’’آپ مجھ سے کتنا پیار کرتے ہیں؟ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ…‘‘
عمران ’’ہاں یاسمین! بھلا اب تمہارے علاوہ میرا اور ہے ہی کون اس دنیا میں! زندگی سے اوب کر جب میں موت کو تلاش کررہاتھاایسے وقت میں تم نے ہی تو مجھے زندگی کی نئی راہ دکھائی تھی۔ زندگی باقی رہنے کی نئی امیدیں نئے حوصلے، نئی امنگیں سب تم نے ہی تو دی ہیں، اگر مجھے تم نہ مل گئی ہوتیںتو حالات کے تغیرات سے گھبراکر میں اپنی زندگی کو ختم کرچکاہوتا۔
ایک دن سویرے میری بیوی نے مجھے تیزی سے اٹھایا تو نیند سے بیدار ہوکر میں نے دیکھا جیسے میرا خواب ٹوٹ گیاہو۔ طوفانی سرگرمیوں کے ساتھ ایک بڑا ڈرائونا اور خطرناک سیلاب ہوا کی سرسراہٹ، پیڑوں اور مکانوں کے گرنے کی آوازیں فضا میں گونج رہی تھیں اور بچائو… دوڑو… سیلاب… کی آوازیںسنائی دے رہی تھیں۔ میری چارپائی کے چاروں طرف پانی آچکاتھا۔ گھر کے المونیم کے برتن پانی میں کاغذ کی نائو کی طرح تیرنے لگے۔ چاروں طرف پانی ہی پانی نظر آرہاتھا۔ سورج کی لال کرنوں سے سارا پانی خون کی طرح لال دکھائی پڑرہاتھا، ایسا معلوم پڑتاتھا کہ طوفان نے ہزاروں آدمیوں اور جانداروں کا قتل عام کرکے ان کے خون کی ندیاں بہادی ہوں۔ موت یہاں بے پرواہ ہوکر بوڑھوں، بچوں، مزدوروںاور مظلوموں کی زندگی سے کھیل کررہی تھی اور جاندار موت کے ہاتھ کاکھلونا بن کر رہ گئے تھے۔ جس طرح کوئی بچہ کسی کھلونے سے کھیلتے کھیلتے جب چاہے زمین پر پٹخ کر توڑدے اسی طرح آج زندگی اور موت کے بیچ معمولی سا فاصلہ نظر آرہاتھا۔ زندگی اپنے جرجر جسم کولیے موت کے سیلابی طوفان میں ایک تنکے کی طرح ڈول رہی تھی۔ جو ایک پل تیرتا دکھائی دیتا دوسرے پل ڈوبتا دکھائی دیتااور تیسرے پل اس کاوجود صرف خیالوں میں رہ جاتا۔
میری بیوی نے مجھ سے جلدی سے مکان کی چھت پرچڑھ جانے کو کہا۔ کیونکہ پانی بہت تیزی سے چلاآرہاتھا آس پاس میں ہمارا ہی پکا مکان تھا۔ سب لوگ اپنی اپنی جان بچانے کے لیے اپنے گھروں کو چھوڑچھوڑکر ہمارے مکان پر آکر چڑھ گئے۔ پانی کے ریلے کے ساتھ کچے مکان ایک ایک کرکے گررہے تھے ایسا معلوم ہوتاتھا کہ آج وہ جھونپڑیاں، وہ کچے مکان طوفان اور سیلاب کے لیے بچوں کے بنائے ریت کے گھر جیسے تھے اور سیلاب انھیں حقیر سمجھ کر ان کے ساتھ کھیل کررہاتھا۔ بوڑھے، بچے، اپاہج اور ایسے لوگ جو کبھی چل پھر نہیںسکتے تھے۔ آج اپنی جان بچانے کی فکر میں تیزی سے اِدھر اُدھر بھاگتے دکھائی دے رہے تھے سب کو اپنی اپنی پڑرہی تھی۔
چھپّر پانی میں تیرتے چلے جارہے تھے کچھ لوگ اپنی جان بچانے کے لیے چھپروں پر ہی بیٹھ گئے جب کہ وہ یہ بھی نہیںجانتے تھے کہ نہ جانے کب چھپّر کس چیز سے ٹکراکر ٹوٹ جائے اور وہ پانی میں ڈوب جائیں۔ اپنی زندگی کتنی پیاری ہوتی ہے۔ زندگی کے ایک ایک لمحے کی حقیقت تو اس آدمی سے پوچھو جو موت کے دہانے پرکھڑا ہو اور زندگی اسے الوداع کہہ چکی ہو۔ ہر انسان مرتے وقت یہی سوچتا ہے کہ ابھی کچھ دیر اور بھی جی سکوں۔اے خدا! مجھے کچھ زندگی اور دے لیکن کیسا سوال ہے یہ اس کا جب بھی جس کی زندگی کے دن پورے ہوجاتے ہیں تو موت کے سرد ہاتھ ہر حالت میں اس کے گلے تک پہنچ جاتے ہیں۔
ایک چھپّر جس پر کئی آدمی بیٹھے ہوئے تھے ہمارے پاس سے گزرا۔ وہ لوگ بھوک سے بہت بے چین تھے۔ انھوںنے ہماری طرف دیکھا لیکن اس وقت کون کس کی مدد کرسکتا تھا۔ ہم لوگ خود بھوکے تھے۔ چھپّر بہتا ہوا دور نکل گیا اور دور جاکر ایک پیڑ سے ٹکراکر چھپّر کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور پھر وہ سب… مویشیوں اور انسانوں کے چیخنے کی دردناک آوازیں خزاں میں گونج رہی تھیں کچھ جانور پانی میں تیر رہے تھے کچھ کھونٹے سے بندھے ڈکرارہے تھے۔ عجیب خوفناک منظرتھا۔
ارشد کی ممی اپنے چھوٹے بھائی کو اُٹھانے کے لیے دوڑی۔ ارشد اپنے دالان میں کھڑاتھا وہ اتنی دیر میں اس کے چھوٹے بھائی کو اٹھابھی نہ پائی کہ ارشد کو طوفان نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اب اس کی ماں بے تحاشا ارشد کی طرف دوڑی لیکن اب کیا…؟ وہ بہتے ہوئے پانی میں کھڑی ہوکر پاگلوں کی طرح اپنے بال نوچنے لگی تھی۔ تبھی ایک پانی کازوردار ریلا آیا جو اس کے اوپر سے اُترگیا اور اب وہ اپنی جان بچانے کے لیے ہماری طرف کو بھاگی… اور کرتی بھی کیا؟
سارا دن یوں ہی گزر گیا۔ بچے بھوک سے بلبلارہے تھے لیکن آج کے دن ان کی مائیں انھیں غم کے آنسوئوں کے علاوہ اور کیا دے سکتی تھیں آج ان کے لیے دودھ کہاں؟ کہاں رکھا ہے ان کے لیے کھانا؟ شام ہوگئی اور بچے روتے روتے اپنی مائوں کی گود میں سر رکھ کر سوگئے۔
اگلے دن تقریباًدو بجے ایک ہیلی کاپٹر گھائیں گھائیں کرتا ہوا آیا۔ سب لوگ اس کی طرف حسرت بھری نگاہیں اٹھاکر دیکھنے لگے۔ سب یہی سوچ رہے شاید اب انھیں کچھ کھانے پینے کے لیے ملے لیکن وہ تھوڑی دیر تک تتلی کی طرح منڈلانے کے بعد وہاں سے چلاگیا اور سب لوگ ہیلی کاپٹر کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہ گئے۔ اس کے ایک گھنٹہ کے بعد ایک دوسرا ہیلی کاپٹر آیا اور اس نے ہماری طرف کچھ کھانے پینے کی چیزیں پھینکیں ہم نے انھیں بانٹ کر کھالیااور اللہ کا شکر ادا کیا۔ اسی طرح ایک ایک پل کرکے سارا دن ختم ہوگیااور رات ہوگئی۔ رات کی تاریکی ایسے ماحول میں جان لیوا محسوس ہورہی تھی۔ گھٹا ٹوپ اندھیرے اور رات کی سنگینی دل کی گہرائیوں کو چھوکر ایک عجیب سی دہشت طاری کردیتیں اور آج کی یہ اندھیری رات کالا نقاب پہنے ہوئے ایک موت کا فرشتہ سا دکھلائی دے رہی تھی۔
اگلے دن سویرے ہی دور سے ہمیں ایک کشتی آتی ہوئی دکھلائی دی۔ کشتی کو دیکھ کر ہماری خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ سب خوشی سے جھوم اُٹھے۔ مجھے سب سے بڑھ کر خوشی یہ تھی کہ میں مع اہل وعیال کے سیلاب کے ظالمانہ غلبہ سے بے باک تھا۔ اب میں آنکھیںپھاڑکر اس کشتی کو دیکھنے لگا۔ کشتی جوں جوں ہمارے قریب آرہی تھی۔ ہمیں ایسا لگ رہاتھا جیسے کشتی کے روپ میں زندگی ہمیں موت کے منھ سے بچانے کے لیے آرہی ہو۔ آہستہ آہستہ وہ کشتی ہمارے بالکل قریب آگئی۔ پہلے تو کشتی کے لوگوںنے ہمارے کھانے پینے کے لیے کچھ سامان دیا۔ کھانے پینے کے بعد ہم نے کشتی میں بیٹھنا شروع کیا جب بیس آدمی کشتی میں بیٹھ گئے تو کشتی والوں نے اور زیادہ آدمیوں کو بیٹھنے سے منع کیا لیکن کون کس کی سن رہاتھا۔ سب کو اپنی اپنی پڑی تھی اور سب نے ایک ایک کرکے جلدی سے کشتی کے اندر کودنا شروع کردیا۔ بیس سے پچیس۔ پھر پچیس سے تیس آخر ایک ایک کرکے اتنے آدمی کشتی کے اندر کودگئے کہ ان کے وزن سے کشتی ڈوب گئی۔ اب… کیا…؟
اس کے بعد مجھے ہوش آیا تو میں ایک پلنگ پرلیٹاہواتھا۔ میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنا شروع کیا لیکن ایک نرس کے علاوہ مجھے وہاں کچھ بھی دکھائی نہ دیا اور پھر میں بے ساختہ چیخ اٹھا… جاوید… جاوید… جاوید! میرے بچے… لیکن جاوید کہاںتھا۔ اس کے بعد ہرممکن کوشش کرنے کے بعد بھی میں اپنے بیوی بچوں کو نہ پاسکا۔
میںچہرے پر عجیب سا خوف اور دہشت لیے ہوئے غم کے سمندر میں ڈوب گیا۔ ایک دن شام کے وقت سب سے الگ تھلگ بیٹھامیں کیا کیا سوچ رہا تھا؟ اب تک جن کے سہارے اور جن کی خوشیوں کے لیے زندگی کا بوجھ ان کاندھوں پر اُٹھائے پھر رہاتھا اب جب وہ ہی بچھڑگئے تو زندگی میںباقی ہی کیارہ گیا ہے۔ اب نہ کوئی جینے کی تمنا ہے نہ کوئی امید نہ کوئی حسرت اور یہ سب کچھ ہوبھی تو کس کے لیے؟ اب تو چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے؟ جی چاہتاہے کہ اس تاریکی میں کھوکر رہ جائوں بس اپنی زندگی کو ختم کرلوں … اب…؟
کچھ لوگ کھانا بانٹنے آئے لیکن عمران کو کھانے کی کوئی پروا نہ تھی سب لوگ کھانا لا کر کھارہے تھے لیکن عمران چُپ چاپ ایک طرف بیٹھا ہواتھا۔ اب اس کو ماضی کی یادیں ستارہی تھیں اور وہ خیالات کے ساغر میں غوطے لگارہاتھا۔ سب لوگ اس کے سامنے سے ہوکر گزر رہے تھے لیکن اسے کچھ پتہ نہ تھا۔ اس وقت وہ ایک پتھر کی بے جان مورتی بنابیٹھاتھا جس کو حالات کے سنگتراش نے تراشاتھا۔ ایک چھ سال کی بچی جب عمران کے پاس سے گزری تو اسے اس طرح بیٹھے دیکھ کر رُک گئی اور بولی۔
’’انکل آپ کھانا لینے نہیں جاتے… کیوں…؟
نہیں…ہا…ہا… (اس نے چونک کر ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا)
’’کیوں؟ انکل… کیا آپ کو بھوک نہیں لگ رہی؟
’’بھوک تو لگ رہی ہے بیٹی… لیکن طبیعت کھانے کو نہیں کرتی…‘‘
’’کیوں؟ انکل…؟‘‘
’’کچھ نہیں بیٹی… بچے ایسی باتیں نہیں کرتے جائو تم کھانا کھالو…‘‘
’’نہیں انکل … بتائو کیا بات ہے نہیں تو میں بھی کھانا نہیں کھائوںگی۔ (لڑکی وہیں بیٹھ جاتی ہے)
’’بیٹی! میرے بھی تم جیسے ننھے منے بچے تھے لیکن اب … سیلاب… بچھڑ…‘‘
’’تو اس طرح بھوکے مرنے سے کیافائدہ… میرے ماں ، باپ بھی مجھ سے کھوگئے لیک… جی…‘‘
’’تم ابھی بچی ہو بیٹی‘‘
’’انکل کیا بچوںکو اپنے ماں باپ سے پیارنہیں ہوتا؟‘‘
’’ہوتاہے بیٹی… ہوتاہے‘‘
’’اگر آپ کھانا نہیں کھائیںگے تو میں بھی نہیں کھائوںگی۔‘‘
’’کیوں تم کیوں نہیں کھائوگی… میں تو اپنے بچوں کی یاد میں تڑپ رہاہوں…‘‘
’’انکل کیا میں آپ کی بیٹی نہیںہوسکتی‘‘
ایک باپ اپنے بچوں کے لئے تڑپ رہاہے دوسری طرف بچے اپنے ماں باپ کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ آنسو بہارہے ہیں۔ اگر ہوسکے تو انہی کے آنسو پونچھ دو۔ یہ بھی کسی گلشن کے پھول ہیں تم سے تمہارے بچے بچھڑگئے ہیں اور ان سے ان کے ماں باپ۔ لیکن کیا ہوا اگر ہوسکے تو آج انھیں ہی اپنابچہ سمجھ کر گلے لگالو…‘‘
’’ہاں… ہوسکتا ہے… ہوسکتا ہے…‘‘ (اس نے بچی کو گود میںاٹھالیا)
’’تمہارا نام کیاہے بیٹی؟‘‘
’’یاسمین‘‘
’’تم واقعی یاسمین (عربی لفظ ہے معنی چمیلی) تم نے مجھے زندہ رہنے کا نیا سبق سکھایاہے۔ یاسمین تم سے میرے اُجڑے ہوئے گلشن میں پھر سے بہار آجائے گی۔ (اب عمران یاسمین کو اپنی گود میں بٹھاکر اپنے ہاتھ سے کھانا کھلانے لگا۔ یاسمین نے بھی ایک روٹی کا ٹکڑا توڑتے ہوئے کہا۔ ’’پاپا آپ نہیں کھائیںگے۔‘‘ عمران نے بچوں کی طرح منھ کھول دیا اوریاسمین نے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے اس کے منھ میں روٹی کاٹکڑا رکھ دیا۔ عمران خوشی سے جھوم اٹھا۔ اس نے یاسمین کو گلے لگاکر کہا… میری بچی… میری بیٹی… میری یاسمین۔
——