جب تک لڑکی والدین کے پاس رہتی ہے مستقبل کی زندگی کے بارے میں یا تو کچھ نہیں سیکھ پاتی یا بہت ہی کم سیکھ پاتی ہے۔ خاص طور پر ازدواجی زندگی کے اسرار و رموز شادی کے بعد ہی کھلتے ہیں۔ جس طرح کسی بھی شخص کے عادات و اطوار اور خیالات کی تربیت کسی مکتب یا تربیتی ادارے میں ممکن ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح ہر عورت کی زندگی بہترین ڈھنگ سے گزارنے اور معاملات سے بہتر طور پر نمٹنے کا ہنر سسرال میں سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ عورت کا اصل گھر اس کی سسرال یا شوہر کا گھر ہے۔ اسی گھر میں وہ زندگی کا مقابلہ کرنا سیکھتی ہے۔
والدین اپنی بچی کو زیادہ سے زیادہ سکھ دینا چاہتے ہیں۔ شادی سے پہلے لڑکی اپنے گھر میں ہر لمحے، ہر گھڑی کا لطف اٹھاتی ہے۔ اپنی زندگی کو وہ پریشانیوں اور الجھنوں کی نذر نہیں کرنا چاہتی۔ یہی سبب ہے کہ زندگی کی بہت سی بنیادی باتوں کی جانب وہ دھیان نہیں دیتی اور ان باتوں کا علم اسے شادی کے بعد ہی ہوپاتا ہے۔
عورت کے لیے سسرال سب سے بہترین درس گاہ ہے اور ساس اس کی سربراہ ہے۔ ساس کی ذمہ داریاں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ اس کی قابلیت اور دانش مندی پر ہی گھر بھر کی خوشیوں اور سکون کا دارومدار ہوتا ہے۔
اگر ایمانداری اور غیر جانب داری سے جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ بیشتر ساسیں محدود ذہنیت، کمتر ذہانت اور بہت سی باتوں میں اناپرستی کا مظاہرہ کرتی ہیں جس کے باعث بہوؤں سے ان کی چپقلش رہتی ہے اور اچھا خاصا گھر جہنم میں تبدیل ہوجاتاہے۔ یہ درست ہے کہ ہر بگڑے ہوئے معاملے میں قصور وار ساسیں نہیں ہوتیں مگر سچ یہ ہے کہ بیشتر ساسیں انتہائی استحقاق پسند ہوتی ہیں۔ وہ بیٹے اور بہو دونوں کو ہر لحاظ سے مٹھی میں رکھنا چاہتی ہیں اور یہیں سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ بیٹا اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزارنا چاہتا ہے۔ بہو کی آنکھوں میں بھی خود مختار زندگی کے سپنے ہوتے ہیں۔ ایسے میں کسی اور کی مرضی کا پابند ہونا ان دونوں کو اچھا نہیں لگتا۔
زیادہ تر مائیں اپنے بیٹوں کی شادی کے لیے بہت بے تاب دکھائی دیتی ہیں یہاں تک کہ وہ بیٹے کی شادی کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار رہتی ہیں۔ بہو کے لیے زیور تیار کرنے کی غرض سے وہ اپنا زیور بیچ ڈالتی ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شادی کے کچھ ہی دنوں بعد ساس بہو کو غلام کیوں سمجھنے لگتی ہے اور بہو کی خاطر سب کچھ قربان کرڈالنے کا وہ جذبہ سرد کیوں پڑجاتا ہے۔ دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ بعض ساسیس اتنی تنگ نظر اور بدمزاج ہوتی ہیں کہ بہو کو ہر وقت جہیز کم لانے کا طعنہ دیتی ہیں اور انہیں پیٹ بھر کھانا بھی نہیں دیتیں۔ اگر بہو کوئی عام سی چیز بھی مانگ لے تو ٹکا سا جواب ملتا ہے کہ ’’تمہاری اماں نے جہیز میں تمہیں دیا کیا تھا، کچھ لے کر آجانا تھا۔‘‘ یا یہ کہ ’’اپنے باپ سے کیوں نہیں مانگتی؟‘‘
عام طور پر ساس کو بہو کی جو بات سب سے زیادہ کھٹکتی ہے وہ اس کا بناؤسنگھار اور شوہر سے اس کی محبت ہے۔ وہ یہ بھول جاتی ہے کہ کبھی وہ خود بھی اس مرحلے سے گزری تھی۔ یہاں تک کہ بعض ساسیں اپنی بہوؤں کو دانت صاف کرتا بھی نہیں دیکھ سکتیں اور اس قسم کے جملے بھی انہیں سننے کو ملتے ہیں کہ ’’کیا تم ہر وقت دانت رگڑتی رہتی ہو؟ اس کو تو سوائے سجنے سنورنے کے اور کوئی کام ہی نہیں وغیرہ وغیرہ۔
بناؤ سنگھار نوبیاہتا کا شوق بھی ہے اور حق بھی۔ ہر عورت اپنے شوہر کو اپنا بناکر رکھنا چاہتی ہے۔ اس میں برا ماننے یا حیران ہونے والی کوئی بات نہیں۔ ہر عورت کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ جب اس کے بیٹے کی شادی ہوتی ہے تو وہ اپنی نئی زندگی شروع کرتا ہے۔ یہ نئی زندگی بہت سی ایسی باتوں کی متقاضی ہوتی ہے جو اس سے قبل نہیں ہوتی تھیں۔ بیٹا چونکہ نئی زندگی کا آغاز کرتا ہے، اس لیے اس میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ بہو آتی ہے تو ساس کو اس بات سے بھی تکلیف پہنچتی ہے کہ بیٹے کی محبت تقسیم ہوجاتی ہے۔ اگر کسی عورت کو اپنے بیٹے کی مکمل محبت اور توجہ درکار ہے تو اس کا آسان راستہ یہ ہے کہ وہ بیٹے کی کبھی شادی ہی نہ کرے!
ہم اس حقیقت کو تسلیم نہ کریں تو صورتِ حال بدلے گی نہیں کہ آج ہمارے سماج کے بیشتر گھرانوں میں ساس اور بہو کے مابین بدگمانیاں منطقی حد سے بہت زیادہ ہیں۔ ہر گھر میں کوئی نہ کوئی کہانی چل رہی ہے۔ ممکن ہے آپ کے گھر میں بھی کچھ مسائل ہوں۔ ان مسائل کے حل کی ایک صورت یہ ہے کہ ان سے بھاگنے کے بجائے ان کا سامنا کیا جائے۔ آج ساس بہو کا جھگڑا اس قدرسنگین صورت اختیار کرگیا ہے اور اس کے باعث اتنے گھرانوں کا سکون داؤ پر لگا ہوا ہے کہ اس جانب فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
خاص طور پر اس میں مرد کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ ان حالات میں ماں اور بیوی دونوں کا موقف سننے کی ضرورت ہے۔ کسی ایک کی بات سن کر دوسرے سے فوری ناراضگی یا برہمی کا اظہار قطعی دانش مندانہ رویہ نہیں۔ اس سے نہ تو انصاف ہوگا اور نہ معاملات حل ہوں گے۔ لیکن یہ بات افسوس ناک ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر مردوں کا رویہ یک طرفہ ہوجاتا ہے ماں کو سمجھانے کے بجائے وہ سارا غصہ بیوی پر نکالتے ہیں یا بیوی کی ناراضگی کے خوف سے اس کی غلط اور ناپسندیدہ باتوں کو بھی خاموشی سے برداشت کرتے رہتے ہیں۔ جن کا بعض اوقات بہوئیں ناجائز فائدہ بھی اٹھاتی ہیں۔ اور یہ ماں کے ساتھ نا انصافی ہے۔
ہر ماں چاہتی ہے کہ اس کی بیٹی جس گھر جائے راج کرے حالانکہ یہ راج والی سوچ درست نہیں۔ راج کرنے یا کسی کا راج قبول کرنے سے معاملات بگڑتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان دونوں کے درمیان زندگی بسر کی جائے۔ گھریلو معاملات حکم چلانے یا کسی کا بے جا حکم ماننے سے نہیں چلائے جاسکتے۔ یہ دو طرفہ معاملہ ہے۔ کبھی اپنی بات منوائی جاتی ہے، کبھی دوسروں کی بات پر سر تسلیم خم کیا جاتا ہے۔ ہر ماں کا فرض ہے کہ وہ بیٹی کو سمجھائے کہ اس کا اصل گھر اس کی سسرال ہے کیونکہ کبھی کبھی مائیں بھی اپنی بیٹیوں کے گھر اجاڑنے کا سبب بن جاتی ہیں حالانکہ ماؤں کو اس حقیقت کاادراک ہونا چاہیے کہ ان کا یہ عمل خود ان کے لیے نقصان اور شرمندگی کا باعث بنے گا۔ بیٹی کے گھر بیٹھنے کی صورت میں ان کے لیے عزت کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔ ماں کو چاہیے کہ بیٹی اگر سسرال کے خلاف شکایتی انداز اپناتی ہے تو اسے سمجھائے کہ وہ تحمل اور برداشت سے کام لے اس لیے کہ اسے وہاں زندگی گزارنی ہے۔ اسے بتایا جائے کہ اصل گھر میں اسے کس طرح رہنا ہے، اس صورت میں بیٹی کی درست ذہنی تربیت ہوسکے گی اور وہ بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہوسکے گی۔
اگر والدین اس بات کے خواہش مند ہیں کہ ان کی بیٹی کو زندگی میں کسی دکھ، کسی مصیبت کا سامنا نہ کرنا پڑے تو ضروری ہے کہ رشتہ منتخب کرتے وقت اس کے گھر اور ان کے مزاج و افکار و خیالات کی بھی معلومات حاصل کرکے یہ یقین کرلیا جائے کہ اس گھر کے افراد کے معاملات بہترہیں، دونوں خاندانوں کے افکار و خیالات میں ٹکراؤ کا اندیشہ تو نہیں ہے اور یہ کہ گھر کی سربراہ خاتون اپنے رویہ اور برتاؤ میں کس مزاج کی ہے۔
والدین کبھی اپنی بیٹی کا برا نہیں چاہتے۔ ان کی تو یہی تمناہوتی ہے کہ بیٹی اپنی سسرال میں بھی سب کی چہیتی بن کر رہے۔ مگر ایسا سدا ممکن نہیں ہوتا۔ پریشانیاں اور دشواریاں زندگی کا لازمی جز ہیں۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے مناسب حل پر توجہ دینی چاہیے۔
جہاں بہو کا یہ فرض ہے کہ سسرال کے ہر فرد، بالخصوص ساس کو اپنا سمجھ کر سب کے کام آئے، وہیں ہر ساس کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ بہو کو بیٹی سے بڑھ کر نہیں تو بیٹی کے برابر ضرور سمجھے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ گھر میں توازن کی فضا پیدا ہوسکے گی اور کامیاب زندگی توازن ہی چاہتی ہے۔ ہر گھر میں معاملات نشیب و فراز کے مراحل سے گزرتے ہیں۔ ان سے گزر کر ہی زندگی، زندگی بنتی ہے۔ اگر ساس ضرورت سے زیادہ انا پرستی اور بہو غیر ضروری ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرے تو تعلقات میں کشیدگی بڑھتی رہے گی۔ دونوں انسان ہیں، دونوں کو معاملات میں لچک پیدا کرنی ہوگی۔ معاملات کو درست ڈھنگ سے چلانے کے لیے بہت سی خواہشات ترک کرنی پڑیں گی۔
بعض امور ایسے ہیں جن کے باعث ساس کی جانب سے حسن سلوک کا دارومدار اس امر پر ہوتا ہے کہ بہو کا طرزِ عمل کیا ہوتا ہے۔ جس طرح بہو کے دل میں نئی زندگی کے حوالے سے بہت سی خواہشات اور امیدیں ہوتی ہیں اسی طرح ساس کے دل میں بھی بہت سی توقعات ہوتی ہیں۔ ان توقعات کے پورا ہونے کا دارومدار اس امر پر ہوتا ہے کہ بہو کیا کرتی ہے اور کیا چاہتی ہے۔ ساس چونکہ گھر میں سربراہ کی حیثیت رکھتی ہے اس لیے اصولی طور پر وہ اس بات کی خواہش مند ہوتی ہے کہ اس کی بات مانی جائے، اس کی خدمت کی جائے۔ اگر بہو چاہے تو ابتدا میں اپنے مفاد کی تھوڑی قربانی دے کر سسرال میں ہر فرد کے دل میں گھر کرسکتی ہے اور سب کو اپنا بناسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہر اچھائی کا صلہ فوری طور پر نہ ملے۔ اس سلسلے میں تحمل بہترین پالیسی ہے۔ اسے سکون اور تحمل سے کام کرتے رہنا چاہیے۔ رفتہ رفتہ تمام معاملات درست ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اپنے مفاد کی قربانی دینا آسان نہیں ہوتا مگر کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا ہی پڑتا ہے۔ ساس اور بہو دونوں کو اس نکتے پر غور کرنا چاہیے۔ بہو چونکہ جونئیر ہوتی ہے اس لیے اس کے حق میں بہتر بات یہ ہے کہ وہ سب کے کام آکر اپنی حیثیت کو مضبوط کرلے۔ دوسری طرف ساس کا بھی فرض ہے کہ وہ تمام اہم امور میں بہو کو اپنا سمجھے اور اس پر بھروسہ رکھے۔ دونوں کو زندگی بھر ساتھ رہنا ہے، لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ بدگمانیاں بھی ہوں اور معاملات پرسکون ڈھنگ سے آگے بھی بڑھیں۔ بہو بھی انسان ہے۔ اس کی بھی خواہشات اور تقاضے ہیں ان تقاضوں کا پورا کیا جانا ضروری ہے۔ ساس کو چاہیے کہ وہ ہر معاملے میں بہو کی رائے کو بھی اہمیت دے۔ اس سے صلاح مشورے کرے۔ مشاورت سے معاملات سلجھتے ہیں۔ جن سے رائے طلب کی جاتی ہے انہیں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی انہیں بھی اہمیت دی جارہی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ہر گھر میں بگاڑ دراصل کسی ایک فرد کی انا پرستی کے باعث ہوتا ہے۔ انا پرستی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اپنی رائے سب پر مسلط کی جائے۔ عام طور پر ساس ہی اپنی رائے سب پر ٹھونستی ہے۔ بالخصوص بہو یا بہوؤں پر۔ اگر ساس چاہتی ہے کہ بہو اس کا حقیقی معنی میں احترام کریں تو اس کی ایک مؤثر صورت یہ ہے کہ وہ تمام اہم امور میں بہو سے بھی رائے طلب کرے اور اگر اس کی رائے وقعت رکھتی ہو تو اس پر عمل کرنے سے گریز نہ کرے۔
——