نوجوانوں کے نفسیاتی مسائل اور کووڈ 19

عائشہ یاسین

وہ افراد جن کی عمر10سے 20سال کے درمیان ہومتعدد جسمانی و جذباتی تبدیلی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ایسے افراد نہ صرف ذہنی و جسمانی بدلائو کا شکار رہتے ہیں بلکہ اپنے اردگرد کے ماحول سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ معاشرتی و معاشی تبدیلیاں، بشمول مالی حالات اور لوگوں کا رویہ، نوجوان دماغ پر اثر انداز ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تنگ دستی اور ناروا سلوک نوعمروں کو ذہنی صحت کے مسائل کا شکار بناسکتے ہیں۔ نفسیاتی صحت کو فروغ دینا اور نوعمروں کو منفی تجربات سے بچانا بے حد ضروری ہے ۔

ڈبلیو ایچ او کی اعداد و شمار کی مطابق ہر چھے میں سے ایک نوجوان جس کی عمر10 سے 19 سال ہے ذہنی عارضے کا شکار ہے۔ عالمی سطح پر کی جانے والی ریسرچ کے مطابق 16فیصد بیماریاں اور حادثات میں زخمی اور مرنے والوں کی تعداد10سے19سال کے عمر کے نوجوانوں کی ہے۔

دماغی وجذباتی مسائل

جوانی ذہنی تندرستی ، جذبات و عادات کی نشوونما کاایک اہم دور ہے۔ بھرپور نیند لینا، باقاعدگی سے ورزش کرنا اور جدوجہد کی لگن رکھنا ایک تندرست انسان کے لیے بے حدضروری ہے۔ جوانی میںجو عوامل تناؤ کا باعث بن سکتے ہیں ان میں زیادہ سے زیادہ خود مختاری کی خواہش‘ ہم عمر افراد کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کا دباؤ، جنسی شناخت کی کھوج اور ٹیکنالوجی تک رسائی اور استعمال میں اضافہ شامل ہیں۔ چنانچہ یہ بات بہ طور تلقین کہی جاسکتی ہے کہ والدین اس عمر میں اپنے بچوں کا خاص خیال رکھیں اور اس مرحلے عمر میں ان کے خصوصی مددگار بنیں۔

ذہنی صحت کے علاوہ جذباتی عارضے میں مبتلا نوجوان ضرورت سے زیادہ چڑچڑاپن‘مایوسی یا غصے کا سامنا کرسکتے ہیں۔ موڈ اور جذباتی وجوہات میں تیزی اور غیر متوقع تبدیلیوں کے ساتھ ایک سے زیادہ جذباتی عارضے سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ بچپن کا غیر موثر اور منفی ماحول اس معاملے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

بچپن میں ناروا سلوک 10-15 سال کی عمر کے نوجوانوں میں نفسیاتی بیماری کی دوسری اہم وجہ ہے بچپن میں بدسلوکی اور توجہ کی کمی ہائپرایکٹویٹی ڈس آرڈر (توجہ دینے میں دشواری، ضرورت سے زیادہ سرگرمی اور نتائج کے حوالے سے عمل کرنے سے خصوصا جو کسی شخص کی عمر کے لیے مناسب نہیں ہوتا ہے) شامل ہوتا ہے۔

ذہنی اور جذباتی صحت بگڑنے کی صورت میں نوعمروں کے اندر مایوسی اور منفی سوچ ترقی پاتی ہے جس کے نتیجہ میں وہ نو عمر میں کئی قسم کی برائیوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں یا ہوجاتے ہیں۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اکثر اوقات والدین اپنے بچے کے اندر ترقی پارہے رجحانات اور نفسیاتی کیفیات کا پتہ تک پاسکتے اور ان کو یہ بات اس وقت معلوم ہوتی ہے جب معاملہ ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔ بعض اوقات ان رجحانات کا بڑھ جانا بچوں کو خود کشی تک لے جاتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ پندرہ سے انیس سال کے نوعمروں میں خودکشی موت کی تیسری اہم وجہ ہے۔ دنیا کے تقریبا 90 فیصد نوجوان کم یا درمیانی آمدنی والے ممالک میں رہتے ہیں۔ خودکشی کے رویے کے بارے میں ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے بات چیت کرنا اور جذباتی انتشار میں مبتلا رہنا ہے ۔یہاں تک کہ اپنی جان دے دینا،اس عمر کے افراد میں ابھرتی ہوئی تشویش ناک بات ہے جس سے والدین کو باخبر رہنا چاہیے۔

اسی طرح یہ کیفیات نوعمروں کو نشہ کی لت میں بھی مبتلا کرسکتی ہیں۔ دنیا بھر کے اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ 2016 میں دنیا بھر میں، 15 سے 19 سال کی عمر کے نوعمروں میں شراب پینے کا رجحان 13.6 فیصد رہا۔ تمباکو اور بھنگ کا استعمال اضافی خدشات ہیں۔ 2018 میں کم سے کم ایک بار 15-16 سال کی عمر کے تقریباً 4.7 فیصد نوجوانوں میں بھنگ سب سے زیادہ استعمال ہونے والا نشہ ہے۔

کووڈ کے بعد کی صورتحال

ان تمام پہلوئوں پر نظر ڈالنے کے بعد موجودہ حالات میں سب سے خطرناک صورتحال کووڈ19-کی پیدا کردہ ہے۔ اضطراب اور افسردگی کی علامتوں کا پھیلاؤ نوجوانوں میں ڈرامائی طور پر بڑھ گیا ہے ۔ جبکہ جزوی طور پر دنیا میں ادارے کھولے جا چکے ہیں مگر اس کے باوجود دیگرعمر کے افرادکے مقابلے میں نوجوانوں کی ذہنی صحت زیادہ متاثر نظر آتی ہے جس کی اہم وجوہات ذہنی و جسمانی سر گرمیوں میں رکاوٹ، اسکولوں اور تعلیمی اداروں کی بندش ہے۔کوویڈ -19 کا بحران نوجوانوں کے لئے ذہنی صحت کے بحران میں بدل گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق کوویڈ – 19 کے غیر یقینی صورتحال اور وسیع اثرات نے تمام لوگوں کو ایک ہی طرح سے متاثر نہیں کیا۔ مارچ 2021 کی رپورٹ کے مطابق بیلجیئم، فرانس اور ریورپ میں بڑوں کے مقابلے نوجوانوںمیں 30 سے 80 فیصد سے زیادہ ڈپریشن یا اضطراب کی علامت پائی گئی ہے جس میں تنہا رہنا اور خود کو کمرے میں بند رکھنے جیسے عوامل شامل ہیں۔

اس کی بڑی وجہ ہر سطح پر تعلیمی اداروں کے بند ش ہے جس سے نوجوان نسل مایوسی اور غم کا شکار ہوچکی ہے۔یہاں تک کہ اپنے ہم عمر افر اد کے ساتھ گھلنے ملنے اور ساتھ وقت گزازنے ،اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کرنے جیسی بنیادی ضرورتوں سے محرومی ہے۔ ایسے حالات میں جب شک اور خوف کی فضا قائم ہوچکی ہو تو جوان اذہان کا بیمار ہوجانا ایک قدرتی عمل ہے۔

کوویڈ- 19 کے بحران نے نوجوانوں (15-24 سال کی عمر) کی زندگیوں کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے اور دستیاب شواہد اس عمر کے افراد میں ذہنی صحت کے مسائل میں ایک خطرناک حد تک اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں۔

این سی ایچ ایس کی رپورٹ کے مطابق جنوری سے جون 2019تک 18-34سال تک کے افراد میں ذہنی تنائو کی بیماری کی شرح 10 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جبکہ21مارچ 2021 میں جاری کردہ رپورٹ میں 10-29سال کے افراد میں ذہنی تنائو کی شرح 43% ریکارڈ کی گئی ہے۔ ایک رپورٹ کے حوالے سے اگر ہم دوسرے اہم خطے بیلجیئم کے بارے میں بات کریں تو اپریل 2020 کی ریسرچ کے مطابق 16-24سال کی عمر کے نوجوانوں میں ذہنی تنائو اور افسردگی کی شرح 29% ریکارڈ ہوئی جب کہ خواتین 2018کے مقابلے تین گنا اضافے کے ساتھ اور نوجوان مردوں میں چار گنا اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ نوجوان نسل کو اس وباء کے منفی اثرات سے نکلنے میں کتنا وقت لگے گا؟ جبکہ ویکسین کی دستیابی نے بہت سے خطرات کو رد کرنے میں مدد دی ہے پر کیا دنیا اسی رفتار سے ترقی کے راستے پر دوبارہ دوڑ پائے گی؟ کیا نوجوانوں کے نفسیاتی خد و خال میں تبدیلی رونما ہوگی؟ ایسے بہت سے سوال ہیں جن پر بات کرنا بہت ضروری ہے، نا صرف گھریلو سطح پر، بلکہ حکومتی سطح پر بھی نوجوانوں کی ذہنی صحت کی بہتری کے لیے اداروں کو کام کرنا ہوگا اور نوجوانوں کے مسائل کو اول ترجیح دینا ہوگی کیوں کہ نوجوان ہی معاشرے کی تعمیر و ترقی کی ضمانت ہیں۔

یہ بھی پڑھیں!

https://hijabislami.in/4976/

https://hijabislami.in/5892/

https://hijabislami.in/7229/

https://hijabislami.in/4246/

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146