دو کردار

شبانہ یونس

یکلخت دھماکے سے دروازہ کھلا۔ ایک لڑکی تیزی سے اندر آئی۔ اس نے کھڑکی کے پردے کے پیچھے بیگ رکھا اور اتنی ہی تیزی سے واپس مڑی۔ ’’ارے آپ اس کمرے میں آئی ہوئی ہیں۔‘‘ وہ ایک دم پریشان سی ہوگئی۔

’’ہم لوگ رات ہی آئے ہیں۔ میری بچی بیمار ہے۔ اسے ہسپتال میں داخل کرایا ہے۔‘‘ میں نے اسے بتایا۔

’’دراصل کئی دنوں سے یہ کمرہ نمبر 67 خالی تھا۔ میں اپنی چیزیں یہاں رکھ دیتی تھی۔ معذرت چاہتی ہوں۔‘‘ وہ بڑی شائستگی سے بولی۔ میری نگاہ اس کے سفید لباس کی طرف اٹھ گئی۔

’’تو آپ یہاں تیماردار نرس ہیں۔‘‘

’’نرس نہیں، مڈوائف کا کورس کیا ہے میں نے۔ آج تو میری لیبر روم میں ڈیوٹی ہے۔‘‘ وہ جانے کے لیے مڑی ’’میرا بیگ یہاں رکھا ہے۔‘‘

’’کہیں کوئی خطرناک ہتھیار تو نہیں اس میں؟‘‘ وہ ہنسنے لگی ’’بالکل نہیں، اس میں تو میرا برقع ہے۔‘‘

یہ کہتے ہی وہ یہ جا وہ جا۔ مجھے احساس ہوا کہیں اسے ڈیوٹی سے دیر نہ ہوجائے۔ خیر برقع لینے آئے گی تو نام بھی پوچھ لوں گی۔

میں اس موٹی سی لڑکی کے بارے میں سوچنے لگی۔ کتنی معصومیت اور سادگی ہے اس کے رویے میں۔ نہ بناوٹ نہ خود کو کچھ سمجھنے کا احساس ورنہ ہسپتال میں تو جمعدارنی بھی خود کو سپرنٹنڈنٹ سے کم نہیں سمجھتی اور ہم جیسے لوگوں کو ڈسپلن سکھانے کی کوشش کرتی ہے۔ جانے کیوں مجھے یہ سادہ سی لڑکی بڑی اچھی لگی۔ جیسے میں نے اسے پہلے بھی کہیں دیکھا ہو۔

ایک بجے کا وقت ہوگا جب وہ دوبارہ نمودار ہوئی۔’’میںاپنا سوئیٹر اور دوائی کرسی پر رکھ رہی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جانے لگی۔

’’کوئی چیز اور رکھنی ہو تو وہ بھی رکھ جائیں۔‘‘

’’اب تو میں خود بچ جاتی ہوں۔‘‘ وہ ہنسنے لگی ’’ابھی ایک گھنٹے بعد میری ڈیوٹی ختم ہوگی۔‘‘ وہ پھر الٰہ دین کے چراغ والے جن کی طرح غائب ہوگئی۔

عین دو بجے وہ آگئی۔ اور آتے ہی میری بچی کی طرف متوجہ ہوئی: ’’ارے! اس کی تو ڈرپ ختم ہونے والی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ٹیوب میں گلو کوز بھرا۔ پھر قطرہ قطرہ گلوکوز دوائی کے ساتھ بڑی سی سوئی کے ذریعے بچی کی رگوں میں جارہا تھا۔ کل رات سے وہ بے سدھ ایک ہی پوزیشن میں چھوٹے سے بیڈ پر پڑی تھی۔ اس کا ننھا سا دودھ جیسا سفید نرم و نازک انگلیوں والا ہاتھ ٹیپ میں جکڑا ہوا تھا۔ لکڑی کا ایک ٹکڑا بازو سے ہاتھ تک بندھا ہوا تھا کہیں ڈرپ کی سوئی ادھر ادھر نہ ہو جائے۔ اور میں جانے اب تک اس کی زندگی اور صحت کے لیے کتنی دعائیں مانگ چکی تھی۔

