لوگ کہتے ہیں کہ مسلم عورت کے الگ سے کچھ مسائل نہیں ہیں۔ جو ملک کی عام خواتین کے مسائل ہیں وہی مسلم خواتین کے بھی ہیں۔ ہندوستان میں عورتوں کے درمیان ناخواندگی ہے تو مسلم عورتیںبھی اس کا شکار ہیں۔ غربت و افلاس، بے روزگاری اور عورتوں کے لیے عدم تحفظ اور عدم برابری کے مسائل ہندو مسلم سے ہٹ کر ہر ہندوستانی عورت کے مسائل ہیں۔ لیکن اس سے ہٹ کر بعض پہلوؤں سے مسلم عورت عام عورتوں کے مقابلہ بہتر حالت میں ہے۔ جہیز کے سبب اموات میں مسلم معاشرہ نسبتاً زیادہ محفوظ ہے۔ اسی طرح گھریلو تشدد اور شادی بیاہ سے متعلق مسائل میں مسلم عورت بہتر حالت میں ہے اگرچہ اس حالت کو بھی اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ مسلم عورت کے الگ سے بھی کچھ مسائل ہیں۔ اور یہ مسائل وہ ہیں جو اس وجہ سے پیدا ہوئے ہیں کہ مسلم معاشرہ نے عورتوں کے ان حقوق کو غصب کیا ہے جو اسلام نے انہیں دئیے ہیں۔ مثلاً: اسلام نے عورت کو وراثت کا حق دیا مگرمسلم معاشرہ میں کتنے لوگ ہیں جو اس سلسلہ میں شریعت اسلامیہ کی پابندی کرتے ہیں۔ اسلام نے عورت کو خلع کا حق دیا مگر مسلم معاشرہ میں خلع کا استعمال کتنا ہے یہ سب کو معلوم ہے اور خلع کے عمل کو کتنا دشوار بنادیا گیا ہے یہ وہی عورت جان سکتی ہے جو اس کے لیے سالوں سال کی جدوجہد کرکے یا تو جوانی گنوادیتی ہے یا پھر تھک ہار کر مظلومیت کی زندگی جینے کے لیے خود کو آمادہ کرلیتی ہے۔
اگر ہم یہ مان لیں کہ مسلم عورتوں کے حالات و مسائل بھی ویسے ہی ہیں جیسے عام ہندوستانی عورت کے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم عورت کے حالات و مسائل ویسے کیوں ہیں؟ جبکہ اسلام نے عورت کو وہ مرتبہ اور وہ حقوق و اختیارات دئیے ہیں جو آج تک کسی مذہب یا معاشرہ نے نہیں دئیے۔
اسلام ایسا دین ہے جو مرد اور عورت دونوں کو زندگی کے لیے مساوی رول دیتا ہے۔ قرآن میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی خطاب کیا گیا ہے۔ سماج میں نیکیوں کے فروغ اور برائیوں کے ازالہ کے لیے دونوں کو یکساں طور پر ذمہ دار ٹھہرایا گیاہے۔ دنیا وآخرت کی کامیابی کے لیے ہر ایک کو انفرادی حیثیت سے جواب دہ بنایا ہے۔ البتہ یہ وضاحت ضروری ہے کہ اسلام مردو عورت کے درمیان جس برابری اور مساوات کی بات کرتا ہے وہ مصنوعی برابری نہیں بلکہ اسلام میں عورت کے تشخص اور اس کیشناخت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ اسلا م میں عورت مرد سے کم تر نہیں لیکن مختلف ہے اور یہ اختلاف ہی عورت کا تشخص ہے۔یہ کہنا کہ عورت ظاہر میں بھی مرد کی طرح ہوجائے، اسلام اسے پسند نہیں کرتا۔ بہت سی چیزیں جنھیں لے کرآج معترضین اُڑے پھرتے ہیں وہ بھی حقیقت میں مختلف ہیں۔
عورتوں کی گواہی، میراث میں آدھا حصہ، چار شادیاں اور طلاق وغیرہ یہ چیزیں جن کو عورتوں کے خلاف باور کرایا جاتا ہے دراصل عورت کے حق میں ہیں۔ یہ ساری باتیں قرآن اور حدیث میں موجود ہیں لیکن عملاً ان چیزوں کو عورتوں کے خلاف کردیا گیا ہے۔ عورت کو خلع کا حق ہے مگر اسے مشکل کردیا گیا ہے، مہر جس کے لیے شریعت کا سخت حکم ہے کہ اسے دیدو مگر کون دیتا ہے؟ یا کتنے لوگ دیتے ہیں؟
