ہمارے سماج میں شادی مشکل کام ہوتے ہوئے بھی کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ لیکن بعد میں اسے نبھانا ضرور مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یہ کیفیت میاں بیوی میں نااتفاقی کے نتیجے میں ابھرنے والے جھگڑوں سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ دماغوں کو چٹخاتی اور دلوں کو بھونتی ہے۔ میاں خدا پر شاکر ہے تو بیوی دنیوی مال و جاہ کی طالب۔ پڑوسن کے گھر کے طور طریقوں پر اس کی نگاہیں مرکوز ہیں۔ دوسری صورت یہ یہ بھی سامنے آتی ہے کہ بیوی پاکیزگی اور شرافت کی زندگی بسر کرنا چاہتی ہے اور شوہر جدیدیت کی رو میں حلال و حرام کی سرحدیں پھلانگنے میں مصروف ہیں۔ اب مطابقت اور مفاہمت ہو تو کس طرح!
گھریلو جھگڑوں میں جہالت، ہٹ دھرمی اور مطلق العنان فرماں روائی کی فطرت کو بھی بڑا دخل ہے اور یہ سارے عذاب روح کی گندگی اور دماغوں کی جہالت سے نازل ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی شیطان بھی ہر عورت مرد کے ساتھ لگا ہوا ہے اور سلامتی اور آشتی کی راہ سے ہٹانے کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ ازدواجی زندگی میں محبت اور سلوک پیدا کرنے ہی کے لیے دیندار اور نیک دل مسلمان نکاح کے بعد اس دعا کو لبوں کا وظیفہ بنا لیتے ہیں۔
اللہم الف بین قلوبنا و اصلح ذات بیننا و اہدنا سبل السلام و نجنا من الظلمت الی النور و جنبنا الفواحش ما ظہر منہا و ما بطن
’’اے اللہ ! ہمارے دلوں کے اندر الفت ڈال دے اور ہمارے درمیان صلح کرا دے اور ہمیں سلامتی کے راستے دکھا دے اور ہمیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرح لے چل اور بچ لے ہم کو ہر قسم کی ظاہری اور باطنی بے حیائی سے)۔‘‘
اسی طرح وہ یہ دعا کبھی کرتے ہیں: ربنا ہب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرۃ اعین واجعلنا للمتقین اماما۔
’’اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقین کا امام بنا دے۔‘‘
لیکن کچھ مدت سے ہمارے ذہنوں پر مغرب کی نقالی کا بھوت بری طرح سوار ہے۔ اس کے نتیجے میں سماجی قدریں درہم برہم ہونے سے ہر دوسرا گھر جہنم کدہ بن چکا ہے۔ بیاہتا جوڑوں میں سر پھٹول نے گھریلو زندگی کو بھسم کر کے رکھ دیا ہے اور خاندانی رشتے ٹوٹنے لگے ہیں۔ اور یہ تنہا ہمارا ہی مسئلہ نہیں امریکہ و یورپ کے متمدن ممالک کا حال ہم سے بھی بدتر ہے۔ امریکہ میں ہر پانچ بیاہتا جوڑوں میں سے کم از کم ایک جوڑا ایسا ضرور ہوتا ہے جسے خاندانی امور کے مشیر سے صلاح مشورے کے لیے رجوع کرنا پڑتا ہے۔
ذیل میں ہم خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے کے بدس انتہائی اہم گر بتاتے ہیں۔
* بیشتر بیاہتا جوڑے، جو ازدواجی تعلقات میں کشمکش اور اذیت کا شکار ہیں، اصل میں اس مرض میں مبتلا پائے گئے ہیں کہ وہ اپنی بیاہتا زندگی کے برے پہلوؤں ہی پر اپنی توجہ مرتکز رکھتے ہیں۔ میاں، بیوی میں خامیاں نکالتے ہیں اور بیویاں، شوہروں میں کیڑے ڈالتی ہیں۔ ایک ماہر نفسیات ایرین ووگل نے یہی پہلو پیش نظر رکھتے ہوئے بیاہتا جوڑوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ہر شام کم از کم پانچ منٹ ایک دوسرے کی تحسین و ستائش میں صرف کریں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ایک اختراعی تدبیر معلوم ہوگی لیکن وہ جوڑے جنہوں نے ایک دوسرے کے متعلق عرصہ دراز تک کوئی اچھی بات نہ کی ہو وہ اس گر پر عمل کر کے دیکھیں تو انہیں حیرت ہوگی کہ ایک دوسرے میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جنہیں وہ پسند کرتے ہیں۔
*کچھ جوڑے ایسے ہوتے ہیں جو ایک ہی جھگڑے کو بار بار دہراتے رہتے ہیں اور ہر بار ایک ہی موضوع کو تنازع کا محور بنائے رکھتے ہیں۔ پروفیسر گوئڈ بالڈی کا مشاہدہ ہے۔ ان سے یہی ظاہر ہوا کہ میاں بیوی میں عموماً میکے سسرال کے معاملات اور پیسے اور جنس کے گھسے پٹے موضوعات ہی پر جھگڑے ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس بات کے شوقین ہوتے ہیں کہ شریک حیات سے کوئی کوتاہی یا لغزش سرزد ہوئی ہو تو وہ بات بات پر اسے مورد الزام ٹھہراتے اور چرکے دیتے رہتے ہیں۔ یہ روش چھوڑ دیجئے۔ہمارا دین تو عفو و درگزر سے کام لینے کی تلقین کرتا ہے تو فریق ثانی کی کسی لغزش کے حوالے سے آئے دن طعنہ زنی کرتے رہنے کی غیر اسلامی حرکت کیوں؟ حدیث میں آتا ہے: ’’تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘ اس حدیث کی روشنی میں شریک حیات کے معاملے میں عفو و درگزر اللہ کی رحمت کا باعث بنتا ہے۔
اگر شریک حیات کی کسی بات سے زک پہنچی ہو تو زخم خوردہ کو چاہیے کہ وہ فریق ثانی پر یہ ظاہر کر دے کہ اسے ایذا پہنچی ہے۔ لیکن خود اسے بھی حسن ظن سے کام لیتے ہوئے دوسرے کو معاف کر دینا اور سوچنا چاہیے کہ فریق ثانی کو اپنے کیے پر ندامت ہے اور وہ دوبارہ ایسی غلطی نہیں کرے گا۔
* ایک مرتبہ ایک ازدواجی زندگی کے معالج کے پاس ایک جوڑا آیا جس کے مابین ایک نہایت چھوٹی سی بات پر جھگڑا برپا ہوگیا تھا۔ جھگڑا اس امر پر تھا کہ ناشتہ کون تیار کرے۔ شوہر نے بتایا کہ اس کی ماں اس کے باپ کے لیے ہمیشہ بڑا پرتکلف ناشتہ بنایا کرتی تھی۔ بیوی نے کہا کہ اس کی ماں علی الصبح کام پر روانہ ہوجاتی تھی اور اس کا باپ اپنے اور بچوں کے لیے ناشتہ تیار کیا کرتا تھا۔
غور کیجیے یہ جھگڑا پرانے خیالی بھوت کی بدولت تھا جو ان دونوں کے ذہنوں پر سوار تھے۔ آخر دونوں نے کھل کر بات کی اور اسی نے انہیں یہ بصیرت بخشی کہ وہ موہوم اور گزری ہوئی باتوں سے ایک دوسرے کی زندگی خواہ مخواہ تلخ کرتے رہے ہیں۔
* غصہ ختم کرنے یا اسے کم سے کم کردینے کے اصول وضع کرنا اشد ضروری ہے۔ یاد رکھئے اگر غصے کو دبا لیا گیا تو اس کی آگ دھیرے دھیرے سلگتی رہے گی اور کسی بھی وقت دوبارہ شعلہ بن کر بھڑک سکتی ہے۔ اسی طرح اگر غصے کو بے لگام رکھا گیا تو یہ بے لگام غصہ تعلقات کو ہمیشہ کے لیے ختم بھی کرسکتا ہے۔ ان دونوں باتوں سے پہلو بچانے کے لیے ایک ازدواجی معالج گورڈن کا مشورہ یہ ہے کہ غصے سے نپٹنے کے لیے ایک شعار وضع کرلینا چاہیے۔ اگر ایک فریق مثلاً شوہر یہ کہتے ہیں کہ ان کے دل میں کوئی چیز کھول رہی ہے تو بیوی کی رضامندی سے دل کی بھڑاس نکالنے کا کچھ وقت مقرر کرلینا چاہیے۔پانچ منٹ جن میں اپنے دل کا ابال نکالا جاسکے۔ اس مدت سے زیادہ ہرگز نہیں۔۔۔۔ ڈاکٹر گورڈن کہتے ہیں کہ یہ بھڑاس بیوی کی رضامندی سے نکالی جاتی ہے، لہٰذا اس کے نقصان دہ ہونے کا امکان نہیں ہوتا۔ ازدواجی تنازعات کے معالج اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جھگڑا اگر دھینگا مشتی، مار کٹائی کی حد کو نہ پہنچے تو اس کے اثرات ضروری نہیں کہ برے ہوں۔ اکثر جھگڑے کی وجوہات پر کھل کر بات چیت سے جھگڑے ختم ہوجاتے ہیں۔
ایک موثر کارروائی جھگڑا ختم کرنے کی یہ ہوسکتی ہے کہ آپ اپنے زندگی کے ساتھی سے پوچھیں کہ وہ اس کے بدلے میں کیا چاہتا یا چاہتی ہے۔ عموماً ایک شوہر جب تھکا ہارا گھر لوٹتا ہے تو وہ گھر میں فتنہ اور فساد پسند نہیں کرتا۔ فساد ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ بیوی شوہر کا سر دبا دے تو اس قسم کی چھوٹی موٹی مداراتیں جھگڑے کو ختم کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔
* چھوٹی چھوٹی باتوں کو غیر ضروری طور پر بڑا بنانے سے گریز کیجئے۔ مثلاً ٹوتھ پیسٹ کی ٹیوب کو کھلا چھوڑ دینا، پلیٹوں کا ڈھیر سنک میں لگا دینا وغیرہ، یہ چھوٹی چھوٹی باتیں رشتہ ازدواج کو ختم کرسکتی ہیں اگر انہیں ضرورت سے زیادہ بڑا بننے دیا جائے۔ فریقین کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ آخر وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بتنگڑ بننے ہی کیوں دیتے ہیں۔
ازدواجی زندگی کی خوش گواری میں سب سے بڑی رکاوٹ وقت کی کمی ہے۔ ایک ازدواجی امور کی معالج کا کہنا ہے کہ شوہر اور بیوی کو ہفتے میں کوئی وقت ایک دوسرے کے لیے مقرر کرلینا چاہیے۔ اس کا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے سے پوچھیں کہ اس ہفتے میں کیا بات انہیں خاص محسوس ہوئی؟ کیا بات وہ سودچتے رہے؟ اس عمل سے آپ ایک دوسرے کی خواہشات سے واقف ہوجائیں گے اور کسی نہ کسی حد تک ان کا مداوا بھی ہونے لگے گا اور یوں خوشگوار زندگی کی طرف قدم بڑھانے لگیں گے۔
* آپ اپنے نزاعی معاملات اپنے کسی ایسے بزرگ کے سامنے بھی رکھ سکتے ہیں جو اپنے فہم و ادراک کی بنا پر ان کا حل پیش کرسکتے ہوں۔ اگر ایک فریق خاندانی بزرگ سے رجوع کرنے میں ہچکچائے تو دوسرا اپنے طور پر رجوع کرلے اور بزرگ کی ہدایات پر کاربند ہوجائے مثلاً اگر بیوی ایسا کرے گی تو بعد میں خاوند کو خود بخود احساس ہوجائے گا۔
سب سے آخر میں یہ لازم ہے کہ خدا سے لو لگائی جائے اور اس سے باہمی الفت طلب کی جائے اور گھر میں پاکیزہ کتابیں زینت بنائی جائیں۔ ٹی وی پر فحش قسم کی فلمیں نہ دیکھی جائیں اور نیک اعمال کی کوشش کی جائیں۔***