س: آپ کا پہلے کیا نام تھا، اور اسلامی نام کیا ہے؟
ج: میرا نام سنیتا تھا، ابھی میرا نام سمرین ہے؟
س: آپ کب اور کہاں پیدا ہوئیں؟
ج: میری پیدائش ۹؍دسمبر ۱۹۸۴ء میں ہوئی۔ ہمارے گاؤں کا نام پتھر دیوا بازارہے۔ یہ دیوریہ ضلع میں پڑتا ہے۔
س: آپ کا خاندان اور والدین وغیرہ؟
ج: میں کنوجیہ خاندان سے تعلق رکھتی ہوں، میرے پاپا کا نام شنکر گپتا ہے اور ممی کا نام پربھا دیوی ہے۔ میرے تین بھائی ہیں اور میں ایک بہن ہوں۔ سب سے چھوٹی ہوں۔ پاپا بتاتے ہیں کہ جب میں بہت چھوٹی تھی تو ہمارے پاپا، ممی گاؤں چھوڑ کر ممبئی آکر بس گئے۔ اس وقت ہماری پوری فیملی تھانہ علاقے میں رہتی ہے۔ پاپا کی جنرل اسٹور کی دکان ہے۔ ممی ہاؤس وائف ہیں۔
س: آپ سب سے پہلے کب اور کیسے اسلام سے متعارف ہوئیں؟
ج: جب میں ۱۳؍سال کی تھی تو میرے پڑوس میں ایک مسلم فیملی رہتی تھی ان لوگوں سے ہمارے پاپا ممی کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ ہمارے گھر کے سارے لوگ اس طرح ان لوگوں سے ملتے کہ اس بات کااحساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ دونوں فیملی الگ الگ مذہب سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہاں تک سامان وغیرہ کا لین دین بھی ہوتارہتا تھا۔
مذہبی گفتگو جب ہوتی تو وہ لوگ اسلام کا تعارف کراتے تھے۔ ان کی گفتگو کو میں بغور سنتی رہتی تھی۔ اور ان لوگوں کی ان مذہبی باتوں میں دلچسپی لیتی تھی۔ ان سب باتوں کا اثر میرے اوپر یہ ہوتا کہ ذہن میں کئی طرح کے سوالات پیدا ہوتے، جب سوالات پیدا ہوتے تو میں کشمکش میں رہتی کہ ان سوالو ںکا جواب کس سے معلوم کروں۔ اتفاق سے ایک بار ایسا ہوا کہ میں نے اپنی بھابھی سے ہی پوچھا، کہ آخر ہم لوگ مورتی کو کیو ںپوجتے ہیں، اس سے ہمیں کیا فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ اس کا میری بھابھی نے کوئی جواب نہ دیا، اور بات آئی گئی ہوگئی اور اس طرح میں اپنی زندگی اپنے آباء واجداد مذہب کے طریقے پر گزراتی رہی۔ لیکن میں اپنی اس زندگی سے مطمئن نہیں تھی اور ہمیشہ حق کی تلاش میں رہی اورمجھے ایک ایسے انسان کی تلاش تھی جو مجھے اسلام کا صحیح تعارف کراتا۔
س: آپ نے کب ہندو مذہب ترک کیا اور کیوں؟
ج: میرا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ انسان کے ساتھ چاہے کتنی بھی مشکلات ہوں۔ جب اس کے اندر کسی بھی چیز کو حاصل کرنے کا جذبہ ہوتا ہے۔ تو وہ اسے حاصل کرہی لیتا ہے۔ بشرطیکہ اس کا ارادہ مضبوط ہو اور وہ مشکلات اور پریشانیوں سے گھبرانے والا نہ ہو۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ مسلم گھرانے سے ہمارے گھرانے کی بے تکلفی نے ہمارے لیے راستہ آسان کردیا اور پھر میں نے اپنے پڑوس کی مسلم فیملی سے یہ کہا کہ میں اسلام قبول کرنا چاہتی ہوں۔ تو ان لوگوں نے مجھے بتایا کہ اس کے لیے تم کو اپنا مذہب بالکل چھوڑنا ہوگا۔ یہاں تک والدین اور گھر کے سارے لوگوں کو چھوڑنا ہوگا۔ تمہارے گھرکے لوگ اس کے لیے تیا رنہیں ہوں گے۔ اور تمہیں کست مسلم لڑکے سے شادی کرنی ہوگی۔ میں نے کہا مجھے یہ مذہب پسند ہے، اور اس کے لیے میں یہ سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اور میرے ذہن میں ایک لڑکا تھا جو مجھے لگتا تھا کہ وہ میرے اس مسئلہ کو حل کرسکتا ہے۔ اس لڑکے کا نام عبدالمجید خان ہے، اس سے میں نے کہا کہ میں اسلام قبول کرنا چاہتی ہوں، تو ان کا بھی یہی جواب تھا کہ اس کے لیے تم کو گھر بار سب چھوڑنا پڑے گا اور مدرسے میں تعلیم حاصل کرنی ہوگی۔ اور جب میں نے ان سے شادی کے لیے پیش کش کی تو اس نے کہا کہ میں سوچ کر بتاؤں گا۔ پھر اپنے گھر پر مشورہ کیا اور انھوں نے جواب ہاں میں دیا۔ ان کے گھر کے سارے لوگ تیار تھے۔ اور الحمدللہ میرے لیے یہ بہت بڑی خوشی کی بات تھی کہ یہ دعا قبول ہوئی اور ۱۰؍مئی ۲۰۰۶ء کو اسلام قبول کرلیا اور ۱۸؍مئی کو عبدالمجید خان سے ان کے خاندان کے سارے لوگوں کی موجودگی میں میرا نکاح ہوگیا اور پھر ہائی کورٹ سے ہمارے کاغذات بھی بن کر آگئے۔
الحمدللہ ہمارے سسرال والے بہت خوش مزاج ہیں، اور ہم سے بہت خوش ہیں۔ ہمارے سسرال والے مہاراشٹر کے اورنگ آباد شہر کے رہنے والے ہیں۔ یہ لوگ جہانگیر کولونی میں رہتے ہیں ہمارے والدین سے ہمارا کوئی ربط نہیں۔
س: اسلام میں داخل ہونے کے بعد آپ کے گھر کے لوگوں کا رویہ کیا رہا؟
ج: اپنا گھر (ممبئی) تو میں چھوڑ کرآگئی ہوں گھر کے لوگوں کو معلوم تو ہوچکا ہے کہ میں نے اسلام قبول کرلیا اور لوگ ناراض بھی ہیں۔ ان کو یہ معلوم نہیں کہ میں اس وقت کہاں ہوں۔ البتہ مجھے ان کے بارے میں معلوم ہے کہ انھوں نے پہلے مجھے تلاش کیا مگر اب ان کی یہ دلچسپی ختم ہوگئی ہے۔ ابھی میں اسلام کا علم حاصل کررہی ہوں۔ میرا ارادہ ان لوگوں کو بھی اسلام سے متعارف کرانے کا ہے۔ دعا کیجیے اللہ رب العزت ہمیں کامیاب کرے۔ (آمین!)
س: اسلام قبول کرنے کے بعد آپ نے اپنی خانگی زندگی میں کیا تبدیلی محسوس کیں؟
ج: اب دلی طور پر سکون محسوس کرتی ہوں، انسان کی زندگی ایک دریا کے مانند ہے۔ جو ہمیشہ ایک راستہ ڈھونڈتا رہتا ہے۔ آخرت کے تصور نے میری زندگی میں ایک نئی تبدیلی پیدا کی ہے اور اس کا پہلا مظہر حجاب ہے جو میں نے اختیار کیا اور اس میں مجھے بڑا سکون حاصل ہوتا ہے۔
س: حجاب پڑھنے والوں کے لیے کوئی پیغام؟
ج: جی ہاں! قرآن ہمارا اصل رہنما ہے وہ ہمیں زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ دعوت و تبلیغ کا طریقہ بھی سکھاتا ہے۔ اس لیے ہماری بہنوں کو چاہیے کہ وہ عربی زبان سیکھیں اور قرآن کی ایک ایک آیت پر غوروفکر کریں اور سب سے پہلے اس کا نفاذ اپنی روز مرہ کی زندگی میں کریں۔ پھر آپ محسوس کریں گی کہ آپ اس مغربی تہذیب سے مقابلہ کرنے کے لیے بالکل تیار ہیں اگر اپنے ہر قدم پر آپ قرآن کا مشورہ لیں گی، قرآن جیسے کہے گا ویسا ہی کریں گی تو سماج کے اور اپنے خاندانی رسم و رواج راستے سے ہٹتے چلے جائیں گے اور آپ کامیابی کے ساتھ زندگی کا سفر طے کرلیں گے۔