نقطے

انورکمال

رہبر آگے تھا

اور وہ سب اس کے پیچھے تھے۔

’’روشنی کہا ںہے؟‘‘ ایک نے سوال کیا۔

رہبر خاموش تھا۔

لیکن دوسرے نے جواب دیا

’’اسی کی تلاش میں تو ہم جارہے ہیں۔‘‘

’’ابھی کتنی دور جانا ہے؟ کسی نے سوال کیا

’’ابھی تو ہم نے سفر شروع کیا ہے، ابھی سے کیوں منزل کی فکر۔‘‘ کسی دوسرے نے جواب دیا۔

اچانک کہیں اندھیرے سے آواز آئی:’’وہ دیکھو، اس طرف روشنی ہے۔‘‘

انھوں نے اندھیرے میں اپنی آنکھیں پھاڑ کر دیکھا لیکن ان کو کہیں بھی روشنی نظر نہیں آئی، البتہ دور کہیں یہ چند نقطے جلتے بجھتے نظر آئے۔

’’رک جاؤ۔‘‘ کسی نے کہا۔

’’کیوں؟‘‘ بہت سی سوالیہ آوازیں آنے لگیں۔

’’ہمیں وہیں جانا ہے۔‘‘

’’نہیں— ‘‘اچانک ایک زوردار آواز سنائی دی۔ رہبر کے چہرے سے ناراضگی ظاہر ہورہی تھی۔

اس نے کہا:

تم جس کو روشنی سمجھ رہے ہو وہ روشنی نہیں ہے۔ وہ جگنو ہیں۔ یہ دھوکا ہے فریب ہے۔ اگر تم اس طرف جاؤ گے تو راستہ بھٹک جاؤ گے۔ اور تیرگی تمہیں نگل جائے گی … اور …

اتنے میں کسی نے رہبر کو ٹوک دیا۔

’’تم تو صدیوں سے یہی باتیں سناتے آرہے ہو۔‘‘

اچانک رہبر رک گیا۔

نہ جانے کیوں اچانک خاموشی چھاگئی۔ گہری خاموشی۔ پھر اس خاموشی کو توڑ کر کچھ لوگ اس طرف بڑھ گئے جس طرف جگنو چمک رہے تھے۔

پھر رہبر کے لب کھلے۔

تم تیرگی کے زنداں ہو … تم روشنی کو کیا سمجھو گے۔

پھر اس نے کہا:

لوگو… جب تمہیں روشنی مل جائے گی تو تم خود دیکھ لو گے سیدھی راہ پر چلنے کا فائدہ کیا ہے۔ تمہیں اس کا بہت ہی اچھا پھل ملنے والا ہے۔ یعنی کہ …

رہبر اتنا ہی کہہ سکا کہ اطراف سے بہت سی آوازیں آنے لگیں:

’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے، ہمیں بھروسہ ہے۔ ہم آپ کے ساتھ چل رہے ہیں۔‘‘

پھر وہ آگے بڑھنے لگے

آگے کانٹے دار جھاڑیاں تھیں۔

وہ سب اپنے لباس سنبھال کر بدن کانٹوں سے بچا کر چل رہے تھے۔

’’یہاں اتنی کانٹوںبھری جھاڑیاں کیوں اگ آئی ہیں۔ ان کو ہم صاف کیوں نہ کردیں۔‘‘ کسی نے پوچھا

’’خاموش!‘‘ کسی نے اس کو ٹوک دیا۔

’’کیوں؟‘‘ اس نے پھر سوال کیا۔

’’ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ جنگل کو صاف کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے۔ بلکہ اس سے بچ کر نکلنا ہی ہماراکام ہے۔‘‘

’’کیا تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔‘‘ اس نے پوچھا

’یقین نہ ہو تو رہبر سے پوچھ لو۔‘‘

رہبر، جو ان کی گفتگو سن رہا تھا کہنے لگا:

’’آگے بڑھتے رہو۔ سیدھی راہ پر چلنا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ اس پر سے گزرنے کے لیے روشنی چاہیے۔ دل میں شکوک کو جگہ نہ دو۔‘‘

’’سن لیا تم نے‘‘ کسی نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔

’’ہاں میں نے سن لیا ہے۔‘‘ اور وہ خوف سے کانپ گیا۔

ماحول پہ بسیط سناٹا، اور اندھیرا، لیکن اس سناٹے میں بھی اس کو قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔

چپ ، چپ، چپ، ٹھک، ٹھک، ٹھک شاید کوئی لاٹھی ٹیکتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ اس نے سوچا۔

نہیں،نہیں یہاں لاٹھی کیوں، اس کی کیا ضرورت ہے۔ شاید کوئی سمندر میںچپو چلا رہا ہے۔ وہ سوچ رہا تھا۔ یا شاید کوئی اپنے گلے کی مالا سے منکے دھکیل رہا ہے۔ کہیں یہ میرے دل کی دھڑکن نہ ہو۔

یا شاید یہ سوکھے پتوں کی سرسراہٹ ہے۔

شاید کتابوں کے اوراق پھڑپھڑا رہے ہیں۔

یا

شاید یہ ڈھول کی آواز ہو۔ اور یہ آواز بڑھ کر سب کے کان کے پردے پھاڑ دے۔

یا

کہیں یہ زلزلے کی آواز تو نہ ہو۔

یا کہیں لاوا پک رہا ہے۔

یا…

شاید یہ میرا وہم وقیاس ہو

اس کو ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اندھیرا کچھ اور گہرا ہوگیا ہو۔ اچانک اس کو رہبر کی آواز سنائی دی۔

’’دل میں اندھیرے کو جگہ نہ دو، ورنہ تم میں اور اندھیرے میں فرق نہیں رہے گا۔‘‘

وہ چونک پڑا

اس کو ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے

رہبر آگے چلاگیا ہے

اور وہ، پیچھے رہ گیا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں