قصور وار

عرفانہ تزئین شبنم

گاڑی کی دور ہوتی ہوئی آواز کے ساتھ ہی ایک بے نام سی الجھن میرے اندر جاگ اٹھی۔ کل میرے عزیز ترین دوست کی منگنی کی تقریب ہے جس میں بقول اس کے، میری شرکت لازمی ہے لیکن میں وہاں نہیں جانا چاہتا تھا۔ جب سے اس کی منگنی کی بات چلی تھی، یہ معاملہ ہمارے درمیان کتنی ہی مرتبہ زیرِبحث آچکا تھا لیکن آج کم بخت نے اپنی دوستی کی قسم دے کر مجھے قائل کر ہی لیا اور اپنی بات منوا کر ابھی ابھی وہ یہاں سے گیا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کل کس منہ سے شمائلہ کا سامنا کروں گا جو وہاں ضرور آئے گی۔
شمائلہ…
جو ناگاہ میرے در سے اٹھا دی گئی!
بے تقصیر جسے میں نے ٹھکرا دیا … صرف اس لیے کہ وہ میرے معیار حسن پر پوری نہ اتر سکی تھی، میں حسن پرست جو تھا۔
خوبصورت اشیاء، خوبصورت مناظر اور خوبصورت چہرے ہمیشہ سے میری کمزوری رہے ہیں۔ جہاں کہیں کوئی خوبصورت شے نظروں کی گرفت میں آئے، میں اسے خرید لاتا ہوں۔ جب بھی فرصت کے لمحات میسر آتے ہیں میں خوبصورت وادیوں اور ساحلی علاقوں کی طرف نکل جاتا ہوں، راہ چلتے کتنے ہی چہرے میرے قدم روک لیتے ہیں اور میں بغیر کسی آشنائی کے بے محابا ان سے گفتگو کے بہانے ڈھونڈتا ہوں جس میں اکثر مجھے کامیابی ملتی ہے کہ خود میری شخصیت میں وہ سحر ہے جو مخالف کو خود بخود تسخیر کرلیتاہے۔
’’کھانا لگا دیا ہے کھا لیجئے ۔‘‘ اپنی بیوی کی آواز پر میں چونک گیا۔ اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں بلکہ اکثر جھکی رہتی ہیں۔ چہرے پر ہمہ وقت خوف کی پر چھائیں شاید مجھ سے خوفزدہ رہتی تھی وہ۔
کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے نا کہ جس چیز کا ہمیں بڑا مان ہوتا ہے وہی ہمیں زیر کر دیتی ہے۔ جس کا ایک ہی وار ہمیں آسودگی اور انا کے حصار سے نکال کر اضطراب کے کانٹوں میں دھکیل دیتا ہے۔
میرے بچپن ہی میں بابا فوت ہو چکے تھے اور جب میں جوانی کی حدود میں داخل ہوا تو اماں بھی انتقال کرگئیں۔ یوں میری شادی کی ذمہ داری کو خالہ نے اپنا حق سمجھا۔ شمائلہ ایاز کی کزن تھی۔ ایاز میرے بچپن کا یار، میرے دکھ سکھ کا ساتھی۔ میرا زیادہ تر وقت اس کے ساتھ ہی گزرتا تھا۔ وہ اکثرا یاز کے گھر آتی تھی۔ اس کے باوجود میں اسے نہیں دیکھ پایا تھا۔ ہاں کبھی اچانک کسی ضرورت کے تحت میں کمرے سے باہر آتا تو وہ بدحواسی میں دوسرے کمرے کی جانب دوڑتی نظر آئی۔ مجھے بس اس کی پشت پربکھرے سیاہ خوبصورت بال نظر آتے جنہیں میں شوق سے دیکھتا۔ یا پھر چائے دینے دروازے پر آتی تو پردے کے پیچھے سے اس کے پازیب سے سجے گورے پیر نظر آتے یا کبھی کھڑکی سے رنگین آنچللہراتا۔ بہر حال میں اس کا چہرہ نہیں دیکھ پایا تھا۔ خالہ نے شمائلہ کو میرے لیے منتخب کر لیا۔
میری نظریں ایک حسین ساحرہ کی منتظر تھیں جو پہلی نظر میں مجھے اپنے حسن کا والہ و شید ا بنا دیتی۔
شب عروس مجھ پر بہت بھاری تھی۔ میں نے ہزاروں ارمانوں کے ساتھ وارفتہ انداز میں شمائلہ کا گھونگھٹ الٹا تو میرے اندر چھنا کا سا ہوا۔ اگلے ہی پل،جھٹکے کے ساتھ گھونگھٹ چھوڑ کر میں پیچھے ہٹ آیا۔ کتنی ہی دیر میں گنگ سا کھڑا رہا اور وہ پاگلوں کی طرح بنا کسی جنبش کے ویسے ہی بیٹھی رہی اورمیں سامنے پڑے صوفے پر بیٹھ گیا۔
’’سنو شمائلہ احسان! تم میرے معیار حسن پر پوری نہ اتر سکیں اور میں زندگی میں کبھی سمجھوتے کا قائل نہیں رہا۔ تم سمجھدار ہو خود سمجھ سکتی ہو۔ مجھے معاف کرنا۔‘‘
وہ شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر اپنے ہاتھوں سے گھونگھٹ اٹھا کر میری طرف دیکھنے لگی جیسے اسے میری آواز پر شبہ ہو۔ اس کی آنکھوں میں زمانہ بھر کی حیرتیں اور بے یقینی سمٹی ہوئی تھی۔’’پلیز میں مجبور ہوں، زندگی بار بار نہیں ملتی۔ وہ جسے ہم پسند نہیں کرتے اس کا پوری زندگی ساتھ رہنا تلخیوں کو جنم دیتا ہے۔ میرے نزدیک حسن کی بہت اہمیت ہے اور میں زندگی کے ہر پل کو حسین بنانا چاہتا ہوں۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا میں تمہیں بہت جلد آزاد کردوں گا خدا کرے تمہیں تمہارا سچا قدردان مل جائے۔‘‘
اپنی طرف سے گویا اس پر احسان کرتے ہوئے میں بڑے جذباتی انداز میں کہتا ہوا اٹھ کر ملحقہ کمرے میں چلا آیا۔ مجھے نہیں پتہ وہ رات اس پر کسی طرح گزری۔ شادی کے تیسرے دن کسی سے کچھ کہے سنے بغیر میں الٰہ آباد لوٹ آیا۔ مصروفیات ویسی ہی تھیں۔ لگتا ہی نہ تھا کہ میری شادی ہوچکی ہے۔ آتے ہی یار دوستوں نے ہلکے پھلکے مذاق کا نشانہ بنایا۔ میں جو اتنی جلدی لوٹ آیا تھا۔
ایک ماہ کا عرصہ بیت گیا۔ میں سب کچھ بھلا دینا چاہتا تھا، تا ہم شمائلہ کا خیال مجھے پریشان کرنے لگتا۔ انجام ابھی باقی تھا۔ آناً فاناً طلاق کے کاغذات تیار کرواکے مختصر خط کے ساتھ شمائلہ کے نام لفافہ پوسٹ کردیا۔ اس کے بعد کے حالات سے میں بے خبر رہا ہوں کہ اس کے بعد میں پھر واپس لوٹ کر گھر نہیں گیا۔ اور وہاں تھا بھی کون، جو میں گھر لوٹتا۔ شمائلہ کو تو میں آزاد کر چکا تھا اور خالہ کا سامنا کرنے کی ہمت مجھ میں نہ تھی۔
انہی دنوں جب میں مایوس و دلگرفتہ سا اپنی شادی کو ایک برا خواب سمجھ کر بھولنے کی کوشش میں تھا کہ سعدیہ مجھ سے آن ملی اور میرے حواسوں پر چھا گئی۔ کچھ اس طرح کہ میں اپنا آپ بھولنے لگا۔ وہ میرا مکمل تصور تھی۔ سیاہ ریشمی زلفیں جس میں ساری دنیا سے چھپ کر آرام کرنے کو دل چاہتا ہے۔ نیلی سمندر جیسی آنکھیں، گلاب بکھیرتے مخملیں رخسار اور جب اس کے گلابی تراشیدہ لبوں سے میرا نام پھسلتا تو میرے اندر تک شہد آگیں احساس اتر جاتا۔
’’احراز…..!‘‘
’’کہو جانِ احراز…..‘‘
’’کتنا قلیل عرصہ ہوا ہے، ہمیں ایک دوسرے سے ملے ہوئے اور ہم اتنے قریب کیسے آگئے…. ؟‘‘
’’یہ تم اپنے دل سے پوچھو….!‘‘
’’تمہارے دل سے کیوں نہیں؟‘‘
’’اس لیے کہ میرا دل بھی تمہاری دسترس میں ہے۔‘‘اور ایک خوبصورت ہنسی کی جھنکار دور تک پھیل جاتی۔
وہ میری پہلی شادی سے بے خبر تھی۔ بہت کوشش کے بعد بھی میں اسے یہ بات بتانے میں ناکام رہا۔ وہ جو میری اولین چاہت تھی۔ پہلی تمنا تھی۔ اس کے چھن جانے کا ڈر غالب تھا۔ دل جو مدتوں سے اس مورت کا آرزومند رہا، تصور کی دنیا جس کے دم سے آباد تھی اور ایک عرصہ جس کی جستجو میں بھٹکتا رہا اس کے کھو دینے کا احساس ہی میرے لیے روح فرسا تھا۔ سعدیہ سے شادی کے بعد تو میں اپنے آپ سے بھی بیگانہ ہو چلا تھا۔ اس عرصہ میں شمائلہ کا خیال ایک پل کے لیے بھی میرے قریب نہیں آیا۔
خالہ کہتی تھیں کہ خاموش جذبوں کی طرح فریادیں بھی بہت اثر رکھتی ہیں۔ بددعا رائیگاں جاسکتی ہے لیکن دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والی ہوک، اندر ہی اندر اٹھتی بے آواز آہیں اور دل پر گرنے والے آنسو مخالف کی زندگی کو عذاب بنا دیتے ہیں اور پھر میں نے تو دیدہ و دانستہ جرم کیا تھا۔ جو پھول میرے اوپر کھلے تھے، جن کی خوشبو ہمک ہمک کر مجھے بلاتی رہی، انہیں میں نے ڈالی سے جدا کر کے پھینک دیا تھا اور پلٹ کر خبر نہ لی کہ وہ کس سیج کی زینت بنے، کس نے انہیں سمیٹا اور اپنی زندگی سجالی یا پھر وہ مزاروں پر چڑھ گئے۔
میرے دل نے کبھی مجھے جھکنے نہیں دیا۔ میں شمائلہ کا مجرم نہیں ہوں۔ آخر میں نے جو بھی فیصلہ کیا تھا دل کے پیش نظر ہی تو کیا تھا کہ میرا دل پُر عذاب لمحوں سے بچا رہے، زندگی پوری رعنائیوں سمیت لطف لے، دھڑکنیں آخری سانسوں تک آسودگی پر تھرکتی رہیں۔ یوں دل میرے معاملے میں ہمیشہ جانبدار ہی رہا لیکن شادی کے دس ماہ بعد جب میں سعدیہ کی محبت میں پورا پورا ڈوب چکا تھا، اس کی چاہت اس کے حسن و رعنائیوں سمیت میری نس نس میں لہو بن کر دوڑنے لگی۔ وقت کے ایک ہی وار نے مجھے پسپا کر دیا۔
میرے تصور کی خوش رنگ تتلیوں سے بھری ایک خوبصورت شام جب میں سعدیہ کی ہم سفری میں زندگی کے حسین ترین لمحوں کو جاوداں کر کے واپس لوٹ رہا تھا، ہماری گاڑی ایک بھیانک حادثے کا شکار ہو گئی۔ حادثوں سے بچ نکلنا خوش بختی کی علامت ہوتی ہے ہم دونوں بھی بچ نکلے تھے لیکن یہ خوش بختی ہمارے دلوں کو ناآسودہ کر گئی۔ سعدیہ کا چہرہ عجیب ہیئت اختیار کر چکا تھا۔ گلابی رخسار پھٹ گئے تھے، ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ جس سے چہرہ بھیانک لگنے لگا تھا۔ مہینوں علاج کے باوجود وہ خوبصورتی لوٹ کرنہیں آئی جس نے مجھے تسخیر کیا تھا۔ خود میرے جسم پر بے شمار خراشیں اور چوٹیں آئی تھیں۔ دنیا مجھے ادھوری لگنے لگی ہے۔
اب سعدیہ کی طرف دیکھتے ہوئے میرے دل میں درد کی لہریں اٹھتی ہیں۔ عجیب سا احساس کانٹا بن کر اذیت دینے لگتا ہے۔ کیا اب عمر بھر یہی چہرہ میرے ساتھ رہے گا اور پھر اس سے بچھڑنا بھی تو میرے اختیار میں نہیں رہا۔ کیا چیز ہے جو مجھے اس سے دور ہونے نہیں دیتی؟ میں کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوں۔ اس لیے الجھن نے مجھے ہر رنگین جذبے سے عاری کر دیا ہے۔ سعدیہ مجھ سے خوف کھانے لگی ہے کہ کہیں میں اس سے دامن نہ چھڑالوں۔
نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے اپنے دوست کی منگنی میں شریک ہونا پڑا۔ موہوم سی امید تھی کہ کسی ناگزیر وجہ کی بنا پر شمائلہ نے منگنی میں شرکت نہ کی ہو۔ لیکن وہ موجود تھی۔ ایک بے حد پیارے گول مٹول سے بچے کو گود میں لیے وہ ایک اونچے لمبے مرد کے ساتھ کھڑی تھی۔ جو مردانہ وجاہت کا شاہکار تھا۔ کتنے ہی لمحے میں مبہوت و ششدر سا کھڑا رہا۔ یہ شمائلہ احسان ؟ اتنی خوبصورت کہاں تھی پہلے ؟
یہ نکھار…..!
یہ کشش……!!
چہرے کے ہر زاویے سے پھوٹتی روشنی کی لکیریں۔
پھولوں جیسی شگفتگی
یہ سب کہاں سے سمٹ آیا تھا اس میں؟ شب عروس کچھ لمحوں کے لیے میں نے اسے دیکھا تھا تو وہ ایسی نہ تھی اور اب …..
ایک ہی لمحہ میں اس کا ضوفشاں حسن میری آنکھوں کو چندھیا گیا ہے۔ شاید محبتیں انسان کو ایسے میں خوبصورت بنا دیتی ہیں۔ شاید اس نے مجھے دیکھ لیا تھا اب وہ میری طرف آرہی تھی۔
’’ کیسی ہیں آپ؟‘‘ میری زبان سے بمشکل الفاظ نکلے۔
’’بہت خوش۔‘‘ اس کا لہجہ سرشار تھا۔
’’یہ…… آپکا۔‘‘
’’ہاں! میرا بیٹا ہے اور ابھی تھوڑی دیر پہلے جس کے ساتھ میں کھڑی تھی وہی میرے شوہر ہیں۔‘‘
واقعی سچی محبت اور خوشیوں نے اسے نکھار دیا تھا۔
’’اپنی سنائیے آپ کیسے ہیں؟‘‘
’’میں …..میں ٹھیک ہوں۔‘‘
’’ ٹھیک کیسے ہوں گے احراز احمد ؟‘‘ اچانک ہی اس کا لہجہ تلخ ہو گیا۔’’ایاز بھائی کے ذریعے آپ کے متعلق سب کچھ جان چکی ہوں میں۔‘‘
’’ شمائلہ ……..میں آپ کا قصور وار ہوں شرمندہ ہوں ، آپ سے کہ…..‘‘
’’ نہیں احراز احمد…… آپ اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ آپ جیسے کتنے لوگ ہیں جو عارضی خوشیوں اور ظاہری چیزوں پر مرمٹتے ہیں۔ یہی انجام ہوتا ہے ان کا۔ مجھے آپ سے کوئی شکوہ نہیں کہ آپ انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ بقول آپ کے مجھے میرا سچا قدر دان مل گیا۔ میری زندگی میں بہار ہی بہار ہے۔ اصل رشتے تو دلوں کے ہوتے ہیں احراز صاحب! جو لوگ اس رشتے کی معراج پالیتے ہیں وہ نام و نمود اور ظاہری خوبصورتی جیسی عارضی باتوں سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ انسانیت، خوب سیرتی، بلند کردار اور اعلیٰ اخلاق ہی انسان کو ازلی سکون سے نوازتے ہیں اور زندگی میں سچی خوشیاں بھر کر اسے جنت بنا دیتے ہیں۔ اگر سعدیہ میں یہ صفات ہیں تو اس کی ظاہری شکل و صورت کو نظر انداز کر کے اس کے سچے قدر دان بن جایئے۔ یہی آپ کی سدا بہار زندگی کی ضامن ہے۔ جس چیز کو آپ نے معیار حسن کہا تھا وہ تو بس ایک چلمن ہے۔ اسے اٹھا کر دیکھئے کہ اصلی خوبصورتی یا بد صورتی تو اندر چھپی ہوئی ہے۔‘‘
شمائلہ کہہ رہی تھی….. اس کی دل کو چھو لینے والی آواز…… سمجھانے کا دلنشین انداز….. !!
پچھتاوے کا ایک آتشیں دریا تھا جسے عبور کرکےمجھے سعدیہ تک پہنچنا تھا۔ll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں