خوشبو

مجیر احمد آزاد

بڑی دلہن کو آواز لگاتی ہوئی افسری صحن کو پار کرکے برآمدے میں آگئی۔ وہاں سے جواب نہ ملنے پر برآمدے کے آخری کنارے سے متصل کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ بڑی دلہن، بڑی دلہن پکارتی ہوئی کمرے کا ریشمی پردہ سرکاکر متلاشی نظروں سے اندر دیکھنے لگی۔ وہاں منجھلی بہو ساگوان کے خوبصورت پلنگ پر گاؤ تکیہ کے سہارے لیٹی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ریموٹ تھا اور رنگین ٹی وی پہ فلمی نغمہ چل رہا تھا۔ سامنے صوفے پر بڑی بہو کے سات سے چار سال تک کی عمر کے بچے پوری انہماک کے ساتھ ٹی وی اسکرین پر نظریں جمائے رقص و نغمہ دیکھنے میں مصروف تھے۔ کشادہ کمرے کی دیواروں پہ قدرتی مناظر والے پوسٹر آویزاں تھے۔ بڑی بہو نے افسری کی آہٹ پاکر لیٹے لیٹے سلام بجایا۔

’’خوش رہو بیٹی۔‘‘ دعائیں دیتے ہوئے افسری نے بڑی دلہن کے بارے میں پوچھا لیکن جواب کا انتظار کیے بغیر سائبان سے ہوئی ہوئی دوسری کوٹھری کی جانب چل پڑی۔ وہاں بھی بڑی دلہن کی رٹ لگاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی جہاں سے ہندی نغمے کی ہلکی سریلی آواز گشت کرتی ہوئی باہر تک آرہی تھی۔ نادرہ صوفے پر بیٹھی کشیدہ کاری میں مصروف تھی اور سامنے ٹیبل پر رکھا ہوا گراموفون بج رہا تھا۔ نادرہ اسی کے ساتھ گنگنارہی تھی۔ افسری کے کمرے میں آتے ہی اس نے اپنا دوپٹا سر پر درست کیا جو اس وقت اس کی گود میں تھا۔ بڑی دلہن کو وہاں نہیں پاکر اس نے سوالیہ نظروں سے صوفے پر بیٹھی نادرہ کو دیکھا اور بولی:

’’بڑی دلہن کہاں ہے؟ نادرہ بیٹی!‘‘

’’خالہ امّا شاید باورچی خانے میں ہوں گی۔‘‘ بڑی دلہن کی منجھلی بہو کا سپاٹ جواب تھا۔ افسری باہر جانے کو مڑی کہ ٹن ٹن کی آواز سن کر اس کی نگاہ دیوار گھڑی کی طرف اٹھ گئی۔ دیوار گھڑی کی سوئیاں اوپر تلے ایک ساتھ ہوکر بارہ بجنے کا اعلان کررہی تھیں۔ گھڑی کے نیچے ایک وجیہہ نوجوان ہاتھ میں تازہ گلاب لیے مسکرا رہا تھا۔ افسری کو پہچاننے میں دیر نہیں لگی کہ یہ بابو احمر ہیں۔ اس کی شادی بڑی دلہن نے اپنی بہن کی بیٹی نادرہ سے کی ہے۔ احمر بابو بمبئی کی کسی فرم میں ملازم ہیں۔

وہاں سے مایوس ہوکر بڑی دلہن کو تلاش کرتی ہوئی افسری باروچی خانے میں پہنچی۔ بڑی دلہن سبزی کاٹنے میں لگی تھی۔ ان کے ہاتھ سے سبزی کی ٹوکری اور چاقو لے کر وہ فرش پر بیٹھ گئی اور بھر پور نگاہ سے اسے نہارنے لگی۔

چہرہ جو کبھی سرخی مائل سفید ہوا کرتا تھا اس پر جھریاں پڑچکی تھیں۔ نکھار کا اتا پتا نہیں تھا۔ رنگ میں بھی کمی آگئی تھی اور فکر کی لہریں آتی جاتی نظر آرہی تھیں۔ باقی کمی ساٹھ کے قریب آتے آتے عمر نے پوری کردی تھی۔ بڑی دلہن کو دیکھتے دیکھتے وہ بیالیس سال پیچھے لوٹ گئی جب بڑی دلہن وکیل صاحب سے بیاہ کر اس حویلی نما مکان میں آئی تھی۔ اس (افسری) کو خاص طور سے مالکن نے اپنی بہو کے لیے رکھ چھوڑا تھا۔ تب اس کی عمر کچھ زیادہ نہ تھی وہی قریب پندرہ سولہ سال کی رہی ہوگی، دبلی، پتلی، پھرتیلی سی۔ وہ سارا کام کاج چھوڑ چھاڑ کر بڑی دلہن کی ناز برداری میں جٹی رہتی۔ جو بھی دیکھتا بڑی دلہن کے حسن کی تعریف کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا ساتھ میں افسری کی خدمت گزاری کا بھی ذکر ہوتا۔ بڑی دلہن بھی اسے بہت مانتی تھی۔ اس کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کا خیال رکھتی۔ اس کو صاف ستھرا رہنے، ٹھہر ٹھہر کر بولنے اور زبان کی درستگی کا سلیقہ بتاتی۔ یہی سبب تھا کہ وہ بڑی دلہن کی اسیر تھی۔ خوش و خرم زندگی رواں دواں تھی۔ افسری کا تعلق اس کی شادی کے بعد بھی پہلے کی طرح بنا رہا۔ افسری کی شادی کے بعد بڑی دلہن نے کئی خادماؤں کو آزمایا مگر کوئی بھی افسری کی جگہ نہ لے سکی۔ پھر کچھ دنوں بعد تو یہ سلسلہ بھی آپ ہی آپ منقطع ہوگیا۔ لیکن اس کو ہر تقریب میں گھر کے فرد کی طرح بلایا جاتا اور مضبوط کاٹھ کی بنی افسری خدمت کے کوئی بھی مواقع ہاتھ سے نہ جانے دیتی تھی، بڑی دلہن سے اپنائیت جو تھی۔

دس سال ہوئے وکیل صاحب نے آخرت کا سفر کیا۔ اس وقت صرف بڑے بیٹے کی شادی ہوئی تھی۔ بڑی دلہن کی شکایت سن کر افسری حقیقت کی دنیا میں واپس آگئی۔ چھوٹے بیٹے کی شادی میں نہ آنے پر بڑی دلہن افسری سے تھوڑا ناراض تھی۔ لیکن افسری کے استفسار سے ان کے من کا میل دھل گیا۔ افسری نے خادماؤں کے بارے میں دریافت کیا تو بڑی دلہن کا چہرہ افسردہ ہوگیا۔ افسری نے محسوس کیا کہ وہ کچھ چھپارہی ہے۔ بیس سال تک ساتھ رہنے والی افسری ان کی تمام عادتوں سے واقف تھی اس لیے کریدنا مناسب نہیں سمجھا۔ بڑی دلہن نے بھی گول مٹول سا جواب دے کر مطمئن کردیا۔ دونوں باتیں کررہے تھے کہ چار سال کا پوتا ہاتھ میں گلاس لیے سامنے آکھڑا ہوا۔

’’ددّا …ددّا … مُد کو ایک دلاس پانی دو۔‘‘

بڑی دلہن کے بجائے افسری نے ذرا کڑک جواب دیا:

’’اپنی ماں سے کیوں نہیں مانگتے ہو، ددّا کو تنگ کرنے آگئے۔‘‘

’’ممی ٹی وی دیکھ رہی ہے بولی جا کے ددّا سے مانگ لو…‘‘ توتلی زبان میں معصومیت بھرا جواب ملا۔ افسری کے سامنے بڑی دلہن کے گھر کا حال تہہ بہ تہہ کھلنے لگا۔ اس نے بڑھ کر چھوٹے وارث کو بازوؤں میں بھر لیا اور اس کی پیشانی چوم لی۔ چھوٹا وارث پانی پیتے ہوئے ٹک ٹک افسری کا منہ دیکھتا رہا۔ بڑی دلہن نے یاد دلایا یہ بھی تمہاری دادی ہے۔ تمہارے ابو کو اس نے گود میں کھلایا ہے۔ تمہارے ابو کی تمام شرارتیں افسری جھیل چکی ہیں۔ ننہا وارث خاموش سنتا رہا۔ اور پھر تیزی سے اپنے کمرے کی طرف نکل گیا۔ افسری نے بڑی دلہن کی بے چینی تاڑتے ہوئے پوچھا۔ بڑی بہو تو دوسرے خاندان اور ماحول سے آئی ہے اس سے کیا امید لگانا لیکن نادرہ تو اپنی ہے وہ تو خیال رکھتی ہوگی آپ کا۔

پریشر کوکر کی سیٹی بج اٹھی اور ڈھیر ساری بھاپ باروچی خانے میں پھیل گئی۔ ’’اپنے پرائے سے کیا ہوتا ہے افسری۔ اب اس عمر میں جو تقدیر میں لکھا ہے کون بانٹ لے گا۔ شکوہ شکایت کیا۔ اب زندگی بچی ہی کتنی ہے جیسے تیسے کٹ ہی جائے گی۔‘‘ مغموم دل کی آواز تھی بڑی دلہن کا جواب۔

افسری افسردہ ہوگئی۔ اس کے چہرے پہ درد جھلک آیا۔ اس سے سنبھالا لیا اور بولی … ’’اور نئی بہو۔‘‘ بڑی دلہن نے بیچ ہی میں روک لیا۔

ابھی تو اس کے ہاتھ سے مہندی کا رنگ بھی نہیں اترا ہے بھلا اس سے کیا … ہاں پڑھی لکھی بہت ہے۔ ہمارے سمدھی بھی پروفیسر ہیں۔ اصغر کے پاپا کے دوست ہیں یہ بعد میں پتہ چلا۔ اصغر بھی یہی چاہتا تھا کہ لڑکی پڑھی لکھی ہونی چاہیے۔ اب تم سے کیا چھپانا افسری۔ وہ تو اپنے ساتھ الماریاں بھر کر کتابیں لائیں ہیں۔ روپ رنگ بھی اچھا پایا ہے۔ صوم و صلوٰۃ کی پابند ہے، رہی گھر کے کام کاج کی تو جس طرح دونوں کو نبھایا اسی طرح چھوٹی بہو کو بھی…‘‘

افسری ایک ٹک بڑی دلہن کے شانت چہرے کو تکتی رہی۔ اس کے جی میں آیا بیٹوں کے بارے میں سوال کرے لیکن من مسوس کر رہ گئی کہ اس گھر کا حال اب آئینے کی طرح صاف تھا۔ اسے آج سخت کوفت ہورہی تھی۔ جس بڑی دلہن نے اپنی خواہشات کو بیٹوں کی تعلیم پر قربان دیا آج اسے کیا مل رہا ہے۔ افسری اندر ہی اندر بے چین ہو رہی تھی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا وہ تینوں بیٹوں کو ناکارہ کہنے لگی۔ جوروکا غلام کہتے ہوئے انہیں کوسنے لگی۔

’’لیکن بڑی دلہن آپ کی چپّی سے ای سب ٹھیک نا ہیں ہوگا۔ صاف صاف کا ہے نہیں بول دیتی ہیں ہم سے کام کاج نہ ہوگا۔ اللہ جی کیا زمانہ آگیا ماں کے لیے دو روٹی بھی اتنا بھاری ہوگیا۔ اوبھی پڑھل لکھل ہوکے۔ بڑی دلہن ہم سے آپ کا ای دن دیکھا نہیں جا رہا ہے۔ کہاں ہے اکبر، میں اسی سے پوچھتی ہوں۔ کس منہ سے دودھ معاف کرائے گا۔‘‘ وہ بے تحاشہ بولے جارہی تھی۔ مگر ٹی وی اور ریکارڈر کی آوازوں کی شور میں اس کی یہ باتیں باروچی خانے میں محدود ہوکر رہ گئیں۔ بڑی دلہن نے بڑی مشکل سے اسے خامو ش کیا۔ پھر بڑی دلہن آنچل سے آنکھ کا کونا پوچھنے لگی۔ افسری نے بڑی دلہن سے چھوٹی بہو کے واپسی پر دیکھنے آنے کا وعدہ کیا اور ان کے حالات کی دہائی دے کر مضطرب لوٹ گئی۔ ابھی وہ دروازے سے باہر نکلی ہی تھی کہ بڑی دلہن کے ضبط کا باندھ ٹوٹ گیا اور وہ بے اختیار بلک پڑی۔ ہمدردی کے دو بول سے انسان کتنا جذباتی ہوجاتا ہے اور آنکھیں کتنی جلدی پرنم ہوجاتی ہیں۔

گھر کے چھوٹے بڑے کاموں میں بڑی دلہن کا لگے رہنے اور دونوں بہوؤں کا اپنے بناؤ سنگار اور آرام میں مستغرق رہنا روز کا معمول بن چکا تھا۔ چھوٹی بہو خوشبو رخصت ہوکر آچکی تھی۔ اس کا روایتی طور پر پرتپاک استقبال کرنے میں بڑی دلہن نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

نادرہ کے کمرے میں ٹنگی ہوئی گھڑی نے دن کے بارہ بجنے کا اعلان کیا۔ خوشبو نے کتاب بند کی اور کمرے سے باہر آگئی۔ بڑی بہو کے کمرے میں ٹی وی چلنے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ نادرہ کے کمرے سے قہقہے کی صدا صحن تک گونج رہی تھی وہ کسی خاتون سے خوش گپی میں مصروف تھی۔ خوشبو چہل قدمی کرتے ہوئے صحن تک آگئی۔ باروچی خانے میں کسی کی آہٹ محسوس ہوئی تو اس کے قدم ادھر اٹھ گئے۔

روز کی طرح بڑی دلہن باورچی خانے میں مصروف تھی۔ وہ دیوار سے لگے بیسن میں پیالیاں دھو رہی تھی۔ جو ابھی ابھی نادرہ کے کمرے سے آئی تھیں۔ ان کا چہرہ دیوار کی طرف تھا۔ خوشبو کے آنے کی آہٹ اسے نہیں ملی۔ مہدی سے لال نرم و نازک ہتھیلی نے ان کا ہاتھ روک لیا۔ بڑی دلہن نے مڑکر دیکھا۔ نگاہیں کیا ملیں کہ بس جھپکنا بھول گئیں۔

’’ممی آپ اس وقت کچن میں، لائیے! پیالیاں مجھے دے دیجیے، اور ہاں آپ کو کام کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ میں دیکھو ں گی کہ گھر کے کام کاج کس طرح سے ہوں گے۔ ممی پلیز! آپ چھوڑئیے… ان ہاتھوں کو سر پہ شفقت کے لیے رہنے دیجیے۔ پلیز آپ آرام کیجیے۔‘‘

بڑی دلہن گلو گیر ہوگئیں۔ ان کی آنکھوں میں موتی چمک اٹھے۔ انھوں نے خوشبو کو سینے سے لگالیا۔ پتا نہیں کب سے افسری دور کھڑی یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ مسکرا اٹھی جیسے دکھ کے بادل چھٹ گئے ہوں اور خوشی کا سورج چمکنے لگا ہو۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146