل کون کرے؟ کیا برداشت اور تحمل جسے سمجھوتا کیا جا رہا ہے وہ صرف لڑکی کو کرنا ہے یا دیگر لوگوں کو بھی۔
دیکھا یہ جاتا ہے کہ لڑکی ہی سب کچھ برداشت کرتی ہے اور اس کے باوجود گھر کے سارے افراد اسی کو نشانہ بنائے رہتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بعض اوقات نندیں، ساس کے ساتھ ساتھ شوہر تک کے کان بھر کر ازدواجی زندگی میں تلخیاں گھولنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ایسے میں کوئی کہاں تک برداشت کر سکتا ہے۔
اللہ کی بندی (بھوپال)
[اللہ کی بندی! آپ نے ایک معاشرتی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے۔ ایسا ہوتا ہے کہ دلہن اس طرح کے دباؤ میں آجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں موجودہ طرز کے جوائنٹ فیملی نظام کو پسند نہیں کیا گیا۔ ایسی صورت میں شوہر اور بیوی کو چاہیے کہ دانش مندی سے کام لیتے ہوئے الگ رہائش کا انتظام کر کے اپنے رشتوں کو بچائیں۔ الگ رہنے کا مطلب ماں باپ اور چھوٹے بھائی بہن سے رشتہ توڑ لینا نہیں ہے۔]
اچھے افسانے
اپریل 2016 کا رسالہ کسی قدر تاخیر کے ساتھ ملا۔ معلوم نہیں کیوں؟ ہمیشہ تو وقت پر مل جایا کرتا ہے۔
اس شمارے کے مشمولات میں ’’روشنی کا سفر‘‘ افسانہ بہت پسند آیا۔ افسانہ نگار نے جس پیارے انداز میں بات سمجھائی ہے وہ بڑا ہی دل پذیر ہے۔ ’’اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔‘‘
افسانہ ’’گود لی ہوئی ماں‘‘ ہمارے معاشرے کے ایک دوسرے رخ کو ظاہر کرتا ہے جو تکلیف دہ ہے۔ افسانہ کا ایک پہلو تو ہماری سماجی زندگی میں پھیلی تاریکی کو بیان کرنے کی کامیاب کوشش ہے دوسری طرف عائلی زندگی کا کڑوا سچ بھی اس کا خاص حصہ ہے۔
میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری خواتین سماج اور معاشرے کو بدلنے میں کوئی کردار نبھا سکیں یا نہیں، وہ عائلی زندگی کو بنانے اور سنوارنے میں یقینا اہم رول ادا کرسکتی ہیں۔
ہماری خواتین خصوصا لڑکیاں یہ طے کریں کہ وہ اپنے گھریلو اور خاندانی رشتوں کو نہ صرف اچھی طرح نبھائیں گی بلکہ انہیں مضبوط، مستحکم اور مثالی بنائیں گی۔ کیوں کہ یہی دین کا بھی مقصود ہے اور اسی میں ہماری دنیاوی زندگی کی خوشیاں بھی ہیں۔ lll