یوں تو کسبِ معاش کی فکر انسان کو تاحیات لگی رہتی ہیں لیکن دین اسلام نے ایک ایسے نظامِ خاندان کی بنیاد رکھی ہے جس میں مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کی مالی کفالت کرے۔دینِ اسلام کا یہ بھی امتیاز ہے کہ اس نے خواتین کو معاشی جدوجہد سےبےنیاز رکھا، لیکن اگر شوہر کے معاشی حالات کمزور ہوں تو شریعت کے حدود میں رہ کر عورت کسبِ معاش کا کوئی ذریعہ اختیار کرسکتی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت پانے والے صحابہ کرام اور صحابیات رضی اللہ عنہم کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے جس پر چل کر ہم جنت کی منزل کو پا سکتے ہیں۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ قرون اولیٰ کی مسلمان عورتیں بالخصوص صحابیات امور خانہ داری کے علاوہ دیگر معاملات و مشاغل میں بھرپور حصہ لیتی تھیں مثلاً معیشت و تجارت، تبلیغ و جہاد، درس و تدریس، کاشتکاری و دستکاری وغیرہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی انہیں اس کام سے نہیں روکا۔
عہد نبوی میں عورتوں کو اس وقت کے رائج کسب معاش کے ذرائع تجارت، زراعت، صنعت و حرفت اور مزدوری و اجرت کو اختیار کرنے کی پوری آزادی حاصل تھی۔ بعض صحابیات اعلیٰ درجے کی طبیب اور جراح تھیں اور بعض مختلف النوع اشیاء کی تجارت بھی کرتی تھیں۔ وہ ایسا صرف اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے ہی نہیں بلکہ محض اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور اپنے معیار زندگی کو بہتر کرنے کے لئے بھی معاشی جدوجہد کرتی تھیں۔ جن میں حضرت خدیجہؓ کی تجارت کا واقعہ بہت ہی معروف و مشہور ہے۔ آپ کا شمار قریش کی دولت مند خواتین میں ہوتا ہے۔ آپ کی تجارت شام و یمن کے بین الاقوامی مراکز کے علاوہ عرب کے مختلف بازاروں سے بھی ہوتی تھی۔ آپ مضاربت اور اجرت کی بنیاد پر مختلف تاجروں سے تجارت و کاروبار کراتی اور نفع کماتیتھیں۔ آپ کی تجارت نبی کریمؐ سے شادی کے بعد بھی جاری رہی جس میں آپؐ کی ذات مبارک بھی شریک تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت اسلامی عورت کو اس قابل دیکھنا چاہتی ہے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی خدمت کرے اور اس کے ہاتھوں بھلے کام انجام پائیں نہ کے وہ اپنی معاشی حاجات پوری کرنے کے لیے سماج و معاشرے کی مرہون منت ہو۔
ذیل میں ان صاحابیات ؓ کا مختصر تذکرہ کیا جارہا ہے کہ جو کوئی نہ کوئی معاشی سرگرمی میں حصہ لیتی تھیں۔
حضرت اسماءؓبنت مخزمہ عطر کا کاروبار کرتی تھیں۔ ابن سعدؓ فرماتے ہیں کہ ان کا بیٹا عبداللہ بن ربیعہؓ یمن سے عطر خرید کر انہیں بھیجا کرتا اور وہ اسے فروخت کرتی تھیں۔ (اسد الغابۃ، ۵؍۴۵۲)
اس کے علاوہ حضرت خولہ بنت قیسؓ اس قدر عطر فروخت کرتی تھی کہ وہ عطّارہ کے نام سے مشہور ہو گئیں، جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر تشریف لے جاتیں تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں عطر کی خوشبو سے پہچان لیا کرتے تھے۔ ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں تجارت و کاروبار میں حصہ لے سکتی ہیں۔ اسی طرح خواتین کاشت کاری کے ذریعے بھی اپنے معاشی حالات کو مضبوط کرنے میں شوہر یا اہلِ خانہ کے ساتھ شریک ہوا کرتی تھیں۔
حضرت جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ جب میری خالہ کو طلاق ہوگئی انہوں نے دوران عدت اپنی کھجوروں کا پھل توڑنے کا ارادہ کیا تو ایک آدمی نے انہیں گھر سے نکلنے پر ڈانٹا۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں تم اپنی کھجوروں کا پھل توڑو۔ممکن ہے کہ تم اس سے صدقہ کروں یا کوئی اور اچھا کام۔(صحیح مسلم-3721)
آج بھی ہمارے پاس یہ موقع دستیاب ہے کہ ہماری خواتین تھوڑی بہت کاشتکاری میں ہاتھ بٹا سکتی ہیں اور بعض جگہ یہ کلچر ابھی بھی موجود ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی زوجہ حضرت زینبؓ دستکاری کے فن سے واقف تھیں اور اس کے ذریعہ اپنے بچوں، یہاں تک کہ خاوند کے اخراجات کا بھی بندوبست کرتی تھیں۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہے کہ میں نےام المؤمنین حضرت زینبؓ بنت جحش سے بہتر کوئی عورت نہ دیکھی، جو اپنے ہاتھوں سے کما کر صدقہ و خیرات کیا کرتی تھیں۔ ام المومنین حضرت زینب ؓ اپنے ہاتھوں سے طرح طرح کی چیزیں تیار کرکے انہیں فروخت کرتیں اور جو کمائی انہیں حاصل ہوتی اسے راہ خدا میں خرچ کرتی تھیں۔
تجارت اور زراعت میں حصہ لینے کے علاوہ عورتیں اس وقت کی صنعت و حرفت کو بھی اپنی معاشی آمدنی بڑھانے کے لئے ذریعہ کے طور پر استعمال کرتی تھیں، صرف مجبوری کے عالم میں خواتین کو کمانے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ اپنی دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لئے بھی خواتین معاشی میدان میں قدم رکھ سکتی ہیں۔
عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں بہت سی صحابیات طب کے پیشے سے وابستہ تھیں۔صحابیات کی ایسی بڑی تعداد ہے جو جنگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تشریف لے جاتی تھیں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور بیماروں کی دوا کرتی تھیں۔ (بخاری-2883)
ان تمام واقعات سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ خواتین بطور معالج کام کرسکتی ہے اور سماج میں اپنی خدمات پیش کر سکتی ہے، جہاں یہ فائدہ ہے کہ خواتین مریض اپنا علاج آسانی سے خواتین ڈاکٹر کے پاس کراسکتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں اپنے طبی معائنے کے لیے کسی نامحرم کے پاس جانے کی مشکل درپیش نہیں رہیں گی، وہیں وہ ایک بڑی سماجی خدمت کا حصہ بھی بنیں گی جو اسلام اور مسلمانوں ہی کی نہیں پوری انسانیت کی ضرورت ہے۔
عہد نبوی میں ایک خالص نسوانی ذریعہ آمدنی رضاعت کا تھا۔ ان میں مشہور ترین مرضعہ یقیناً دائی حلیمہ ہیں جنہوں نے نبی کریمؐ کو دودھ پلایا اور پالا۔
عہد رسالت میں عورتو ں نے جس طرح معاشی جدوجہد کی اس کا مختصر سا مطالعہ یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ آپؐ نے کسب معاش کی پوری آزادی دی تھی۔ اس وقت کے رائج ذریعۂ معاش کو عورتیں بھی اختیار کرتی تھیں۔ ان کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق کی حفاظت، دین کی دفاع و خدمت، تعلیم و تدریس، طب و جراحت وغیرہ میں بھی عورتیں پیش پیش نظر آتی ہیں۔جہاں ہر میدان میں صحابیات رضی اللہ عنہا نے اپنے نام کے جھنڈے گاڑے ہیں وہی درس و تدریس کے پیشے میں بھی وہ سب سے آگے رہیں۔انہوں نے شوق وہ رغبت سے دین سیکھا اور اسے امت تک بخوبی پہنچایا۔
حضرت عائشہؓ کی خصوصیت تھی کہ جب کوئی نہایت پیچیدہ مسئلہ صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم کے درمیان آن پڑتا تو وہ حضرت عائشہؓ کے پاس تشریف لے جاتے اور حضرت عائشہؓ ان مسائل کا مناسب حل بتاتی تھیں۔آپؓ سے کل 2210 احادیث مروی ہے۔
دین اسلام دین فطرت ہے۔ ہمارا دین تمام مرد و زن کو حقوق زندگی عطا کرتا ہے، جس سے زندگی باآسانی رواں دواں چل سکے۔یہ زندگی کو آسان بنانے والا ہے نہ کہ مشکل۔
یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ جہاں عورتوں کو معاش کی اجازت ہے وہیں ہر مسلمان عورت پر لازم ہے کہ وہ پردے اور ان بنیادی اخلاقیات کا خاص خیال رکھے جو اسلام سکھاتا ہے،اس کے علاوہ اسلام تمام خواتین کے لیے یہ بھی رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ جب انہیں معاشی سرگرمیوں کے لیے کہیں جانا پڑے تو مردوں سے عدم اختلاط کا رویہ رکھے ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی عورت کسی مرد کے ساتھ خلوت میں نہ بیٹھے۔ (صحیح بخاری-3006)
اپنی معاشی سرگرمی کے لیے عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے خاندان کے سربراہ اجازت حاصل کریں اور یہ چیز خاندان کے درمیان افہام و تفہیم سے ہو۔ بہ صورت دیگر خیر سے شر حاصل ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