’’کیا ہوا تھا اسے؟‘‘ وہ تشویش سے پوچھنے لگی۔

’’اس کے گلے کے ٹانسلز بڑھ گئے تھے۔ مگر غلط تشخیص سے چند دنوں میں اس کا گلا بند ہوگیا۔ تیز بخار ہر وقت رہنے لگا۔ گلے کی سوجن بڑھ کر ناک، منہ اور آنکھوں تک آگئی۔ بچوں کے ماہر ڈاکٹر نے فوراً اسے پرائیویٹ ہسپتال میں داخل کرانے کامشورہ دیا۔ گزشتہ رات سے میں اپنی بچی کے ساتھ اس کمرے میں بیٹھی ہوں۔ چھوٹی بچی حنا کا معلوم نہیں کیا حال ہے۔ رات پتہ نہیں گھر میں وہ سوئی ہوگی کہ روتی رہی ہوگی۔ اچھا یہ بتاؤ کہ تم نے نرسنگ کی ٹریننگ کیوں نہ لی؟‘‘

’’میرے پاس دراصل وقت بہت کم تھا۔‘‘

’’کیوں تم لڑکیوں کے لیے تو بہت سہولیتیں ہوتی ہیں؟‘‘

’’آپ کو غلط فہمی ہوئی۔ میں لڑکی نہیں، ایک ماں ہوں۔ میرے چار بچے ہیں۔‘‘ وہ ایک لمحے کے لیے سوچتے ہوئے بولی۔ ’’میں اور میرے بچے چھوٹے سے شکستہ کھنڈر جیسے گھر میں رہتے ہیں۔ اس لیے کہ ہمارے پاس کبھی اتنے پیسے نہیں ہوئے کہ اس کے ٹوٹے ہوئے درودیوارکی مرمت کرالیں۔ شاید میں کبھی گھر سے باہر نہ نکلتی مگر مجھے میرے بچوں کی بھوک پیاس نے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔میری اولاد سات سال کا عدنان، پانچ سال کی ثمینہ اور دو سال کا سب سے چھوٹا بچہ ریحان ہے۔ میری عمر تین سال تھی جب میری امی کا انتقال ہوا۔ ابو نے مجھے اور سلمان بھائی کو بڑی محنت سے پالا اور سلمان بھائی نے میٹرک کے بعد ڈرافٹس مین کا کورس کیا اور ایک اچھی فرم میں ملازمت کرلی۔ ایک سال بعد ابو نے مناسب سا رشتہ دیکھ کر میری شادی کردی۔

’’میرا شوہر عادل ایک فیکٹری میں الیکٹریشین تھا۔ چھوٹا سا گھر اگرچہ کرایے کا تھا، پھر بھی ہماری کفایت شعاری سے گزر بسر ہورہی تھی۔ چار سال کے دوران میرے دو بچے ہوگئے۔ عادل کو مجھ سے اور بچوں سے بہت پیار تھا۔ اس میں کوئی بری عادت نہ تھی نہ وہ گھر سے باہر لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا تھا۔ بس چھٹی کے دن موٹر سائیکل پر ہمیں ابو کے گھر لے جاتا،یہی میری خواہش تھی۔ اس دن میں ابو کے لیے کھانا پکاتی، بھائی سلمان کے کپڑے دھوکر استری کرتی، گھر بھر کی صفائی کرتی، چیزیں قرینے سے لگاتی پھر شام کو ہم اپنے گھر آجاتے۔ دراصل میری جب سے شادی ہوئی تھی، گھر کی عجیب حالت تھی۔ کسی عورت کے نہ ہونے سے گھر کباڑ خانہ لگتا تھا۔

ایک اتوار کو ہم ابو کے یہاں گئے تو پتہ چلا سلمان بھائی محلے کی ایک لڑکی کو پسند کرتے ہیں اور وہ لڑکی بھی سلمان سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ ابو نے مجھے یہ خبر سنائی تو مجھے وحشت سی ہوئی۔ فرزانہ کوئی اچھے چال چلن کی لڑکی نہیں تھی۔ اس کی ماں جو ایک بیوہ عورت تھی، سیر سپاٹے کی شوقین تھی۔

میں بوڑھا آدمی کہاں رشتہ تلاش کرتا پھروں؟ اچھا ہے جسے زندگی گزارنی ہے اس نے خود ہی لڑکی پسند کرلی۔ بس اب جمعے کو ایک دو روز کے لیے آجاؤ کہ ساری تیاری کرنی ہے۔

میں خاموش ہوگئی۔ پھر ایک آدھ دن میں دو ایک زیور اور چار جوڑے ہمسایے میں رہنے والی بوا زینب کی مدد سے میں نے تیار کیے۔ شام کو نکاح ہوا اور فرزانہ دلہن بن کر میرے سلمان بھائی کی زندگی میں آگئی۔ اگلے دن میں اپنے شوہر کے ساتھ اپنے گھر چلی گئی۔

چھٹی کے دن ابو اور بھائی کی خیر خبر کے لیے میں ابو کے گھر جاتی۔ اب گھر کا سارا انتظام فرزانہ کے کنٹرول میں تھا۔ سلمان بھائی جو کماتے، وہ بیوی کے ہاتھ پر رکھ دیتے۔ شروع میں فرزانہ کا رویہ لاتعلقی اور بے نیازی کا تھا، مگر تھوڑے عرصے بعد اس نے بہت اپنائیت کا اظہار کرنا شروع کردیا۔ ہمارے آنے پر وہ چائے یا شربت بناکر پیش کرتی۔ اس کی شادی کو سال بھی نہیں ہوا تھا کہ اس کی بیوہ ماں چل بسی۔ اس دوران میرا تیسرا بچہ ریحان پیدا ہوا۔

دوسال بعد فرزانہ کے یہاں ندیم پیدا ہوا۔ سلمان بھائی بہت خوش تھے۔ اب وہ پہلے سے زیادہ محنت کرتے۔ فیکٹری میں اوور ٹائم لگا کر زیادہ کماتے تاکہ منے کو زیادہ آرام اور سہولت ہو۔

ایک دن میں ابو کے گھر گئی تو ان کی طبیعت بہت خراب تھی۔ بھابی نے فرمائش کی آج عظمیٰ چائے بناکر لائے گی۔ ابو دوسرے کمرے میں تکلیف سے کراہ رہے تھے۔ بھابی ہنس ہنس کر عادل کو ایک بے ہودہ سا لطیفہ سنا رہی تھی۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ مجھے احساس ہونے لگا کہ بھابی کو سلمان بھائی کے مقابلے میں میرے شوہر عادل سے زیادہ دلچسپی ہے۔ کسی چھٹی کے دن جب میں ابو کے یہاں نہ جاسکتی تو بھابی بچے کو گود میں لیے خود آجاتی اور گھنٹوں ہمارے گھر رہتی۔ اب یہ بات مجھے بھی کھٹکنے لگی تھی کہ وہ عادل پر بہت مہربان ہے اور سلمان بھائی کی پروا بھی نہیں کرتی۔

’’ایک دن میں نے جی کڑا کرکے پوچھ لیا: میرے سلمان بھائی کتنے اچھے ہیں! آپ کو تو نظر اٹھا کر بھی کسی کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے۔‘‘

’’وہ طنزیہ انداز میں ہنسی، وہ تو گنوار ہے۔اسے تو بات کرنے کی بھی تمیز نہیں۔‘‘

’’پھر آپ نے ان سے شادی کیوں کی؟‘‘

’’اس وقت تو کوئی ملا نہیں تھا۔‘‘

’’میرے بھائی جان ایسے بھی گئے گزرے نہیں۔ نیک چلن ہیں، پرائی عورت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔‘‘

’’تم کس دنیا میں رہتی ہو؟ بہرحال میں تم سے بحث نہیں کرنا چاہتی۔‘‘ بھابی نے شانِ بے نیازی سے کہا۔

میرے سلمان بھائی بہت حساس اور شریف الطبع انسان تھے۔ کچھ عرصے سے انھیں بلڈ پریشر کی شکایت تھی۔ فیکٹری کے ڈاکٹر سے وہ دوائی لاتے جو انھیں کام کرنے کے قابل بنائے ہوئے تھے۔ پھر ایک دن بوا زینب کے ہاتھ بیمار ابو نے اطلاع بھیجی، سلمان بھائی کو دل کا دورہ پڑا ہے۔ اگر بروقت طبی امداد نہ ملتی تو اللہ جانے سلمان بھائی کا کیا ہوتا۔ ادھر بھائی جان موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا تھے، ادھر بھابی سیر سپاٹے اور رنگ رلیاں منا رہی تھی۔ اس کی جبیں پر شکن بھی نہ تھی کہ اس کا مجازی خدا کتنی آزمائش میں ہے۔

میں کئی دنوں کے بعد گھر آئی تھی۔ گھر میں خاک اڑ رہی تھی۔ ننھا ندیم مٹی میں لت پت کھیل رہا تھا۔ ڈاکٹر نے سلمان بھائی کو ہفتے بھر تک بستر پر آرام کا مشورہ دیا تھا۔ یہ ان کا چھٹی کا پہلا دن تھا۔ بھابی اونچی اونچی آواز میں لڑرہی تھی: ’’میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ تم دل کے مریض ہو، میں تمہیں پسند نہیں کرتی۔‘‘

سلمان بھائی کی آواز جیسے کسی اندھے کنویں سے آئی ہو: ’’تمہیں میری بہن کی زندگی سے کھیلنے کا کوئی حق نہیں۔‘‘

’’ہاں ہاں، میں عادل کو پسند کرتی ہوں۔ وہ بھی مجھ سے محبت کرتا ہے۔‘‘

’’ارے میں یہ کیا سن رہی ہوں۔ میرا سر چکرانے لگا۔ قریب تھا کہ میں بیہوش ہوکر گرجاؤں۔ مگر نہیں۔ نہ میں بے ہوش ہوئی نہ میرا دماغ خراب ہوا۔ وہ شخص جس کے ساتھ میں نے دس برس وفاداری سے، تنگی ترشی میں گزارے کبھی کسی ربن اور جوتے کی فرمائش نہ کی، جس کے ساتھ ہر آفت کو نوشتۂ تقدیر سمجھ کر قبول کیا، صرف اس لیے کہ مجھے اپنے شوہر کی محبت اور اعتماد حاصل ہے، وہ میرے بچوں کا باپ ہے۔ وہ کتنا دغا باز نکلا… فریبی مکار۔

جی تو چاہا بچوں سمیت اسی لمحے پلٹ کر چلی جاؤں اور جاکر عادل سے پوچھوں! ’’کیوں دھوکا دیا؟ کیا جرم تھا میرا؟ کیوں تم نے میرے ہی بھائی کے آشیانے پر نقب لگائی؟ میرے بھائی کی بیوی کے سوا تمہیں کوئی دوسری عورت کیوں نظر نہ آئی؟ کتنی سفاک ہے یہ عورت، مکڑی کی طرح زہریلے نشتر چبھو کر مارنے والی! موت سے لو لگائے ہوئے آدمی کو وقت سے پہلے مارنے پر تلی ہے۔ کتنی بے حس اور ظالم ہے۔

مجھے آتے دیکھ کر بھابی یکلخت خاموش ہوگئی۔ بھائی سلمان اکھڑے اکھڑے سانس لے رہے تھے۔ مجھ میں تو چلنے کی ہمت نہ تھی۔ ابو بیمار اور کمزور تھے۔ پتہ نہیں ان کی آنکھوں نے گھر میں ہونے والے کیسے کیسے ڈرامے دیکھے تھے۔ پھر بھی اتنی ناتوانی کے باوجود دم بدم موت کے قریب ہوتے جوان بیٹے کو بچانے کی کوشش میں وہ اٹھے، گرتے پڑتے محلے کے ڈاکٹر شفیع کو بلا کر لائے۔

اس نے فوری طور پر بھائی کو انجکشن دیا تو ان کی طبیعت کچھ سنبھلی۔ مجھے یکلخت بھابی سے شدید نفرت کا احساس ہونے لگا جیسے وہ انسان نہیں کوئی گدھ یا وحشی درندہ ہو، جو اپنی خوراک کے لیے کسی کے مرنے کا انتظار کررہا ہے۔ وہ جسم شاید میرا ہے یا سلمان بھائی کا۔ کون پہلے مرجائے، یہ کسی کو نہیںمعلوم۔ ڈاکٹر تو کہہ رہا تھا کہ سلمان بھائی کا دل کمزور ہے، انھیں صدمے یا فوری کسی حادثے سے بچانا ہوگا مگر بھابی… وہ تو میرے بھیا کو اپنے زہریلے نشتروں سے زخم زخم کرچکی ہے کہ خدا جانے۔

میرے دل سے بے اختیار دعا نکلی: ’’اللہ! میرے بھائی کو بھابی کی سفاکی سے بچا، انہیں تندرستی دے، زندگی عطا کر۔‘‘

بھابی دندناتی کچن میں چائے بنانے چلی گئی۔ پھر مجھے اس کے گنگنانے کی آواز آرہی تھی۔ بھائی جان کسمپرسی کی حالت میں بسترِ مرگ پر پڑے تھے اور ابو بغیر آنسوؤں کے رو رہے تھے۔ یہ میرے کن گناہوں کی سزا ہے کہ یہ عورت بہو بن کر میرے گھر آگئی۔

پھر کتنے ہی سنگین سفاک لمحے گزر گئے۔ میرے بچے اپنے باپ کا منہ تک رہے تھے اور وہ اجنبی بن کر، کچھ کہے بغیر بڑی ڈھٹائی سے بھابی کو گھمانے پھرانے لے گیا۔

باہر اس کی موٹر سائیکل اسٹارٹ کرنے کی آواز آئی۔ کسی کا بھی دونوں نے لحاظ نہ کیا۔ اتنی بے حسی، اتنی بے حیائی… میں اپنے پیارے بھائی سلمان کے بستر کے پاس بیٹھی سوچ رہی تھی جیسے سرِ شام میں نے بھیانک خواب دیکھا ہو… ایسا خواب جس کے خیال سے میرا جسم ابھی تک پسینے سے بھیگا ہوا تھا، دل کی دھڑکن جیسے رکنے لگی ہو۔ کئی اندیشوں کے ناگ میرے چاروں طرف پھنکار رہے تھے۔ بھائی جان کی جان لیوا بیماری، اپنے بچوں کا مستقبل، ابو کا بڑھاپا، اس عمر میں ایسے صدمے اور خود میری زندگی کی ناؤ کس بھنور میں ہچکولے کھا رہی تھی۔ میں سوچ رہی تھی کہ انسان کو تو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا مگر وہ خودکو کتنی ذلت اور پستی میں گراسکتا ہے۔ اس کے بارے میں میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ یہ آج میری آنکھوں نے کیا دیکھ لیا تھا۔ اپنے آدمی کی سفاکی اور بے غیرتی۔ یہ میں نے کیسے برداشت کرلی۔ پر اس لمحے تو ہم تینوں جیسے گونگے بن گئے تھے۔ بچے بھوک سے بلک رہے تھے۔ میرے ہمت اور عزم والے ابو پھر اپنے وجود کو گھسیٹ کر لے گئے اور قریبی ہوٹل سے بچوں کے لیے دال اور روٹیاں لے کر آئے۔ وہ انھوں نے زہر مار کیں، پانی پیا اور فرش پر بچھی چادر پر بے سدھ سوگئے۔ میں بھی انھیں اپنے سے دور نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کون جانے رات کو نسا بچہ جاگ کر رونے لگ جائے۔

بھائی جان کی تشویشناک حالت کی وجہ سے ابو کہہ رہے تھے : ’’تم آج یہیں رہ جاؤ۔ ان دونوں کا کیا پتہ کس وقت واپس آئیں۔ ویسے بھی تم خالی گھر میں جاکر کیا کروگی؟ ‘‘ میں نے بھی سوچ لیا، جب بدترین صورت حال سے میں دوچار ہوچکی ہوں تو پھر ڈرنا کیسا، اب جو ہوگا دیکھا جائے گا۔

شب کے گیارہ بج چکے تھے جب عادل اور فرزانہ ہنستے مسکراتے گھر میں داخل ہوئے۔ دونوں بہت خوش تھے۔فرزانہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ میرے بچے بچپنے کی نیند میں بے سدھ سو رہے تھے۔ ابو اپنے بستر پر اونگھ رہے تھے۔ لگتا تھا گھر کے ماحول پر کسی منحوس آسیب کا سایہ مسلط ہے۔ شب کے اس پہر میں نے نظر ڈالی۔ بھیا اس زخمی سپاہی کی طرح لگ رہے تھے جس کا اندر اور باہر زخموں سے چور ہوچکا ہو۔

’’چلو گھر‘‘ عادل نے ایک دم چلا کر کہا۔ اسی وقت بھیا ہڑ بڑا کر جاگ گئے۔

’’بھائی جان کی طبیعت خراب ہے۔ مجھے آج یہیں رہنے دیں۔ پھر بچے بھی سو رہے ہیں۔‘‘

’’تم کس کا ماتم کرنے بیٹھی ہو؟ ابھی سارے زندہ ہیں۔‘‘

’’اللہ میرے بھائی کو سلامت رکھے۔ ابو کو تندرستی دے۔ آپ کو جانا ہے تو چلے جائیں۔ میں آج کی رات یہیں رہوں گی۔‘‘

’’پھر میں جارہا ہوں۔‘‘ عادل پاؤں پٹختا چلا گیا۔ دروازہ زور سے بند ہوا پھر لامحدود خاموشی طاری ہوگئی۔ اس کی موٹر سائیکل کی آواز دور ہوتی چلی گئی۔

اسی رات نمازِ فجر سے کچھ پہلے دل کا دورہ پڑا اور سلمان بھائی ہمیشہ کے لیے ہر صدمے سے آزاد ہوگئے۔ میرا جی چاہا چیخ چیخ کر روؤں۔ میرا پیارا ماں جایا بھائی کتنے بڑے ظلم کا شکار ہوکر صدمے سے چل بسا۔ ابو اس دکھ کو کیسے جھیلیں گے۔

بھائی جان کی وفات پر دو چہروں پر بلا کا اطمینان اور خوشی تھی۔ وہ عادل اور فرزانہ کے چہرے تھے۔

سب سے بری حالت ابو کی تھی۔ وہ غم کی تصویر تھے۔ میں پوچھ رہی تھی : ’’ابا! بھیا کے قتل کی رپورٹ ہم کس عدالت میں لکھوائیں۔‘‘

ابو نے بڑے دکھ سے کہا:’’میں نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا ہے۔‘‘

محلے والوں نے بھیا کے کفن دفن کا انتظام کیا۔ ادھر ادھر کی عورتیں، مرد سلمان بھائی کی ناگہانی موت پر تعزیت کے لیے آتے رہے۔ اس دوران میں بھابی نے بناؤ سنگھار بھی نہ کیا۔ اس کے بعد عادل روز دفتر کے بعد سیدھا ادھر آجاتا۔ وہ زیادہ تر فرزانہ سے گفتگو کرتا۔ پھر ایک دن تو میرے حواس پر رہی سہی بجلی گر گئی۔ جب عادل نے سنایا: ’’میں فرزانہ سے شادی کررہا ہوں۔‘‘

’’میری اور بچوں کی موجودگی میں!‘‘ میں حیرت سے اس کا منہ تک رہی تھی۔ اس مہینے تو اس نے گھر کے خرچ کے پیسے بھی نہیں دیے تھے۔ بچے گلی محلے میں آنے والے پھیری والوں کو حسرت سے دیکھتے۔ ان میں ندیم بھی شامل تھا۔ اب انہیں جیب خرچ دینے والا کوئی نہ تھا۔

’’تمہیں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے، عدت پورے ہونے پر میں فرزانہ سے نکاح کررہا ہوں۔ تمہارا دل چاہے تو طلاق لے لو۔‘‘

’’اور بچے؟‘‘ میں نے سوال کیا ’’مجھے کسی بچے کی ضرورت نہیں۔ تمہارے ساتھ ان سے بھی دستبردار ہوتا ہوں۔‘‘

’’عادل! تم اتنے سنگدل تو کبھی نہ تھے۔ اتنی مدت اکٹھے رہنے کا کچھ حاصل نہیں کیا؟‘‘

’’مجھے ڈائیلاگ سنا کر متاثر نہ کرو۔‘‘

عادل کی بات پر میرے آنسو جھر جھر بہہ رہے تھے۔ مجھے احساس ہوا دیواروں سے لپٹ کر رونے کا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ میں نے فیصلہ کرلیا قبل اس کے کہ فرزانہ آکر مجھے ذلت و خواری سے دوچار کرے۔ میں اب اس گھر میں نہ جاؤں۔ کم از کم ایک پناہ گاہ تو ہے۔ میں صدمے سے دوچار اپنے بوڑھے ابو کے پاس رہوں گی۔ ابو جنھوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے جوان بیٹے کو قبر کی گہرائی میں اتارا اور اب وہ زندہ تھے مگر انہیں کسی چیز سے دلچسپی نہ رہی تھی۔ بس بچوں سے ذرا ہنس بول لیتے ورنہ سارا دن چپ چاپ بستر پر لیٹے رہتے۔ شام کو تھوڑی دیر کے لیے قریبی پارک میں چلے جاتے۔

سلمان بھائی کی موت کے پندرہ دن بعد ایک صبح بھابی نے اپنا ضروری سامان اٹیچی کیس میں ڈالا اور چلی گئی مگر اپنا بچہ ہمارے پاس چھوڑ گئی۔ وہ ننھا منا بچہ حیرت و حسرت سے ماں کو جاتے دیکھتا رہا۔ پھر وہ رہ نہ سکا ’’امی میں بھی جاؤں گا۔‘‘

’’وہاں تیری کوئی ضرورت نہیں۔‘‘

’’ایسا نہ کہو، فرزانہ! یہ تمہارا بچہ ہے۔ تم نے اسے پالا ہے، اسے ساتھ لے جاؤ۔ میں نے اس کی منت کی۔‘‘

’’سنو عظمیٰ بی بی! میں اس پاؤں کی زنجیر کو ساتھ نہیں لے جاسکتی۔ تمہارے بھائی کی ہر یاد اور نشانی میں یہیں چھوڑ کر جارہی ہوں۔ اگر سنبھال نہ سکو تو یتیم خانے کو دے دینا۔‘‘ یہ کہہ کر زور سے اس نے دروازہ بند کیا اور چلی گئی۔

’’ارے، یہ میں کیسے سفاک لوگوں کے درمیان ہوں جو ہر احساس اور جذبے کو کسی قبر میں دفن کرچکے ہیں۔‘‘

پھر ایک دن ہمارے محلے کی دھوبن نے خبر دی۔ عادل نے فرزانہ سے شادی کرلی۔ میں نے چپ چاپ یہ خبر سنی مگر اپنے بچوں کی بدنصیبی پر میری آنکھیں بھر آئیں۔ ابا کے گھر کے چھوٹے سے صحن میں بچے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ ان میں ندیم بھی شامل تھا۔ ان بچوں کو کیا پتہ وہ کتنی بڑی چیز سے محروم ہوگئے۔ میرے بچے پوچھتے: ’’ابو کب آئیں گے؟‘‘ مگر ندیم اپنی معصوم آواز میں پوچھتا: ’’میری امی کب آئیںگی؟‘‘

ابا جی کو جب عادل کی شادی کی خبر ملی تو انھوں نے لیٹے لیٹے کوئی دعا پڑھی۔ تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں بند کرلیں اور بولے: ’’میری بچی حوصلہ رکھو، دل چھوٹا نہ کرو۔ اب تم تین کے بجائے چار بچوں کی ماں ہو۔ تمہیں ان کے لیے جینا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر آدمی کا اس کی ہمت اور حوصلے کے مطابق امتحان لیتا ہے۔ شاباش میری بچی حوصلہ نہ ہارنا۔‘‘

اس شام ابا اور میں دیر تک اس مسئلے پر سوچتے رہے کہ اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ مجھے اپنے اور بچوں کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ مجھے گھر سے باہر نکلنا پسند نہیں تھا۔ میں تو چاہتی تھی اپنے گھر کو بناؤں، سنواروں، پھول پودے لگاؤں، ان کی آبیاری کروں مگر اب میں نے گھر سے باہر جھانکا تو دنیا ہی اور تھی۔

ایک زہریلی دنیا میں نے اپنے گھر میں دیکھی۔ اپنی آنکھوں سے اپنے شوہر اور بھابی کو فلرٹ کرتے دیکھا۔ انہی آنکھوں نے اپنے پیارے بھائی سلمان کو بھابی کی بے وفائی کا زہر پیتے اور پھر فنا کے گھاٹ اترتے دیکھا۔ دس سال کی رفاقت اور بچوں کا مضبوط بندھن ایک فریبی عورت کی وجہ سے کچا دھاگہ بن گیا۔ سارے رشتے اور تعلق جھوٹے بن گئے۔ بیوی اجنبی بن گئی۔ بچے جیتے جی یتیم ہوگئے۔

ایک میٹرک پاس عورت شہر کے دفتروں، اسکولوں میں جاتی ہے اور ’’جگہ نہیں ہے‘‘ کا جملہ ایک گھونسے کی طرح اس کے دل پر پڑتا ہے۔ مگر وہ بزدلی کا شکار نہیں ہوتی۔

اخبار میں نرسنگ ٹریننگ کا اشتہار تھا۔ ساتھ ہی مڈوائف کا نو ماہ کا کورس تھا۔ فوری ضرورت کے لیے مجھے شارٹ ٹرم کورس کرنے کی ضرورت تھی تاکہ میرے بچے رات کو بھوکے نہ سوئیں، ابو اور ہم زندہ رہ سکیں۔ میں نے اس ہسپتال میں مڈوائف کی تربیت لینی شروع کی۔ اس تربیت کے دوران میں چند سو روپے ماہانہ وظیفہ تھا جس سے گھر کا گزارہ نہیں ہوسکتا تھا۔ کچھ گھر کی غیر ضروری چیزیں فروخت کیں۔ پھر ضرورت کی چیزیں بکنے کی نوبت آگئی۔ گھر کی گاڑی گھسٹ گھسٹ کر چل رہی تھی۔ بڑے بچے کو میں نے اسکول میں داخل کرادیا۔ اس سے چھوٹی بچی کو مسجد میں قرآن شریف پڑھنے پر لگادیا۔ یوں دو بچے پڑھنے چلے جاتے۔ ابو گھر میں باقی بچوں کی دیکھ بھال کرتے۔ صبح اپنے بوڑھے ہاتھوں سے بچوں کو کپڑے اور جوتے پہناتے۔ انہیں تسلی اور دعائیں دے کر رخصت کرتے۔

میں صبح خود بچوں کو ناشتہ کراتی۔ دوپہر کے لیے کچھ روٹیاں پکا کر لپیٹ کر رکھتی۔ تھوڑی صفائی کرتی۔ پھر ابو کو خدا حافظ کہہ کر نکلتی۔ سات بجے گھر سے نکل کر بس کا حصول اور پھرآٹھ بجے ڈیوٹی پر موجود ہونا ضروری تھا۔ خدا خدا کرکے میری تربیت کا زمانہ ختم ہوا۔ اب مجھے سات سو روپے ماہانہ ملتے۔ وارڈ میں ڈیوٹی کے دوران میں یا کبھی پرائیویٹ مریض سے بھی کچھ انعام مل جایا کرتا۔

دن بھر ڈیوٹی دے کر چار بجے میں گھر جاتی، مگر ہسپتال میں سارے وقت دل کو کئی قسم کے اندیشے گھیرے رکھتے۔ اللہ! میرے بچے تنہا اسکول جاتے ہیں، سڑکوں پر چلنا پھرنا کتنا غیر محفوظ ہے۔ ابو بیمار ہیں، میرے مولا! میرے بچوں اور ابو کو اپنے حفظ و امان میں رکھنا۔

اب میں نے ندیم اور اپنے چھوٹے بیٹے ریحان کو بھی اسکول میں داخل کرادیا۔ جو روٹیاں میں صبح پکا کر رکھ جاتی، دوپہر کو بھوک لگنے پر ابو اور بچے کبھی اچار سے کبھی چینی سے کھالیتے۔ بچوں نے جیب خرچ کے لیے کبھی ضد نہیں کی تھی۔ ایک دن بچوں نے بتایا آج گھر میں اچار تھا نہ چینی۔ ہم نے دوپہر کو روٹی پانی میں بھگوکر کھائی۔ میرے دل پر روز ایک خنجر سا چلتا ہے۔ میرے بچے کبھی یونیفارم سے، کبھی اسکول کے جوتوں سے اور کبھی کاپی یا فیس سے محروم رہتے ہیں۔ بھلا اس مہنگائی کے دور میں سات سو روپے کی آمدنی میں کہاں تک گزارا ہوسکتا ہے۔چار بچوں کی تعلیم، ان کا لباس، کاپی کتابوں کا خرچ، پھر کبھی کوئی بچہ بیمار ہوجائے تو اس کی بیماری اور دوا کا خرچ الگ داستان ہے۔ وہ توہسپتال میں کوئی مریض یا اس کے لواحقین کمال مہربانی سے دس پانچ روپے میرے انکار کے باوجود تھما دیتے ہیں تو دل سو بار ان کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ اس سے میرے بچوں کی کئی ضروریات پوری ہوں گی۔

ایک دن ابو نے وصیت نامہ لکھوایا جس میں اس ٹوٹے پھوٹے مکان کو بلا شرکت غیرے ابو نے میرے اور بچوں کے نام کردیا۔ مجھے معلوم ہے اتنی قلیل آمدنی میں سے کبھی اتنے پیسے میں نہیں بچا سکتی کہ اس گھر کے گرتے درودیوار کی مرمت کراسکوں جو ہر آن میرے اور بچوں کی زندگی کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ایک صبح میں جاگی تو میرا سب سے بڑا سہارا ابو بھی تھک کر ہمیشہ کی نیند سوچکے تھے۔ میں سوچتی رہی، ابا! آپ تو میرے اور بچوں کے لیے برگد کا پیڑ تھے جو صرف ٹھنڈی چھاؤں دیتا ہے۔ بچے رو رہے تھے۔ نانا ابا! ہمیں کہانیاں کون سنائے گا؟ مگر نہیں میرے ننھے بچے زندگی کا یہ فلسفہ کبھی نہیں سمجھ سکتے کہ مرنے اور بچھڑنے والے کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔

اب جبکہ چار بجے تک اس بچوں کے ہسپتال کے طویل وارڈ میں سب سے خوش اخلاقی سے پیش آکر اپنی ڈیوٹی دیانتداری سے انجام دے کر میں گھر جاتی ہوں تو سوچتی ہوں اب میری کوئی حیثیت نہیں، میں صرف ایک ماں ہوں۔ مجھے اپنے بچوں کی خاطر زندہ رہنا اور انھیں بہادر اور دیانتدار انسان بنانا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146