غصہ انسانی شخصیت کی بنیادی خامی

ڈاکٹر محمد وسیم اکبر شیخ

یہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض لوگوں کا غصہ ہر وقت ناک پر دھرا رہتا ہے چنانچہ دوست، بچے، بیوی، پڑوسی، بہن، بھائی، نوکر چاکر سب ان کے زیرِ عتاب رہتے ہیں۔ ایسے لوگ بات بات پر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ گالی گلوچ، الزام تراشی، لڑائی جھگڑا اور دھمکیاں دینا ان کا روز مرہ کا معمول بن جاتا ہے، بالآخر وہ گھر، دفتر اور محلے میں اجنبی بن جاتے ہیں۔ کیونکہ گھر میں ان کی غیظ و غضب بھری حالت دوسروں کو ان کے قریب آنے اور حالِ دل کہنے سے باز رکھتی ہے۔
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے افراد معاشرے سے کٹ کر اپنی ضد اور انا کی دنیا میں محدود ہوجاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ ذہنی سکون اور دلی خوشی و اطمینان کو ساری زندگی ترستے رہتے ہیں کیونکہ ان کے اکھڑ مزاج، طنز و طعنوں بھرے جملوں، حجت بازی، بات بات پر نکتہ چینی، شکی مزاج اور خود پرست ہونے کی وجہ سے عام لوگ ان کے ساتھ بیٹھنےسے گریز کرتے ہیں۔
ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ غصہ ایک نفسیاتی کیفیت کا نام ہے جو احساسِ کمتری اور اپنی شخصیت پر عدمِ اعتماد کی واضح علامت ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بہت سی جسمانی بیماریاں مثلاً بلد فشارِ خون، دل کا دورہ، ذیابیطس، اضمحلال وغیرہ ذہنی پریشانیوں اور غصے کی عادت کی وجہ سے لاحق ہوتی ہیں۔
غصے کی حالت میں چونکہ انسان معمول پر نہیں رہتا اور اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں وقتی طور پر مفقود ہوجاتی ہیں اس لیے اندیشہ ہوتا ہے کہ ایسا شخص خود کشی نہ کرلے۔ کہتے ہیں کہ غصہ جہالت سے شروع ہوکر ندامت اور پریشانی پر ختم ہوتا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ غصہ ور شخص کے غصے کا طوفان جب ختم ہوتا ہے تو اسے اپنے کیے پر شدید رنج اور افسوس ہوتا ہے پھر ایسا شخص خود ملامتی کا شکار ہوجاتا ہے اور اپنے آپ کو روگی، ناقابلِ اصلاح اور اعصابی مریض سمجھنے لگتا ہے۔
دورِ جدید میں غصہ اور چڑچڑاپن پیدا ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں بےروزگاری، نا انصافی، مہنگائی، خاندانی رقابت، دفتری یا کاروباری جھگڑے اور ذرائع ابلاغ خصوصاً ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والے جنس اور جرائم پر مبنی ڈرامے اور تشدد بھری فلمیں شامل ہیں۔ غصے کے برعکس انسانی جذبہ ’حلم‘ ہے، یعنی تحمل مزاجی، نرمی، بردباری اور برداشت کرنا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص نرمی سے محروم ہوا وہ ہر بھلائی سے محروم ہوگیا۔ غصہ اور تلخ مزاجی درحقیقت اندر کے تکبر اور جھوٹی انا کی نشانیاں ہیں۔ تکبر کا مرض آج کل بہت عام ہے۔ یوں سمجھئے کہ غصہ بیج ہے اور تکبر اس کا پھل۔ تکبر یہی ہے کہ انسان اپنے علم و عمل، مرتبے، خاندان، رنگ و نسل، قوت و اقتدار اور آسائشوں پر فخر کرے اور اپنے آپ کو دوسروں سے بلند و بالا سمجھے۔ حضرت امام غزالیؒ لکھتے ہیں:
’’تکبر یہ ہے کہ تم دوسروں کو کم تر اور حقیر جانو، ان کی تحقیر و تذلیل کرو، ان سے دور رہو، ان کے ساتھ ان کے برتنوں میں کھانا پینا برا سمجھو بلکہ اپنے برتن انہیں استعمال نہ کرنے دو۔وہ راستوں پر برابر چلیں، مجلسوں اور اونچی جگہ بیٹھیں تو تمہیں سخت ناگوار ہو۔ تمہیں کوئی نصیحت کرے تو نفس پر سخت چوٹ لگے، ناک بھوں چڑھاؤ، تلخ و طعن آمیز جواب دو اور نصیحت کرنے والے کی تذلیل کرو، خود نصیحت کرو تو تند مزاجی سے کرو، غلطی کرنے والے کو ٹوکو تو درشتی کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کر اور سیکھنے والے پر نرمی نہ کرو۔‘‘ (احیاء العلوم، جلد ۳)
اگرچہ غصہ اور تکبر کا ہونا ہر انسان کے لیے عیب اور برائی کا باعث ہے لیکن یہ عادتیں اگر سیاستدانوں، علمائے کرام،وکلا، دکانداروں، ڈاکٹروں،سماجی کارکنوں اور اساتذہ کرام میں ہوں تو بہت ہی بری بات ہے کیونکہ یہ ایسے شعبے ہیں جن میںانسانی شخصیت کے اندر صبر و تحمل اور نرمی و حلم کا ہونا بے حد ضروری ہے۔
آئیے دیکھیں اس بارے میں قرآن پاک کیا کہتا ہے:’’جب ان کو غصہ آتا ہے تو وہ معاف کردیتے ہیں۔‘‘ (الشوریٰ: 37) ’’یہ لوگ غصہ دبانے والے ہیں، لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں، اللہ کو ایسےنیکو کار لوگ ہی پسند ہیں۔‘‘ (آل عمران: 134)
آج اگر ہم اپنے تھانوں، ہسپتالوں، عدالتوں، کچہریوں اور جیلوں کا جائزہ لیں تو وہاں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو صرف اور صرف اپنی غصیلی طبیعت کی وجہ سے وہاں تک پہنچے ہیں۔ اگر وہ درگزر، تحمل مزاجی اور صبر و برداشت سے کام لیتے تو آج یوں کسمپرسی کی زندگی نہ گزار رہے ہوتے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ غصہ ہمیشہ اپنے سے کم تر شخص پر ہی آتا ہے۔ مثلاً بچے، شاگرد، بیوی، نوکر وغیرہ۔ یہ غصہ کبھی بھی اپنے افسران بالا اور اربابِ اختیار پر ظاہر نہیں ہوتا۔ ہم اپنے ’باس‘ کی تو ساری غلطیاں اور عیب معاف کردیتے ہیں مگر ماتحتوں، شاگردوں اور بچوں کی معمولی لغزشوں پر سخت سزائیں دے کر سارا سارا دن مشتعل رہتے ہیں اور اپنی نازک مزاجی کی وجہ سے اسے رائی کا پہاڑ بنالیتے ہیں۔ ساس بہو کی لڑائی، استاد شاگرد کا اختلاف، نند بھاوج کی کشمکش، بھائی بھائی کے جھگڑے، میاں بیوی کی توتکار، گاہک اور دکانداروں کی تلخ کلامی، باپ بیٹے کا اختلاف اور رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی شکر رنجیاں غرض ہر جھگڑے کے پیچھے اندھے جذبات اور غصہ ہی کارفرما ہوتا ہے۔ اگر انسان اس شیطانی چال کو سمجھ کر غصہ پر قابو پالے تو ہمارے کتنے ہی مسائل خود بخود حل ہوسکتے ہیں۔
غصے پر قابو پانے کے طریقے
1- نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ غصہ شیطان سے ہے اور شیطان آگ سے بنا ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے، لہٰذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وہ وضو کرے۔ (ابوداؤد) اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور اگر وہ کھڑا ہے تو بیٹھ جائے اور اگر بیٹھا ہے تو لیٹ جائے۔ (احمد، ترمذی) گویا اپنی حالت بدل لینے سے اور پانی پینے سے بھی جذبات میں ٹھہراؤ آجاتا ہے۔
2- اگر انسان غرور و تکبر، منفی اندازِ فکر، بدگمانی، حسد، رقابت، تشویش، غیر ضروری تفکرات، تجسس، کھوج، کرید، وہم اور اضطراری حرکات سے باز رہے تو بہت سے مسائل ختم ہوسکتے ہیں۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ انتقام کی آگ میں جلنے والے کبھی بھی سکھ کی نیند نہیں سوتے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کیا جائے اور تحمل مزاجی اور عفوودرگزر سے کام لیا جائے۔
3- لوگوں کو کھری کھری سنانے کی عادت بدل ڈالیے، ان کا دل مت توڑئیے، طعنے نہ دیجیے، طنز مت کیجیے اور اپنی شخصیت کے وقار و متانت اور توازن و اعتدال کا خیال رکھئے۔ لوگوں کو برا بھلا کہہ کر اور دوسروں کو حقیر جان کر آپ اپنی شخصیت تباہ کرلیں گے۔
4- جو لوگ کسی مقصد کے تحت زندگی گزارتے ہیں وہ لاحاصل جھگڑوں سے اجتناب کرتے ہیں لہٰذا غصے اور اختلاف کے وقت اپنے مقصد زندگی کو سامنے رکھیں۔ اگر دوسرا فریق غصے میں ہے تو اس سے ہمدردی کریں۔ جب وہ ٹھنڈا ہوگا تو اپنی غلطی خود ہی مان لے گا۔ آپ غصے میں آکر جلتی آگ پر تیل مت ڈالیں۔
5- طبیعت میں انکساری اور اخلاص پیدا کیا جائے اور تنگ دلی، بخل، خود غرضی اور کینہ پروری سے بچا جائے۔ کڑوی باتوں سے گریز کرتے ہوئے، اپنی کردار سازی پر توجہ دی جائے۔ زندگی کے ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشا کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ کی بندگی اور معرفت کا یہ حق ہے کہ تم اپنی تکلیف کی شکایت نہ کرو اور اپنی مصیبت کا ذکر نہ کرو۔”

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں