’’ہائے مر گئی، ہائے میں مرگئی‘‘۔ بڑھیا کی دلدوز چیخوں سے اسپتال کے در و دیوار گونج اٹھے۔ میں اپنے عزیز کی تیمارداری بھول کر اس کی جانب متوجہ ہوگیا۔ بستر پر دراز بڑھیا کے ارد گرد کچھ لوگ جمع تھے۔ چند لمحوں بعد ان میں سے ایک شخص واپس مڑا تو میں نے اسے روک کر پوچھا ’’اس عورت کو کیا تکلیف ہے؟‘‘
وہ کہنے لگا ’’جوڑوں کے درد کی مریضہ ہے۔ بے چاری کا آگے پیچھے کوئی نہیں۔ چند برس ہوئے خاوند داغِ مفارقت دے گیا، تب سے اس کا یہ حال ہے۔ اتنے بڑے گھر میں تنہا رہتی ہے‘‘۔
میں نے پوچھا ’’اولاد کوئی نہیں ہے؟‘‘
’’دو بیٹے امریکا میں مقیم ہیں۔ ایک بیٹی تھی، اسے بیاہ دیا، وہ اپنے گھر خوش باش ہے‘‘۔ وہ شخص بولا ’’بے چاری تنہائی میں اکثر بڑبڑاتی رہتی ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں، مجھ سے کہاں بھول ہوگئی‘‘۔
میں نے پوچھا ’’آپ کی عزیزہ ہے؟‘‘
کہنے لگا ’’ہمارے پڑوس میں رہتی ہے۔ ہمدردی کے ناتے محلے دار اسے اسپتال لے آئے تاکہ صحیح طریقے سے اس کی دیکھ بھال ہوسکے‘‘۔
’’بیٹی ماں کو نہیں پوچھتی؟‘‘ میں نے استفسار کیا۔
’’بڑھیا کسی مصلحت کے تحت اُس کے پاس نہیں رہتی اور بیٹی بھی گھریلو مجبوریوں کے باعث ماں کے پاس نہیں رہ سکتی‘‘۔ اس نے انکشاف کیا۔
میں نے فوراً اگلا سوال داغا ’’آپ کہاں رہتے ہیں؟‘‘
’’اندرون شہر، میاں خاں کی حویلی، مکان نمبر B-14‘‘۔
یہ سن کر میں بھونچکا رہ گیا اور بے اختیار میرے دماغ میں رخشندہ آپا کا چہرہ گھوم گیا۔ وہ شخص چلا گیا، تو میں تیز تیز قدم اٹھاتا بڑھیا کے بستر تک پہنچا اور یہ دیکھ کر چکرا گیا کہ وہ رخشندہ آپا ہی تھیں۔
ہمارے مکان سے تیسرا گھر رخشندہ آپا کا تھا۔ بڑی نفیس خاتون تھیں۔ ہمارے سامنے بیاہ کر اس گھر میں آئیں۔ گول مٹول، سرخ و سپید دو پھول سے بیٹے اور ایک پیاری کلی اس کے آنگن میں مسکائی تو دنیا ہی میں اسے جنت کا گمان ہونے لگا۔ میاں سرکاری ملازم تھے۔ ذاتی مکان ہونے کے باعث اچھی گزر بسر ہوجاتی۔ پورے محلے میں رخشندہ آپا کا چرچا تھا، کیونکہ وہ عورتوں کے معاشرتی مسائل کا حل خوب نکالتیں اور انہیں گھر بار اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا خاص درس دیتیں۔ گاہے گاہے پریشان حال عورتیں ان سے رجوع کرتیں اور مطمئن ہوکر چلی جاتیں۔
جب رخشندہ کے بچے اسکول جانے کے قابل ہوئے تو اُنہوں نے ان کی تعلیم و تربیت کی خاطر انگلش میڈیم اسکول کا انتخاب کیا۔ میاں کی یہ مرضی تھی کہ بچے پہلے قرآن پاک پڑھ لیں، بعد میں انہیں انگریزی اسکول میں داخل کرائیں گے، اس دوران کچھ رقم اکٹھی ہوجائے گی، مگر رخشندہ نے شوہر کی باتوں کو دقیانوسی جانا اور جیسے تیسے اپنے لعل انگلش میڈیم اسکول میں داخل کرادیے۔
میاں بھی چہیتی بیگم کے آگے سرنگوں ہوگئے، البتہ بیٹی باپ کی خواہش کے مطابق پلی بڑھی۔ رخشندہ آپا نے بھی اس بات کو اہمیت نہ دی کہ وہ تو پرایا دھن ہے۔۔۔۔۔ بیٹے تو ان کے پاس رہیں گے۔ ہر ماہ انگلش میڈیم اسکول کی بھاری فیسیں ادا کرنا میاں کی کمائی سے ممکن نہ تھا، لہٰذا رخشندہ آپا گھر پر سلائی کڑھائی کرنے لگیں۔ ہاتھ میں نفاست تھی، کام چل نکلا اور معقول آمدنی ہونے لگی۔ وہ بچوں کی خوراک اور کپڑوں کا خاص خیال رکھتیں۔ جیسے جیسے وہ بڑی جماعتوں میں گئے، فیسیں بھی بڑھتی چلی گئیں، مگر رخشندہ آپا نے ذرا پروا نہیں کی بلکہ پہلے سے زیادہ محنت کرنے لگیں، کیونکہ ان کے سر پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ بچے فرفر انگریزی بولیں۔
بچوں کو ’’بڑے آدمی‘‘ کے روپ میں دیکھنے کی تمنا میں رخشندہ آپا نے اپنے زیور بھی دائو پر لگا دیے۔ حتیٰ کہ اپنے وسیع و عریض مکان میں سے پانچ مرلے فروخت کردیے۔ بچے رخشندہ کو ’’مام‘‘ کہتے تو وہ پھولے نہ سماتیں، البتہ باپ کو ’’ڈیڈی‘‘ پکارتے تو وہ خفا ہوجاتے کہ گھر میں قومی زبان ہی بولا کرو۔
کبھی کبھی اس بات پر میاں بیوی میں تلخی بھی ہوجاتی، مگر اس میں کلام نہیں کہ دونوں بچے لائق فائق تھے، ہر سال اپنی جماعتوں میں اوّل یا دوم آتے۔ اٹھارہ برس دیکھتے ہی دیکھتے گزر گئے۔ وقت سے پہلے ہی رخشندہ کے بالوں میں چاندی اتر آئی، سلائی کڑھائی کے باعث نظر کا چشمہ لگ گیا اور مشین چلا چلاکر ہاتھوں میں گٹے پڑگئے، مگر وہ ہنسی خوشی یہ مصیبتیں جھیلتی رہیں۔
آخر رخشندہ کو اپنی محنت و مشقت کا ثمریوں ملا کہ بچوں کی تعلیم مکمل ہوتے ہی انہیں ان کی ذہانت و فطانت کے پیش نظر حکومت نے امریکا میں مزید تعلیم دلوانے کی پیشکش کردی۔ قیام و طعام اور سفر خرچ بھی حکومت کے ذمے تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ بچوں کی لیاقت کے باعث کئی امیر گھرانوں سے ان کے لیے رشتے آنے لگے جو کار، کوٹھی اور بنگلہ دینے کے علاوہ کاروبار تک کرانے کی پیشکش کرتے۔
یوں رخشندہ بچوں کے اچھے مستقبل کے لیے ان کی جدائی برداشت کرنے پر آمادہ ہوگئیں۔ شوہر نامدار نے لاکھ کوشش کی کہ وہ وطن عزیز ہی میں رہیں، مقابلے کا امتحان دیں اور کامیابی کے بعد اپنے ملک کا نام روشن کریں، مگر حسب سابق ان کی ایک نہ چلی۔
دونوں بھائی امریکا چلے گئے۔ کچھ عرصے بعد وہ اپنے وظیفے کی رقم کا کچھ حصہ گھر بھیجنے لگے۔ اب رخشندہ کو بیٹی کی شادی کی فکر لاحق ہوئی۔ جلد ہی اچھا رشتہ مل گیا۔ تمام معاملات طے پاگئے، تو ماں کو خواہش ہوئی کہ دونوں بھائی بھی بہن کی شادی میں شریک ہوں۔ انہیں بلانے کے لیے چٹھیاں لکھیں اور تار بھیجے گئے مگر دونوں بھائیوں نے اپنی مصروفیات کا عذر کردیا اور بہن کی شادی میں شریک نہ ہوئے۔ آخر بہن کی ڈولی غیروں نے اٹھائی۔ رخشندہ نے بوجھل دل سے بیٹی کو رخصت کیا اور وہ رات بیٹوں کی یاد میں رو روکر گزاری۔
بیٹی کے چلے جانے کے بعد رہی سہی رونق بھی ماند پڑ گئی اور گھر میں تنہائی نے ڈیرے ڈال لیے تو رخشندہ چھپ چھپ کر روتیں، مگر شوہر کے سامنے ظاہر نہ کرتیں کہ وہ فراق کی آگ میں جل رہی ہیں۔ دل ہی دل میں اکثر کہتیں ’’کاش میں نے سرتاج کا کہا مان لیا ہوتا‘‘۔ جب زیادہ اداس ہوتیں، تو بیٹی کے ہاں چلی جاتیں جو قریبی محلے میں بیاہی تھی۔
وقت دھیرے دھیرے گزرنے لگا۔ بیٹے بدیس کی چکا چوند میں ایسے مست ہوئے کہ ماں باپ کو بھی بھلا بیٹھے اور آہستہ آہستہ ماہانہ رقم بھیجنے کا سلسلہ بھی موقوف ہوگیا۔ ناپختہ ذہنوں نے اس ماحول کو صدق دل سے قبول کرلیا جہاں اخلاقی اقدار، رشتے ناتے، قریبی اور ایثار کوئی معنی نہیں رکھتے۔ حتیٰ کہ ماں باپ اگر پریشانی کا سبب بن جائیں تو انہیں ’’اولڈ ہائوس‘‘ (بوڑھوں کا گھر) بھیج دیا جاتا ہے۔
کبھی کبھی میاں بیوی آپس میں جھگڑ پڑتے۔ شوہر رنجیدہ ہوکر رخشندہ کو مجرم گردانتے کہ دنیا کی خاطر انہوں نے بیٹے گنوا دیے۔ ان کا کہا مان لیتیں تو آج گھر کی رونق دیدنی ہوتی۔ یہ سن کر سوائے خاموشی کے رخشندہ کو کچھ سجھائی نہ دیتا۔
جب شوہر نامدار ملازمت سے سبکدوش ہوئے، تو فراغت اور بلند فشارِ خون ایسے رفیق بنے کہ قبر کی دیواروں تک ساتھ نہ چھوڑا۔ موصوف اپنے جگر گوشوں کو دیکھنے کی تمنا دل میں لیے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ بیٹے باپ کا منہ دیکھنے بھی نہ آئے۔ اس بات نے رخشندہ کو بے حد دکھی کردیا، مگر اس کا اظہار وہ کسی سے نہ کرسکیں۔ انہوں نے سوچ سمجھ کر جو بیج بویا تھا، اب اس کی فصل لہلہا رہی تھی اور یہ احساس انہیں کچوکے لگاتا کہ میاں کا کہا مانا ہوتا تو یہ دن دیکھنے نصیب نہ ہوتے، مگر اب پچھتانے سے کیا حاصل؟ یکے بعد دیگرے غموں کے پہاڑ ٹوٹے تو رخشندہ بھی موٹاپے اور جوڑوں کے درد کی مریضہ بن گئیں۔
رفتہ رفتہ ان کے لیے تنہائی پہلے سے زیادہ ڈرائونا روپ دھار گئی۔ ملنے ملانے والوں نے مشورہ دیا کہ بیٹی کے ہاں چلی جائو، مگر بیٹی ماں کو ساتھ نہیں رکھ سکتی تھی کیونکہ معاشرہ اس بات کو معیوب سمجھتا ہے۔ دوسرے یہ کہ بیٹی کا سسر رنڈوا تھا، لہٰذا بیٹی کے گھر رہ کر اس عمر میں وہ کوئی بہتان اپنے سر نہیں لینا چاہتی تھیں۔
ان ہی دگرگوں حالات میں گزر برس ہورہی تھی کہ ایک دن دونوں بیٹے آگئے۔ انہیں دیکھ کر رخشندہ کی بوڑھی ہڈیوں میں جیسے توانائی لوٹ آئی۔ بھائیوں کی آمد کا سن کر بہن بھی دوڑی آئی۔ سسکیوں اور مسکراہٹوں کے ملے جلے جذبات سے گھر کے در و دیوار گونج اٹھے۔ ایسے لگا جیسے روٹھی رونقیں لوٹ آئی ہیں۔
والد کی وفات کا سرسری افسوس کرنے کے بعد بچے ماں کو اپنے ساتھ امریکا لے جانے پر بضد ہوئے تو رخشندہ نے بلک بلک کر انہیں یہیں روکنے کی کوشش کی، کہنے لگیں ’’مجھے کچھ نہیں چاہیے، صرف تم دونوں میری نظروں کے سامنے رہو، میں اپنے دیس کی روکھی سوکھی کھا لوں گی، مجھے عیش و عشرت نہیں چاہیے‘‘۔ مگر مغرب کی چکا چوند کے دلدادہ بیٹے کسی طور پر رکنے پر آمادہ نہ ہوئے بلکہ ماں کو بہلا پھسلاکر ساتھ لے گئے۔ بیٹی بھی مطمئن ہوگئی کہ ماں کو اصل ٹھکانا مل گیا۔
لیکن رخشندہ کا وہاں جی نہ لگا۔ انہیں شکوہ تھا کہ بیٹے انہیں گھر میں بند کرکے اپنے کاموں پر چلے جاتے ہیں اور وہ دن بھر ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر وقت گزارتی ہیں۔ ان کے پاس تو ایک دوسرے سے بات کرنے کی فرصت نہیں تھی، تو وہ وہاں رہ کر کیا کرتیں؟ وہ تو ایک طرح سے ان کی نوکرانی تھیں، دروازے کی گھنٹی بجتی تو دروازہ کھول دیتیں، جب وہ چلے جاتے تو چٹخنی چڑھا لیتیں۔ ’’ہائے مام‘‘ کے سوا ان کے منہ سے کوئی لفظ نہ نکلتا۔ نہ کبھی باپ کو یاد کیا نہ اس کے لیے دعائے مغفرت کی جس نے اولاد کی خاطر سب کچھ دائو پر لگا دیا۔ وہ بیٹوں سے بات کرنے اور حال احوال پوچھنے کو ترستی تھیں۔ وہاں کی بھی کوئی زندگی ہے۔۔۔۔ دفع دور۔
اس طرح رخشندہ جلد واپس لوٹ آئیں۔ بچے خوشی خوشی ماں کو ہوائی اڈے چھوڑنے آئے، انہیں یہ بھی خیال نہ آیا کہ وہ ضعیفہ تنہا کیسے رہیں گی۔ یہ وہی بیٹے تھے جو ماں سے پل بھر دور ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے، مگر اب ان کے دیدوں کا پانی خشک ہوچکا تھا، مغربی اقدار و ثقافت ان کے لہو میں ایسی رچ بس گئی کہ وہ ماں جیسی ہستی کو بھی فراموش کر بیٹھے جس نے زمانے کی گرم و سرد ہوائوں سے انہیں محفوظ رکھا اور کسی قسم کے احساسِ کمتری کا شکار نہ ہونے دیا۔ رخشندہ اپنے چہیتوں کو دعائیں دیتی، بلائیں لیتی اور آنسو بہاتی لوٹ آئیں، مگر ایک بوجھ ان کے سینے پر مونگ دلتا رہا کہ اس المیے کا مجرم کون ہے؟
رخشندہ آپا اب اپنی زندگی کے بچے کھچے دن بڑی اذیت کے عالم میں گزار رہی ہیں۔ ایک نوکرانی دن بھر ان کی خدمت کرنے پر مامور ہے جو اس محتاج کے لیے قدرے تسکین کا باعث ہے۔ جب وہ شام ڈھلے چلی جاتی ہے تو رات کی تنہائی انہیں زہریلے ناگ کی طرح ڈستی ہے، چلنے پھرنے سے معذوری انہیں کچوکے لگاتی ہے۔ وہ اسی عالم بے کسی میں خاوند اور بچوں کو یاد کرکے روتی ہیں کہ وہ پاس ہوتے تو یہ حال نہ ہوتا۔ ان ہی سوچوں میں رات ڈھل جاتی ہے۔
اب وہ ہر ملنے والے کو نصیحت کرتی ہیں کہ دولت پانے کی خاطر اولاد کو پڑھا لکھا کر بدیس نہ بھیجو بلکہ اپنے وطن کو ترجیح دو۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کو بھی خاص اہمیت دو تاکہ رشتوں کا پاس، خاندان اور معاشرتی اقدار زندہ رہیں اور ملک ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن ہوجائے۔
——