آج کے دور میں اگر خواتین کی مصروفیات کا جائزہ لیا جائے، خاص طور پر ان خواتین کی مصروفیات کا جو بیرونی دنیا کی دوڑ بھاگ کا حصہ نہیں ہیں تو مندرجہ ذیل کام ہمیں مشترک نظر آتے ہیں:
۱۔ گھریلو کام ۲۔ بچوں کی مصروفیات ۳۔ موبائل پر طویل گفتگو ۴۔ سیریل یا ڈرامے کا دیکھنا ۵۔ شاپنگ ۶۔ گھر کی آرائش ۷۔ ذاتی امور۔
اب اگر ان کاموں کی تفصیل میں جائیں تو گھریلو کاموںمیں عورتوں کا زیادہ وقت صرف نہیں ہوتا۔ نت نئی ایجادات نے کاموں کو آسان بنا دیا۔ جن کاموں کو انجام دینے میں پورا دن ختم ہو جاتا تھا آج ان کاموں کو گھنٹہ دو گھنٹہ میں نمٹایا جا سکتا ہے۔ شہروں میں کام والیاں ( نوکرانی ) رکھنے کا کلچر بہت عام ہے جو جھاڑو، پونچھا، صاف صفائی اور بسا اوقات روٹی اور کھانا تک بنانے کے لئے رکھی جاتی ہیں۔ایسے گھروں کی خواتین کے پاس کافی وقت ہوتا ہے جسے وہ تعمیر اور اصلاحی سرگرمیوں میں لگا سکتی ہیں ،جہاں ایسا نہیں ہے وہاں کی خواتین بھی اگر صحیح شیڈول بنا لیں تو روز مرہ کے کام زیادہ وقت نہیں لیں گے اور تھکاوٹ بھی کم ہو گی اوربچے وقت کا بہتر استعمال ہوسکے گا۔
۲۔ بچوںکی مصروفیات : روز مرہ کے کاموں میں آسانی تو ملی لیکن کچھ نئی ذمہ داریاں بھی عورتوں پر عائد ہوئی ہیں جن میں بچوں کو اسکول لے جانا، لانا، ہوم ورک کرانا اور سودا سلف لانا وغیرہ شامل ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ ذہنی ٹیشن والا کام بچوں کی اخلاقی و دینی تربیت ہے۔ یہ کام ایسے ہیں جو پہلے زمانے میں اتنے مشکل نہیں تھے جتنا آج ہیں ۔ چونکہ آج کے دور میں نیوکلئیر فیملی کا رواج بڑھ گیا ہے خاص طور پر شہروں میں، تو ایسے میں بچوں کی تعلیم و تربیت اور دیکھ ریکھ پوری طرح صرف والدین پر آگئی ہے۔ پہلے پورا خاندان یہاںتک کہ پڑوس اور محلے کے لوگ مل کر بچوں کی حفاظت اور تعلیم و تربیت میں رول ادا کرتےتھے۔ ان کی غلطیوں کی اصلاح، اخلاقی تعلیمات، سماج میں رہنے سہنے کا طریقہ انہیں سکھاتے تھے لیکن آج یہ سب صرف والدین کو کرنا پڑ رہا ہے۔یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ تعلیم و تربیت کے اس کام میں ماں کا رول باپ سے کہیں زیادہ اہمیت حامل ہے اوربچے بھی ماں کی توجہ اور وقت زیادہ چاہتے ہیں۔۔ تعلیم و تربیت نہایت صبر آزما اورتسلسل کے ساتھ کرنے والا کام ہے۔ یہ 24/7 ڈیوٹی ہے جو ماں کو ہمہ وقت مصروف رکھتی ہے لیکن تب جب ماں بچوں کی تربیت کے لئے فکر کرنے والی ہو، حساس ہو۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر بچوں والی ماں کے پاس بھی وقت کی کمی نہیں ہوگی۔
بچے جب اسکول چلے جاتے ہیں تو ان کی غیر موجودگی میں ماؤں کو اچھا خاصا وقت مل جاتا ہے جس میں گھریلو کاموں کو کرنے کے علاوہ وہ دوسرے بہترین کام بھی انجام دے سکتی ہیں مثلاً مطالعہ، دینی معلومات میں اضافہ، اجتماعات ، پڑوسیوں سے ملاقات وغیرہ۔ اس وقت میں اگر چاہیں تو کچھ معاشی جدوجہد بھی کر سکتی ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتی ہیں۔
۳۔ موبائل پر گفتگو: دور حاضر میں ہم جن مسائل سے دوچار ہیں ان میں ایک Gadgetsکا استعمال بھی ہے ۔ یہاں اس سے مراد موبائل، ٹی وی اور ٹیبلٹ وغیرہ ہیں۔ ان کے استعمال میں تب تک کوئی حرج نہیں ہے جب تک ان کا ضرورت کے مطابق استعمال کیا جائے لیکن ان کا بے جا استعمال وقت، صلاحیتوں اور رشتوں کو برباد کر سکتا ہے ساتھ ہی صحت کو بھی۔چونکہ اب فون کالس بہت سستی ہوگئی ہیں ، تو نتیجہ یہ ہے کہ عورتوں کا ایک بڑا وقت فون کالس پر گزر جاتا ہے جس میں زیادہ تر غیر ضروری اور غیر اہم باتیں ہوتی ہیں۔ ویڈیو کالس میں یہ باتیں اور طویل ہو جاتی ہیںجس میں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ ساتھ ہی واٹس اپ اور فیس بک وغیرہ کا بے جا استعمال بھی وقت کے زیاں کا سبب بنتا ہے۔
۴۔ ٹی وی کے ڈرامے بھی عورتوں میں خاصے مقبول ہوتے جارہے ہیں ۔ بہت سی عورتیں پابندی سے سیریل دیکھتی ہیں بلکہ وہ اپنے کاموں کا شیڈول اس طرح ترتیب دیتی ہیں کہ انہیں دیکھنے کے لئے وقت مل سکے۔ اب تو موبائل پر بھی بآسانی اپنی سہولت کے مطابق دیکھا جا سکتا ہے۔
۵۔ کچھ خواتین شاپنگ کی بہت شوقین ہوتی ہیں۔ بازار جا کر ایک دکان سے دوسری دکان چیزوں کو دیکھنا اور مول بھاؤ کرنا اس میں بہت وقت برباد کر دیتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بازار میں ہمیشہ عورتوں کا ہجوم رہتا ہے۔جب کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: دنیا کی سب سے بری جگہ بازار اور سب سے اچھی جگہ مسجد ہے، لیکن مساجد میں ہمارے لئے جگہ بھی نہیں ہے اور خواہش بھی نہیں جب کہ بازار ہم سے بھرے رہتے ہیں۔
۶۔ چند خواتین ایسی بھی ہوتی ہیں جو اپنے گھروں کی ڈیکوریشن پر اپنا قیمی وقت اور پیسہ ضائع کرتی ہیں۔ اسی طرح کچھ خواتین کپڑے میک اپ وغیرہ میں بہت دل چسپی رکھتی ہیں اور خود کو اس میں مصروف رکھتی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ کرنا غلط ہے؟
اپنے رشتہ داروں سے باتیں کرنا، حال احوال لینا ، خود کو سجانا سنوارنا، گھرکو صاف ستھرا اور سجا کر رکھنا، بوقت ضرورت بازار جانا، اچھے پروگرام دیکھناان سب میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن صرف انہیں چیزوں پر توجہ دینا ، دوسرے ضروری کاموں پر انہیں فوقیت دینا یہ عدم توازن ہے اور غلط ہے۔
ہماری ترجیحات
اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت کی صورت میں دو صنف بنائی ہیں اور دونوں میں سے ہر ایک پر کچھ ذمہ داریاں عائدکی ہیں اور کچھ حقوق دیے ہیں۔اسلام ہر فرد کواس بات کا مکلف بناتاہے کہ اپنا مخصوص عمل اچھی طرح انجام دے۔ وہ جن لوگوں کا ذمہ دار ہے ان کا اچھے سے خیال رکھے اور اپنی ذمہ داریاں بحسن خوبی انجام دے۔پھر اسلام میں مفادات عامّہ اور دعوت دین کا جو تصور ہے اس سے مرد و عورت کوئی بھی کوئی بھی آزاد نہیں ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
’’مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں‘‘۔(التوبہ :۷۱)
پھر اسلام نے مردو عورت کے دائرہ عمل میں تفریق کی ہے۔ نبی کریمؐ کا واضح ارشاد ہے:’’عورت اپنے خاوند اور بچوںکی نگہباں ہے اور اس سے ان کے متعلق پوچھ ہوگی۔‘‘
اب ان آیات اور احادیث کی روشنی میں ہمیں اپنی ترجیحات متعین کرنی ہے۔
1- ہر انسان پر سب سے پہلے ذمہ داری اس کی اپنی ذات کی ہوتی ہے چنانچہ اپنی تربیت کرنا، اخلاقی، دینی اور دنیاوی طور پر بہتر بننے کی تگ و دو کرنا۔ عبادات اور دینی امور کی ادائیگی کسی بھی حال میں نظر انداز نہ ہوں۔ اسلام میں انسان کی کامیابی دنیا اور آخرت میں صرف اور صرف ایمان اور عمل صالح کی وجہ سے ہوگی۔ جو بھی آخرت میں جتنا زیادہ عمل صالح لے کر حاضر ہوگا اتنا ہی کامران ہوگا۔ اللہ کے اس قانون میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسرکرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہتر اعمال کے مطابق بخشیں گے‘‘۔(الخل :۹۷)
جس طرح آخرت میںمرد و عورت دونوں کو جزاوسزا ان کے اعمال کے نتیجے میں ملے گی ویسے ہی اللہ تعالی نے دنیاوی امور ، اسلامی قوانین کی پابندی، امربالمعروف و نھی عن المنکر ، سماجی، معاشرتی، انفرادی، تعلیمی اور اخلاقی ذمہ داریوںمیں برابر رکھا ہے ۔ دونوں کو قران مخاطب کرکے ان ذمہ داریوں کی تکمیل کا حکم دیتا ہے اور ان سے کو تاہی کے نتیجے میں دونوں بالکل ایک طرح جوابدہ ہوں گے۔ ان معاملات میں کسی کو کسی قسم کی رعایت کی گنجائش نہیں ہے۔
2- شوہر اور گھر کی دیکھ ریکھ کرنا، شوہر کے مال اور اس کی عزت کی حفاطت کرنا ، گھریلو امور کو خوش اسلوبی سے انجام دینا ہر عورت کی ذمہ داری ہے۔
اسی طرح بچوں کی دیکھ بھال کرنا، ان کی جسمانی، ذہنی، دینی اور اخلاقی تربیت کرنا اور نشوو نما دینا والدین کی اہم ذمہ داری ہے اور اس میں عورت کا بہ حیثیت ماں اہم رول ہوتا ہے ۔ان کی پرورش کرنا کہ وہ معاشرے کے ایک ذمہ دار فرد کے طور پر سامنے آئیں سا، تھ ہی ہر وقت انہیں جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر کرنا اور اس کا شعور دینا عملاً ماں ہی کرتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : والدین اپنی اولاد کو جو کچھ دیتے ہیں ان میں سب سے بہترین عطیہ ان کی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔‘‘
3- رشتے داروں کا دھیان رکھنا اورجو آپ کے ساتھ رہتے ہیں، ان کابالخصوص خیال رکھنا، آپ کی ذمہ داری ہے۔ ان کی ضروریات کا دھیان رکھنا ، گھر کا فرد سمجھنا اور بہترین سلوک کرنا ، ان کے لئے وقت نکالنا بھی عبادت ہے۔قرآن رشتوں کے پاس و لحاظ کرنے اور ان کے حقوق کی ادائیگی پر بہت زور دیتا ہے۔
4- عموماً اپنی مصروفیات کی وجہ سے ہم پڑوسیوں سے ربط نہیں رکھ پاتے جب کہ اللہ کے رسول ﷺ نے پڑوسیوں کے بہت حقوق بتائے ہیں۔ ان کے حقوق کی ادائیگی بہت آسان ہے۔ کبھی کچھ اچھا بنایا تو بھجوا دیجئے، بیمار ہو تو عیادت کیجئے، کوئی وفات پائے تو تعزیت کو جائیں، کھانا وغیرہ کا انتظام کر دیں۔ اگر وہ دینی معاملات سے غافل ہیں تو دین کی انہیں دعوت دینا بھی لازم ہے جس کے لئے پہلے ضروری ہے کہ ان سے اچھے تعلقات بنائے جائیں ، نرمی و اخلاق کا مظاہرہ ہو، خود اسلام کا عملی نمونہ بنیں، ان کے مزاج کو سمجھتے ہوئے دین کی دعوت دی جائے۔ صحیح و غلط کے بارے میں بتایا جائے اور اس میں ہر گز جلدی کا مظاہرہ نہ ہو۔
5- اگر آپ گھر کی چہار دیواری میں ہیںتو اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ آپ معاشرے سے غافل رہیں، ہر گز نہیں سماج سوسائٹی میں کیا ہو رہا ہے، اس سے آگاہ رہیں، ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں، خود بہادر بنیں اور بچوں کو بھی بہادر بنائیں۔ معاشرے کو بہتر بنانے میں حصہ لیں۔ کوئی سماجی ، اخلاقی ، دینی و تعلیمی مہم ہو تو اس میں حصہ لیں یا خود مہم شروع کریں۔ سماج کے جو کمزور اور غیر تعلیم یافتہ لوگ ہیں ان پر ظلم ہو تو آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ قانونی کاروائیوں میں ان کی مدد کریں۔ عموما کام کرنے والیاں اپنی مالکن کو خود پر ہونے والے مظالم کے بارے میں بتاتی ہیں۔ تو جتنا ممکن ہو انہیں aware کیجئے تاکہ وہ خود اپنے حقوق کی حفاظت کرنے والی بن سکیں۔ ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت میں بھی آپ مدد کر سکتی ہیں۔ مشورے کے ذریعے، پیسے کے ذریعے، اگر آپ کے پاس وقت ہو تو اپنے بچوں کو پڑھاتے ہوئے ان کے بچوں کو بھی پڑھا سکتی ہیں۔ اس طرح کی چھوٹی چھوٹی نیکیاں آ پ کو اللہ سے قریب کرنے کے ساتھ ساتھ انسانوں سے بھی قریب کرتی ہیں اور سماج کا ذمہ دار شہری بناتی ہیں ساتھ ہی دل کو اطمینان بھی ملتا ہے کہ ہم کچھ کرنے کے لائق ہیں اور کچھ کر رہے ہیں۔
6- اگر آپ کے حالات اجازت دے رہے ہوں اور آپ کو اللہ نے صلاحیت بھی عطا کی ہو تو معاشی جدوجہد میں حصہ لے کر بھی آپ اپنے گھر اور سماج کی معاشیات کو سدھارنے میں حصہ لے سکتی ہیں، اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں عورتیں معاشی جدوجہد میں حصہ لیتی تھیں اور اللہ کے رسولﷺ نے کبھی اس سے منع نہیں فرمایا۔مثلاحضرت زینب بنت جحش اسدی خزیمیؓ ام المومنین ایک دستکار خاتون تھیں وہ طرح طرح کی چیزیں بناکر انھیں فروخت کردیتیں البتہ اس سے حاصل کردہ آمدنی صدقہ و خیرات کردیا کرتی تھیں۔ (اسد الغابۃ ۵؍۴۹۴)انہیں پیسوں کی ضرورت نہیں تھی لیکن صلاحیت تھی، وقت تھا عبادت کا جذبہ تھا اس لئے وہ کر تی تھیں۔
توازن
سوال یہ آتا ہے کہ گھریلو مصروفیات، بچوں کی دیکھ بھال، رشتے دار، پھر سماجی و اصلاحی سرگرمیاں ان کاموں میںتوازن کیسے قائم کیا جائے؟ اس کے لئے اپنے حالات کو سمجھنا ہے۔ سب کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ خواتین مشترکہ خاندان میں رہتی ہیں، کچھ کثیر الاولاد ہوتی ہیں، کچھ کے بچے چھوٹے ہوتے ہیں، کچھ مریض ہوتی ہیں، لیکن کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی گھریلو مصروفیات بہت کم ہوتی ہیں، بچے بڑے ہوتے ہیں، یا بچے نہیں ہوتے ہیں ۔ تو اپنے حالات کے مطابق مندرجہ ذیل باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کاموں کو ایڈجسٹ کر لیں:
1- آپ کا شوہر اور گھر آپ کی پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔
2- بچوں کی دیکھ بھال، تعلیم و تربیت، ان کی صحت اور حفاظت متاثر نہ ہوں۔
3- گھر سے باہر نکل کر کام کرنے کے لئے شوہر کی اجازت حاصل ہو اور کام اسلامی تعلیمات سے نہ ٹکراتا ہو۔
ان امور کو سامنے رکھ کراپنا شیڈول بنائیں جس میں اپنے آپ کے لئے ، رشتے داروں اور پڑوسیوں کے لئے، سماجی، دعوتی اور اصلاحی کاموں کے لئے وقت متعین کریں۔ اگر گھریلو ذمہ داریوں سے فرصت نہیں یا شوہر کی اجازت نہیں ہے تو بھی گھر میں رہتے ہوئے بہت سے کام انجام دیے جا سکتے ہیں۔مثلا گھر والوں کی اصلاح کریں، اپنے اخلاق کے ذریعے لوگوں کو دین کی طرف مائل کریں، آن لائن اصلاحی و دعوتی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں۔ باہر نکلنے کی اجازت نہ ہو گھر میں رہتے ہوئے کوئیproductive کام کر سکتی ہیں۔ مثلا ٹیوشن وغیرہ ۔اگر آپ معاشی طور پر آسودہ ہیں تو کار خیر کے طور پر بھی کر سکتی ہیں۔آن لائن پڑھ بھی سکتی ہیں، پڑھا بھی سکتی ہیں۔ قلم کے ذریعے بھی دعوت و اصلاح کا کام کرنے کے ساتھ ساتھ سماج میں مختلف موضوعات کے تحت awarenessپھیلا سکتی ہیں۔ گھر سے سلائی، کڑھائی، بنائی ، کھانا بنانے یا آن لائن بزنس وغیرہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ضرورت صرف یہ ہے کہ اپنے وقت کو صحیح طور پر استعمال کرنے کی ہمیں خواہش ہواور وقت کو ضائع کرنے سے ہمیں تکلیف ہوتی ہو۔
بہت سی ایسی خواتین ہوتی ہیں جن پر معاشی ذمہ داریاں ہوتی ہیں انہیں بھی ہر حال میں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ان کا گھر ،اولاد اور ان کی صحت متاثر نہ ہو ں۔کیونکہ گھر اور اولاد کو نظر انداز کرکے کوئی بھی خیر کا کام نہیں ہو سکتا ہے۔ پھر اگر عورت ایک بہترین نسل کو پروان چڑھا رہی ہے تو اس سے بہتر اور عظیم کام کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کام کا رزلٹ دیر پا ضرور ہے لیکن اس سے زیادہ اطمینان اور سکون کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا۔باہر نکلنے والی خواتین ان چند باتوں کو ضرور دھیان میں رکھیں:
1- ہو سکے توقریبی رشتے داروں میں سے کسی کو گھر میں رکھا جائے جو آپ کی غیر موجودگی میں گھر اور بچوں کی دیکھ ریکھ کر سکیں۔یہ رشتے دار شوہر کے محرمات میں سے کوئی ہو۔
2- تھوڑی دیر کے لئے ہی لیکن اپنے بچوں کے ساتھ کوالٹی ٹائم ضرور گزاریں جس میں بچے اپنے دن بھر کی روداد سنا سکیں۔ بچوںکے اندر اگر کوئی تبدیلی محسوس ہو رہی ہے تو ضرور جاننے کی کوشش کریں۔بچے آپ سے بات کرنا چاہ رہے ہوں تو انہیں ہر گز نظر انداز نہ کریں۔
3- شوہر کے لئے بھی ضرور وقت نکالیں۔
4- چھٹی کا دن اپنی فیملی کے ساتھ گزاریں۔
5- اگر آپ زیادہ وقت گھر سے باہر گزارتی ہیں اور بچے نوکرانی کے سپرد کرکے جاتی ہیں تواپنے گھر میں سی سی ٹی وی کیمرہ ضرور لگوائیں۔
6- نوکرانی کا پولیس verificationضرور ہو تاکہ خدا نخواستہ بچے کے ساتھ کچھ انہونی ہو تو نوکرانی کو پکڑا جا سکے۔
7- گھر کے کاموں اور بچوں کی دیکھ ریکھ میں شوہر پر بھی کچھ ذمہ داریاں ڈالیں تاکہ آپ کو آسانی ہو۔
8- کوشش کیجئے کہ بچے کم سے کم موبائل اور ٹی وی دیکھیں اور جو بھی بچوں کی دیکھ ریکھ کے لئے ہو اس کو اس بات کی خاص ہدایت دیں ، ساتھ ہی بچوں کو صحت بخش کاموں میں کیسے مشغول رکھا جائے وہ بھی بتائیں۔ عموما دوسرے کے بچوں کا پریشان کرنا لوگ زیادہ دیر برداشت نہیں کر پاتے تو آسانی کے لئے موبائل دے دیتے ہیں یا ٹی وی کے سامنے بٹھا دیتے ہیں۔
مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام تر مصروفیات کے باوجو د اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو نہ بھولیں ۔ ٹائم ٹیبل یا شیڈول اگر بنا لیا جائے اور وقت کا صحیح استعمال کیا جائے تومشکلیں کم ہو سکتی ہیں۔