آج سالہا سال کے بعد بچپن کے بچھڑے ہوئے ساتھی ایک ساتھ اکٹھے ہوئے تو پرانی یادوں کو بڑا مزہ لے لے کر دھرانے لگے۔ کوئی باغ بہار کی باتیں سناتا تو کوئی برسات میں ندی کے کنارے دیرتک نہانے کے واقعات سناتا۔ کوئی گنگا کے کنارے تربوز، خربوزوں کی فصل کے مزے بیان کرتا تو کوئی کلاس میں نئے نئے ڈھنگ سے ادھم مچانے کی باتیں بتاتا۔ ان بچپن کے ساتھیوں میں ہر ایک اپنے اپنے کرتبوں اور کرتوتوں کا بادشاہ تھا اور بڑھ چڑھ کر ان واقعات کو بیان کررہا تھا جن کو وقت کی مصروفیات اور تصانیفوں نے گویا یکسر بھلا دیا تھا اور بھلا نہیں دویا تو کم از کم ان کو بیان کرنے کے مواقع مفقود کردئیے تھے اور تعلیم کا سلسلہ ختم کرنے کے بعد سب اپنی اپنی دنیا میں مگن ہوگئے تھے۔ ارشد امریکہ میں انجینئر نگ کا کورس کررہے تھے۔ محمود جمشید پور میں ٹاٹا(منسٹر پرائز میں کسی اچھی جگہ پر تقرری حاصل کرچکے تھے۔ جمشید علی اور مرغوب علی گڑھ اور بمبئی میں رہائش پذیر ہوچکے تھے۔ البتہ طاہر تھے جو اپنے قصبہ کھٹائی میں ہی رہ رہے تھے اور باپ دادا کی چھوڑی ہوئی کھیتی باڑی دیکھ رہے تھے اور باوجود بڑے بڑے سنہرے مواقع ملنے کے بعد بھی اپنی داد الٰہی جائیداد کو چھوڑنا پسند نہیں کرتے تھے۔ اپنے اپنے روزگار سے لگنے کے باوجود یہ سب دوست ایک دوسرے کو یاد ضرور رکھتے اور جب بھی اور جو کوئی بھی وطن واپس آتا بڑی بے چینی سے ایک دوسرے سے ملتا۔ ان کا یہ ملنا جلنا پوری بستی میں ضرب المثل بن گیا تھا کہ بھائی اگر کسی کو پرانے دوست اور ان میں پرانے ہی انداز کا خلوص ومحبت دیکھنا ہو تو ان شیخ سرائے کے دوستوں کو دیکھے۔
آج مدت دراز کے بعد ایک جگہ جمع ہوئے تو اٹھنے ہی کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ بہرحال جب ماضی کے اور اق پلٹتے پلٹتے تاریخ بھی اپنا چو لا بدلنے پر آمادہ ہوگئی تو بادل نخواستہ اٹھے کہ کل انشاء اللہ پھر ملیں گے مگر چلتے چلتے مرغوب بولے بھائی ہماری ایک باجی زبیدہ تھیں کل ان سے تو مل لیں پتہ نہیں بچاری کس حال میں ہیں آج جو کچھ ہم ہیں ان ہی کی نصیحتوں اور دعاؤں کے طفیل سے تو ہیں۔‘‘
زبیدہ باجی کا نام آتے ہی بات چیت کا ایک نیا موضوع چھڑ گیا اور ایسا لگا جیسے ٹمٹماتے ہوئے چراغ میں کسی نے ڈھیر سا تیل انڈیل دیا ہو۔ طاہر نے کہا! ’’وہ بحمد اللہ بہت اچھی ہیں خیریت سے ہیں اور جب کبھی ان سے ملاقات کا موقع ملتا ہے آپ سب کی خیریت معلوم کرتی ہیں اور آپ لوگوں کی ترقی پر بہت خوش ہیں اور کہتی ہیں ارے طاہر میرے باقی پتنگ باز کیسے ہیں اللہ ان کو رکھے سب ہی بہت چست اور ذہین تھے۔ارشد نے کہا ’’اگر وہ ہم سے اب بھی اس درجہ محبت رکھتی ہیں تو انشاء اللہ ان سے کل ہی پہلی فرصت میں ملا جائے گا۔ سچی بات یہ ہے کہ میں نے پتنگ لوٹنے کے چکر میں ان کے صحن میں چھلانگ لگادی تھی۔ اتنی زور کا دھمکا ہوا تھا کہ سارے ہی چونک اٹھے تھے اور باجی نے دوڑ کر میرا ہاتھ پکڑ لیا تھا اور بڑے پیار سے پوچھا تھا کہیں چوٹ تو نہیں لگی۔ میں بھاگنا چاہتا تھا لیکن مجھ سے بھاگا نہیں گیا تھوڑی بہت پیر میں چوٹ بھی آگئی تھی مگر اس سے زیادہ یہ کہ میں باجی کی جس چارپائی پر کودا تھا اس کی پٹی ٹوٹ گئی تھی اور اس نے مجھے ان کے سامنے بے بس کردیا تھا مگر قربان جائیے ایسی باجی کے، بڑے پیارسے بولیں دیکھ پلنگ کی پٹی ٹوٹ گئی کوئی بات نہیں تمہاری ٹانگ تو نہیں ٹوٹی۔ اطمینان سے بیٹھو۔ پانی پیو، منہ دھولو، اپنے حواس درست کرو نہ ڈرو نہ گھبراؤ۔ اور لو یہ پتنگ بھی لے جاؤ کل ہی ہمارے صحن میں آکر گری تھی البتہ یہ یاد رکھو اگر پڑھوگے نہیں اور یو نہی وقت گزار تے رہوگے تو کٹی پتنگ کی طرح ہوجاؤ گے۔ میں توان کے پاس اس کے بعد سے گیا نہیں آپ کہتے ہیں تو کل چلیں گے۔‘‘
مرغوب بولے۔ ’’میں تو ان سے کبھی بھی پتنگ لے آتا تھا۔ وہ مجھ کو پتنگ تو دے دیتی تھیں لیکن مجھے روک کر میرامنہ ہاتھ دھلاتی۔ کبھی کبھی تو ناخن بھی خود تراش دیتیں۔ اور کہتیں اچھے بچے صاف رہتے ہیں ابااماں کا کہنا مانتے ہیں اور زیادہ پتنگ بازی نہیں کرتے۔ میں دیکھتی ہوں تم بہت ذہین بچے ہو اگر وقت کی قدر کروگے تو تم بھی پتنگ کی طرح بلندیوں کو چھوسکتے ہو۔ ایک بار میں نے تمہاری حساب کی کاپی دیکھی تھی تمہارا میتھ مٹیک بہت اچھا ہے تم ایک بڑے اکاونٹ ٹینٹ بن سکتے ہو شرط یہی ہے بری عادتیں چھوڑدو۔ اور پھر ایک دن تو انہوں نے ہم سے توبہ کراہی لی تھی اور جب ہم نے ان سے پڑھنے لکھنے کا وعدہ کیا تو ہم کو بطور انعام ایک پنسل ایک کاپی اور ایک پنسل کٹردیا تھا۔ پنسل اور کاپی تو دو چارہی دن میں کام آگئی تھیں البتہ کٹر میں نے ابھی تک بطور نشانی محفوظ رکھ رکھا ہے۔‘‘ جمشید اور محمود نے بھی اپنی پرانی باتیں کہنا چاہیں مگر رات کافی ہوچکی تھی اور سب صبح دس بجے ملنے کا وعدہ کرکے اپنے اپنے گھرچلے گئے۔
اگلے روز سب ہی طاہر کے یہاں مقررہ وقت پر جمع ہوگئے۔ چلتے وقت کسی نے کسی سے کچھ بھی نہیں کہا تھا پھر بھی سب کے ہا تھ میں ایک ایک مٹھائی کا ڈبہ تھا۔ طاہر نے بڑھ کر دروازہ کھٹکھٹایا دوتین بار دروازہ کھٹکھٹا نے کے بعد اندر سے آواز آئی۔ ’’آتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پر ایک پندرہ سال کا بچہ آیا۔ اس سے طاہر نے کہا بھائی عبد اللہ باجی سے کہنا آپ سے ملنے کے لیے کچھ آپ کے پرانے پتنگ باز آئے ہیں۔ بچے نے وہی جاکر اندر کہہ دیا اور پھر فوراً ہی باجی خود اٹھ کر آئیں کہ نہ جانیں کون پتنگ باز ہیں اور کون لوگ ہیں۔ وہ آئیں اور سب کو اندر لے گئیں اور ڈرائنگ روم میں بٹھاکر تھوڑی دیر کے لیے اجازت لے کر چلی گئیں۔
سب لوگوں نے اپنے اپنے ڈبے ایک طرف رکھے اور باجی کا انتظار کرنے لگے۔ کچھ دیر کے بعد باجی چائے اور ناشتہ لے کر آگئیں اور چائے کا کپ آگے بڑھاتے ہوئے تعارف چاہا۔ سب نے یک زبان ہوکر کہا! ’’ہم ہیں آپ کے پرانے پتنگ باز۔‘‘ ارشد نے کہا میں ارشد ہوں جس نے آپ کے پلنگ کی پٹی توڑدی تھی اور آپ نے ہاتھ پکڑ کر بڑی شفقت سے فرمایا تھا چلوپٹی ٹوٹ گئی تو کوئی بات نہیں تمہاری ٹانگ تو نہیں ٹوٹی۔ اور آپ نے پھر میرا منہ ہاتھ بھی دھلایا تھا۔‘‘ ارشد بات پوری نہیں کرپائے کہ مرغوب نے اپنی بات شروع کردی۔ ’’باجی میں مرغوب ہوں اور آپ سے اکثر پتنگ لے جاتا تھا آپ پتنگ دے تو دیتی تھیں لیکن پہلے ہاتھ منہ دھلاتی تھیں اور کبھی کبھی ناخن بھی تراش دیتی تھیں اس لیے کہ ہماری امی اپنی قینچی کوہاتھ لگانے نہیں دیتی تھیں کہ اگر تو اس سے ناخن کاٹے گا تو اس کی دھار مرجائے گی اور پھر کپڑا نہیں کٹ سکے گا۔‘‘ میں اور ارشد ہم دونوں امریکہ میں ہیں یہ ایک کمپنی میں انجینئر ہیں جب کہ میں ایک دیگر کمپنی میں محاسب اکاؤنٹنٹ ہوں۔‘‘ جمشید علی بولے میں آپکی دعا سے بمبئی کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مارکٹنگ سپروائزرہوں اور یہ مرغوب صاحب علی گڑھ کے گرویدہ ہوکر رہ گئے ہیں اور یونیورسٹی میں سپلائی انچارج ہیں۔ باجی مختصر بات یہ ہے کہ ہم سب پتنگ باز صرف آپکی ترغیب اورتوجہ اور دعاؤں کے باعث الحمد للہ برسرروزگار ہیں اور آرام سے زندگی گزار رہے ہیں۔ کبھی کبھی ان شرارتوں کا خیال آجاتا ہے۔ جو ہم اکثر وبیشتر کرتے تھے۔ یہ بات طے شدہ ہے اگر ہم شرارتی نہ ہوتے تو آپ کی بیش قیمت، مخلصانہ اور پرسوز پند و نصیحت سے محروم ہی رہتے۔ کل ہم لوگ بہت عرصہ بعد ایک وقت میں اکھٹا ہوسکے اور رات گئے تک بات چیت چلتی رہی اسی اثنا میں بچپن کی پتنگ بازی کا بھی ذکر آگیا اور پھر آج آپ سے ملنے آگئے۔ ہم آپ سے اب بھی دعاؤں کی درخواست کرتے ہیں۔
زبیدہ باجی اپنے ان پتنگ بازوں کی کامیابیوں پر بہت خوش ہوئیں اور اس بات پر مزید خوش ہوئیں کہ یہ لوگ بچپن کی دوستی کتنی خوبی سے نبھا رہے ہیں حالانکہ آج کل تو سگے رشتہ دار بھی ایک دوسرے سے بیزار نظر آتے ہیں۔ بولیں ’’آپ کو دروازہ کھلنے کا بڑا انتظار کرنا پڑا اس کا افسوس ہے وجہ اسکی یہ ہے کہ ہم رات تین بجے علی گڑھ سے واپس ہوئے اللہ کا شکر ہے ہمارے بیٹے عبداللہ کا پہلی ہی کوشش میں ایم۔ بی۔بی ۔ایس میں داخلہ ہوگیا ہے۔ جب کہ بڑے بڑے مال دار اور قابل لوگ پڑے ہیں اور کئی کئی بار کوشش کے باوجود بھی کامیاب نہیں ہوپائے۔‘‘
’’باجی بس بات یہ ہے کہ اللہ بھلائی کا بدلہ ضرور دیتا ہے اور احسان کرنے والوں کو تو وہ بڑا ہی پسند کرتا ہے۔lll