مسلم معاشرہ میں عورت کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی پوری زندگی مرد کے گرد گھومتی ہے اس کی اپنی کوئی زندگی، زندگی کے لیے اپنے عزائم اوراپنا مشن یا سماجی، معاشرتی اور دینی مسائل کے حل کے لیے اپنا کوئی کردار نظر نہیں آتا ۔ یہ افسوسناک بات ہے جبکہ مثالی اسلامی دور میں عورتوں کی صورت حال مختلف تھی۔ ان کی الگ مصروفیات، الگ مشن اور زندگی کے علیحدہ عزائم تھے جس نے انہیں ہر سطح پر بڑا Contributerبنادیا تھا۔ علم کے میدان، فوجی خدمات کے میدان، تجارت اور اقتصادیات کے میدان ہر جگہ ہمیں اسلامی عورت نظر آتی تھی۔ مگر آج ایسا نظر نہیں آتا۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے پردہ کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھ لیا ہے۔ اسلام کے مطالعہ سے یہ بات ہمیں معلوم ہوتی ہے کہ پردہ کے معاملہ میں کسی خاص ڈیزائن کے لباس کی اہمیت نہیں بلکہ تقویٰ کی روح کی اہمیت ہے اور رویہ اور برتاؤ کا پردہ مقصود ہے۔ مردوں کے سامنے اٹھلا کر چلنا اور ان سے نرم اور لچک دار آواز میں گفتگو کرنا عورت کے لیے منع ہے۔ اس سے کیا معلوم ہوتا ہے؟ اور ایک خاص بات قرآن کے مطالعہ سے یہ بھی سامنے آتی ہے کہ پردہ صرف عورت کے لیے ہی نہیں بلکہ مرد کے لیے بھی ہے اور اس کی شکل یہ ہے کہ مرد اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور راستہ چلتے عورتوں کو گھورتے اور تکتے ہوئے نہ چلیں۔ عورتوں کا تقویٰ اور ان کے رویہ کے پردہ کے ساتھ مردوں کا نظریں جھکا کر چلنے کا طرزِ عمل مل کر ترقی کی راہیں کھولتے اور سماجی ومعاشرتی تعمیر و تشکیل کے لیے راہیں ہموار کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے آج عوام کے ذہن میںیہ بات بٹھادی گئی ہے کہ قرآن و حدیث کو پڑھنا اور ان کو سمجھنا علماء کا کام ہے۔ اور اس چیز نے مسلمانوں کو قرآن و حدیث کے براہِ راست مطالعہ اور اس پر غوروفکر سے کاٹدیا ہے۔ حالانکہ اسلام میں اللہ اور بندے کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہے۔ اور اس صورت حال کا سب سے زیادہ اثر مسلم عورتوں پر پڑا ہے کہ وہ دین سے یکسر ناواقف اور جہالت کی زندگی گزار رہی ہیں۔ ان کا رابطہ تعلیم و تربیت اور دینی علم کے مراکزسے کٹ کر رہ گیا ہے یہ درست نہیں۔ مسلم معاشرہ میں عورتوں کی دینی تعلیم و تربیت کا انتظام ہونا چاہیے اور اس کے لیے سب سے بہترین مقام اور ذریعہ ہماری مسجدیں ہوسکتی ہیں۔ آج عورتوں کو دین کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جاتا اور قرآن کو وہ محض ثواب کی نیت سے پڑھتی ہیں رہنمائی کے لیے نہیں۔ انہیں رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ اسلام سے عدم واقفیت نے عورتوں کے عزت نفس اور اپنی عظمت و اہمیت کے احساس کو نقصان پہنچایا ہے اور جہیز جیسی بری روایت کے ہاتھوں خود کو مجبور سمجھنا اسی عزت نفس کی کمی کے سبب ہے۔
مسلم عورتوں کا ایک خاص مسئلہ وہ ہے جو عام عورتوں کا بھی ہے کہ مرد شراب پیتے، لاٹری بازی اور عیاشی کرتے ہیں اور ان کی عورتیں گھر گھر جاکر محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ عورتیں تو مزدوری کرتی ہی ہیں بدقسمتی یہ ہے کہ ننھی ننھی بچیاں بھی اسی طرح گھروں میں محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں اور ان کی صورت حال نہایت افسوس ناک ہے۔ مسلم سماج کا فریضہ ہے کہ وہ اس طرح کی خواتین کو ایسے ظالم شوہروں کے چنگل سے نجات دلائیں اور ان ننھی منی بچیوں کے مستقبل کو جو اصل میں ملت اسلامیہ کا مستقبل ہے روشن بنانے کی جدوجہد کریں۔
مسلم معاشرہ میں جمود کا عالم یہ ہے کہ آج تبدیلی یا چینج کا نام گناہ بن گیا ہے اور ان چھوٹی چھوٹی باتوں کے سلسلہ میں جو اسلام کے بنیادی اصولوں کے تحت اورشریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی تبدیل ہوسکتی ہیں، کو شریعت میں تبدیلی سمجھ کر واویلامچانا شروع کردیا جاتا ہے۔ یہ رویہ شریعت اسلامی کی روح کے خلاف اور اس کی وسعتوں کو نظر انداز کرکے اسے خواہشات اور سماجی و معاشرتی روایات کی تنگ نائیوں میں قید کردیناہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی چیز جو انسان یا معاشرہ اور سماج کے لیے نقصان دہ ہو وہ اسلام کا حکم ہو ہی نہیں سکتی۔
مسائل کا حل:
مسلم عورتوں کے جملہ مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ وہ اسلام کی طرف پلٹیں جو انہیں بے مثال حقوق و اختیارات اور ساتھ ہی اہم ترین ذمہ داریاں تفویض کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیم وہ خود بھی بڑھ چڑھ کر حاصل کریں اور مسلم معاشرہ میں بھی اسلام کی تعلیم کو عام کرنے کی طرف توجہ دیں۔ اسلام کے اصولوں اور تعلیمات کو مختلف زبانوں میں آسان انداز میں لوگوں تک پہنچایا جائے۔ اس سلسلہ میں وہ خواتین جو نسبتاً خوشحال طبقے سے تعلق رکھتی ہیں اور بہتر حالات میں زندگی گزار رہی ہیں خاص طور پر اہم رول ادا کرسکتی ہیں۔ وہ خود بھی اسلام کا وسیع اور گہرا علم حاصل کریں اور عام ناخواندہ یا کم پڑھی لکھی خواتین تک اسے پہنچانے کی کوشش کریں تاکہ ان کے اندر اسلام کا صحیح تصور پیدا ہواور وہ آج کے (Male Dominent)مرد کی اجارہ داری والے معاشرہ کو چیلنج کرکے قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بتاسکیں کہ اسلام یہ ہے اور یہ اسلام نہیں ہے۔
اس موقع پر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ عورتوں کی کوئی بھی تحریک مردوں کے تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اگر مردوں کا تعاون نہ لیا گیا تو یا تو وہ ابتدائی مرحلہ ہی میں ناکام ہوجائے گی یا پھر مردوں اور عورتوں کے درمیان کشمکش کا ذریعہ بن جائے گی۔ اس لیے کسی بھی نسائی تحریک، خاص طور پر جو اسلام اور مسلمانوں کی بنیاد پر اٹھے اس میں مردوں سے تعاون اور افہام وتفہیم کا معاملہ ہونا چاہیے۔ بلکہ بہترین بات یہ ہوگی مرد خود اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خواتین کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے آگے آئیں اور ہر سطح پر خواتین کا تعاون کریں۔ اگر ایسا ہوا تو ہم ایک بڑی سماجی و معاشرتی تبدیلی کی توقع کرسکتے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ اس تبدیلی کی شروعات ہوچکی ہے اور اس کی مثال تروچراپلی اور حیدرآباد کے بعض ادارے اور خواتین ہیں جن کا ذکر اس مضمون میں کرنا ممکن نہیں ہے۔