میں امریکہ کے دورے پر تھا جہاں مجھے ایک اسلامی تنظیم نے مدعو کیا تھا۔ کانفرنس میں شرکت اور اپنے خطاب کے بعد میں اپنے کمرے میں گیا تو تھوڑی دیر بعد ایک نوجوان، جو ایک عرب ملک سے تعلق رکھتا تھا، ایسی حالت میں کمرے میں داخل ہوا کہ اس کے چہرے پر سخت بے چینی و اضطراب تھا اور وہ بہت غمگین دکھائی دے رہا تھا۔
میرے پوچھنے پر اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھرگئیں۔ میں نے اس سے کہا : ’’آخر تمہیں کیاپریشانی ہے؟ مجھے بتاؤ۔ میں کوشش کروں گا کہ تمہاری پریشانی کا ازالہ کرسکوں۔‘‘
میرے تسلی دینے پر اس نے کہا: ’’میرے ساتھ ایک ایسا اذیت ناک واقعہ پیش آیا ہے جسے میں اگر کسی کے سامنے بیان کرتا ہوں تو وہ میری تصدیق نہیں کرتا بلکہ ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ تو محض افسانہ ہے یا کوئی فلمی کہانی۔ لہٰذا اب میں یہ سرگزشت کسی کو بھی نہیں بتاتا۔‘‘
میں نے کہا: ’’پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ مجھے اپنی روداد سناؤ، کیا ماجرا ہے؟ میں تمہاری بات ضرور سنوں گا اور میں تمہیں سچا انسان سمجھ رہا ہوں۔‘‘
چنانچہ اس نے مجھے ایک ایسی المناک داستان سنائی جس نے میری راتوں کی نیند اڑا دی۔ اس نے اپنا قصہ بیان کرنا شروع کیا:
’’ہمارا گھرانا دو بھائیوں، دو بہنوں اور والدین پر مشتمل تھا۔ ہم دونوں بھائی جڑواں پیدا ہوئے اور ہماری دونوں بہنیں بھی جڑواں تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ میری اور میرے بھائی کی عمر اس وقت دس برس تھی اور ہماری بہنوں کی عمر سات برس۔ ہم بڑی پرسعادت و پرسکون زندگی بسر کررہے تھے۔ ایک ایسی زندگی جس پر ہر کوئی فخر کرسکتا ہے۔ شفیق والدین کا سایہ کسی نعمت عظمیٰ سے کم نہ تھا۔ والدین کی بے پایاں محبت، ان کی مہربانی اور خلوص ہمہ وقت میسر تھا۔ میرے والد حکومت کے ایک اعلیٰ منصب پر فائز تھے اور معقول آمدنی سے ہمارا گھرانا خوشحال زندگی بسر کررہا تھا۔ میرے والد کو جب تنخواہ ملتی، ہم سب اکٹھے بازار جاتے اور ہر کوئی اپنی من پسند اشیاء خریدتا۔ میری والدہ بھی ایک حوصلہ مند اور با اخلاق خاتون تھیں۔ میں اور میرا بھائی اسکول کے ذہین طلبہ میں شمار ہوتے اور ہمیشہ اچھی پوزیشن حاصل کرتے۔
وہ لمحات ہماری زندگی میں نہایت خوشگوار ہوتے جب ہم سب اہلِ خانہ مل جل کر ایک دسترخوان پر کھانا کھاتے یا سیر و تفریح کے لیے سب لوگ کسی تفریحی مقام پر جاتے۔ ہماری زندگی میں خوشیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ ہمیں کوئی مشکلات تھیں نہ کبھی کسی تلخی نے گھر کے ماحول کو مکدر کیا۔
لیکن سعادت کی گھڑیاں دیرپا ثابت نہ ہوئیں۔ہماری زندگی میں ایک ایسا حادثہ رونما ہوا جس نے ہمارے سارے گھریلو نظام کو تلپٹ کردیا۔ ہماری ساری خوشیاں چھن گئیں۔ ایسا محسوس ہوا کہ ہم کوئی خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس حادثے کی ابتدا ہمارے والد کے رویے میں تبدیلی سے ہوئی۔ ہم نے دیکھا کہ ہمارا باپ جو کبھی ہمیں ڈانٹتا تک نہ تھا اور ہر وقت محبت و شفقت سے پیش آتا تھا، اس نے یکدم ایک سنگدل، بے رحم اور ظالم شخص کا روپ دھار لیا۔ ہر وقت مار پیٹ اور بات بات پر برہم ہونا اس کا معمول بن گیا۔
اس کے تشدد کا سب سے زیادہ نشانہ خود ہماری والدہ بنتیں۔ ہر وقت لعن طعن اور گالیاں سننا ان کا مقدر بن گیا۔ وہ بے چاری صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس امید پر خاموش رہتی کہ ممکن ہے ان کے سرتاج اپنی پہلی روش پر لوٹ آئیں۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد! میرے والد کی سختیاں اور ان کا وحشیانہ سلوک اپنے عروج کو پہنچ گیا۔ ہم لوگ سہمے سہمے اور ہر دم فکر مند رہنے لگے۔ ہماری سمجھ میں یہ بات نہ آتی کہ ہمارے اتنے محبت کرنے والے والد کو کیا ہوگیا ہے۔
آخر کار ایک روز ہم پر یہ راز افشا ہوا کہ ہمارے والد نشہ آور کیپسول استعمال کرتے ہیں اور منشیات کے بری طرح عادی ہوگئے ہیں۔ وہ برے لوگوں کی مجلس میں اٹھتے بیٹھتے تھے۔ ان لوگوں نے انہیں آہستہ آہستہ ہیروئن اور مارفین کا عادی بنادیا۔
منشیات کی اس بے ہودہ عادت نے میرے والد کی ساری زندگی برباد کردی۔ وہ نوکری سے الگ کردیے گئے اور ہم پر فقر و فاقہ کا راج شروع ہوگیا۔ ہمارا سب کچھ لٹ گیا حتی کہ میری والدہ نے اپنا زیور تک بیچ ڈالا۔ یوں ہماری رہی سہی پونجی بھی اختتام کو پہنچی۔ لیکن میرے والد کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہوگئی۔ نشے کا زہر ان کے سارے جسم کو دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا۔
ہماری زندگی کے یہ پریشان کن دن گزر رہے تھے کہ ایک روز میرے والد نشے کی حالت میں گھر میں داخل ہوئے اور آتے ہی دیوانہ وار شور مچانے لگے کہ مجھے رقم چاہیے، مجھے مال چاہیے۔ میری والدہ نے جواب دیا کہ گھر میں تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں۔ ہم تو کھانے پینے کو ترس گئے ہیں مگر تم شیطانی زہر کے رسیا بن گئے ہو جس نے تمہارا سب کچھ تباہ کردیا ہے اور جان و مال اور عزت و آبرو سب اس کے حوالے ہوگئے ہیں۔ خدارا! اس سے پیچھا چھڑاؤ اور اللہ سے ڈرو، ہماری اور خود اپنی حالت پر رحم کرو۔ معاملہ شدید نوعیت اختیار کرگیا۔ میرے والد چھری لے کر آئے اور اس کے پے در پے وار کرکے ہماری والدہ کو ہلاک کردیا۔ دنیا میں ہماری سب سے بڑی ہمدرد اور شفیق ہستی یوں ہماری آنکھوں کے سامنے قتل ہوگئی۔ یہ ایک ایسا دلخراش منظر تھا جس پر آنکھوں کو یقین ہی نہ آتا تھا۔ لگتا تھا جیسے کوئی ڈراؤنا خواب ہے جو جاگتی آنکھوں ہم دیکھ رہے ہیں۔ کاش! یہ کوئی خواب ہوتا مگر یہ ایک تلخ حقیقت تھی جسے کوئی ہماری تقدیر کی کتاب سے مٹا نہ سکا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے والد کو سزائے عمر قید ہوگئی اور ہم دو بھائی ایک ساتھ یتیم خانے میں داخل کردیے گئے جبکہ ہماری دو بہنیں کسی دوسرے شہر کے یتیم خانے میں داخل کرادی گئیں۔ جس کا ہمیں کچھ اتہ پتہ نہ تھا۔ ہمارے مقدر میں یتیم خانے میں رہنا بھی لکھا ہے، یہ بات ہم سوچ بھی نہ سکتے تھے لیکن مقدر میں لکھی چیز سے بہرحال ہمیں سابقہ پیش آنا تھا۔
وقت گزرتاگیا۔ ہم دونوں بھائی جوان ہوگئے اور یتیم خانے کی قید سے ہمیں آزادی مل گئی لیکن اپنی دونوں بہنوں کے متعلق کچھ علم نہ تھا کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔
اب میں جوانی میں قدم رکھ چکا تھا۔ تربیت نہ ہونے کی وجہ سے غلط راہوں پر چل نکلا۔ یونہی ایک روز شیطانی بہکاوے میں آکر بری سوسائٹی کی طرف چل نکلا جہاں میری ملاقات برائی کے معاشرے میں رہنے والی ایک لڑکی سے ہوگئی۔ رفتہ رفتہ میرے اس سے تعلقات بڑھے اور میرا اس کے ہاں آنا جانا عام ہوگیا۔ ایک دن اس نے میرا تعارف ایک دوسری لڑکی سے کرایا جو عمر میں خاصی چھوٹی اور بہت خوبصورت تھی۔ وہ لڑکی مجھے نہایت غمگین دکھائی دی۔ مسکراہٹ تو جیسے وہ پہچانتی ہی نہیں تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اسے جبراً یہاں لایا گیا ہو۔ دل سے وہ اس برائی کے کام سے سخت نفرت کرتی تھی۔ میرے دل میں اس جذبے نے جنم لیا کہ میں اس کے دل کا راز اور پریشانی کے اسباب معلوم کروں۔
میں نے اس سے کہا کہ شاید تم پریشان ہو۔ کیا تم اپنے بارے میں کچھ بتانا پسند کروگی؟ میں تمہیں غمگین پارہاہوں، اس کے اسباب کیا ہیں؟ یہ سن کر لڑکی نے گہرا سانس لیا اور آنسوؤں کی لڑی اس کے چہرے پر رواں ہوگئی۔ اس نے کہا کہ میں چھوٹی تھی۔ میری ایک جڑاں بہن تھی اور دو جڑاں بڑے بھائی تھے۔ ہم والدین کے ساتھ بڑی باسعادت زندگی بسر کررہے تھے کہ میرا والد منشیات کا عادی ہوگیا اور اس نے میری ماں کو چھری سے قتل کردیا۔ یہ سننا تھا کہ میں چیخ اٹھا:’’یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ کیا تمہارا نام حناہے؟‘‘
اس نے اثبات میں جواب دیا اور حیرت سے پوچھا کہ میرا نام تمہیں کیسے معلوم ہوا۔ میں نے بتایا کہ تم میری بہن ہو اور میں تمہارا بھائی سمیر ہوں۔ یہ منظر بڑا ہی جذباتی تھا لیکن کس قدر افسوسناک کہ ایک بھائی اپنی بہن سے کہاں اور کس حالت میں ملاقات کررہا تھا؟‘‘
یہ تھی اس نوجوان کی زہرہ گداز داستان! سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس واقعے کا ذمے دار کون تھا؟ اس خاندانی کی تباہی اوراسے اس حال کو پہنچانے میں کس کس کا ہاتھ تھا؟ مجرم ان کا والد ہی نہ تھا بلکہ مجرم وہ لوگ بھی ہیں جو منشیات کے گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہیں۔ وہ لوگ بھی جو انھیں بناتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو ان سب کی پردہ پوشی کرتے ہیں اور ان سے تعلقات قائم رکھنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے بلکہ اس جرم میں وہ لوگ بھی شریک ہیں جو اس لعنت کے خاتمے کے لیے حکومتی اداروں سے کوئی تعاون نہیں کرتے۔ بے شک منشیات ایک ایسا اسلحہ ہے جسے استعماری قوتیں ملتِ اسلامیہ کو برباد کرنے، اسے کمزور کرنے اور اس کے افراد کو بیکار کرنے کے لیے استعمال کررہی ہیں۔ اس منشیاتی زہر نے یہی ایک گھرانا تباہ نہیں کیا بلکہ اس کے ذریعے نہ جانے کتنے گھر ویران ہوگئے اور کتنے خاندانوں کی زندگیاں تاریک ہوگئیں۔ مسلمانوں کو مل کر اس عظیم خطرے کا کوئی تدارک کرنا چاہیے۔
——