گذشتہ دنوں دہلی یونیورسٹی کی ایک طالبہ کو چار افراد نے اس وقت اغوا کرلیا جب وہ سڑک کے کنارے ایک کینٹین سے کھانا لینے گئی تھی۔ مجرموں نے اسے زبردستی اٹھا کر کار میں ڈالا اور چلتی گاڑی میں اس کی اجتماعی عصمت دری کی اور کئی گھنٹوں کے بعد اسے واپس لاکر وہیں ڈال دیا۔ جبکہ اس کی ساتھی لڑکی کو انھوں نے دھکا دے کر گرادیا۔ بعد میں اس نے پولیس کو اپنے موبائل سے فون کرکے گاڑی کا نمبر بھی بتادیا مگر پولیس انہیں فوری گرفتار کرنے سے قاصر رہی۔ جس جگہ سے اس طالبہ کو اٹھایا گیا تھا وہ کوئی سنسان و ویران جگہ نہ تھی اور لوگوں کا کہنا ہے کہ اس علاقہ میں ہر وقت پولیس کی کئی پی سی آر گاڑیاں مسلسل گشت کرتی رہتی ہیں مگر اس کے باوجود مجرمین کے لیے بہ آسانی نکل بھاگنا ممکن ہوا۔
اس حادثہ کے بعد دہلی کے اخبارات اور ملکی میڈیا میں زلزلہ آگیا اور تمام ہی اخبارات اور ٹی وی چینلوںمیں اس خبر پر گرما گرم مباحث ہوتے رہے اور اب تک اس سے متعلق خبریں سرخیوں میں شائع ہورہی ہیں۔
دہلی میں عصمت دری، اغواء اور زنا بالجبر کے واقعات اب بہت عام ہوگئے ہیں اور ہر مختصر مدت کے بعد کوئی نہ کوئی ایسا بڑا واقعہ ضرور ہوجاتا ہے جس کی باز گشت سرکاری ایوانوں کے ساتھ ملک بھر میں سنائی پڑتی ہے۔ چند ماہ قبل ایک ڈپلومیٹ خاتون کے ساتھ بھی اسی طرح کا حادثہ ہوا تھا جس پر دنیا بھر میں ہندوستان کی رسوائی ہوئی۔ ہر حادثہ کے بعد اس بات پر بحث ہوتی ہے کہ دہلی میں خواتین کتنی محفوظ ہیں۔ پھر اخبارات اور ٹیلی ویژن چینل رائے شماری کراتے ہیں اور بات آئی گئی ہوجاتی ہے۔ کچھ دنوں کے بعد ایک اور حادثہ ہوتا ہے اور ماحول پھر گرم ہوجاتا ہے۔ ایک سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ دن کی روشنی اور رات کا اندھیرا ان مجرموں کے لیے یکساں ہیں اور کسی بھی وقت کوئی بھی حادثہ نمودار ہوجاتا ہے۔
اگر یہ تصور کیا جائے کہ اس طرح کے واقعات صرف دہلی میں ہی ہوتے ہیں تو یہ غلط فہمی ہے۔ ملک کے ہر حصہ میں اس طرح کے جرائم تیزی کے ساتھ ترقی کررہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ملک کی راجدھانی ہونے اور میڈیا کی پہنچ کے سبب یہاں کے واقعات روشنی میں آجاتے ہیں اور دوسری جگہ ایسا نہیں ہوپاتا۔ مدھیہ پردیش میں حال ہی میں ایک دلت خاتون کی اجتماعی عصمت دری اور جے پور میں ایک ٹورسٹ خاتون کے ساتھ ایسا ہی واقعہ اس بات کے ثبوت ہیں۔ اس کے علاوہ خود سرکاری سطح پر جاری ہونے والے اعداد وشمار ہمیں بتاتے ہیں کہ جہاں ملک میںجرائم کی رفتار میں تیزی آئی ہے وہیں خواتین کے خلاف جرائم میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اور اب جبکہ عورتوں کو کاروباری اداروں میں رات کے اوقات کار میں بھی کام کرنے کی قانونی اجازت مل گئی ہے، اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس قسم کے واقعات میں مزید اضافہ ہوگا۔
اس تمام صورت حال کی اصل ذمہ داری اس معاشرہ اور سماج پر عائد ہوتی ہے جو اپنی سماجی، معاشرتی اور مذہبی اقدار کے تاروپود خود اپنے ہاتھوں بکھیرنے پر تلا ہے اور مغرب سے آنے والی بے حیائی، عریاں کلچر اور ’’جیو اور عیش کرو‘‘ کی روش پر چلتے ہوئے فکری ایڈز پھیلانے میں لگا ہے۔ اور اس فکری بیماری ہی کو وہ اعلیٰ اقدار تصور کرتے ہوئے اسے قبول کرکے جدیدیت اور ماڈرنزم کا لیبل اپنی پیشانیوں پر چسپاں کرنا چاہتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھر کی لڑکیوں کو ہیروئن اور ماڈل بنانے کی کوشش میں ہیں اور انہیں اپنی بہو بیٹیوں کو نیم لباس اور نیم عریاں دیکھ کر شرم نہیں آتی، بلکہ اسے قابلِ فخر سمجھتے ہیں۔ اسی بیمار ذہنیت کے افراد ہیں جو سماج میں خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم کی جڑ میں بیٹھے ہیں اور سماج میں نفسیانیت اور جنسی انارکی کو ہوا دے رہے ہیں۔
موجودہ دور کا حیا سوز اور اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار میڈیا بھی اس جرم میں برابر کا شریک ہے جس نے اپنے اشتہارات، سیریلس اور دیگر پروگراموں کے ذریعہ نوجوان نسل کے ذہن وفکر کو پراگندہ کرکے اسے ہوس کا غلام اورتلذذ کا مریض بنا دیا ہے۔ یہ میڈیا خواہ پرنٹ میڈیا ہو یا الکٹرانک میڈیا دن رات ایسے پروگراموں کی نمائش اور رپورٹنگ میں لگا ہے۔ عیاشوں اور شراب نوشوں کی محفلوں کو مثالی پروگرام اور حیاسوز اور ننگی تصویروں کو اشتہارات اور لڑکے لڑکیوں کی بے قید رنگین محفلوں کو کلچر بناکر پیش کررہا ہے۔ میڈیا نوجوانوں کے اندر ایسا ہیجان پیدا کررہا ہے کہ اس ہیجان کا لازمی نتیجہ ان واقعات کی صورت ہی میں نکلنا ہے۔ اگر یہ اصول تسلیم کیا جائے کہ جرم کی تحریک اور اس کا سبب بننا بھی جرم ہے، تو اس اِس جرم میں میڈیا برابر کا شریک ہے۔
اس قسم کے واقعات پر میڈیا کا رد عمل بھی بھی افساسناک ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ لوگوں کو ان واقعات کے حقیقی محرکات کو سمجھنے اور اس کے سامنے بند باندھنے کے لیے آمادہ کرتا محض لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کا ذریعہ بننا پسند کرتا ہے اور چٹخارے لے لے کر ان واقعات کو بیان کرتا ہے کہ نتیجتاً اپنے آپ میں خود اس کے فروغ کا آلہ کار بنتا ہے۔ اور اب تو باقاعدہ کرائم چینلز ہیں جو سنسی خیز جرائم کی روداد پیش کرکے اپنے مشاہدین کی فہرست کو طویل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کی جرائم رپورٹنگ خود لوگوں کو اس بات کی تربیت فراہم کرتی ہے کہ وہ کس طرح جرم کریں اور کس طرح فرار ہونے میں کامیاب ہوں۔ چنانچہ اب یہ عام مشاہدہ ہوگیا ہے کہ مجرم بالکل فلمی اور افسانوی انداز میں جرم کا ارتکاب کرتا ہے اور صاف بچ جاتا ہے۔
اس قسم کے جرائم کے روز افزوں اضافہ کی ذمہ داری کسی نہ کسی صورت میں حکومت اور پھر پولیس پربھی ہوتی ہے۔ کیونکہ حکومت اور اس کا عدالتی نظام ایسا ہے جو مجرمین کو قرار واقعی سزانہیں دلا پاتا یا پھر لوگ اپنی رسوائی اور خطرات کے سبب وہاں جانا پسند نہیں کرتے۔ اس لیے کہ اگر متاثر فرد حادثہ کے مقابلہ اور زیادہ رسوائی کو انگیز کرے اور جرائم پیشہ افراد کی دھمکیوں کے مقابلے میں حوصلہ رکھ کر عدالت تک پہنچے بھی توجرم کو ثابت کرنا آسان نہیں ہوتا اور اس سب کے باوجود مجرم عدالتی نظام کی گرفت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس پر سیاست دانوں کی چھتری جو مجرمین کو حاصل ہے الگ مسائل پیدا کرتی ہے۔
گذشتہ سال سابق وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ کیوں نہ زنا بالجبر کے مجرم کو موت کی سزا دی جائے۔ اس پر سیاسی ماحول تو گرم ہوا مگر بات بیان بازی سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اور ایسا اس لیے ہے کہ سیاست دان طبقہ خود بھی بعض معاملات میں سنجیدہ کوششوں کے بجائے بیان بازی سے کام چلانا چاہتا ہے۔
دوسری طرف پولیس کا معاملہ عجیب ہے کہ وہ نام نہاد آئی ایس آئی کے ایجنٹوں کو پکڑنے میں تو بڑی فعال نظر آتی ہے اور اسے بڑے کارناموں کے طور پر گناتی ہے مگر راجدھانی میں حکومت کی ناک کے نیچے ہورہے ان جرائم کے معاملہ میں سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ حالانکہ پولیس اگر واقعی چاہے تو اس قسم کے حادثات کم سے کم کرسکتی ہے۔ اور جو حادثات ہوں،ان پر بروقت فعال کارروائی کرکے مجرمین کو گرفتار کرسکتی ہے مگر ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوپاتا اور مجرمین نہ صرف یہ کہ بچ نکلتے ہیں بلکہ ثبوت تک کو مٹانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
یہ صورت حال خواتین کی تحریکات کے لیے بھی لمحہ فکر یہ ہے کہ اس قسم کے حادثات پر وہ کوئی ٹھوس کوشش کرنے کے بجائے صرف نمائشی جلسے جلوس اور دھرنے پر ہی اکتفا کرکے یہ سمجھ لیتی ہیں کہ ان کا سدباب ہوجائے گا۔ جبکہ وہ خواتین کو ۳۳ فیصد رزرویشن اور پارلیامنٹ میں ان کی نمائندگی کے لیے بے تابانہ جدوجہد میں مصروف ہیں۔ وہ عورتوں کے مسائل میں دلچسپی لیتی ہیں مگر بیمار ذہنیت کے ساتھ۔ وہ خواتین کو اور خاص طور مسلم خواتین کو طلاق سے نجات دلانے اور اسلام کی عائد کردہ ’’حدوں‘‘ سے انہیں آزاد کرانے کی فکر میں گھلی جاتی ہیں۔ یا پھر ان کی جدوجہد خواتین کو رزرویشن دلانے پر مرکوز ہے۔ مگر وہ یہ بات یا تو سمجھنے سے قاصر ہیں یا پھر اسے جان بوجھ کر نظر انداز کررہی ہیں کہ نوکریوں اور سیاسی ایوانوں میں متناسب نمائندگی ان جرائم کے تدارک یا ان کے سامنے بند باندھنے کے لیے کافی نہیں ہوسکتی۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس پر انھیں سنجیدگی سے غور کرکے ایک محکم اسٹرٹیجی اپنانی چاہیے اور اس ملک کی خواتین کو تحفظ فراہم کرنے اور ان کے عزت و وقار کو بحال کرنے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ مناسب قانون سازی کرے، پولیس اور انتظامیہ کو چوکس کرے اور میڈیا میں بڑھتی ہوئی عریانیت اور اس کے ذریعہ پھیلائی جارہی جنسی انارکی پر روک لگائے۔
اس پوری صورت حال میں ایک افسوس ناک پہلو مسلم خواتین تحریکات کی غیر موجودگی، اور موجودہ تحریکات کی سرد مہری بھی ہے۔ اور اسی وجہ سے خواتین سے متعلق جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو اس کی لگام انہیں خواتین کے ہاتھوں میں ہوتی ہے جو خود اسی تہذیب کی خوگر اور پرستار ہیں جس نے ہمارے معاشرے اور سماج کو ان غلاظتوں میں دھکیلا ہے۔ حالانکہ ہماری مسلم بہنوں کی آواز اس محاذ پر اس قدر بلند ہونی چاہیے تھی کہ اس کی بازگشت سیاسی ایوانوں سے لے کر عوامی مجلسوں تک میں سنی جاتی۔ ایسا اس لیے بھی ضروری تھا کہ خواتین کے لیے ان کے پاس ایسا بے مثال پیکج ہے کہ اگر اسے اپنالیا جائے تو سماج و معاشرہ اس قسم کے مسائل سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت تک ایسا ممکن نہیں ہوسکتا جب تک مسلم خواتین کی تحریکات مغربی نظام زندگی کے مقابلہ میں اسلام کا متوازن نظام اور ان کے مسائل کا حقیقی حل لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے فعال کردار ادا کرنا نہ شروع کردیں۔
اس قسم کے حالات ہمیں بھی سوچنے اور غوروفکر کرنے کا موقع دیتے ہیں کہ کیا ہم اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں اور اگر نہیں ہیں تو سماج و معاشرہ ان مسائل سے نجات ہرگز نہ پاسکے گا۔