[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

فاطمہ توتے

ڈاکٹر عبدالغنی فاروق

منیلا کے نواح میں مقیم ایک اسکول ٹیچر سسٹر فاطمہ توتے نے اسلام قبول کیا تو انہیں غیر معمولی حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ رشتہ داروں نے بائیکاٹ کردیا، بڑا بیٹا باغی ہوکر گھر سے چلا گیا اور چھوٹے بچوں کو اسکول سے نکال دیا گیا، لیکن موصوفہ ثابت قدمی سے راہِ حق پر رہیں، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے سارے معاملات درست کردیے۔ یہ روح پرور داستان خود انہی کی زبانی مطالعہ کیجیے۔

اگرچہ قبولِ اسلام کے نتیجے میں مجھے بڑے مشکل حالات سے گزرنا پڑا، لیکن الحمدللہ اسلام قبول کرنا میری زندگی کی سب سے بڑی سعادت ہے۔ ایک مسیحی کی حیثیت سے میری زندگی الجھاووں سے بھری ہوئی تھی۔ میں سرتا پا مادیت میں ڈوبی ہوئی تھی اور حقیقت پسندی سے کوسوں دور تھی، لیکن اسلام نے مجھے واقعتا ایک نئی زندگی سے روشناس کرایا۔ صاف ستھری، پرسکون منظم و منضبط زندگی … یہ میری حیاتِ مستعار کا سب سے بڑا واقعہ ہے، انقلابی واقعہ اور اس پر میں اپنے اللہ تعالیٰ کا جس قدر شکر ادا کروں، کم ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد مجھے مقصدیت کا شعور حاصل ہوا اور پتہ چلا کہ ایک عورت کا اصل مقام اس کاگھر ہے اور ایک بیوی اور ماں کی حیثیت سے اس کے فرائض کتنے نازک ہیں اور کس قدر اہم ہیں۔

میں نے اسلام قبول کیا تو خاندان بھر میں گویا بھونچال آگیا اور جب میں نے اسلامی لباس اختیار کرلیا، نمازوں کی پابندی شروع کردی اور اپنی روز مرہ زندگی کا اسلوب اسلامی تعلیمات کے مطابق بنالیا یعنی مخلوط محفلوں سے کنارہ کشی اختیا رکرلی اور دیگر لغویات سے منہ موڑ لیا تو سارا ماحول میری مخالفت پر اتر آیا۔ میرے بیٹے مقامی کیتھولک اسکول میں پڑھتے تھے، جو چرچ کی زیرِ نگرانی کام کرتا تھا۔ انہیں وہاں سے خارج کردیا گیا۔ میرا بیٹا اتنا برہم و برگشتہ ہوا کہ گھر چھوڑ کر اپنی خالہ کے ہا ںچلا گیا اور مجھے اپنی ماں تسلیم کرنے سے انکا کردیا۔ میرے رشتہ داروں، پڑوسیوں اور دوستوں نے سنجیدگی سے سمجھ لیا کہ میں پاگل اور مجنوں ہوگئی ہوں چنانچہ میری ایک بہن نے جو خود ڈاکٹر ہے، مشورہ دیا کہ مجھے کسی ماہرِ نفسیات سے علاج کرانا چاہیے۔

لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے، میں مستقل مزاجی سے اپنے اسلامی تشخص پر قائم رہی، میں نے کسی کے طعن و تشنیع کی پروا نہ کی نہ کسی مخالفت کا برا مانا اور صبر و وقار کے ساتھ سب کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آتی رہی۔ میرے ارد گرد ساری عورتیں اسکرٹ بلکہ منی اسکرٹ پہنتی ہیں، لیکن جب میں ٹخنوں تک لمبی عبا پہن کر باہر نکلتی یا چادر میں ملبوس ہوکر بازار میںآتی اور چہرے اور ہاتھوں کے سوا میرا سارا جسم ڈھکا ہوا ہوتا تو جاننے والے حیرت کی تصویر بن جاتے بلکہ رحم بھری نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگتے۔ مارکیٹ میں جاتی تو شروع میں کئی دکانداروں نے مجھے عیسائی راہبہ (Nun) سمجھا اور دریافت کیا کہ میں کس فرقے سے تعلق رکھتی ہوں؟ کوئی فرد مجھے ایک ’’عام عورت‘‘ سمجھنے کے لیے تیار نہ تھا جب کہ یہ چیزبھی انہیں پریشان کرتی کہ میرا لباس روایتی ننوں سے خاصا مختلف ہے۔ چنانچہ بس میں، اسکول میں اور سپر مارکیٹ میں ہر جگہ بار بار مجھ سے ایک ہی سوال کیا جاتا کہ آپ کا تعلق کس فرقے سے ہے؟ اس کے جواب میں میں انہیں بتاتی کہ میرا تعلق دینِ اسلام سے ہے، یا یہ کہ میں مسلمان ہوں۔ اس پر بعض لوگ تکرار کرتے کہ پھر میں ایک نن کی طرح کا لباس کیوں پہنتی ہوں؟ ایک روز اسکول کی لیڈی ڈائریکٹر نے بھی اعتراض جڑ دیا کہ مجھے اسکول میں اس طرح کا لباس نہیں پہننا چاہیے، جو ننوں سے ملتا جلتا ہے۔ میں نے جواب میں وضاحت کی کہ یہ لباس تو حضرت مریم کے لباس سے ملتا جلتا ہے اور وہ خدا پر ایمان رکھنے والے سب لوگوں کی محبوب اور مثالی شخصیت ہے۔ پھر یہ بات کتنی عجیب ہے کہ ہم ایک شخصیت کو مثالی اور آئیڈیل بھی قرار دیں، اس سے بے پناہ محبت کا دعویٰ بھی کریں، لیکن اس کی سیرت اور پسندیدہ طریقوں کی مخالفت کریں، اس کا تو صاف مطلب یہ ہے کہ ہمارا دعویٔ محبت محض کھوکھلا ہے، ہم اس معاملے میں سنجیدہ ہیں نہ عمل کرنا چاہتے ہیں۔

میری وضاحت سے ڈائریکٹر لاجواب ہوکر خاموش ہوگئی۔ تاہم بہت سے لوگوں نے میری اس دلیل کو قبول بھی کیا اور ان کے دلوں میں اسلام اور اسلامی لباس کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوگیا۔ چنانچہ میں جب بھی اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے ہاں جاتی ہوں وہ ہمارے لیے حلال خوراک کا انتظام کرتے ہیں اور میرے والد حالانکہ ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے، میرے اور میرے بچوں کے لیے نماز کا انتظام کرتے ہیں اور میرے بچوں کو یاد دلاتے ہیں کہ تمہاری نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ اسکول کی ڈائریکٹر خود ایک نن ہے، اب الحمدللہ اس کے سلوک میں بھی خوشگوار تبدیلی آگئی ہے، اس کا رویہ دوستانہ ہے اور اس نے تنقید کے بجائے تجسس کا انداز اختیار کرلیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا مزید کرم یہ ہوا ہے کہ میرے بچوں کو اسکول میں دوبارہ داخلہ مل گیا ہے، میرا بڑا بیٹا گھر واپس آگیا ہے وہ اپنے طرزِ عمل پر شرمندہ ہے۔ اسلام کے بارے میں مثبت انداز میں سوال کرتا ہے اور جب ہم نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو وہ بھی ہمارے ساتھ شامل ہوجاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی تائید و حمایت کا اندازہ اس سے لگالیجیے کہ قریبی مارکیٹ میں ایک دکاندار مجھے ہمیشہ ’’سسٹر‘‘ کہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ میں جس روز اس کی دکان سے سودا خریدتی ہوں، اس روز اس کی گاہکی بہت بڑھ جاتی ہے اور کاروبار میں خوب نفع ہوتا ہے۔ مزید مسرت انگیز تجربہ یہ ہے کہ میرے پڑوسی اور خاندانی رفقاء مجھ سے غیرمعمولی اپنائیت اور محبت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہر طرح کا تعاون کرتے ہیں اور بعض اوقات گھروں سے باہر جاتے ہوئے بچوں کو میرے ہاں چھوڑ جاتے ہیں۔ بعد میں بتاتے ہیں کہ کس طرح ان کے بچے اسی طرح عبادت کرنے کاتقاضا کرتے ہیں، جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں۔ اس ساری خوشگوار صورتِ حال کی ایک ہی وجہ میری سمجھ میں آتی ہے کہ میں ساری مخالفتوں کے باوجود ثابت قدمی سے قرآن و سنت کی تعلیمات پر کاربند رہی جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے دل بدل دیے ہیں۔ بے شک دلوں کا مالک تو اللہ ہی ہے۔

اس سے میری سمجھ میں یہ بات بھی آئی کہ ایک مسلمان اگر صبر، حکمت اور انتظار کی روش اختیار کرے، اپنے ارد گرد کے ماحول اور مخالفین سے محاذ آرائی کی بجائے محبت اور درگزر کا انداز اختیار کرے، اپنے خدا سے تعلق مضبوط رکھے اور ثابت قدمی سے اپنے عقیدے پر قائم رہے، تو تھوڑے عرصے میں نہ صرف مخالفتیں دم توڑدیتی ہیں بلکہ موافق ماحول پیداہوجاتا ہے۔ (ہمیں خدا کیسے ملا؟ سے ماخوذ)

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں