قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ اِنَّ ھٰذِہِ الْقُلُوْبَ تَصْدَئُ کَمَا یَصْدَئَُ الْحَدِیْدُ اِذَا اَصَابَہُ الْمَائُ، قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ مَا جَلاَئُ ھَا؟ قَالَ کَثْرَۃُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَ تِلَاوَۃِ الْقُرْاٰنِ۔ (مشکوٰۃ ـــــ ابن عمرؓ)
ترجمہ: نبی ﷺ نے فرمایا: دل کو بھی زنگ لگتا ہے جس طرح لوہے کو زنگ لگتا ہے جب بھیگ جاتا ہے۔ عرض کیا گیا اے اللہ کے رسولؐ! دل کا زنگ کس چیز سے دور ہوگا؟ فرمایا موت کو بہ کثرت یاد کرنے سے اور قرآن کی تلاوت سے۔
تشریح: موت کو یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی یاد کرے کہ اسے ایک دن مرنا ہے، یہ دنیا اسے ایک دن ہمیشہ کے لیے چھوڑنی ہے، پھر دنیا کی زندگی میں کئے گئے کاموں کی جانچ ہوگی، پوری جانچ، اور جانچنے والا علیم و خبیر خدا ہوگا، جانچ کے نتیجے میں آدمی پاس ہوگا یا فیل اور ناکام، پاس ہونے والے کے لیے ہمیشہ کا سکھ، اور ناکام ہونے والے کے لیے ہمیشہ کا دکھ! یہ حقیقت جس قدر یاد کی جائے گی اسی تناسب سے دل کا زنگ دور ہوتا جائے گا اور اس کو تلاوتِ قرآن سے بہت قوت حاصل ہوتی ہے، تلاوت کے معنی عربی زبان میں بے سمجھے الفاظ پڑھنے کے نہیں آتے بلکہ قرآن کے الفاظ پڑھنے، معنی سمجھنے اور عمل کرنے کا نام تلاوت ہے، لیکن ماتم کیجئے کہ امت کی اکثریت صرف الفاظ پڑھ لینے پر مطمئن ہوگئی ہے!!lll