سائنس داں اورماہرین ماحولیات گلوبل وارمنگ کو کئی عشرے سے قبل زمین اور اس پر بسنے والے تمام جانداروں کے لیے خطرہ قرار دے چکے ہیں۔ اس ضمن میں متعدد سائنسی تحقیق اور مطالعات میں بتایا گیا کہ زمین کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت ایسے عوامل کو جنم دے گا جو بنی نوعِ انسان اور نباتات و حیوانات کو بہ تدریج معدومیت کی طرف دھکیل دیں گے۔ ماہرین ماحولیات اور سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زمینی درجۂ حرارت میں اضافے کے ساتھ ساتھ سطح سمندر بلند ہوتی چلی جائے گی۔ نتیجتاً ساحلی علاقے غرقاب ہوجائیں گے۔ علاوہ ازیں موسمی تغیرات رونما ہوں گے جن کے سبب نباتات اور حیوانات کے مسکن ان کے لیے غیر موزوں ہوجائیں گے اور ان کی بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔ جیسے جیسے گلوبل وارمنگ کے اثرات پر تحقیق کا سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے ویسے ویسے نت نئے انکشافات ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں یہ تشویش ناک بات سامنے آئی ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے مختلف فصلیں زہریلی ہوتی جا رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ زہریلی فصلیں انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب کریں گی۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ گندم اور مکئی جیسی بنیادی غذاؤں میں ان کیمیائی مرکباب کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے جو ہماری صحت کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان کے استعمال سے انسان مختلف امراض اور طبی پیچیدگیوں کا شکار ہو سکتا ہے۔ ان بیماریوں کے باعث دنیا بھر میں اموات کی شرح میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
فصلیں زہریلی کیوں ہو رہی ہیں؟ اس کی وجہ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے کی چیف سائنٹسٹ جیکولین مک گلیڈ بیان کرتی ہیں۔ ان کے مطابق گندم اور مکئی کے بیجوں میں زہریلے مرکبات کی بڑھتی ہوئی مقدار کا سبب پودوں کا شدید موسم سے خود کو تحفظ دینے کا عمل ہے۔ خشک سالی جیسی صورت حال اور بلند درجہ حرارت میں پودے دباؤ میں آجاتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے انسان ناموافق حالات میں دباؤ محسوس کرتا ہے۔ پودوں کی جڑیں جو نائٹریٹس یا نمکیات جذب کرتی ہیں، عام حالات میں پودے انہیں صحت بخش امائنو ایسڈ اور لحمیات میں تبدیل کرتے ہیں۔تاہم طویل خشک سالی اور بلند درجہ حرارت کے باعث نائٹریٹس کی امائنو ایسڈ میں تبدیلی کا عمل سست رفتار ہو جاتا ہے یا بالکل رک جاتا ہے۔ دوسری جانب جڑوں میں عمل انجذاب اسی طرح جاری رہتا ہے۔ نتیجتاً پودے میں نمکیات کا تناسب بڑھتا چلا جاتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر خوراک میں نائٹریٹ زیادہ مقدار میں شامل ہو اور جزو بدن بنتا رہے تو یہ خون کے سرخ خلیوں کی جسم کو آکسیجن فراہم کرنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہونے لگتا ہے۔
محققین کے مطابق گندم اور مکئی کے علاوہ جو، سویا بین، باجرا اور جوار میں بھی شدید موسمی حالات کے تحت نائٹریٹس کی امائنو ایسڈ میں تبدیلی کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں طویل خشک سالی کے بعد اگر شدید بارش ہو تو پھر قلت آب کی شکار کچھ فصلیں تیزی سے نمو پاتی ہیں۔ طویل پیاس کے بعد یکایک ڈھیروں پانی میسر آنے کی وجہ سے ان فصلوں میں ہائیڈروجن سائنائیڈ پیدا ہونے لگتا ہے۔ ہائیڈروجن سائنائیڈ ایک تیزاب ہے جسے کیمیا دانوں نے پروسک ایسڈ کا نام دیا ہے۔ یہ تیزاب کیمیائی ہتھیاروں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور انسانی جسم میں آکسیجن کے بہاؤ کو متاثر کرتا ہے۔ اس کا کم مقدار میں استعمال بھی انسانی جسم کو ناتواں بنا دیتا ہے۔ مکئی، جوار اور کساوا (جزائر غرب الہند کا خوردنی پودا) میں اس خطرناک مرکب کی پیدائش کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
نائٹریٹ اور ہائیڈروجن سائنائیڈ سے انسانوں کے متاثر ہونے کے واقعات 2005 میں فلپائن اور 2013 میں کینیا میں رپورٹ ہوئے تھے۔ کینیا کے ساحلی علاقے کلیفی میں دو بچے کساوا کی جڑیں کھانے کے بعد موت کا شکار ہوگئے تھے۔ بعد ازاں تحقیقات کے دوران پتا چلا تھا کہ طویل خشک سالی کے بعد ہونے والی موسلا دھار بارش کی وجہ سے کساوا کی فصل میں پروسک ایسڈ کی مقدار بڑھ گئی تھی۔
ایفلوٹوکسن، پھپھوند کی صورت میں نمو پانے والا زہریلا مادہ ہے جس کی وجہ سے انسانوں میں خرابی جگر، سرطان، اور اندھے پن میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ مرکب غذائی فصلوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ سائنس داں کہتے ہیں کہ موسمی تغیرات کے ساتھ ساتھ یہ مادہ وسیع تر علاقے میں پایا جانے لگا ہے۔ میک گلیڈ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں سالانہ ساڑھے چار ارب افراد کے جسم میں کسی نہ کسی ذریعے سے ایفلوٹوکسن پہنچ جاتا ہے۔
2004میں کینیا میں طویل خشک سالی کے بعد ہونے والی شدید بارش کے بعد تین سو افراد زہر خورانی کا شکار ہوگئے تھے۔ ان میں سے سو سے زائد موت کے منہ میں چلے گئے۔ انٹرنیشنل لائیو اسٹاک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے بڑی تعداد میں اموات کا سبب جاننے کے لیے تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ ہلاک ہونے والے تمام افراد کے جسموں میں ایفلوٹوکسن کی بڑی مقدار موجود تھی۔
اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر درجہ حرارت میں تین درجے تک اضافہ ہوسکتا ہے، اس کے نتیجے میں غذائی فصلیں زہریلی ہوجائیں گی اور دنیا میں خوراک کا بحران شدید صورت اختیار کرجائے گا۔ اس سے انسانوں کو بچانے کے لیے ماہرین زراعت ایسی فصلیں تیار کرنے پر زور دے رہے ہیں جو ماحولیاتی حدت کو برداشت کرسکتی ہوں۔ غذا اور زراعت سے متعلق ماہرین کی برسوں کی سائنسی تحقیق اور تجربات کے بعد دنیا نئی اقسام کی سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار حاصل کرنے میں کام یاب ہے۔ ماہرین کی کوشش ہے کہ ایسی فصلیں لگائی جائیں جو غذائی ضروریات پوری کرنے اور صحت بخش ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی اثرات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے کسی بھی قسم کے مضر اجزا سے پاک ہوں۔lll