روم کا مشہور زمانہ فاتح اور بہادر جرنیل حکمران کا لیس مار پولس اپنی زندگی کے آخری زمانے میں جب کامیابیوں اور کامرانیوں کی انتہائی بلندی پر پہنچا تو اچانک اس نے ایک دن حکمرانی، تخت و تاج، جاہ و حشم، مال و دولت ہر چیز سے دست بردار ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ شہروں اور آبادیوں سے دور جنگل میں ایک چھوٹا سا گھر بنوایا او رحکومت اور فرماں روائی کے خرخشوں سے کنارہ کش ہوکر وہا ںگوشہ نشین ہوگیا۔
مذہبی رہنماؤں نے اس واقعہ کو اپنی دعاؤں کی قبولیت کا رنگ دے کر جشن کا سامان کردیا اور بیان کیا کہ خدائے خدایان نے ان کی التجاؤں کے جواب میں ایک آنکھ والے شیطانوں کے گروہ کو مقرر فرمادیا تھا اور انھوں نے برق و باد کے طوفانوں کا ایک دریچہ اس ظالم حاکم کے سامنے کھول کر اس کے کرتوتوں کے نتیجے کی ایک جھلک اسے دکھا دی تھی۔ عذاب کے آتشیں تیروں کے خوف نے اسے اس قدر دہشت زدہ کیا کہ اپنی مرضی سے حکومت کو چھوڑنے پر آمادہ ہوگیا اور اب دیوتاؤں کے حضور توبہ کرنے اور گناہوں کی معافی مانگنے کی خاطر گوشہ نشین ہوگیا ہے۔
مذہبی رہنماؤں نے اپنی فتح کے شادیانے بجائے اور اس واقعہ کو اپنی برتری کا ثبوت گردانتے ہوئے کہا کہ مارپولس آخرکار ناہنجار پالیسیوں کا شکار ہوگیا ہے۔ ان پالیسیوں کے نتائج سے گھبرا کر ہی اس نے ہیش بینی سے کام لیتے ہوئے اپنی تباہ کن سیاست کا بوجھ ہم پر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اب اگر ہمارے ہم وطن یہ خواہش رکھتے ہیں کہ گزشتہ غلط پالیسیوں کی تلافی ہوسکے تو آئندہ کم از کم دس سال تک حکومت ہمارے سپرد کی جائے اور ہماری حکمرانی کی کسی طرح مخالفت نہ کی جائے۔
دقیقہ رس حضرات کے لیے گفتگو کا ایک ایسا موضوع پیدا ہوگیا جس پر مدتوں طرح طرح سے بحث ہوتی رہی۔ ہر محفل، ہر مجلس، ہر اجتماع میں ایک عرصہ تک اسی واقعہ کا تجزیہ کیا جاتا رہا۔
اس کے اسباب تلاش کیے جاتے رہے۔ اس پر حاشیہ آرائی ہوتی رہی۔ ہر شخص اس واقعہ کی تعبیر اپنے نقطہ نظر سے کررہا تھا۔ یہاں تک کہ قدیم مذہبی کہانیوں سے دیوتاؤں اور اہلِ زمین کے درمیان تعلق کے حوالے سے کئی افسانے ازسر نو تازہ کرکے اس واقعہ پر منطبق کرلیے گئے۔ خواتین کا حال عجیب تھا۔ ان کے آنسوؤں کے ذخیرے پر کوئی مضبوط رکاوٹ نہیں ہوتی۔ اس لیے انھوں نے اس حکمران کی گوشہ نشینی اور بے بسی پر آنسو بہانے شروع کردیے اور اس کی حکمرانی کے طور طریقوں سے اسے جو برا بھلا کہتی رہی تھیں اس پر پچھتاوے کے لیے ہاتھ مل مل کر اور ہونٹ کاٹ کاٹ کر بدحال ہونے لگیں۔
تحقیق کی داد دینے والے باخبر اور غیر جانبدار مؤرخین نے اس زمانے کے قصوں اور داستانوں کے رطب و یابس کے ڈھیرسے جو حقیقی بات دریافت کی وہ یہ تھی کہ روم کا عظیم سردار کالیس مارپولس بوڑھا اور مریض ہوکر کمزور ہوچکا تھا۔ اس عالم میں جب اسے اپنے طاقتور رقیب سیلا کی واپسی کی خبر ملی تو وہ اس قدر دہشت و اضطراب کا شکار ہوگیا کہ رات دن میں ایک لمحہ کے لیے اس کی آنکھ نہیں لگتی تھی نیند اس سے بالکل روٹھ گئی تھی۔ اپنے غم کو غلط کرنے کے لیے وہ شراب میں اس طرح غرق ہوگیا کہ عقل کا دامن ہاتھ سے جاتا رہا۔ اب ہر شخص اپنا دشمن اور ہر چہرہ سیلا نظر آنے لگا۔ اس صورتِ حال سے مجبور ہوکر اس نے فرار کی یہ راہ اختیار کی کہ جنگل میں ایک چھوٹا سا گھر بناکر وہاں پناہ گزیں ہوگیا اور کچھ عرصہ بعد گمنامی کی موت مرگیا۔
حالیہ برسوں میں قدیم شہر روم کے کھنڈروں کو آثار قدیم کے ماہرین نے دریافت کیا تو وہاں سے بہت سی قدیم تاریخی اشیاء دریافت ہوئی ہیں۔ ان میں ایک مٹی کا سربمہر برتن ملا ہے جو عین اسی مقام پر کھدائی سے دریافت ہوا جہا ںاس رومی فرماں رواں کا گوشہ نشینی کا جھونپڑا تھا۔ اس برتن کے اندر سے ایک طویل خط برآمد ہوا ہے۔ اس خط کے پڑھنے سے کالیس مارپولس کے بارے میں معاصرین کی تمام شہادتیں اور دورِ فتن کے تمام نظریے باطل ہوکر رہ گئے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ تاریخ جیسا حقیقی واقعات پر مبنی علم بھی بعض اوقات انسانی فکر وتصور کی مانند تغیر کو تبدیلی کی زد میں کرجاتا ہے۔ اس کا تو مطلب ہے کہ بنیادی طور پر یہ حقیقت مطلق کا درجہ کسی شے یا نتیجہ کو نہیں دیا جاسکتا۔ حقیقت مطلق یقینا موجود ہے لیکن شاید اس تک رسائی کے ذرائع ہمیں حاصل نہیں ہیں اور ہم جو علم حقیقت مطلق کی حیثیت سے حاصل کرتے ہیں یہاں شاید ایسا نہیں ہوتا۔
اب مار پولس کے طویل خط کو پڑھیے۔ اس نے لکھا ہے:
’’میرے اس خط کو میری موت کے شاید ہزاروں سال اور سینکڑوں صدیوں کے بعد پڑھا جائے گا۔ پس جو شخص اس خط کو پڑھے اسے معلوم ہوکہ کالیس مارپولس روم کا بہت بڑا جنگجو سردار تھا۔ اس نے جرمنی کے وحشی لشکروں کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ دنیا کے بڑے بڑے سردارہمہ وقت ا سکے قدموں میں پڑے رہتے تھے اور ان کو اس کے خوف سے ڈراؤنے خواب آتے تھے۔ اس کا اپنا یہ حال رہا کہ ہمہ وقت ایک چھوٹی سی تمنا برلانے کی خاطر یہ تمام بڑے بڑے کارنامے انجام دیتا رہا۔ بالکل اس تندرقت اور طاقتور گھوڑے کی طرح جو اپنی رفتار اور طاقت کے ذریعہ ناقابلِ یقین کارنامے انجام دیتا ہے۔ مگر اصل تحریک اس چابک کی ہوتی ہے جو سوار کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ورنہ گھوڑا اپنے اختیار سے کوئی کام نہیں کرتا۔ میرا بھی یہی حال رہا ہے۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ تاریخ میں میرا قصہ کسی دشمن کے قلم سے لکھا جائے گا یا دوست کے۔ میں بس اتنا جانتا ہوں کہ یہ قصہ ہر حالت میں حقیقت بیانی سے عاری ہوگا۔ اس لیے اپنے بارے میں درست بات میں خود لکھنے جارہا ہوں۔ اسے پڑھنے والے سے درخواست ہے کہ میری اس حالت پر ضرور ہمدردی اور رحم کا رویہ اختیار کرے کہ میرے تابع فرمان غلام ان گنت ہیں اور میری تعریف و توصیف میں بے شمار لوگ رطب اللسان ہیں۔ اس کے باوجود کوئی ایک فرد ایسا نہیں ہے جسے میں اپنا حقیقی دوست اور ہمراز کہہ سکوں۔ اس حکمرانی کے تخت پر ہوتے ہوئے میری مثال بالکل اسی اپاہج اور ناکارہ غلام کی سی رہی ہے جسے اس کے خدا نے دھتکار کر تنہا اور بے کس چھوڑ دیا ہو۔
میری ابتدا ایک چھوٹی سی کٹیا سے ہوئی جو ملک کے تیسرے صوبے میں ایک مختصر سے کھیت میں ایک چھوٹے دریا کے کنارے واقع تھی۔ دریا کے پانی میں اس کٹیا اور ہرے بھرے کھیت کا عکس کچھ وسیع ہوکر بڑا روح پرور نظر آتا تھا۔ اسی کھیت میں سیب کے پندرہ اور اخروٹ کے پانچ پرانے درخت تھے۔ میری ماں مرغی کے چوزوں کی پرورش اور پرداخت میں مرغی سے بھی زیادہ ماہر اور نکتہ رس تھی۔ کبھی کبھی وہ مجھے اور میری بہن کو تماشا دکھانے کے لیے زمین پر پھسکڑا مار کر بیٹھ جاتی اور اس قدر فطری انداز میں کڑکڑکرتی کہ چوزے اپنی ماں کے پروں سے نکل پڑتے اور اس کے گردجمع ہوجاتے۔ ارد گرد ہر جگہ یہ بات مشہور تھی کہ ہمارے مرغی گھر سے بیماری اور موت کوسوں دور رہتی ہے۔ اڑوس پڑوس کی عورتیں پرانی شراب کی سوغات لے کر آتی تھیں تاکہ میری ماں سے مرغبانی کے گر سیکھ سکیں۔ مجھے اور میری بہن کو گھر سے باہر مرغیوں چوزوں کی کوئی بات کرنے کی سخت ممانعت تھی۔ مرغ گھر کی صفائی اور اس کی بدبودور کرنے کی تدابیر میرے ذمہ تھیں اور جانوروں کو دانہ پانی دینا اور دوا و علاج کا خیال رکھنا میری بہن کی ذمہ داری تھی۔ وہ ان کے ہر مرض کی دوا جانتی تھی اور سست پڑجانے والے چوزہ کو منٹوں میں تندرست کردیتی تھی۔
گائے بیل اور بھیڑبکری کی دیکھ بھال میرے والدکیاکرتے تھے۔ وہ مجھ سے کہاکرتے تھے ’’جس دن تو اس قابل ہوگیاکہ بیل کو دونوں سینگوںسے پکڑکر قابو کرلے او رحرکت نہ کرنے دے اس دن میں ان جانوروں کی دیکھ بھال تیرے سپرد کردوںگا۔‘‘
یہ بات میرے لئے ازحدحیران کن تھی لیکن خود کو اس قابل بنانے کا میں خواہش مند بھی تھا چنانچہ ورزش اور تن سازی کی تدابیر کے ذریعہ میں دس سال کی عمر میں اس قابل ہوگیاکہ پندرہ سال کے لڑکوں کو کشتی میں پچھاڑدیتاتھا۔ ایک دفعہ میں والد کے ساتھ مچھلیاں پکڑنے کے لئے دریا پر گیا۔ مجھے یاد ہے کہ وہاں تمام ملاح اس نوعمری میں جال پھینکنے، کھینچنے اور مچھلیاں قابو کرنے میںمیری طاقت، زورمندی اوربرداشت پر حیران رہ گئے۔ وہ کیا اچھا وقت تھا۔ زندگی سادہ اور آسان تھی، ہر طرح کا آرام وسکون میسر تھا۔ تمنا اور آرزو کی آخری حداپنے کھیت اور باغ کی سرحدوں تک محدود تھی۔ فکر وخیال کی پرواز اس پہاڑ اور دریا سے آگے نہیں جاسکتی تھی جس نے ہمارے افق کو گھیراہواتھا۔
افسوس کہ بے فکری ، آسودگی اور راحت کا یہ وقت بہت جلد گزرگیا۔ اور گویا اچانک ہی وہ مرحلہ آگیاکہ مجھے لڑکوں کے ساتھ کھیلنے کی نسبت لڑکیوںسے میل جول اچھا لگنے لگا۔ لڑکیوں میں بھی ایک جو سب سے خوب صورت تھی ۔ میرے خیالوں میں بس کر رہ گئی۔ اس کا نام ویژریلی تھا۔ اسے میں کبھی ساتھ کھلانے پر بھی رضامندنہیں ہوتاتھا کہ وہ مجھے سخت کاہل نظرآیاکرتی تھی۔ میرے انکار پر وہ جن حسرت بھری نگاہوںسے دیکھاکرتی تھی اسے بھی میں ذرہ برابر اہمیت نہیں دیتاتھا۔ مگر یوں لگاکہ جیسے ایک دن اچانک ہم دونوں میںان دیکھی تبدیلی آگئی۔ اب وہ میرا سامنا ہوتے ہی سرخ پڑجاتی اور آنکھیں جھکاکر بھاگ جاتی۔ مجھے سیب، اخروٹ اور شہد کے پراٹھوں کاجوحصہ ملتا، وہ بھی جوں کا توں اس کے لئے جانے کی کوشش کرتا۔ یہ سلسلہ اس حدتک پہنچاکہ ایک دن دھڑکتے دل اور لرزتے قدموں کے ساتھ ویژریلی کے گھر پہنچ گیا اور مرغبانی کے جو اسرار و رموز اور پوشیدہ گرمجھے معلوم تھے وہ تمام کے تمام اس کی ماں کے سپرد کردیئے۔ یہ گویا اوّلین خیانت تھی جس کا میں نے عشق کی خاطر ارتکاب کیاتھا اور پہلاقدم تھا جو عشق کے راستہ پر بڑھایاتھا۔
آہستہ آہستہ ویژریلی کے دل میں میرے لئے جگہ پیدا ہوگئی اور کبھی کبھی وہ رات کے وقت دریا کے کنارے ملاقات کے لیے آیا کرتی تھی۔ ایک دن اس نے کہا:
’کل رات میں نے ایک بہت اچھاخواب دیکھاہے۔ میں نے دیکھاکہ تو رومی فوج کا اتنا بڑا سردار بن گیاہے کہ پانچ ہزار سوار تیری کمان میں ہیں۔ تو مجھے حاصل کرنے کے لئے فوجی دستہ لے کر آیاہے یہاں میرے والد کی جانب سے مزاحمت ہوتی ہے۔نتیجہ یہ کہ بڑی سخت جنگ برپاہوجاتی ہے۔ قریباً ایک ہزار آدمی دونوں جانب سے مارے جاتے ہیں۔ آخر تو مجھ تک پہنچ جاتا ہے اور مجھے اٹھاکر اپنے گھوڑے پر سوار کرکے روم کی جانب فرار ہوجاتا ہے۔ تیزرفتار گھوڑے ہمارے عقب میں دوڑ رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ تیرے اپنے لشکر کے ہوںگے اور کچھ شاید تعاقب کرنے والے ہوںگے۔ ان کے ٹاپوں کی صاف آوازیں اس وقت بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہیں۔‘‘
یہ خواب سن کر مجھ پر عجیب منفی اثر ہوا۔ میں نے اپنے آپ کو انتہائی حقیر اور شرمندہ محسوس کیا اور کم مائیگی کے باعث میںگویا زمین میں گڑکر رہ گیا اور خود کو دریاکے کنارے اگی نرسل کے سایہ میں چھپانے کی کوشش کی۔ میرے ہاتھ میںایک سخت سیب تھا جو میں ویژریلی کے واسطے لایاتھا۔ میں نے اضطراری حالت میں اسے کاٹا اور بغیرچبائے نگل گیا۔ مجھے اپنا آپ اتنا بے قدراور کم وزن محسوس ہورہاتھا کہ گویا ہوا کا کوئی جھونکا مجھے ایک تنکے کی طرح اٹھاکر کہیں دور پھینک آئے گااور میںکچھ نہیںکرسکوںگا۔
رومی سلطنت کے اقتدار اورہیبت کے بارے میںبڑے واقعات میںنے سنے تھے۔ مگر کبھی خوف کی رمق بھی محسوس نہیں کی تھی۔ مگر اس خواب کو سن کر گویا ان کی قدرت و عظمت کاخیال ایک وحشت ناک بلا کی طرح میرے ذہن پر سوار ہوگیا۔ ویژریلی سے ملاقات ہوئی تو میں نے اس کاہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر مضبوط لہجے میں کہا۔
’’میں اپنے خدا کی قسم کھاکر عہد دیتا ہوں کہ اگر کوئی فوجی سردار پانچ ہزار سواروں کے ساتھ بھی تجے لے جانے کی خاطرآئے گا تو میں تن تنہا اس سے جنگ کروںگا۔ یہاں تک کہ اپنی جان دے دوںگا۔‘‘
’’میںتیرا خون کرانے کی خواہش مند نہیں ہوں۔‘‘ ویژریلی نے کہا۔ ’’میںیہ کہنا چاہتی ہوں کہ تو جب تک سرداری اور حکمرانی کے مرتبہ تک نہیں پہنچے گا مجھے نہیں پاسکے گا۔ مجھے اپنی بیوی اور غلام بنانے کے لئے تجھے اس اعلیٰ مرتبہ تک پہنچنا لازم ہے۔‘‘
یہ تو ایسی صورت حال تھی کہ گویا ناممکنات کے ایک گہرے سمندر کو میرے اور میری آرزو کے درمیان حائل کردیاگیاتھا۔ لیکن عشق کی دیوانگی کے ڈھب عجیب ہوتے ہیں۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑکر قول دیا۔
’’تیری خاطر میں ہرناممکن کو ممکن بنانے کے لئے تیارہوں۔ میں قول دیتا ہوں کہ رومی سردار اور فرمانرواکا مرتبہ حاصل کرکے رہوںگا تاکہ تجھے حاصل کرسکوں۔ اس کے لئے اگر مجھے پہاڑوں اور سمندروں کو عبورکرنا پڑا تب بھی میں یہ کرکے رہوںگا۔‘‘
لیکن ویژریلی میرے سرداری کے مرتبہ تک پہنچنے کا انتظار نہ کرسکی۔ قریباً دو سال بعد رومی تاجروں کا ایک قافلہ اس علاقہ سے گزرا۔ ایک نوجوان تاجر کی شان و شکوہ اور غلاموں ملازموں کی بڑی تعداد نے اس کی آنکھوں کو خیرہ کردیا۔ وہ اس نوجوان تاجر کے ساتھ چلی گئی اور مجھے حسرت کے انگاروں پر تڑپنے کے چھوڑگئی۔
اب میرا جنون گویامیرے بس سے باہر ہوچکاتھا۔ باپ کے حکم اور ماں کی آہ و زاری نے مجھ پر کوئی اثر نہ کیا اور میں بلاسوچے سمجھے ویژریلی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ اس وقت میری عمر بیس سال کے لگ بھگ تھی۔ ہاتھی کی طرح جوان، تنومند اور گھمنڈی تھا۔ ایک دن سرِ راہ ایک فوجی دستہ سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ ان میں سے دو کو میں نے مارڈالا۔ مگر قیدی بنالیاگیا۔ انہوںنے مجھے روم شہر کے باہر ایک بردہ فروش تاجر کے ہاتھ بیچ دیا۔ مجھے معلوم ہواکہ روم پہنچ گیا ہوں تو اپنی حالت کو بھول کر خوشی کی لہر میں مست ہوگیا۔ ایک سردار ’’سرتوریوس‘‘ غلاموں کی خرید کے لئے بازار میںنکلا تومجھے خوش وخرم اور کشادہ چہرہ کے باعث پسند کیا اور خرید لیا۔ میںنے اس موقع کو غنیمت جانا اور سردارکے گھر پہنچنے کے پہلے ہی دن اپنا تعارف کراتے ہوئے اپنا سارا قصہ اورداستان غم سردار اور اس کی بیگم کو سنادی اور مدد کاخواستگار ہوا۔ یہ قصہ اس قدر دردناک تھا کہ سرتوریوس اسے سن کر غمزدہ ہوگیا اور اس کی بیگم نے تو باقاعدہ رونا شروع کردیا۔ یہ سب اپنی جگہ مگر یہ بھی سمجھاگیاکہ میںنے اپنے آقا کی اطاعت کی خلاف ورزی کی ہے کہ بغیر اجازت اپنی داستان سنانے بیٹھ گیا۔ اس گستاخی کی سزا کے طورپر مجھے پانچ کوڑے مارے گئے اور ایک دن کے لئے بھوکا پیاسا رکھاگیا تاکہ غلامی کی راہ و رسم سے آشنا ہوسکوں۔
اس مختصر سی سزا نے مجھے غلامی کے بھیانک چہرہ سے آشنا کردیا اور مجھے اچھی طرح معلوم ہوگیاکہ کس قسم کی قید کاشکارہوگیا ہوں۔ حیران کن بات یہ تھی کہ اس غلامی اور محرومی کی حالت نے ویژریلی کے عشق کی آگ کو گویا مزید بھڑکادیا تھا اور ہرلحظہ میری جان اسی آگ میں جلی جارہی تھی۔ ایک دفعہ میں نے اس کی تلاش کے جنون میں فرار کی راہ اختیار کی۔ مگر تمام غلام میرے پیچھے دوڑپڑے اورمجھے واپس لاکر سخت قسم کی سزائوں اور قید و بند کانشانہ بنایاگیا۔ میری خوش قسمتی کہ قریباً تین سال کے بعد روم کے غلاموں میں بغاوت کی شورش اٹھ کھڑی ہوئی اور شدیدہنگامہ برپاہوگیا۔میں نے وقت ضائع کئے بغیر سرتوریوس اور اس کی بیگم کو ان کی خواب گاہ میں قتل کرڈالا اور ان کے سر کاٹ کر اس میدان میں لے گیا جہاں تمام باغی غلام جمع ہورہے تھے۔ وہاں پہنچ کر میں نے اس قدر بلند آہنگ فریاد و فغاں کی کہ سب لوگ میری جانب متوجہ ہوگئے۔
وہاں ایک مشرقی غلام نیوکاس باغیوں کا سردار بنا کھڑا تھا اور غلاموںکو رومی سرداروں اور حکمرانوں کے خلاف منظّم کررہاتھا۔ اس نے میری آواز کی بلندی، گفتار کی قوت اور عمل کی جسارت کو دیکھا تو میری مخالفت پر اتر آیا اور کوشش کی کہ میری تمام تجاویز کو احمقانہ ثابت کرے۔ میں بجلی کی سی تیزی سے اٹھا اور قبل اس کے کہ وہاں کا مجمع کوئی بات سمجھنے کی کوشش کرے، اپنا خنجر دستہ تک اس کے سینے میں اتار دیا۔
حکمرانی کاایک بنیادی اصول یہ ہے کہ لوگوں کو سوچنے سمجھنے کا موقع نہ دیاجائے۔ میں نے اپنی زندگی میں جب بھی اس اصول کو نظرانداز کیا، ہزیمت اٹھائی۔
اس دن باغیوں نے اتنی قوت حاصل کرلی تھی کہ اگر میںچاہتاتوتمام امیروں، وزیروں ، سرداروں اور حکمرانوں کو تہہ تیغ کرکے ان کی حکومت یک قلم منسوخ کرسکتاتھا۔لیکن میرے دلی مقصد نے مجھے ایسا کرنے سے باز رکھا۔ میں صرف یہ چاہتاتھا کہ خود رومی سرداروں میں شامل ہوکر طبقہ امراء کا رکن بن جائوں اور حکمرانی کے لباس میںایک لشکر کی سرداری کرتاہوا ویژریلی کے سامنے جائوں۔ وہ نوجوان تاجر جو ویژریلی کو لے گیاتھا جواہرات کی تجارت کرتاتھا۔ چنانچہ میں نے باغیوں کو متوجہ کرکے شور مچادیاکہ ہماری بدقسمتی پسماندگی اور تمام مشکلات کا باعث یہ جواہرات کی تجارت کرنے والا گروہ ہے۔ اس لئے ہمیں سب سے پہلے ان سے نمٹ لیناچاہئے۔ ان سب کو قتل کرکے ان کی عورتوں کو قیدی بناکر اسی میدان میںلانا ضروری ہے۔ حکمرانی کاایک اصول یہ بھی ہے کہ اپنی ہر کمینہ خواہش کو ملک اور قوم کا مفاد بناکر پیش کیاجائے۔ ایسے احمقوں کی تعداد کم نہیںہوتی جو اس بیہودہ بات پر یقین کرنے کے لئے فوراً تیار ہوجاتے ہیں۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ باغیوں نے میرے فرمان پر عمل کرنے میں ذرا تامل نہ کیا اور چند گھنٹوں کے اندر سینکڑوں سردار ہزاروں عورتیں بچے وہاں میدان میں اکٹھے کردیئے گئے۔ میں نے ان تمام قیدیوں کو ایک ایک کرکے بڑے غور سے دیکھا۔ افسوس کہ ویژریلی ان کے درمیان موجود نہیں تھی۔ میرا تو دماغ بھک سے اڑگیا۔ میرا مقصد اور ساری محنت برباد ہوگئی۔ میرا جی چاہاکہ ان باغیوں کو ایک ایک کرکے اپنی تلوار سے اڑادوں۔ جنھوںنے قتل و غارت کا یہ ظلم ڈھایاتھا۔
وہ پوری رات میں نے سخت پیچ و تاب میں گویا تڑپتے گزاری۔ نیند مجھ سے کوسوں دور تھی اور آنے والے دن کے اندیشے مجھ پر حملہ آور تھے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ موجودہ صورت حال کو میں اپنے مقصد کے مطابق کس طرح ڈھالوں اور کیا تدبیر کروں کہ ویژریلی کو حاصل کرسکوں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ لوگ میری خوبیوںمیں سے ایک بہت بڑی خوبی دوراندیشی اور راست فکری کو قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ مشکلات اور سختی کے موقع پر میں نے خود کو اس شخص کی مانندپایاہے جو گردن تک گومگو کی دلدل میں دھنسا ہواہو اور قوتِ فیصلہ سے یکسرمحروم ہو۔ یہ تو دیوتائوں نے ہمیشہ میری دستگیری کی، مشکلات سے باہر نکالا اور قسمت کے خدا نے مجھے ہلاکت سے محفوظ رکھ کر فتح و کامرانی کی راہ میرے لئے کشادہ کی ہے۔ ورنہ خوبیوں کے نام سے میرے پلے خاک نہیںہے۔
اس سخت پریشانی اور ماندگی کے عالم میں بھی قسمت نے یاوری کی کہ میرے کمرہ کادروازہ آہستگی سے کھلا اور ایک بوڑھا غلام اندر داخل ہوا۔ اس نے نزدیک آکر سرگوشی کی۔
’’حکمرانوں میں سے دو سردار آپ سے ملاقات اور مشورہ کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔ ان کے لئے کیا حکم ہے؟‘‘
میں اس سوال کاجواب کیادے سکتاتھا۔ یہ تو ایسے ہی تھاکہ کوئی دیوار سے سوال کرے اور جواب کاخواہش مند ہو۔ بوڑھے غلام نے میری گومگو اور بے چارگی کی حالت کو تھوڑی دیر دیکھا۔ پھر کہنے لگا۔
’’میں ان دونوں سرداروں کو ابھی خفیہ دروازہ سے آپ کے پاس لے کر آتاہوں۔کوئی شخص انہیں نہیں دیکھ پائے گا۔‘‘
ساتھ ہی اس نے بزرگانہ لہجے میں کہا۔ ’’ایک بات یاد رکھئے باغیوں کی حمایت اور شورش سے دستبردار ہونے کے عوض فوج کی سرداری کے علاوہ اور کوئی تحفہ یا رشوت قبول نہ کیجئے۔ ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھئے کہ غلامی کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ آخر جہاں بھی دو شخص اکٹھے ہوں گے ایک کو دوسرے کی غلامی کرنی پڑے گی۔‘‘ پھر اس نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’یہ بوڑھا بھی آپ کا غلام ہے۔ امید ہے کہ حکمرانی کے مرتبہ کو پہنچ کر اسے فراموش نہیں کریںگے۔‘‘
دوسرے دن رومی فوج کے تین سرداروں میں سے ایک میںتھا۔ تیس ہزار کالشکر میرے ماتحت دے دیاگیا اورجرمنوں کے ساتھ جنگ کے لئے مامور کردیاگیا جنھوںنے ان دنوں روم پر حملہ کردیاتھا۔ روانگی سے پہلے میں نے باغیوں کے اس گروہ کی صفائی کی جواب تک بغاوت سے دستبردار نہیں ہورہاتھا۔
اسی دوران میں نے ویژریلی کااتا پتہ حاصل کرنے کے لئے جاسوس مقرر کردئے جنھوںنے آس پاس کے تمام ملکوں کاکونہ کونہ چھان مارا۔ آخر پتہ چلاکہ جواہرات کا وہ تاجر تو یونانی تھا اور ویژریلی کو لے کر اپنے وطن واپس چلاگیاتھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ ان دونوں یونانیوں کے ساتھ بھی روم کی جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ میں نے کوشش کی کہ مجھے جرمنوں کے مقابلہ کے بجائے یونان کے محاذ پر بھیجاجائے۔ مگر یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی مجھے بتایاگیاکہ جرمنوں کا قلع قمع زیادہ اہم ہے۔ اگر ان کے مقابلہ میں مجھے کامیابی ہوگئی تو یونانیوں کے مقابلہ کا بھی موقع دیاجائے گا۔
جرمن فوج کی تعداد ایک لاکھ تھی اور ہم صرف تیس ہزار تھے۔ اس کے باوجود میری خواہش تھی کہ پہلے دن ہی ان پر ٹوٹ پڑوں۔ لیکن لشکر کے منصب داروں میںسے دو عمررسیدہ اور جنگ آزمودہ سپاہیوں نے مجھے اس دیوانگی سے بازرکھا۔ انھوںنے تین ماہ کی مدت خندقیں کھودنے،مورچے بنانے اور جنگ کی دیگر تیاریوں میں صرف کردی۔ یہ سب کچھ ہمارے لئے سود مند ثابت ہوا۔ اسی تیاری کے باعث ہم جنگ کے دوران وہ تدابیر اختیار کرسکے کہ ہمارا نقصان کم سے کم ہو اور جرمنوں کو شکست کاسامنا کرنا پڑا۔ اس شاندار فتح کے بعد میری تمنا صرف یہ تھی کہ میری خوش بختی اور دلاوری کی شہرت ویژریلی کے کانوںتک پہنچ جائے۔ اس خط کو پڑھنے والا شخص شاید اندازہ نہیںکرسکتاکہ اس وقت میںقوت و شوکت کے کس مرتبہ تک پہنچ چکاتھا۔ اس قدر بلند مرتبہ اور اختیارات کے مالک کے لئے ہر وہ کام انجام دینا آسان ہوجاتا ہے جو اس کی خواہش ہو۔ لیکن شاید یہی وقت ہوتاہے جب انسان کو قدرت و اختیار کے باوجود کمال ناتوانی اور کم مائیگی کاسامنا کرتا ہے۔ اسے انسان کی بیچارگی اور بے مائیگی کا پتہ چلتاہے او رمعلوم ہوتا ہے کہ دیوتائوںکی مرضی نہ ہوتوبڑے سے بڑے سردار اورحکمران کی چھوٹی سی آرزو پوری ہونابھی ممکن نہیں ہوتا۔
کسی بڑی اور مشکل جنگ میں فتح سے ہم کنار ہونے والے فوجی سردار کے حصہ میں جو حشمت اور عظمت آتی ہے وہ ظاہر ہے کہ میرے لئے بہت قابل فخر تھی مگر میری اصل آرزواب بھی یہی تھی کہ اس عظیم الشان کامیابی کا چرچا ویژریلی کے کانوں تک پہنچے گا تو مجھ سے بے وفائی کرنے پر حسرت و افسوس کی آگ میں جلے گی۔ مگر دیوتائوں کو یہ بھی منطورنہ تھا۔ جرمن قوم کی ہولناک دہشت روم کے لوگوںپر اس حد تک سوار تھی کہ اپنی جان سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ اب میرے ہاتھوں انہیں نجات کی صورت نظرآئی تو میرا اصل نام چھوڑکر مجھے دیوتائوں کے درجہ پر فائز کردیا اور ’’فاتح‘‘ کے مختصر نام سے پکارنے لگے، میں نے لاکھ عجزو انکسار کااظہار کرتے ہوئے کوشش کی کہ کم از کم میرا اصل نام باقی رکھ کر مجھے ’’کالیس ماریوسی فاتح‘‘ کہاجائے۔ مگرمیری یہ کوشش قطعاً بیکار ثابت ہوئی۔
اس صورت حال میں ویژریلی کو کس طرح معلوم ہوسکتاتھا کہ جرمنوں کے خلاف اتنی شاندار فتح حاصل کرنے والا شخص وہی کالیس ماریوس ہے جو اس کے آبائی گائوں کے پیروس کسان کا بیٹاتھا۔
رومیوں نے مجھے دیوتائوں میںتوشامل کرلیاتھا لیکن ساتھ ہی ان کی خواہش تھی کہ میں محاذ جنگ پرہی مصروف رہوں۔ چنانچہ میں نے بڑا وقت جرمنوں کے تعاقب اور ان کی سلطنت کے مختلف علاقے فتح کرنے میں صرف کیا۔ اس کام سے فارغ ہوکر آیا تو ایک دوسرا فوجی سردار فائبوس مقدونیہ اوریونان کے محاذ پر جنگ کے لئے مامور ہوچکاتھا۔ میرے لئے یہ قطعاً ناقابل برداشت تھا۔ میرا تواصل مقصد ہی یونان پہنچ کر ویژریلی کو تلاش کرناتھا۔ مجھے اس کے سوا اور کوئی چارہ نظر نہیں آیاکہ غلاموں کے گروہ کے ساتھ پرانے تعلقات کو کام میں لاکرایک بار پھر پہلے جیسی بغاوت کاہنگامہ برپاکروں۔ اس ہنگامہ میں فائبوس کو میں نے قتل کرادیا اور یونانیوںکے ساتھ جنگ کے لئے اپنی ماموریت حاصل کرلی۔ میں نے اس حیثیت میں جو جنگیں لڑیں اور ان کے تمام حالات لازماً تاریخ کی کتابوں میں لکھے ہوںگے اس لئے ان کی تکرار کاکوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ یونان کے تمام ملک کومیںنے تہہ و بالا کرکے رکھ دیا۔ مگر یہ سب کچھ بے فائدہ ثابت ہوا کہ ویژریلی کا نام و نشان حاصل نہ ہوسکا۔
اب میں نے خبر گیر مقرر کئے اور ویژریلی کا پتہ چلانے کے لئے گرانقدر انعام کا وعدہ کیا۔ خبرگیروں نے گویا دنیا چھان ماری۔ آخر بڑی مشکلوں کے بعد پتہ چلاکہ وہ اس جواہر فروش نوجوان کے ساتھ ایشیائے کوچک کی جانب چلی گئی تھی۔ میرے عشق جنوں خیز نے مجھے پھر مہم جوئی پرآمادہ کیا اور میںنے رومیوں کو ایشیا ئے کوچک پر فوج کشی کے لئے آمادہ کرلیا۔ مگر اس مہم کی سربراہی ایک اور فوجی سردار سیلا نے حاصل کرلی۔ میں نے اس سے یہ منصب چھیننے کی کوشش کی تو ہم دونوں کے درمیان ٹھن گئی۔ اس مقابلہ میں مجھے شکست ہوئی اور راہ فرار کے سوا کوئی چارہ کار نظرنہیں آیا۔
فرار کے بعد میںبچتا بچتا جنگلوں اور ویرانوں کی خاک چھانتا رہا۔ بے بسی اور بے کسی کے عالم میں جان کو بچانے کی کوششیں کرتے ایک نئی طرح کے تجربات سے گزرنا پڑا۔ اسی بادیہ پیمائی کے دوران ایک چھوٹے سے گائوں کے کنارے ایک چکی والے کے ہاں پناہ لئے ہوئے تھا کہ میرا پیچھا کرنے والے فوجی وہاں پہنچ گئے۔ چکی والے کے اشارے پر میں اناج کے ایک ڈھیر میں چھپ گیا۔ فوجیوں نے مجھے گرد اور مٹی میں اٹاہوا وہاں سے باہر نکالا اور قتل کرنے کے لئے چلے۔ اس وقت میں ایک عجیب تجربہ سے گزرا۔ میں نے اپنے آپ کو اس قدر ہلکاپھلکا محسوس کیاکہ کسی طرح کاکوئی افسوس اور غم میرے دل میں موجود نہ تھا۔ قتل گاہ کی جانب میں اس طرح جارہاتھا جیسے حکومت کی کرسی کی طرف جارہاہوں۔ شاید زندگی سے اس قدر تھک چکاتھاکہ اب زندگی اور موت میرے لئے یکساںتھی۔ افسوس کے اس وقت میرا مرنابھی دیوتائوں کو منظور نہ تھا۔
اس کے بعد کئی سال پرمحیط ایک ایسا عرصہ ہے کہ بیاباں گردی، جگہ جگہ پناہ گزینی آہستہ آہستہ فوجی قوت کااجتماع، جنگ، فرار و کامیابی کے عناصر اس میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔ آخر دیوتائوں کو پھر مجھ پر رحم آیا اور میںاس قدر قوت کامالک ہوگیاکہ روم کی حکومت میں اپنا پرانا منصب حاصل کرسکوں۔ دوبارہ اس بلند مقام کو حاصل کرنے کے بعد میں نے اپنا جائزہ لیا تومیرا دل صاف و شفاف چمکتے آسمان کی طرح بالکل پاک اور صاف تھا۔ کسی کی دشمنی یا مخالفت کا وہاں نام ونشان نہیں تھا۔ میں گویا ہمہ تن مہر ومحبت بن چکاتھا اور ہر ایک کی خیر خواہی سے میرا دل بھراہواتھا۔
اس صورت کو زیادہ وقت نہیں گزراتھا کہ ایک ایسا واقعہ ہواکہ میرا مہرو محبت سے بھرا دل ایک دم دشمنی اور حسد کے شعلوں سے آنچ دے اٹھا۔ ہوایہ کہ سیلاکے مداحین میں سے ایک شاعر مشرقی ممالک میں کئی سال گزارنے کے بعد روم واپس آیاتھا اور سیلا کی تعریف میں بڑے خوب صورت قصائد پڑھاکرتاتھا۔ غضب یہ ہواکہ ان قصائد میں سے ایک نظم اس قدر رس بھری تھی کہ بچے بھی کوچہ و بازار میں اسے گاتے پھرتے تھے۔ یہ نظم ایک رومی عورت کے بے مثال حسن اور اعلیٰ اوصاف کے بارے میں تھی جس کا نام ویژریلی تھا اور جو ایشیا میں سیلا کے عقد میں آچکی تھی اور اس کے لئے ہر طرح کے عیش اور مسرت کاعنوان بن گئی تھی۔ اس عورت کے قد و قامت ، چشم وابرو اور حلیہ کی جو تصویر اس نظم میں کھینچی گئی تھی وہ ہوبہو میری ویژریلی کی تھی۔
حسد اور انتقام کی آگ نے میرا تن بدن جلاڈالا۔ چند روز بعد میں نے سیلا کے طرفداروں میں سے دو آدمیوں پر بددیانتی اور نافرمانی کاالزام لگاکر انہیں قید خانہ بھیج دیا۔ اس کے بعد اس کے دوستوں اور ہمدردوں میں سے تین سو لوگوںکی فہرست بناکر حکم دے دیاکہ ان سب کو قیدخانہ میں ڈال دیاجائے۔ ساتھ ہی رازدانہ طریقہ پر حکم دے دیاکہ ان سب کو حکم عدولی اور مقابلہ پراترآنے کاالزام لگاکر قتل کردیاجائے۔ یہ سلسلہ یہاں تک محدودنہیںرہا۔ اس الزام میں سیلا کے حمایتی دوہزار افراد قتل کردیئے گئے۔
سیلا کوخبر ہوئی تو اس قتل عام کابدلہ لینے کے لئے اپنی بھاری فوج لے کر روم کی جانب روانہ ہوگیا۔ یہاں تک کہ روم سے بیس روز کی مسافت پر پہنچ گیا ۔ ادھر میں نے بھی ایک زبردست لشکر تیارکیا اور تمام سازو سامان درست کرکے مقابلہ کے لئے تیار ہوگیا۔ میں ارادہ رکھتاتھا کہ ایک دن بعد تمام لشکر کو لے کر شہر سے باہر نکل کر خیمے لگائوںگا اور اس جنگ کے لئے تیاری کروںگا جس میں یا تو فتح میرے حصے میں آئے گی یا اپنی جان اس میں کھودوںگا۔
اس رات میں لشکر گاہ کے ایک حصہ میں موجود تھا۔ خون جیسا سرخ چاند ابر کے باریک پردے سے جھانک کر میرے خیالات کی تاریکی کو دور کرنے کی کوشش کررہاتھا۔ میںایک درخت کے نیچے ایک پتھر پر گھنٹوں سے بیٹھاجنگ کے تانے بانے سے الجھاہوا تھا۔ اور غورو فکر کی گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کررہاتھا کہ اچانک انتہائی خلاف توقع اس جگہ جہاں کسی کو آگے آنے کی اجازت اور طاقت نہیں تھی، تین آدمی ایک دوسرے کے پیچھے دوڑتے ہوئے شورو غل مچاتے داخل ہوئے۔ پہریداروں نے اپنی تلواریں سونت لیں اور چاروں جانب سے انہیںگھیر کرنشانہ پر لے لیا۔ میں نے حکم دیا انہیں قتل نہ کیاجائے بلکہ میرے حضور پیش کیاجائے۔سامنے آئے تو و و فوجی جوان تھے اور ایک پژمردہ کچومر شکل عورت تھی۔ انہوںنے شراب زیادہ پی لی تھی اور اب نشہ میںاس قسم کی حرکتیں کرتے پھررہے تھے۔ دونوںفوجیوں کو میںنے جلاد کے سپرد کردیاکہ کیفرکردار تک پہنچادیئے جائیں۔ مگراس عورت نے اس قدر آہ وزاری کی اور بندر کی سی حرکت کرنے لگی کہ مجھے ہنسی آگئی۔ میں نے اسے معاف کردیا اورپوچھا۔
’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
میرا نام ’’روبہ اوسی‘‘ ہے۔ اس نے بتایا ’’یعنی سرخ رو۔‘‘
’’یہ تو شاید تمہاری پہچان ہے۔اصلی نام کیاہے۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ویژریلی کراسوس۔‘‘
ایک لمحہ کے لئے میرا سانس گم ہوگیا۔ بڑی مشکل سے خود کوسنبھالتے ہوئے سوال کیا۔
’’کیا وہی جس کاگھر تیسرے صوبہ کے گائوں لاپیلن میں تھا۔‘‘ ذرا رک کر میںنے اپنا سوال مکمل کیا۔ ’’کیا تو وہاں کے رہائشی پیروس کے بیٹے کالیس ماریوس کو جانتی ہے۔‘‘
وہ گویا اپنے کسی خواب کی یاد تازہ کرنے لگی بڑی مشکل سے یادوں کے ذریعے اکٹھے کرکے بولی۔
’’ہاں جانتی ہوں۔ کالیس ماریوس مجھ سے عشق کرتاتھا مگر بہت غریب تھا اس لئے میں اسے پسند نہیںکرتی تھی۔‘‘
’’اسی لئے تو اس جوہری تاجر نوجوان کے ساتھ چلی گئی تھی۔‘‘ میں نے یاد دلایا’’وہ تجھے کہاں لے گیا تھا اور بعدمیںتجھ پر کیاگزری۔‘‘
وہ ایک مجروح ہنسی ہنستے ہوئے بولی۔
’’اس جواہرات کے تاجرنے یونان لے جاکر کچھ عرصہ مجھے اپنے ساتھ رکھا۔ مگر اس کے بعد بے یارو مددگار چھوڑدیا۔ وہ دن اور آج کا دن میرے شب وروز لشکر گاہ میں گزرتے ہیں۔ یہ جگہ سب سے بہتر ہے۔ پوری فوج میرا شوہر ہے اور کسی ایک سے بھی وابستہ نہیں ہوں۔ رات دن اسی طرح عیش اور مستی میں گزرتے ہیں۔‘‘
وہ خوبصورت،بے مثال، پرتعیش اور نیک نامی ہمیشہ برقرار رکھنے والی دنیا جس کی آرزو اور تلاش میں اپنے گھر کو چھوڑا، ماں باپ سے ترک تعلق کیا، غلامی کی شدتیں اور ذلتیں برداشت کیں، سازشوں اور چالبازیوں کے ایک ایسے جال پھیلائے کہ بہت سے بے گناہ اس کا شکار ہوئے، حصول مقصد کے لئے سفانہ قتل و غارت سے ذرا نہیں ہچکچایا، غلامی سے حکمرانی اور غربت سے امارت تک کا راستہ جانکاہ دشواریوں سے طے کیا۔ عمرعزیز کا بڑا حصہ اس جان توڑ جدوجہد میں کھپادیاکہ مجھے میرامقصود ہاتھ آجائے۔ وہی مقصود جس سے میںکسی وقت ایک لمحہ کے لئے غافل نہیں ہوا۔ جو ہر سانس کے ساتھ میری رگوں میں دوڑتاتھا، جو مجھے ایک حیات جاوداں اور عیش دوام کی طرح پیاراتھا، جس کے لئے میں اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے ہمہ وقت تیاررہا، جس کے لئے میں اپنی جان دینے کے لئے بھی ہر لمحہ آمادہ تھا، جس کی خاطر میںکسی بھی حدتک جانے کے لئے تیارتھا۔ وہ میرا عزیز ترین مقصود اس وقت اس حرافہ چڑیل کی صورت میں میرے سامنے موجود تھا۔ کس قدربھیانک انجام تھا میری عمر بھر کی جانکاہ جدوجہد کا۔
میں نے اسی رات تمام حکومت و حکرانی، ملک و مملکت، لشکر و سپاہ، جاہ وچشم، مال و دولت، غلام و خدمت گار،محل دو محلے، غرض دنیا و مافیہا سے قطع تعلق کیا اور خاموشی کے ساتھ یہاں دو ر دراز کے ایک جنگل میں بسیرا کرلیا۔ یہاں جانوروں، پرندوں، درختوں، پتوں ، دریائوں، ہوائوں اورآتے جاتے موسموں سے میری رفاقت ہوگئی۔ انسانوں کی دنیا سے دور اس گمنامی میں ہی کسی وقت مجھے پرسکون موت آجائے گی جس کے لئے میں ہرلمحہ تیاررہوںگا۔
لیکن موت سے قبل میری آخری خواہش ہوگی کہ اس خط کو اس طرح محفوظ کرسکوں کہ آنے والی نسلوںکومیرے اصل حالات کا علم ہوسکے۔ اس خط کے ذریعہ میں اپنی اس زشت روئی کونمایاں کرنے کی کوشش کررہاہوں جو ایک بے بنیاد اور بے مایہ مقصد کی خاطر ان گنت گناہوں،بے حد ظلم اور شدید سفاکی کا بوجھ سمیٹنے کاباعث بنی رہی۔ یہ سب کچھ تفصیل کے ساتھ اس لئے لکھ رہاہوں کہ آنے والی نسلیں اس سے سبق حاصل کریں اور اس روش سے بچیں جو مجھے تباہی کی منزل تک پہنچانے کاباعث بنی ہے۔ اس طرح شایدمیری بخشش کی بھی سبیل پیدا ہوجائے کہ اس خط کے ذریعہ میری حقیقی شخصیت ویسی ہی نظرآئے گی جیسے کہ وہ رہی ہے۔ ورنہ تاریخ تومیری شخصیت کو جانے کتنا عظیم بناکر پیش کرے گی۔ تاریخ کی مثال اس اندھے کی سی ہے جو ہاتھی کو چھوکر اپنی تعبیرکرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاریخ اکثر غلط باتوں کو بیان کرتی ہے اور بہت سے حقیقی واقعات سے صرف نظرکرجاتی ہے۔
دنیا میں شاید میری واحد مثال ہوگی کہ ایک حکمران اپنے گناہوں کا یوں برملا اعتراف کرے، اپنے بدصورت چہرہ کا خوب صورت نقاب اس طرح اتار پھینکے اور تمام عمر کی کوشش سے کمائی ہوئی شہرت اورنیک نامی کے لئے دعا کرے۔ میں بھی اس آخری وقت میں تیرے لئے دعا کرتاہوں۔ لیکن یہ بات پکی ہے کہ مجھ جتنا گناہ گاہ اور ناکردہ کار اس دنیا میںاور کوئی نہیںہوا ہوگا۔