قوموں کی زندگی کا راز

(شمیم حنفی کے ایک مقالہ سے)

وہ افراد اور وہ قومیں جو اپنے حال کے ساتھ ساتھ اپنے ماضی کا بھی عرفان رکھتی ہیں اور جنھیں آنکھوں کے سامنے جگمگ کرتے لمحوں کے ساتھ گزرے ہوئے کل کی قندیل بھی روشن نظر آتی ہے، تاریخ کے صفحے پر اپنی انفرادیت کا پرچم بلند رکھتی ہیں۔ ماضی اس کل کا نام ہے جس کا لہو ’’آج‘‘ کی شریانوں میں دوڑتا رہتا ہے۔ اور جس کی سیال توانائی ’’آج‘‘ کو آنے والے کل کی دہلیز تک پہنچادیتی ہے۔

وہ لوگ بدنصیب ہوتے ہیں جو ماضی کے عرفان اور ماضی کی پرستش میں فرق قائم نہیں رکھ پاتے، جو ہر نئی حقیقت کو پرانی حقیقت کی میزان پر پرکھتے ہیں اور اس رمز سے بے خبر گزرجاتے ہیں کہ وقت اپنے آپ کو دہراتا نہیں ہے۔

اصل میں کسی قوم یا تہذیب کی انفرادیت کے قیام کے لیے اپنے ماضی کا شعور اور عرفان جتنا مفید اور بارآور ہوتا ہے، ماضی کی پرستش اسی قدر بے فیض اور ہلاکت آفریں ہوتی ہے۔ ایک مغربی دانشور نے کہا تھا — ہم اپنے ماضی کو جتنی دور تک دیکھ سکیں، مستقبل کی سمت اتنی ہی دور تک جاسکیں گے۔

آج مغرب کا المیہ یہی ہے کہ اس نے تہذیبی انفرادیت کو قائم رکھنے کا یہ سبق بھلا دیا ہے۔ اسے اپنے آج کی خبر ہے اور صرف آنے والے کل پر اس کی نظر ہے۔ وقت کے تسلسل کی اس ڈور کے کٹ جانے سے اس کا حال بے چہرہ اور آنے والا کل اندیشہ ناک ہوگیا ہے۔

مبارک ہیں وہ لوگ جو زمانے کے تسلسل کے رمز سے آگاہ ہیں جن کے ذہن گزشتہ ادوار کے تجربوں سے روشن ہیں اور جن کی آنکھوں کو حال کی چمک دمک نے اتنا خیرہ نہیں کردیا ہے کہ انسانی وجود اور انسانی تہذیب کے مقاصد سے بے نیاز ہوجائیں۔

مشرقی علماء، مفکرین نے اسی لیے زمانے کی وحدت پر بار بار زور دیا ہے۔ مغرب کے ایک صوفی مزاج دانشور نے ایک بار کہا تھا — ’’آنے والے دنوں میں مشرق ہی کو مغرب کی قیادت کا بار اٹھانا ہوگا کہ اس میں اس کی نجات کا رمز پوشیدہ ہے۔‘‘

یہاں مغرب اور مشرق دو جغرافیائی خطوں کے نام نہیں بلکہ شعور کے دو میلانات اور تہذیب کے دو رویوں سے عبارت ہیں۔ مادی پسماندگی کے باوجود مشرق کے ثبات اور استحکام کا راز یہی ہے کہ اس نے ابھی اپنے ماضی کو فراموش نہیں کیا۔ مغرب اپنے ماضی کو بھول چکا ہے اس لیے اپنی حقیقت بھی اس پر روشن نہیں۔ زندگی کا یہ دور صرف تباہی کو جنم دے سکتا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں