گجرات کا سچ -مجرموں کے الفاظ میں

شمشاد حسین فلاحی

۲۰۰۲ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات بلکہ مسلمانوں کی نسل کشی آزاد ہندوستان کی تاریخ میں سیاہ ترین باب کا اضافہ ہے۔ اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان فسادات کو تقریباً پانچ سال ہونے کو آئے ہیں مگر مظلومین کو انصاف کافی دور نظر آتا ہے اور ہنوز کسی بھی جانب سے ان مظلومین کے آنسو پوچھنے کی کوشش اس طرح نہیں کی گئی جس طرح حق و انصاف کا تقاضا تھا۔

گجرات کے وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی کی جانب سے حقائق کو مسخ کرنے، جرائم پر پردہ ڈالنے، مظلومین کو ڈرانے دھمکانے اور بالآخر خرید لینے کی کوششیں کی گئیں، مجرمین اور ظالموں کو بچانے اور اس ان تمام واقعات کے پیچھے سرگرم رول ادا کرنے والوں کو نوازنے کا کام گزشتہ کئی سالوں سے مستقل جاری ہے۔ جبکہ ثبوت کو مٹاکر خونی حالات و واقعات کو نہایت ہلکا اور سادہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اور معاملہ یہاں تک پہنچا دیا گیا کہ انصاف پسند لوگوں کو یہ امید ہی نہ رہی کہ اس سلسلہ میں جاری مقدمات میں اگر وہ گجرات کے اندر جاری رہتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی بلکہ مقدمات لڑنے والوں اور گواہوں دونوں ہی طبقوں کو جان کا خطرہ لاحق ہوگا۔ چنانچہ ملک کی عدالت عظمیٰ نے ان تمام مقدمات کو احمد آباد سے ممبئی ہائی کورٹ منتقل کردیا۔ جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نریندر مودی کے دور میں گجرات میں حق و انصاف کا حصول بھی ناممکن ہوگیا ہے۔

گزشتہ دنوں تہلکہ نے، جو اپنی منفرد صحافتی کھوج بین کے لیے معروف ہوگیا ہے، گجرات کے مجرمین کو ایک اسٹنگ آپریشن کے ذریعے بے نقاب کیا ہے اور ان حقائق کو عوام کے سامنے رکھا ہے جن کے بارے میں لوگ صرف سوچتے تھے مگر ثبوت اور دلائل کو مٹا دیا گیا تھا۔ تہلکہ کے رپورٹر اشیش کھتاں نے گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کے کلیدی مجرمین سے ملاقات کرکے ان کے اقبالی بیانات کو اپنے خفیہ کیمرے میں ریکارڈ کیا اور اسے عوام کے سامنے پیش کرکے نریندر مودی، اس کے حواریوں اور اس کے معاونین سرکاری افسروں اور لیڈران کو عوام کے سامنے ننگا کردیا۔ تہلکہ کے ریکارڈ کردہ ان اقبالی بیانات کو اگر عدلیہ سنجیدگی سے لے اور مظلومین کی داد رسی اور ظالموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہے تو اس عادلانہ و منصفانہ طرزِ عمل کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔ کیونکہ اس کیمرے میں مجرمین نے خود ہی بلا خوف و جھجھک اور بالکل دوٹوک انداز میں ان حقائق کو اگل دیا جو اب تک عوام کے سامنے نہ آسکے تھے۔

تہلکہ کے صحافی اشیش کھتاں نے جو کام کیا اگرچہ وہ انتہائی اہم تھا مگر خطرات سے بھی بھر پور تھا لیکن اس کا جذبۂ حق پسندی اور صحافتی اخلاقیات نے اسے اس بات کے لیے آمادہ کردیا کہ وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بھی یہ کام انجام دے گا۔

اشیش نے ان مجرمین سے اپنا تعارف پیوش اگروال کے طور پر کرایا تھا اور بتایا تھا کہ وہ دہلی یونیورسٹی کا ریسرچ اسکالر ہے، جو ’’گجرات میں ہندوتوا کا عروج‘‘ کے موضوع پر کام کررہا ہے۔ اپنا کام مکمل کرلینے کے بعد اس نے اس تحقیقاتی رپورٹ کو ’’گجرات ۲۰۰۲ء کا سچ- انہی کی زبانی جنھوں نے اسے انجام دیا‘‘کے عنوان سے شائع کیا۔

چھ ماہ کی طویل مدت میں کی گئی یہ تحقیق جہاں انسانیت کے خلاف بھیانک جرائم کی حقیقت کو بیان کرتی ہے وہیں اس امکان کو سرے سے ختم کردیتی ہے کہ گجرات کے فسادات محض عام فسادات تھے، جو ہندوستان میں ایک معمول کی بات ہیں۔ اسی طرح اس حقیقت کو بھی مسلمہ ثبوت کی حیثیت سے پیش کیا ہے کہ مسلمانوں کی یہ نسل کشی منظم اور منصوبہ بند تھی اور اس میں ریاست کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی، ریاست کی پوری بی جے پی، آر ایس ایس، بجرنگ دل، وی ایچ پی اور سنگھ پریوار کی دیگر تنظیموں کے علاوہ ریاستی انتظامیہ اور پولیس کے اعلیٰ عہدے داران بھی راست طور پر ملوث تھے اور اس میں سیاسی لیڈران کی واضح ہدایات شامل تھیں۔ اس اسٹنگ آپریشن میں بی جے پی کے ایک ایم ایل اے کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ وہ خود اس میٹنگ میں شریک تھا جس میں وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے انہیں تین دن کی مہلت دی تھی۔ اس کے الفاظ تھے ’’انھوں نے ہمیں تین دنوں کا ٹائم دیا…کہا کہ جو کرنا ہے کریے۔مودی نے کہا کہ اس کے بعد وہ مہلت نہیں دے گا۔ یہ بات انھوں نے اعلانیہ کہی۔ تین دنوں کے بعد اس نے قتل و غارت گری کو بند کرنے کی ہدایت دی اور یہ سب رک گیا۔‘‘

تہلکہ نے یہ بھی ریکارڈ کیا ہے کہ ٹرین حادثہ کی اسی رات کو بی جے پی اور سنگھ پریوار کے اعلیٰ لیڈران نے احمد آباد، بڑودہ اور گودھرا میں میٹنگیں کیں اور یہ اشارہ دے دیا کہ پوری ریاست میں مسلمانو ںپر حملے شروع کردیے جائیں۔

تہلکہ کی اس تحقیقی رپورٹ میں برسراقتدار پارٹی کے کئی ممبران اسمبلی کے اقبالی بیانات ہیں، جن میں انھوں نے بلاخوف و خطر وہ تمام ’’کارنامے‘‘ بتائے ہیں جو انھوں نے انجام دیے۔ اسی طرح بجرنگ دل، شیوسینا اور وشو ہندو پریشد کے لیڈران نے ’’گرو‘‘ اور فخر کے نشے میں دھت ہوکر وہ تمام سیاہ کاریاں اگل دی ہیں جو دراصل پورے ہندوستانی سماج کے لیے شرمناک ہیں۔

اس رپورٹ کا سب سے خطرناک، شرمناک اور مایوس کن پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں گجرات حکومت کے ایڈوکیٹ جنرل اروند پانڈیا نے جو باتیں کہیں وہ سرکاری طور پر تحقیقات کے لیے بنائے گئے کمیشن کی بھی قلعی کھولتی ہیں۔ اروند پانڈیا نے صاف طور پر کہا کہ ’’کے جی شاہ ہمارا آدمی ہے۔‘‘ اور ’’ناناوتی کو صرف پیسہ چاہیے‘‘ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کمیشن کی حقیقت کیا ہے اور اس نے اپنی تحقیقات کس قدر عادلانہ و حقیقت پسندانہ انداز میں جاری رکھی ہوں گی۔

۱۰۸ صفحات پر مبنی تہلکہ کی اس رپورٹ میں بڑے بڑے ’’دگج نیتاؤں‘‘ نے بڑے فخریہ انداز میں اپنے کارناموں کی روداد سنائی ہے اور اس پورے تانے بانے کو واضح کردیا ہے جو گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے بنا گیا تھا۔ اس رپورٹ نے درجنوں ایسے واقعات کے ٹھوس ثبوت فراہم کیے ہیں جن سے ریاستی حکومت اور اس کے ’’گرگے‘‘ مسلسل انکار کرتے رہے ہیں ۔ مثلاً:

٭ ایک حاملہ عورت کا پیٹ واقعی تلوار سے چاک کیا گیا اور اس کے حمل کو باہر نکال کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔

٭ خواتین کی عصمت دری کی گئی اور انہیں ہلاک کیا گیا۔ (واضح رہے کہ حکومت مسلسل اس کا انکار کرتی رہی ہے۔)

٭ جان بچانے کے لیے ایک گڑھے میںچھپے بہت سارے لوگوں کو پیٹرول چھڑک کر جلادیا گیا۔

اسی طرحی اس تحقیقی رپورٹ میں درج ذیل حقائق کے سلسلے میں بھی اقبالی بیانات حاصل کیے گئے ہیں:

٭ سابق ممبر پارلیمنٹ احسان جعفری کے قتل اور گلبرگ سوسائٹی میں قتل و غارت گری کی پوری روداد بیان کی گئی ہے۔

٭ پولیس کا عملہ یا تو فسادیوں میں شامل ہوگیا یا جانبدارانہ رول ادا کرتے ہوئے تماشائی بنا رہا۔

٭ اسلحہ، گولہ بارود اور بم پہلے سے تیار کیے گئے تھے اور یہ کام گودھرا سے بی جے پی کے ممبر اسمبلی ہریش بھٹ کی پٹاخوں کی فیکٹری میں ہوا۔ بقیہ اسلحہ یوپی، بہار اور پنجاب سے بھی منگایا گیا۔

٭ نچلی ذاتوں کو مسلمانو ںکے خلاف ورغلا کر استعمال کیا گیا۔ اور سنگھ پریوار کی تنظیموں کے لیڈران نے کرفیو کے دوران بھاری بھیڑ کی قیادت کرتے ہوئے مسلم آبادیوں کو تاراج کیا ۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں