اسلام متعدد احکام کے ذریعے خاندان کے باہمی تعلقات کو مضبوط اور مربوط کرتا ہے۔ اسلام نے ان خاندانی تعلقات کو احکام کے ایک جال کی صورت باہم مربوط کر رکھا ہے۔ صاحبِ استطاعت اور کشادہ دست کے اوپر ذمے داری ڈالی گئی کہ وہ تنگ دست اور مجبور وضرورت مند پر خرچ کرے۔ ایسے مسائل جن میں اس طرح کے مختلف مصارف پر خرچ کرنے کے احکام بیان کیے گئے ہیں انھیں احکامِ نَفَقات (فی سبیل اللہ خرچ کے احکام) کہا جاتا ہے۔ اَحکامِ دیت کے تحت قتلِ خطا کی دیت کا بیان ہے کہ مقتول کے عَصَبَات (باپ کی طرف سے قرابت دار) اور قبیلہ اس کا حق دار ہے۔ احکامِ میراث کے تحت وراثت کے مسائل بیان کیے گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میراث میں معیّن درجات اور حصوں کے مطابق اقارب کا حق مقرر کیا ہے۔ اسلام کا یہ اہتمامِ احکام بتاتا ہے کہ خاندان کا شیرازہ اس نظام میں متحد رہنا چاہیے۔ کسی شاخ کو اپنی اصل سے جدا نہیں ہونا چاہیے۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ صورتِ حال بہت مختلف ہے۔ بھائی اپنے بھائی سے کینہ وکدورت رکھتا ہے۔ دنیا کے مال نے بھائی کو بھائی سے جدا کر دیا ہے۔ یہ صورتِ حال ا?س وقت تو اور زیادہ ب?ری ہو جاتی ہے جب معاملہ کسی وراثت سے حصہ لینے کا ہو۔ ہر کوئی لینا ہی چاہتا ہے دینا نہیں چاہتا۔
عفو ودرگزر، رواداری اور برداشت کہاں چلی گئی؟ ایثار اور مودّت کا کیا ہوا؟ حالانکہ یہی بھائی اجنبی لوگوں کے ساتھ نہایت درگزر، بے پناہ محبت والفت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ کمال اخلاق، کشادہ ظرفی اور اعلیٰ انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، مگر بھائی اپنے بھائیوں کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ایک چاہتا ہے کہ دوسرے کو گرا مارے، ا?سے تباہ کرکے اپنا ا?پ سنوار لے۔
یہ درست ہے کہ مفادات کی یہ کش مکش اور جنگ قدیم انسانی تاریخ میں بھی تھی جب انسان واحد کنبہ تھا۔ ا?س وقت صرف میاں بیوی اور بیٹے بیٹیاں ہی انسانی خاندان کے کل عناصر تھے۔ اس چھوٹے سے خاندان کے ایک فرد نے بھی اپنے بھائی کو قتل کر دیا تھا اور حسد کا مظاہرہ کیا تھا۔
اس واقعے کی صداقت اپنی جگہ، مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ا?ئندہ بھی ایسے ہی واقعات کا تسلسل جاری رہے۔ انسان کیوں یہ پسند کرتا ہے کہ وہ ا?دم کا شرپسند اور خبیث بیٹا بن جائے۔ وہ اچھا اور طیب ابن ا?دم بننا کیوں پسند نہیں کرتا؟ یعنی وہ صالح، نفیس اور امن پسند انسان جس نے قتل ہونا گوارا کر لیا مگر اپنے بھائی پر ہاتھ اٹھانا ایمان کے منافی سمجھا۔ ا?س موقع پر کہے گئے ا?س کے الفاظ کے اندر ا?س کے صالح جذبات اور ایمانی احساسات کا بھرپور مظاہرہ موجود ہے۔ ا?س نے کہا: اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہ اٹھاو?ں گا۔ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ (المائدہ 28)
ا?ج کا انسان قابیل جیسا انسان کیوں بننا چاہتا ہے کہ قیامت تک جو بھی قتل ہوگا ا?س کا جرم اور گناہ ا?س پہلے قاتل پر بھی ہوگا کیونکہ ا?سی نے اس زندگی میں قتل کی روایت کا ا?غاز کیا ہے۔ خدا کی قسم یہ حقیر دنیا اس قابل نہیں کہ اس کی بنا پر انسانوں کا قتل ہوتا رہے۔ بھائی اپنے بھائی سے دست و گریباں ہو اور تھانے کچہریوں میں مقدمات چلیں، پھر جیلیں اور قید خانے آباد ہوں۔ رشتے دار اپنے رشتے دار سے دشمنی مول لیں۔ واللہ یہ دنیا اس قابل نہیں! اگر اس دنیا کا وزن اور قیمت اللہ کے ہاں مچھر کے پَر کے برابر بھی ہوتا تو اللہ تعالیٰ کافروں کو اس سے پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پینے دیتا۔
یہ بات باعث افسوس ہے کہ باہمی عداوتوں اور مخاصمتوں میں مبتلا لوگوں کی اکثریت صاحب مال، اہل دولت اور امیروں کی ہے۔ فقیر اور تنگ دستوں کی مخاصمت کے واقعات بہت تھوڑے ہیں۔ ا?ن بے چاروں کے پاس ہوتا ہی کچھ نہیں جس کے اوپر وہ نزاع کھڑا کریں،جب کہ نزاع پیدا کرنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جن کی سوچ اور خیال یہ ہوتا ہے کہ میں کروڑوں نہیں اربوں کیسے حاصل کر سکتا ہوں؟ سوچنا چاہیے کہ انسان یہ اربوں حاصل کرکے بھی اپنے استعمال میں کتنا لاتا ہے؟ انسان دولت کے یہ انبار چھوڑ کر چلا جائے گا کچھ بھی ساتھ نہیں لے جائے گا۔ انسان کو اپنے تعلقات ایسے بنانے چاہییں کہ اس کے بعد دوسرے اس کے لیے دعائیں کریں، اور یہ کام خاندان کے افراد کے ساتھ تعلق استوار کرکے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔lll