اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں اُن میں سے ایک اہم نعمت ’’زبان‘‘ بھی ہے۔ اس نعمت کے ذریعہ انسان بولتا اور اپنی بات دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ یہی خاصیت اظہار ما فی الضمیر کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ لیکن یہی زبان انسان کے لیے خیر کا سرچشمہ بھی ہوتی ہے اور برائی کے گڑھوں میں لے جانے کا سبب بھی۔
اسلام کی تعلیمات کا اگر مطالعہ کیا جائے تویہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسلام اس کی حفاظت اور اِ س کے صحیح استعمال کی صرف تاکید ہی نہیں کرتا بلکہ اس کے غلط استعمال کی سختی سے ممانعت بھی کرتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کرو۔‘‘ (الاحزاب:۷۰) یعنی اہلِ ایمان کا شیوہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ ہمیشہ راست گوئی سے کام لیں، اپنی زبانوں سے اچھی اور نیک باتیں ہی نکالیں اور غلط باتوں سے گریز کریں۔ انسان کا معاملہ تو یہ ہے کہ جب وہ بات کرتا ہے تو یہ نہیں سوچتا کہ اس کے کلام کا کتنا حصہ فائدہ مند ہے اور کتنا بیکار۔ ہم جو بھی بات کرتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ وہ ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر فرشتے ہمارے کلام کو تحریر کرتے ہیں اور روزِ قیامت ہمیں اُن تمام باتوں کا حساب دینا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا: ’’انسان کے منہ سے ایک لفظ بھی ایسا نہیں نکلتا جسے حفاظت سے لکھنے والا محفوظ نہ کرلیتا ہو۔‘‘ (ق: ۱۸)
زبان کی حفاظت کا حکم حدیث میں
نبی مہربانﷺ نے مختلف مواقع پر زبان کی حفاظت کی تاکید فرمائی ہے۔ ذیل میں چند احادیث اسی عنوان کے تحت پیش کی جارہی ہیں۔
خاموشی کا حکم
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو خاموش رہا اُس نے نجات پائی۔‘‘ (ترمذی)
اس حدیثِ مبارکہ میں خاموشی کی اہمیت بیان کی گئی ہے کہ خاموشی انسان کے لیے دنیاوی مسائل سے بچاؤ اور اخروی عذاب سے نجات کا باعث ہے۔ اس لیے کہ زیادہ گفتگو انسان کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ بے معنیٰ کلام کرے اور کثرتِ کلام کی وجہ سے ہی انسان یہ احساس کھوبیٹھتا ہے کہ وہ جو کہہ رہا ہے آیا کچھ فائدے مند بھی ہے یا نہیں۔ زیادہ باتیں کرنے کی وجہ سے انسان اکثر اپنی باتوں کو طول دینے کے لیے من گھڑت قصے کہانیاں بیان کرتا ہے۔ یہ فعل ایک تو وقت کے ضیاع کا سبب ہوتا ہے اور دوسرے جھوٹ کے دائرے میں بھی آتا ہے۔ ایک اور حدیث میں خاموشی کی حکمت اس طرح بیان کی گئی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’خاموشی حکمت ہے (لیکن) اس کے کرنے والے (یعنی خاموش رہنے والے) کم ہیں۔‘‘ (دیلمی)
اس حدیثِ مبارکہ میں خاموشی کو حکمت و دانائی سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی حکمت و دانائی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان بقدرِ ضرورت کلام کرے، بلا ضرورت کلام انسان کو نفع کی جگہ نقصان دے گا۔ انسان جب بولتا کم ہے تو سوچتا زیادہ ہے جس سے اُس کے ذہن کے دروازے کشادہ ہوتے ہیں۔ علم و حکمت اور دانائی کی باتیں ذہن میں گھر کرلیتی ہیں، پھر وہ جب بھی بات کرتا ہے اس کی باتیں بھی حکیمانہ ہوتی ہیں۔ وہ اِس بات کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھتا ہے کہ مجھے کن باتوں سے احتراز کرنا چاہیے اور کن مواقع پر بات کرنی چاہیے۔
کثرتِ کلام سے اجتناب
حضرت عبداللہ بن سفیانؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ!
مجھے اسلام کے متعلق کوئی ایسی بات بتائیے کہ آپؐ کے بعد کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’یہ کہہ کہ میں ایمان لایا اللہ پر، اس کے بعد اِس ایمان پر ثابت قدم رہ۔‘‘ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! میں کس چیز سے اجتناب کروں؟ آپؐ نے زبان کی طرف اشارہ فرمایا۔ (ترمذی)
اس حدیث مبارکہ میں ایمان اور اِس پر استقامت کے بعد جو سب سے اہم کرنے کا کام بتایا گیا ہے۔ وہ زبان کو بلاوجہ استعمال سے اجتناب کرنا ہے۔ حضورﷺ نے زبان کی طرف اشارہ کرکے اس بات کا اظہار فرمایا ہے کہ زبان کے بے جا استعمال سے انسان کئی خطاؤں کا مرتکب ہوسکتا ہے، لہٰذا اگر زبان کی حفاظت کی جائے اور اسے بے لگام نہ چھوڑا جائے تو بے شمار ایسے گناہ ہیں، جن سے انسان محفوظ و مامون رہ سکتا ہے۔ اگر آدمی نے زبان کی حفاظت کی تو جھوٹ جیسے عظیم گناہ سے انسان محفوظ رہے گا۔
نجات کا راستہ
حضرت عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: نجات کا راستہ کون سا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’اپنی زبان پر قابو رکھ اور تیرے لیے تیرا گھر کافی ہونا چاہیے(یعنی بلا ضرورت گھر سے نہ نکل) اور اپنی غلطی پر (نادم ہو) آنسو بہا۔‘‘ (ترمذی)
اس حدیث مبارکہ میں تین امور کی طرف متوجہ فرمایا گیاہے۔ پہلی بات زبان سے متعلق فرمائی کہ ’’اپنی زبان پر قابو رکھ‘‘ یعنی زبان بے فائدہ گفتگو نہ کرے بلکہ اس سے جب بھی اظہارِ کلام ہو تو وہ کلامِ احسن ہی ہو دوسرا نہ ہو۔ دوسری نصیحت یہ فرمائی کہ ’’تیرا گھرتجھے کافی ہونا چاہیے۔‘‘ یعنی بلاوجہ اور بلا ضرورت گھر سے باہر نہیں گھومنا چاہیے۔ یہ بات دراصل پہلی بات کی تشریح ہے کہ انسان جب گھر سے باہر جاتا ہے تو کئی مواقع ایسے آتے ہیں کہ کہیں جھوٹ بولنا پڑے گا تو کہیں کسی سے باتوں میں مشغول ہوکر غیبت بھی ہوجائے گی یا خدانخواستہ فحش کلامی کی نبوت بھی آئے گی۔ لیکن اگر انسان گھر سے کم ہی نکلے گا تو لوگوں سے اِس طرح کی باتیں کرنے کے مواقع بھی کم ہی میسر آئیں گے اورانسان اِن تمام اور اِن جیسے تمام گناہوں سے محفوظ رہے گا۔ آخری نصیحت یہ فرمائی کہ ’’اپنی غلطی پر (نادم ہوکر) آنسو بہا۔‘‘ یہ بات اس لیے فرمائی کہ انسان اس بات سے غافل نہ ہوجائے کہ وہ فضول کلام کے بعد اب اطمینان سے بیٹھ جائے بلکہ اسے چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور معافی کا خواستگار ہو کہ اُس نے جو گناہ کیے ہیں اُن گناہوں پر اُسے ندامت ہے۔ اس حدیث پر غور کرنے سے یہ بات سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ زبان کا معاملہ کتنا حساس اور نازک ہے۔
زبان کی حفاظت جنّت کی ضمانت
حضرت سہل بن سعد الساعدیؒ، نبی مہربانؐ کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص مجھے اپنے دونوں کانوں کے درمیان کی چیز یعنی زبان اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز یعنی شرمگاہ سے بچنے کی ضمانت دے میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں۔‘‘ (بخاری)
یہ بہت مشہور حدیث ہے اور اس میں اِس بات کی طرف اشارہ فرمادیا گیا ہے کہ زبان کا صحیح استعمال انسان کو جنت جیسے اعلیٰ انعام کے حصول میں ممدو معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ زبان اگر خیر کا منبع ہو اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کے مطابق اُن کی اطاعت میں استعمال ہو تو اللہ تعالیٰ اس عمل کے صلے میں اپنا سب سے بڑا انعام جنت عطا فرمائیں گے۔ اس حدیث پر غور کرنے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ خود نبی کریمﷺ نے زبان کی حفاظت پر جنت کی ضمانت کا وعدہ فرمایا ہے لہٰذا اِس میں کسی تردد کی گنجائش نہیں ہے اور بندہ خدا کو صرف اِس بات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنی زبان کی لغزشوں سے میں جنت سے دور کردیا جاؤں۔
جب حضورﷺ نے اس کی حفاظت پر جنت کی ضمانت دی ہے تو لازماً کوئی ایسی بات ہے جو اس زبان کی بے احتیاطیوں کی وجہ سے ہمارے لیے وبال کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ زبان کو قابو میں لاکر اور رکھ کر اسے نیک اعمال کے دائرے میں لایا جائے اور اس کی سختی سے حفاظت کی جائے۔
ہر شر سے حفاظت
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے پیٹ، اپنی شرمگاہ اور اپنی زبان کے شر سے محفوظ رہا، وہ ہر طرح کے شر سے محفوظ رہا۔‘‘ (دیلمی)
اس حدیثِ مبارکہ میں تین امور کی جانب متوجہ فرمایا گیا ہے کہ پیٹ ، شرمگاہ اور زبان انسان کو شر میں مبتلا کرسکتے ہیں اگر ان کو حق کے ساتھ نہ رکھا گیا۔ پیٹ، انسان کو شر میں اِس طرح واقع کرسکتا ہے کہ انسان اس پیٹ کو حرام خوری کا منبع بنادے یا اَکلِ حلال کے ساتھ حرام کی آمیزش بھی کردے یا مکمل طور سے حرام اشیا کا استعمال کرے اور اس پیٹ کو بھرنے کے لیے پھر اِس بات سے بے فکر ہوجائے کہ جو چیز اس پیٹ میں ڈال رہا ہوں وہ حلال ہے یا حرام، تو وہ پیٹ کے شر میں مبتلا ہوجائے گا۔ شرمگاہ کا معاملہ یہ ہے کہ یہ شیطان کا ایک مؤثر ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ انسان کو ورغلانے کی چالیں چلا کرتا ہے لہٰذا اس کی حفاظت کی فکر بھی دامن گیر ہونی چاہیے۔ آخری بات زبان سے متعلق فرمائی گئی ہے کہ انسان اِس زبان کے ذریعے بھی شر میں مبتلا ہوسکتا ہے اور اسی زبان کے ذریعے اس کے شر سے مامون بھی رہ سکتا ہے۔ زبان کا شر یہ ہے کہ اس سے خوش کلامی کی جگہ بدکلامی کی جائے اور اِس بات کا احساس ترک کردیا جائے کہ میری زبان کن جائز و ناجائز امور پر گفتگو کررہی ہے۔ زبان کا ایک شر تو دنیاوی ہے اور دوسرا اخروی۔ دنیاوی اس اعتبار سے کہ زبان کی بے احتیاطی سے لڑائی جھگڑوں کا اندیشہ رہتا ہے اور اس سے انسان کو تکلیف پہنچ سکتی ہے اور اخروی اِس لحاظ سے کہ اِس بے احتیاطی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی بھی ہوتی ہے تو اخروی عذاب بھی بھگتنا پڑے گا۔ اِس لحاظ سے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہم اگر اپنی زبانوں کے غلط استعمال سے گریز نہیں کریں گے تو لامحالہ وہ دن ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ جس میں ہم اِس بے احیاطی کا نتیجہ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ سکیں گے۔ انسان کا حال تو یہ ہے کہ دنیاوی معاملات میں اُس کی زبان اگر بے موقع کلام کرے تو اُس کے لیے کئی مسائل کا موجب بن جاتی ہے ، جس کے بعد انسان پچھتاتا ہی رہتا ہے کہ میں نے کیوں یہ بات کہی کہ جس کی وجہ سے آج میں یہ دن دیکھ رہا ہوں۔ اور ایک پچھتاوا اُسے آخرت میں بھی ہوگا جس دن وہ سوچے گا کہ کاش میں اپنی زبان کی حفاظت کرتا تو آج یہ عذاب نہ سہنا پڑتا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ دنیاوی اور اخروی زحمتوں سے بچنے کے لیے اپنی زبان کی حفاظت کی جائے اور اسے بے مہار نہ چھوڑا جائے۔
——