عجب اتفاق ہے

محمد فاروق قادری

اس دن جبار کو پہلی تنخواہ ملی تھی، اور تین سال کی صبر آزما بیکاری کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ وہ جب بی اے کے امتحان میں کامیاب ہوا تو اس نے سمجھا تھا کہ اب میری مالی پریشانیوں کا زمانہ گزرگیا ہے۔ اور اسے اب اپنی ضروریات کے لیے قرض نہیں مانگنا پڑے گا، اب وہ سفید لباس پہن سکے گا۔ اور فاقہ کشی کا خوف اس کے ذہن کو اپنی ہولناک گرفت میں نہیں لے سکے گا۔ مگر جب اس کو ایک سال تک چند ہزار روپے کی ملازمت بھی نہ مل سکی، تو اس کے تمام ہوائی قلعے مسمار ہوگئے اور اس کی امیدوں کے افق پر ستارے ٹمٹمانے لگے، اور زندگی اسے ایک بھیانک خواب دکھائی دینے لگی۔ تعلیم کے زمانے میں امید کی کرن، عسرت کی پریشانیوں میں ایک خوشگوار سہارا بن جاتی ہے۔ مگر بیکاری کی مایوسی کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔ پھر جب وہ تین سال تک دفتروں کی خاک چھانتا رہا اور ہر کمپنی اور ہر دکاندار کے پاس جاکر ملازمت کی بھیک مانگتا رہا، اور جب ہر جگہ سے اس کا دامن انکار کے لفظوں سے بھر دیا جاتا تو وہ شام کو گھر آکر اپنی بدقسمتی پر آنسو بہانے کے لیے مجبور ہوجاتا۔ کبھی وہ بی اے کی سند نکال کر دیکھتا۔ یہ سند اسے اب ایک بیکار کاغذ نظر آتا تھا۔ اگر اس میں اتنا اثر بھی نہیں کہ وہ پیٹ بھرنے کے لیے کوئی ملازمت دلاسکے تو اس سے بہتر تھا کہ بچپن سے ہی اخبار فروشی کرتا، تاکہ زندگی کی ضروریات پوری ہوسکتیں۔
لیکن ایک دن اس کو ملازمت مل گئی۔ اور اب اگرچہ وہ روزانہ دفتر جاتا تھا، مگر اس کا ذہن ہنوز اپنی بدقسمتی کے تصور کو محو نہ کرسکا۔ وہ اب بھی سمجھتا تھا کہ شاید یہ ملازمت بھی عارضی ہے۔ وہ پھر بیکار ہوجائے گا، لیکن جب مہینہ ختم ہونے پر تنخواہ اس کے ہاتھ میں آگئی تو وہ یقین کرنے پر مجبور ہوگیا کہ واقعی میں ملازم ہوچکا ہوں اور اس رقم کا میں بلاشرکتِ غیرے مالک ہوں۔ اس نے رقم کو احتیاط سے جیب میں رکھا اور دفتر سے باہر نکل آیا، آج وہ بس کے بجائے رکشا میں گھر جارہا تھا۔
بس اسٹینڈ کے چوراہے سے ذرا آگے دائیں ہاتھ پر ایک پرانے سامان کی نیلامی کی دکان تھی۔ وہاں مال نیلام ہورہا تھا، اور بیس تیس افراد کے ہجوم سے سڑک کا کچھ حصہ رکا ہوا تھا۔جبار نے دیکھا اور رکشا روک لیا۔
نیلام میں بہت سا سامان پڑا ہوا تھا، ریڈیو، سائیکل، فرنیچر، گھڑیاں وغیرہ۔ جبار کی نظر ایک کلاک پر پڑی، جس کا پینڈل دائیں بائیں گھوم کر اپنی زندگی اور صحت کا اعلان کررہا تھا۔ یکایک اسے خیال آیا، اس کے محلہ میں ایک نئی مسجد بنی تھی، وہاں کلاک کی ضرورت تھی۔ مسجد کے منتظم نے دو تین مرتبہ حاضرین سے درخواست بھی کی تھی، لیکن آبادی کیونکہ غریب مزدوروں پر مشتمل تھی، اس لیے کوئی ایسا نہ تھی، جو یہ ذمہ داری اٹھا سکتا۔ لہٰذا ابھی تک یہ درخواست قابلِ توجہ تھی۔
جہاں جبار رہتا تھا، وہ ایک نئی آبادی تھی اور ابھی تک وہاں کوئی مسجد نہ تھی۔ مقامی لوگ اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لیتے تھے۔ گزشتہ عید کے موقع پر سب نے اس ضرورت کو شدت سے محسوس کیا کہ یہاں ایک مسجد کا تعمیر ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ مخلص اور محنتی افراد نے اس کام کا ذمہ لیا۔ جنھوں نے ایک سال کی مسلسل جدوجہد سے مسجد تعمیر کرلی۔ آہستہ آہستہ پانی کے نل کا بندوبست بھی ہوگیا اور پھر بجلی بھی لگ گئی۔ یہ سارا کام چندہ کے ذریعے پوا ہورہا تھا۔ اور چندہ اب ختم ہوگیا تھا۔ لیکن کلاک کی ضرورت ابھی پوری نہ ہوئی تھی۔
مسجد کا منتظم، جبار کا دوست، علیم تھا۔ علیم ایک تعلیم یافتہ نوجوان تھا۔ اس نے دو سال قبل بی اے پاس کیا اور آج کل وہ اسسٹنٹ تھا، چونکہ وہ مسجد سے قریب رہتا تھا، اور اس کی دیانت، امانت اور محنت کا سکہ بیٹھا ہوا تھا، لہٰذا اہلِ محلہ نے مسجد کا انتظام اس کے سپرد کردیا۔ علیم نے بھی اپنے فرض کو پورے طور پر ادا کیا۔ اور مسجد ایک قلیل عرصے میں تیار ہوگئی۔
اس نے دو تین مرتبہ جبار سے بھی کلاک کی ضرورت کا ذکر کیا کہ اگر کوئی مخیر ہستی مل سکے، تویہ کام ہونا چاہیے۔ ورنہ پھر وہی چندہ جمع کرنے کا طریقہ اختیار کیا جائے۔
اور آج نیلام میں کلاک دیکھ کر، جبار کو مسجد کی ضرورت یاد آگئی۔ اس نے سوچا، اس پہلی تنخواہ سے کوئی نیک کام کرنا چاہیے، حالانکہ اس کے آفس کے دوستوں کا تقاضا یہ تھا کہ جب جبار کو پہلی تنخواہ ملے، تو ایک ٹی پارٹی اور پکچر کا پروگرام ہونا چاہیے۔ یہ دفتر کی رسم تھی، مگر جبار نے ان کو ٹال دیا تھا۔ وہ چند منٹ تک کھڑا نیلام کی کارروائی دیکھتا رہا۔ اور کلاک کے متعلق سوچتا رہا۔ ادھر کلاک کے نیلام کا نمبر بھی آگیا۔ ادھر جبار نے اس کے خریدنے کا فیصلہ کرلیا۔
بولی پچاس روپے سے شروع ہوئی اور ایک سو اسی روپے پر جبار کے نام ختم ہوگئی۔
وہ جب عشاء کی نماز کے لیے مسجد میں گیا، تو کلاک لیتا گیا۔ مسجد میں علیم اور دوسرے رفقا موجود تھے۔ جنھوں نے کلاک کو دیکھا۔ کلاک اچھی کوالٹی کا تھا۔ اور اس کی خصوصیت رولڈ گولڈ کا پینڈل تھا۔ جس پر ن اور ح دو حرف کندہ تھے۔ یہ حروف سب نے پڑھے۔ مگر سمجھ نہ سکے اور کلاک کو دیوارپر لگادیا گیا۔ سات ماہ گزرگئے۔ ساون کا مہینہ تھا اور اکثر بادلوں کا ہجوم رہتا تھا۔ کبھی کبھی برسات بھی ہوجاتی تھی۔ اتوار کا دن تھا۔ علیم اپنے مکان کے برآمدے میں آرام کرسی پر بیٹھا مطالعہ کررہا تھا۔ یکایک بادل چھاگئے۔ چاروں طرف اندھیرا ہوگیا اور موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔
اس برسات میں ایک برقع پوش عورت چلی آرہی تھی۔ بازار میں بارش سے بچنے کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ عورت نے مسجد کے دروازے میں پناہ لی۔ مگر بوچھاڑ اب بھی اس کے جسم پر پڑرہی تھی۔ وہ چند لمحے تک وہیں کھڑی رہی، مگر وہاں اس کے لیے کھڑا رہنا بھی دشوار تھا۔ مسجد کا دروازہ کھلے مقام کی نسبت زیادہ محفوظ نہ تھا۔ عورت نے اس سے بہتر جگہ کی تلاش کے لیے ادھر ادھر دیکھا، مگر کوئی جگہ نظر نہ آسکی، مسجد کا اندرونی دروازہ بند تھا، اور صحن میں پناہ کی کوئی جگہ نہ تھی۔
علیم نے عورت کو دیکھا، اور قریب جاکر پوچھا: ’’اگر آپ چاہیں تو مسجد کا دروازہ کھول دوں۔‘‘
برقع پوش عورت نے تین چار سیکنڈ تک غور کیا اور اثبات میں جواب دیا۔
علیم نے مسجد کا اندرونی دروازہ کھول دیا اور لائٹ آن کردی۔
عورت کے سارے کپڑے برسات کی وجہ سے بھیگ گئے تھے۔ علیم نے کہا:’’محترمہ میں باہر چلا جاتا ہوں، آپ دروازہ بند کرلیں اور برقع اتار کر کپڑوں سے پانی نچوڑ لیں۔ جب برسات تھم جائے، تو آپ تشریف لے جائیں۔‘‘
عورت خاموش رہی۔
پینتیس منٹ کی مسلسل برسات کے بعد مطلع صاف ہوگیا، اور سورج پھر نظر آنے لگا۔ علیم برآمدے سے اٹھ کر مسجد کے صحن میں آیا اور آواز دی: ’’محترمہ ! بارش ختم ہوگئی ہے۔ اب آپ کو گھر جانے میں دقت نہ ہوگی۔‘‘
عورت نے برقع اوڑھا اور صحن میں آگئی۔
’’بھائی جان میں آپ سے ایک بات پوچھ سکتی ہوں۔‘‘
’’فرمائیے۔‘‘ علیم نے جواب دیا۔
’’آپ بتاسکتے ہیں کہ یہ کلاک یہاں کیسے آیا؟‘‘
علیم یہ سوال سن کر ششدر رہ گیا۔ وہ جانتا تھا، کہ جبار نے یہ کلاک نیلام سے لیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ نیلام میں یہ کسی چور کے ذریعے پہنچا ہو۔
’’کیا آپ کو اس کے متعلق کچھ شبہ ہے؟‘‘ علیم نے سوال کیا۔
’’اگر آپ اس کے متعلق کچھ بتادیں تو شاید شبہ دور ہوجائے۔‘‘ عورت نے ایک لمبی سانس لے کر التجا کی۔
علیم نے سارا واقعہ بیان کردیا۔
عورت نے پھر سوال کیا :’’کیا اس کے پینڈل پر کوئی حروف کندہ ہیں؟‘‘
’’ہاں‘‘ علیم نے جواب دیا۔
’’کون سے حروف ہیں۔‘‘
’’ن اور ح‘‘
’’افسوس‘‘
عورت کے منہ سے یہ لفظ نکلا اور وہ اپنا سر دونوں ہاتھ سے پکڑ کر وہیں بیٹھ گئی۔
علیم حیران تھا کہ یہ کیا واقعہ ہے۔ وہ کسی قدر پریشان سا کھڑا ہوکر دیکھتا رہا۔ اس نے تشفی اور ہمدردی کے چند کلمات سے عورت کا غم دور کرنے کی کوشش کی۔ تھوڑے وقفے کے بعد عورت کھڑی ہوگئی۔
’’کیا آپ اس پریشانی کا سبب بتانا گوارا کریں گی؟‘‘ علیم نے مجسم سوال بن کر پوچھا
برقع میں ملبوس عورت کی سسکیوں کی آواز میں تخفیف ہوئی۔ اس نے کہا: ’’بھائی جان یہ گھڑی میری ہے۔ میرے والدین نے مجھے یہ میری شادی کے موقع پر دی تھی۔ اس واقعہ کو دس سال گزرچکے ہیں۔ اس وقت ہم بڑودہ میں رہتے تھے۔ مجھے تعجب ہے کہ یہاں کیسے پہنچ گئی۔‘‘
’’لیکن ان حروف کا کیا مطلب ہے۔ جو اس کے پینڈل پر کنندہ ہیں۔‘‘ علیم نے پوچھا۔
’’ن‘‘ نجمہ میرا نام ہے اور ’’ح‘‘ حسن میرے شوہر کا نام تھا۔‘‘
عورت نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔
’’کیا آپ کے شوہر فوت ہوچکے ہیں۔‘‘
ان کے متعلق بھی میں کچھ نہیں جانتی، شہید ہوچکے ہیں یا زندہ ہیں۔‘‘ عورت مسجد کے صحن میں فرش پر بیٹھ گئی۔ شدتِ غم نے اس کے اعصاب کو پژمردہ کردیا تھا۔ تھوڑے فاصلے پر علیم بھی بیٹھ گیا۔ عورت نے سلسلہ کلام جاری رکھا۔
’’گودھرا سانحے کے بعد پورے گجرات میں فسادات بھڑکادیے گئے تھے۔ میں اپنے میکے آئی ہوئی تھی اور میرے شوہر اپنے گھر پر تھے۔ تمام حفاظتی تدابیر کے باوجود ایک دن بلوائیوں نے ہمارے مکان پر حملہ کردیا۔ میری آنکھوں کے سامنے میری پیاری ماں اور مشفق باپ کو نہایت سنگدلی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔‘‘
الفاظ عورت کے حلق میں اٹک اٹک جاتے تھے۔ اس کی آواز میں انحطاط تھا۔
علیم کی آنکھیں بھی اشکوں کا بوجھ نہ اٹھا سکیں۔ ایک لمحہ سانس لینے کے بعد عورت نے پھر کہنا شروع کیا:
’’میرے جوان بھائی نے خالی ہاتھوں سے بھی ان کا مقابلہ کیا۔ مگر ایک خونخوار نے پیچھے سے تلوار کا ایسازور دار ہاتھ مارا کہ اس کی گردن گیند کی طرح لٹک گئی۔ میں یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ میرے سامنے عزیزوں کو خون میں غسل دے دیا گیا۔ ننھے ننھے بچے بڑی بے رحمی سے قتل کردیے گئے اور انسانوں کو، جانوروں سے بھی زیادہ ظالمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ لاشیں میرے سامنے تڑپ رہی تھیں، اس منظر نے میرے حواس معطل کردیے، قریب تھا کہ میں بے ہوش ہوجاؤں کہ ایک سکھ نے میری گردن پر تلوار ماری جو ڈیڑھ انچ تک گہری چلی گئی، تلوار کند تھی، پورا کام نہ کرسکی اور میں صرف بیہوش ہوکر گر پڑی۔ دو روز تک میں اسی حالت میں پڑی رہی، اتفاق سے بارش بھی شروع ہوگئی اور شہیدوں کا خون اپنے ساتھ لے گئی۔ تیسرے دن ایک ملٹری کنوائے نے مجھے اٹھایا تو میرے حواس کسی قدر درست ہوئے۔ لاشیں اب تک پڑی ہوئی تھیں، اور زبانِ حال سے دھرم کے ٹھیکے داروں کی اَدھرمی کا اعلان کررہی تھیں۔ میں نے اپنی گردن پر ہاتھ لگایا۔ زخم زیادہ گہرا نہ تھا، ملٹری والوں نے میری مرہم پٹی کی اور مجھے پاکستان بھیج دیا۔‘‘
’’کیا ابھی تک آپ کے شوہر کا کوئی پتہ نہیں مل سکا۔‘‘ علیم نے پوچھا۔
’’بہت تلاش کیا، مگر کوئی خبر نہیں مل سکی۔ اغلب یہی ہے کہ وہ بھی شہید کردیے گئے، ورنہ ان کی کوئی خبر ضرور ملتی۔‘‘
’’اگر یہ گھڑی آپ کی ہے، تو آپ اسے بخوشی لے جاسکتی ہیں۔‘‘
’’نہیں مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ یہ خانۂ خدا کے لیے وقف ہے۔‘‘ عورت اپنا پتہ دے کر چلی گئی۔
اس واقعہ کو مشکل سے تین ماہ گزرے تھے کہ جمعہ کی نماز سے فارغ ہوکر، ایک اجنبی نے علیم سے مصافحہ کیا، اجنبی کا لباس پرتکلف نہ تھا، لیکن اس کے خدوخال، حرکات و سکنات اور گفت و شنید سے شائستگی کا مظاہرہ ہوتا تھا۔
اجنبی، علیم کو مصافحہ میں ہی لے کر مسجد کے اندر آگیا۔ وہ سامنے دیوار پر لگی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا، علیم کے ذہن میں فوراً کسی نئے واقعہ کا احساس پیدا ہوا۔ اجنبی نے سوال کیا :’’کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ یہ گھڑی یہاں کیسے آئی؟‘‘
دوسری مرتبہ علیم یہ سوال سن رہا تھا۔ اس نے جواباً پوچھا: ’’آپ کے سوال کا جواب دینے سے پیشتر میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کو اس گھڑی سے دلچسپی کیوں ہے؟‘‘
’’اگر آپ مجھے اس کے متعلق تھوڑی سی معلومات بھی بہم پہنچادیں، تو شاید میں اپنا خیال ظاہر کرسکوں۔‘‘
اجنبی نے استفسار کیا۔
’’یہ ایک گھڑی ہے جو چند ماہ پیشتر ایک نیلام سے خریدی گئی تھی۔ اس کا پینڈل جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں، رولڈ گولڈ کاہے، اور یہ اپنے سینہ پر ن اور ح دو حروف رکھتا ہے۔یہ تو ہے۔ دو جملوں میں اس گھڑی کی تعریف، لیکن اگر آپ اپنی دلچسپی پر تھوڑی سی روشنی ڈالیں تو شاید میں اس کے متعلق بالتفصیل کچھ معلومات مہیا کرسکوں۔‘‘
ن اور ح کا نام سن کر اجنبی کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ چہرے کی لکیروں میں حسرت ویاس کا اثر ابھرنے لگا۔ اس نے ضبط کرتے ہوئے گلوگیر آواز میں کہا:
’’اگر اس کے پینڈل پر ن اور ح کے حروف کندہ ہیں تو یقینا یہ وہی گھڑی ہے اور اس کے ساتھ میری دلچسپی، میری زندگی کا ایک اہم حادثہ ہے۔‘‘
’’وہ کیونکر؟‘‘ علیم کا اشتیاق بڑھتا جارہا تھا۔
’’یہ گھڑی میری شادی کی یادگارہے۔ جو میری بیوی کو اس کے والدین نے دی تھی۔ ن سے مطلب نجمہ ہے جو میری بیوی کا نام تھا اور ح سے مراد حسن، خود میرا نام ہے۔ گودھرا ٹرین جلائے جانے کے وقت میری بیوی بڑودہ میں تھی اور میں اپنے گاؤں سے جو وہاں سے کچھ ہی دور تھا۔‘‘ اجنبی نے خشک حلق کو تر کرنے کے لیے تھوک نگلا اور تھوڑے توقف کے بعد پھر سلسلہ کلام جاری کیا ’’ہم کئی روز تک اپنے گھروں میں بند پڑے رہے۔ ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم تھا۔ اور فرار کی تمام راہیں بند تھیں، آخر ایک دن بچ بچا کر میں باہر نکلا اور سب سے پہلے نجمہ کے گھر گیا۔ وہاں جاکر جو کچھ میں نے دیکھا اسے بیان نہیں کرسکتا۔ صحن میں لاشیں پڑی سڑ رہی تھیں اور زخموں میں لمبے لمبے کیڑے رینگ رہے تھے۔ میں اس منظر کی تاب نہ لاسکا اور واپس آگیا۔ ظاہر ہے کہ سفاک ہاتھوں نے معصوم نجمہ کو بھی شہید کردیا ہوگا۔ کیونکہ آج تک مجھے اس کی کوئی اطلاع نہیں مل سکی۔‘‘
علیم توجہ سے سب کچھ سن رہا تھا، وہ حقیقت کو سمجھ گیا۔ اجنبی نے پھر پوچھا:
’’لیکن مجھے تعجب ہے کہ یہ گھڑی یہاں کیسے پہنچ گئی۔‘‘
’’آپ صرف اس پر حیران ہیں کہ اگر آپ کو نجمہ بھی مل جائے تو کیا آپ اتنی بڑی مسرت کو برداشت کرسکیں گے۔‘‘ علیم نے کہا۔
اجنبی حیران تھا، علیم نے سارا واقعہ بیان کردیا۔حسن کے چہرے کا رنگ کھلنے لگا، اس نے فرطِ مسرت سے گھبرا کر پوچھا ’’تو کیا نجمہ ابھی زندہ ہے؟‘‘
’’جی ہاں، بلکہ آپ ان سے مل بھی سکتے ہیں۔‘‘
علیم نے حسن کو نجمہ کے گھر کا پتا دے دیا اور اس طرح وہ دو مہاجر حرمان نصیب روحیں صرف ایک گھڑی کی بدولت دوبارہ مل گئیں۔ کیا یہ جبار کے خلوصِ قلب کا نتیجہ تھا یا علیم کی محنت کا اثر؟
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146