پلکوں کو گہر دل کے پرونے نہیں دیتا
جگنو تمہاری یاد کا سونے نہیں دیتا
دشمن ہی کہو اس کو مسیحا نہ کہو تم
اچھا دلِ بسمل کو جو ہونے نہیں دیتا
آنکھوں میں سمو لیتا ہوں اشکوں کا سمندر
ظاہر غم و آلام کو ہونے نہیں دیتا
ہر غم کو مسکرا کے اٹھاتا ہے دل مرا
رونا بھی اگر چاہوں تو رونے نہیں دیتا
یادوں کا اک ہجوم ہے فرقانؔ دل کے پاس
جو مجھ کو کبھی چین سے سونے نہیں دیتا