کاش

محمد مصطفی علی انصاری

وداعی تقریب شاندار پیمانے پر منائی جا رہی تھی، تمام اعلیٰ عہدیدار اور سماجی اور سیاسی لیڈر جلسہ گاہ میں موجود تھے۔ جلسے کی صدارت اسٹیٹ بنک کے جنرل منیجر کر رہے تھے۔ ہر ایک باری باری برانچ منیجر کی تعریفوں کے پل باندھ رہا تھا۔ جلسہ گاہ میں موجود غریب قرض دہندگان خوش تھے یہ جان کر صاحب کو ترقی ملی اور اشک بار تھے کہ وہ یہاں سے کسی اور جگہ ترقی پر جا رہے ہیں۔ جیسے ہی گل پوشی اور شال پوشی کا سلسلہ ختم ہوا، اب باری تھی جس کے لیے یہ تقریب منعقد کی گئی۔

وہ ڈائس سے جیسے ہی اٹھے اشک بار ہوئے اور سب کا شکریہ ادا کیا جو یہ تقریب منعقد کی اور تمام اسٹاف اور خاص کر ان تمام قرض دھندگان کا جنہوں نے وقت پر قرض لوٹا کر انہیں ترقی کا موقع مہیا کیا۔ جنرل منیجر کی خواہش پر حالات زندگی کا مختصر ذکر کیا اور یہ بتاتے ہوئے چھوٹے بچے کی طرح رو پڑے کہ یہ ان کی دادی ماں کی مدد اور دعاؤں کی دین ہے جو آج بھگوان نے مجھے اس ترقی سے نوازا۔ چند لمحے خاموش رہے پھر بتانے لگے کہبھلا وہ دن میں کیسے بھول سکتا ہوں جب میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا امتحان کی فیس داخل کرنے کی آخری تاریخ تھی جیب میں پیسہ نہ تھا، ابھی چند روز ہوئے والد کا انتقال ہوا تھا۔ آخر بیوہ ماں کہاں تک محنت مزدوری کر کے گھر کے اخراجات پورے کرتی وہ مجبور تھی میں لاچار تھا سوائے بھیک مانگنے کے اور کوئی راستہ نہ تھا۔ میں گاؤں کے اس ہوٹل کے پاس گیا جو نیشنل ہائے وے پر واقع تھا جہاں اکثر مسافر ناشتہ کرنے رک جاتے۔ مانگنے پر بڑی مشکل سے دس بارہ روپے ملے، میں مایوس ہوکر لوٹ رہا تھا کہ ایک کار رُکی ایک نوجوان برقع پوش خاتون دو بچوں کے ساتھ اور ایک ضعیف خاتون اترے۔ میرے آنسو رواں تھے جاکر بڑی بی سے التجا کی میری مدد کریں مجھے پڑھنا ہے امتحان دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ انہوں نے پہلے مالک ہوٹل سے کہا اس بچے کو ناشتہ دیں، یوں دو روٹیاں مل گئیں۔ رات کا بھوکا تھا فوری کھالیا۔ یہ دیکھتے ہوئے انہوں نے مالک ہوٹل سے کہا ان دو ٹکڑوں سے کیا ہوگا، مزید دیں ، اس طرح میں نے ایک اور پلیٹ اڈلی کھا لی۔ ناشتہ کے بعد انہوں نے پوچھا بتاؤ بیٹا کتنے پیسوں کی ضرورت ہے۔ میں نے کہا دس روپے تو ہیں مزید چالیس روپیوں کی کمی ہے۔ یہ سننا تھا کہ بہو نے پرس سے سو کا نوٹ نکال کر ساس کے ہاتھ میں تھما دیا اور پھر انہوں نے وہ سو کا نوٹ میرے ہاتھ میں دے دیا۔ یہ نظارہ دیگر سب مسافر دیکھ رہے تھے۔ ان دادی ماں نے مجھے اور قریب بلوایا اور بڑے ہی پیار سے کہا کہ بیٹا! اس بڑھیا کی یہ نصیحتیں ہمیشہ یاد رکھ، تو کبھی ماں کا دل نہ دکھانا، اساتذہ کی ماں باپ کی طرح عزت و قدر کرنا، علم کو اوڑھنا بچھونا بنانا اور کبھی مالداروں پر حسد نہ کرنا، جا اللہ تیری حفاظت کرے اور پھر ٹھہرنے کو کہا۔ وہ میری دادی ماں جاتے ہوئے مرے سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیتی گئیں اس کی ٹھنڈک میں اب تک محسوس کرتا ہوں اور رام قسم اس دن سے آج تک مجھے کبھی دردِ سر لاحق نہ ہوا، میری نوکری اور آج یہ ترقی سب میری دادی ماں کی دعاؤں کی بھیک ہے اگر وہ نہ ہوتیں تو میں نہ پڑھ سکتا اور نہ آج یہ محفل سجتی، یہ کہتے ہوئے بار بار رومال سے آنسو پوچھتے رہے اور محفل کو بتایا وہ مبارک دن آج ہی کی تاریخ ہے یوں خوشی دو بالا ہوئی اور محفل کو بتایا میں ہر سال اسی ماہ اسی تاریخ کو اس مقام پر جاتا ہوں اور ایسا محسوس ہوتا ہے میری دادی ماں مجھے دعا دینے کے لیے منتظر ہیں یہ بتانا تھا کہ ساری محفل خوشیوں سے جھوم اٹھی اور لوگ تالیاں بجا بجا کر مبارک باد دے رہے تھے۔

کاش! ہم اس خدا ترس ضعیف خاتون کے اخلاق و ایثار اور اس آفیسر کے جذبہ تشکر سے کچھ نہیں حاصل کریں؟lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں