پریم بیل

اقبال مہدی

آڑوؤں کی، رس بھری خوبانیوں کی، کھٹے میٹھے آلوچوں کی خوشبوئیں وادی میں پھیلی ہوئی تھیں،بہا رناچ رہی تھی، ہوا بہہ رہی تھی اور گلیشئر کی بارات اونچی چوٹیوں سے رقص کرتی ہوئی دریا کی مترنم موجوں میں گر رہی تھی۔ چیڑ اور دیو دار کے گھنے درختوں کے درمیان کہیں کہیں دھوپ کے سنہرے جھرنے بہہ رہے تھے اور نیچے وادیوں میں بادل روئی کے گالوں کی مانند اڑتے پھر رہے تھے۔ فضا میں پھولوں جیسی نرمی پھیلی تھی۔

وارڈ کے اندر ہلکا ہلکا اندھیرا تھا۔ بڑی سی میز پر رجسٹر پر سر جھکائے سسٹر نلنی کچھ لکھ رہی تھی۔ ہر دوسرے لمحے کوئی نہ کوئی مریض کھانستا اور اس کی سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگتی تو خاموشی مجروح ہوجاتی۔ کونے میں بوڑھے مریض پر بے ہوشی کاسا عالم طاری تھا۔ اس کے برابر کا مریض بوڑھے کی کھانسی سے خوف زدہ تھا۔ کل رات کو اس نے اپنی بیوی سے کہا تھا: ’’شانتی! میں اب زندہ نہیں رہوں گا۔ میں تیرا احسان مند ہوں شانتی کہ تو نے میری بڑی سیوا کی، بھگوان تجھے شکتی دے…‘‘ شانتی نے شوہر کی بات کاٹ دی ’’دیکھو! شبھ شبھ بولو میں کاہے کو جیوں گی تمہارے بغیر ۔ ایسی باتیں مت کرو۔ دیکھو سسٹر نلنی آرہی ہیں۔‘‘

’’کیوں بابا … کیسے ہو؟ ارے … دیکھو تم نے ماں جی کو رلادیا۔ کتنی بری بات ہے۔ تم جلدی ٹھیک ہوجاؤ گے، مایوس نہ ہو۔ اچھا آنکھیں بند کرو۔ ہاں ایسے، اچھا اب سوچو، تمہاری بیٹی جو پیلی بھیت میں بیاہی ہے وہ چھوٹی سی تمہاری گود میں بیٹھی ہے اور تم سے کھیل رہی ہے۔’’آم والے آم دے، آم ہیں سرکار کے، ہم بھی ہیں دربار کے۔ اچھا ایک آم لے لو، یہ تو کھٹا ہے، دوسرا لے لو ۔ میرے دونوں میٹھے ۔ میرے دونوں میٹھے۔‘‘ ہنسو! ہوں ایسے ۔ بس اب مت پریشان ہونا۔ ایسے ہی مسکراتے رہو۔ کوشش کرو نیند آجائے گی۔‘‘

سسٹر نلنی کو اچھی طرح سے معلوم تھا کہ بابا نہیں بچیں گے۔ بس زندگی سے کب ناطہ ٹوٹ جائے، اس کا انتظار تھا۔ ڈیوٹی بدل گئی۔ سسٹر نلنی سارے مریضوں پر نظر ڈالتی، مسکراتی چلی گئی۔ نئی نرسوں نے اپنی ڈیوٹی سنبھال لی۔ وہ جلدی جلدی بخار اور بلڈ پریشر دیکھنے لگیں۔ رات کا کھانا تقسیم ہونا شروع ہوگیا۔

دس نمبر مریض نے کروٹ لے کر مایوس کن انداز میں کہا : ’’کمال! اب میں بچ نہیں سکوں گا!‘‘ کمال نے اسے تسلی دی : ’’چوپڑہ! زیادہ دیر کون زندہ رہے گا، شاید صحت مند لوگ بھی نہ رہ سکیں۔‘‘

’’کمال! مجھے اپنی موت سے ڈر نہیں۔ بس مجھے تو دکھ اس بات کا ہے کہ میری بیوی نے اپنا سارا زیور بیچ کر میرا علاج کرایا۔ وہ مجھے بچا نہ سکی۔‘‘

’’اوپر والا مدد کرے گا۔ چوپڑہ ہمت سے کام لے۔‘‘ بارہ نمبر سے بلبیر سنگھ نے کہا : ’’میری طرف دیکھ۔ جب آیا تھا تو میرے چاروں طرف موت کا جال تھا۔ آج میں زندگی کی طرف لوٹ رہا ہوں۔‘‘

’’تیری بات دوسری ہے بلبیر ے۔‘‘ چوپڑہ نے آہ بھر کر کہا: ’’تجھے یہ تو غم نہیں کہ تیری بیوی کا سارا زیور بک گیا ۔ یہ غم بھی نہیں کہ تم نے اپنی بچی کی پیدائش پہ کہا تھا کہ میں اسے ڈاکٹر بناؤں گا اور اب وہ چوتھی جماعت سے نام کٹوا کر محلے کے گھروں میں برتن مانجھتی ہے اور اپنے کمہلائے ہوئے ہاتھوں کے گلابوں کو دیکھتی ہے۔ ان ہاتھوں نے گڑیاں اور گھروندے بنائے تھے۔ قلم، کاغذ اور کتابیں اٹھائی تھیں۔ کھیلنے کھانے کی عمر میں یہی سب تو ہونا چاہیے تھا نا … اس کے ہاتھ پر ایک چھالا پڑتا ہے تو میرے پھیپھڑے سے خون رسنے لگتا ہے۔‘‘

’’تو ضرورت سے زیادہ سوچتا ہے چوپڑہ۔‘‘ بلبیر سنگھ نے اٹھتی ہوئی کھانسی کو دباتے ہوئے کہا: ’’ہر انسان دکھوں کے صحرا کی گھنی چھاؤں بچھائے آسمان کی طرف بے چارگی اور بے بسی کا دامن پھیلائے اپنے خدا سے نجات کا طالب ہے۔ سوچو تو اپنا ہی دکھ سب سے بڑا دکھ ہے ورنہ چوپڑہ! اس دنیا میں سب دکھی ہیں۔ میں تیرے کو کیسے سمجھاؤں کہ میری چار بیٹاں ہیں، سب جوان اورکنواری ہیں، باپ ان کا جہیز جوڑتا، مگر … سینی ٹوریم میں پڑا ہے۔‘‘ اس کی بھیگی پلکوں میں ساری داستان سمٹ کر خاموش ہوگئی تھی۔

نرس اسٹریچر لے کر سامنے سے گزری تو سب کی نگاہیں اس کی سمت اٹھ گئیں۔ کونے والے بابا کو اسٹریچر پر لادا جارہا تھا۔ ہر مریض کے ذہن پر سایہ سا گزر گیا۔ باہر سے اس کی بیوی کے رونے کی آواز آرہی تھی۔ پاس دو ایک رشتہ دار کھڑے تھے۔ سسٹر نلنی منہ پر رومال رکھے کھڑی تھی۔

’’اب اسے سانس لینے کی مجبوری نہ ہوگی‘‘ کمال منہ ہی میں بڑبڑایا۔ اس نے کروٹ بدل لی۔ برابر میں ڈیوڈ زیرِ لب دعا مانگ رہا تھا ’’آسمانی باپ! اس اولڈ مین کو اپنی پناہ میں لے۔ اس کے گناہ بخش دے۔‘‘

’’آپ سب لوگ سوجائیں۔‘‘ سسٹر نلنی کی پُر سکون آواز آئی۔

’’مجھے تو جاگنے کی اجازت ہے سسٹر۔ مجھے نیند نہیں آرہی ہے۔‘‘ چوپڑہ بولا اور اسے کھانسی کا دورہ سا پڑگیا۔

سسٹر نلنی جلدی سے اس کے پاس جاکر بیٹھ گئی اور پیٹھ سہلا کر اپنی شیریں آواز میں بولی: دھیرے دھیرے، بالکل گھبرانے کی بات نہیں۔ نیند کی دوا کھاؤ گے تو نیند آجائے گی۔‘‘ چوپڑہ کی سانس معمول پر آئی تو سسٹر نے اسے نیند کی دوادی۔ چوپڑہ کے بالوں میں دھیمے دھیمے ہاتھ پھیرتے ہوئے مسکرائی۔

’’کیوں چوپڑہ! تمہیں چین سے لیٹنا پسند نہیں؟‘‘

’’چین ! چین سے کیسا لیٹنا … چین کا راستہ اب بہت قریب ہے سسٹر۔ وہ بابا اب کتنا مطمئن ہوگا۔‘‘

’’بس اب آنکھیں بند کرو اور تم اتنی دور کی بات مت سوچا کرو۔ شاباش، کرو آنکھیں بند!‘‘ سسٹر نلنی نے اس کے سر کو سہلایا اور کمال کے پلنگ کی طرف بڑھ گئی۔ ’’چوپڑا! ابھی تم زندہ رہوگے، سمجھے! آپ بتائیے کمال اب کیا حال ہے؟‘‘

’’میں آج دوا نہیں پیوں گا سسٹر!‘‘ کمال بے زاری سے بولا۔ سسٹر نلنی اسٹول گھسیٹ کر پلنگ کے پاس بیٹھ گئی اور پیار بھرے انداز میں بولی: ’’کیوں نہیں پیو گے؟ جانتے ہو ایک گلستاں کی ہنسی کے لیے کتنی کلیاں ہلاک ہوتی ہیں؟ یہ کائنات کا اصول ہے۔ تمہاری زندگی کتنی اہم ہے، جانتے بھی ہو۔ تو پھر زندہ رہنے کے لیے تمہیں ایک خواہش کا نہیں ہزاروں خواہشوں کا خون کرنا پڑے گا۔ زندہ رہنے کی امنگ پیدا کرو۔ بزدل نہ بنو۔ بلبیر سنگھ کو دیکھو۔ اپنی بیماری سے لڑ رہا ہے۔ زندہ رہنا چاہتا ہے۔ اپنی بیٹیوں کے لیے۔ یاد رکھو کڑھنا اپنے آپ سے جنگ کرنا ہے اور خوش رہنا بیماری سے۔ ہمیں باہر کی دنیا سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، وہاں سب کے لیے الجھنیں، دکھ، غربت، بھوک ہے، لیکن … یقین کرو پھر بھی زندگی بڑی پیاری شے ہے۔ اس سے محبت تو کرکے دیکھو! کمال! آپ تو شاعرانہ ذوق رکھتے ہیں۔ اچھے اشعار پڑھا کیجیے۔‘‘

’’تم نے کسی سے محبت کی ہے سسٹر!‘‘ سسٹر نلنی کے چہرے پر ایک سایہ سا گزر گیا۔

’’جذباتی نہ بنو، مجھے ابھی بہت سے کام کرنے ہیں۔ کمال! مہکتا پھول بنو، اداس اور مرجھائی کلیاں نہیں۔ بس اب سونے کی کوشش کرو۔ ڈاکٹر کا راؤنڈ ہونے والا ہے۔‘‘ سسٹر نلنی نے کمال کو دوا کھلائی۔ اس کی میٹھی باتوں میں ماں کا پیار محسوس کیا اور دوا کھانے کے بعد بولا:

’’میں اچھا ہورہا ہوں‘‘

’’ہوچکے ہو۔‘‘

’’مگر کس کے لیے؟‘‘ کمال زیرِ لب بڑبڑایا۔ وہ چلی گئی۔ وہ سسٹر نلنی کو جاتے دیکھتا رہا۔ اندھیرے کی لمبی چوڑی اسکرین پر اسے سسٹر نلنی کا شگفتہ سا چہرہ نظر آرہا تھا۔

ہر مریض سسٹر نلنی سے محبت کرتا تھا۔ وہ ہر مریض کی دلداری کرتی، پیار سے جھڑکتی، زندگی سے پیا رکرنا سکھاتی ورنہ آج کے زمانے میں اسپتال کاروبار اور آمدنی کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ ہر نرس غیر جذباتی اور مشین بن گئی ہے۔ کس کے پاس وقت ہے جو ہر مریض کو اپنائیت اور پیار سے حوصلہ دے؟ ہرمریض یہی سمجھتا ہے کہ وہ صرف اس سے اچھا سلوک کرتی ہے۔ صر ف مجھ سے! اس کے وجود میں چاندنی کا اجالا ہے، اس کے پیار اور ہمدردی سے لبریز لفظوں کے چمکیلے قافلے آسمان کی وسعتوں میں تیرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ وہ نہ شعلہ ہے، نہ آنسو، نہ شبنم، نہ صبا۔ وہ تو بس حرفِ وفا ہے۔ وہ نہ ہوتی تو اس وارڈ کا ہر مریض پریشان ہوجاتا، وہ وارڈ کی فضا میں محبت اور پیار کے شہباز کی مانند تیرتی رہتی ہے۔

کمال کی پلک جھپک گئی۔ کچھ دیر بعد اس کی آنکھ کھل گئی اور اس نے کروٹ بدلی تو سامنے پلنگ پر ڈیوڈ آنکھیں کھولے چھت کو تک رہا تھا۔ کمال نے ڈیوڈ سے پوچھا:

’’تم سوئے نہیں … کیا سوچ رہے ہو؟‘‘

’’برادر! سسٹر نلنی بالکل میری بیٹی سلویا کی طرح ہے۔ گاڈ نے اس کو اسپیشل بنایا ہے۔ اس کا دل بہت بڑا ہے۔ گاڈ اس کو جنت بھیجے گا۔‘‘

’’ڈیوڈ‘‘ کمال نے دھیرے سے کہا : ’’ڈیوڈ!سسٹر نلنی سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ میں جب سے اچھا ہورہا ہوں، میرے سینے میں اس آرزو نے جنم لے کر پروان چڑھنا شروع کیا ہے کہ میں اسے اس کی اتنی دلنواز اور دلربا شخصیت کا راز بتادوں۔ میں اسے بتاؤں کہ زندہ رہنا یا زندگی لینا کوئی بڑی بات نہیں، جتنی بڑی بات زندگی دینا اور زندگی سے پیا رکرناہے۔ میرے اند رزندگی کا احساس اور زندہ رہنے کا شعور اس نے بیدار کیا ہے۔ محبت کو مذہب بنانے کی ترغیب دی ہے اور خدمت کا جذبہ ابھارا ہے۔ میں اس کو بتاؤں کہ وہ انسان کے روپ میں فرشتہ ہے۔ ڈیوڈ! سسٹر نلنی نے مجھے یاس و الم میں فرق سمجھایا ہے۔ زندگی کے غم ہمیں مسکرانا سکھاتے ہیں، یاسیت انسان کو مفلوج کردیتی ہے مگر غمِ حیات قوتِ تخلیق بخشتا ہے۔‘‘

جس روز کمال کی چھٹی ہونے والی تھی پتہ چلا کہ نرسوں کی ہڑتال ہوگئی۔ سسٹر نلنی نہیں آئی۔ جونیئر نرس نے کاغذی کارروائی کی۔ کمال ایک ایک سے رخصت ہورہا تھا۔ اس کی آنکھیں بار بار جھلملا اٹھتیں۔ اسے کوئی لینے آنے والا بھی نہ تھا۔ لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ اسے تو کوئی رونے والا بھی نہ تھا پھر بھی پیارو محبت کا جو رشتہ سب مریضوں سے ہوگیا تھا، ان رشتوں سے جدائی کمال پر بوجھ بنی ہوئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ سسٹر نلنی اسے رخصت کرنے ضرور آئے گی مگر وہ رات ہی خدا حافظ کہہ گئی تھی۔ وہ باری باری سب کے گلے لگ رہا تھا۔

’’میرے لیے دعا کرنا ‘‘ چوپڑہ نے دل گیر آواز میں کہا : ’’جلد مرجاؤں‘‘ کمال کی آواز حلق میں پھنسنے لگی کیونکہ اسے پتہ تھا کہ پرسوں ہی رپورٹ ملی تھی کہ اس کا دوسرا پھیپھڑا بھی اب کام نہیں کرپائے گا۔ پھر بھی خود کو سنبھالتے ہوئے کمال نے چوپڑہ کو تسلی دی۔

’’چوپڑہ! اوپر والے پر بھروسہ رکھو۔ مایوس نہ ہو۔ اس دن سسٹر نلنی نے کہا تھا یاد ہے کہ زندگی رقصِ شرر ہی سہی لیکن جب تک ہے اسے موت کے اندھیروں سے بچانا چاہیے۔ یاد رکھنا! اب چلوں ذرا ڈیوڈ سے مل لوں۔ آج اسے دھوپ میں بیٹھنے کی اجازت ملی ہے۔‘‘

کمال وارڈ سے نکلا اور برآمدے میں آیا تو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا۔ سنہری دھوپ کھلی ہوئی تھی۔ سامنے لان میں وہیل چیئر پر ڈیوڈ بیٹھا تھا۔ اس نے کمال کو مسکرا کر دیکھا: ’’لکی مین! جاؤ خوش رہو۔‘‘

’’ڈیوڈ! یہ نرسوں کی ہڑتال کی وجہ سے سسٹر نلنی نظر نہیں آئی؟‘‘

’’ہاں! وہ نہیں آئی۔ہڑتال نہ بھی ہوتی تب بھی وہ نہیں آتی۔ جاننا چاہتے ہو کیوں؟ آؤ بیٹھو!‘‘ کمال ڈیوڈ کی کرسی کے پاس پڑی بینچ پر بیٹھ گیا۔

’’کمال! وہ بڑی مختلف قسم کی عورت تھی۔ وہ اپنے پیشے کے وقار سے محبت کرتی تھی۔ نہ اس کے پاس مصنوعی محبت تھی اور نہ جھوٹے جذبات! اس کے پاس تو عورت کا دل تھا … گداز… اتھاہ سمندر کی مانند… اگر سہہ جائے تو نیزوں کی مار سہہ جائے اور اگر نہ سہے تو ایک معمولی کانٹے کی چبھن سے مرجھا جائے۔‘‘

’’ڈیوڈ! تم ایسے بول رہے ہو جیسے وہ کہیں چلی گئی!‘‘ کمال نے بے چینی سے کہا۔ ڈیوڈ زیرِ لب مسکرایا: ’’بتاتا ہوں، ابھی بتاتا ہوں کمال۔ تم نہیں جانتے دوست کہ اس کے پاس اپنے بھی دکھ تھے۔ ہمہ گیر اور بھیانک… اور شاید ان دکھوں سے فرار کی اس کے پاس ایک راہ تھی کہ وہ دوسروں کے دکھ پر روئے۔‘‘

’’ڈیوڈ! کیا اس نے تمہیں کچھ بتایا تھا اپنے بارے میں؟‘‘

’’ہا ںکمال! تم ایک سوا ل کیا کرتے تھے کہ سسٹر نلنی ہمیشہ کسی کے مرنے یا چھٹی ہونے پر چھٹی کیوں لے لیتی ہے۔ آج جب میں دھوپ میں آکر بیٹھا تو سسٹر نلنی ساری پہنے دوسری نرسوں کے ساتھ جارہی تھی۔ مجھے دیکھ کر مسکرائی اور میرے پاس آگئی۔ ’’کہیے مسٹر ڈیوڈ! دھوپ کیسی لگ رہی ہے؟‘‘ میں نے مسکرا کر سرہلایا اور پوچھ بیٹھا: ’’سسٹر ! آج تو خیر ہڑتال ہے مگر ایک سوا ل کرتا ہوں اور وہ یہ کہ تم کسی کے مرنے یا صحت مند ہونے پر چھٹی کیوں لے لیتی ہو؟‘‘ اس کی مسکراہٹ، قہقہہ بن کر آواز کی کھنک بن گئی۔ بلاشبہ اس بے ساختہ قہقہے میں اک کرب تھا۔ فریاد تھی۔ اس کی آنکھوں میں خوف کی پرچھائیاں تھیں۔

’’مسٹر ڈیوڈ! اپنی زندگی کا ایک گوشہ میںنے دنیا سے چھپا کر رکھا تھا، مگر اب چھپانے کو کچھ رہا نہیں۔ میری زندگی درد کے ایک طویل دشت سے گزری ہے مگر جس کنارے مجھے لگنا تھا – جب پہنچی تو وہاں تو کوئی کنارہ ہی نہ تھا۔‘‘ وہ اپنے سارے آنسو اندر ہی اندر پلکوں میں جذب کرکے بولی: ’’مسٹر ڈیوڈ! ہوش سنبھالنے کے بعد اس دنیا میں کوئی میرا تھا تو وہ میرا بھائی تھا… اکلوتا بھائی … جس کی سانسوں کی مہک پاکر بہار آتی تھی۔ جوان ہوا تو پتہ چلا کہ ٹی بی نے اسے چاٹنا شروع کردیا تھا۔ ہمارے وسائل ایسے نہ تھے کہ اس کا باقاعدہ علاج ہوسکتا۔ وہ بھی اوروں کی طرح علاج کے لیے ترستا، سلگتا، خون تھوکتا، ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرگیا۔ میں آج تک اس کا سوگ منا رہی ہوں…‘‘

وہ ایک لمحے کے لیے رکی تو مجھے لگا کہ آس پاس کی بہار آلود ویرانی میں سوگ رچ گیا ہو۔ کچھ توقف کے بعد اس نے کہا: ’’اس کی موت کے بعد ہی میں نے تہیہ کرلیا تھا کہ میں اس مرض کے مریضوں کی خدمت کروں گی۔ میں آج تک یہ جہاد کرتی رہی ہوں مگر اب ایسا نہ کرسکوں گی۔ مجھے یہاں کسی نہ کسی دن ایک بھائی کی موت دیکھنا پڑتی ہے۔ اس لیے میں کسی کے مرنے پر چھٹی لے لیتی ہوںاورصحت مند ہونے پربھی، اس لیے کہ میرا بھائی… میرا اکلوتا بھائی کیوں مرگیا؟ کیا زندگی اس کے لیے ضروری نہیں تھی؟ کیا یہ زمین اس پر تنگ ہوگئی تھی؟ کوئی مرتا ہے تو میرا زخم تازہ ہوجاتا ہے، کوئی زندگی کی طرف لوٹتا ہے تو مجھے زندہ غم کی شکل میں ڈھلنا پڑتا ہے اور پھر دن رات کی محنت سے کچھ زیادہ لوگوں کو بچا بھی تو نہ سکی۔‘‘

’’ایک لمحے بعد میں نے گردن اٹھا کر دیکھا۔ سسٹر نلنی دونوں ہاتھوں سے منہ چھپاکر سسک رہی تھی۔ میں کچھ دیر چپ رہا پھر میں نے اس سے بھرے دل سے کہا:

’’تم مجھے اپنا بھائی سمجھو۔‘‘

’’نہیں… ڈیوڈ … نہیں …یہ نہیں ہوسکتا۔ میں کسی کو اپنا بھائی نہیں کہوں گی۔ … کبھی نہیں!…!‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’اس لیے کہ جس کی خدمت میں نے اس کی توقع سے بڑھ کر کی ہے، صحت مند ہونے کے بعد پہلا پتھر اسی نے مجھے مارا ہے۔ کوئی مجھے بہن کہتا ہے تو طرح طرح کی افواہیں پھیلا کر لوگوں کی تفریح کا سامان فراہم کرتا ہے۔ کوئی مجھے ہمدرد پاتا ہے تو گھر جاکر محبت بھرے خط لکھنا شروع کردیتا ہے، حتی کہ شادی کا پیام دینے میں بھی کوتاہی نہیں کرتا۔ میں ان باتوں کو برا مانتی ہوں یا نہیں میں نہیں جانتی۔ میں بس اتنا جانتی ہوں کہ مدت ہوئی میں نے اس دنیا سے کنارہ کرلیا ہے، رشتوں ناطوں کو جنم ہی نہیں لینے دیا۔میں نے شادی نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ پھر جانے کیوں لوگ نہیں سمجھتے۔ نرسنگ ایک مقدس پیشہ ہے۔ نرس ایک عورت ہے۔ عورت اگر ماں ہے تو اس کے پیروں کے نیچے جنت ہے۔ بہن ہے تو اس کی آبرو بھائی کی نجات کا سامان ہے، بیٹی ہے تو اس کی پرورش جنت کی ضامن ہے۔ بیوی ہے تو احترام باہمی کی حقدار ہے۔ مگر نرس… ہمیشہ داشتہ اور بدکردار سمجھی گئی۔ میں ایک نرس ہوں۔ میں نے ہمیشہ ان باتوں کو ہنس کر ٹالا ہے اس لیے کہ میرا مقصد خدمتِ خلق تھا مگر اب مشکل ہوگا۔‘‘ کمال اس نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وارڈ کے مریضوں سے ملنا اسے جذباتی طور پر کمزور کردیتا اس لیے وہ بغیر ملے چلی گئی اور جاتے جاتے آج کا اخباردے گئی۔ یہ دیکھو پہلے صفحے کی سرخی ہے۔’’نرسوں کا ڈاکٹروں کے ہاتھوں استحصال! ڈاکٹر وں نے اپنے آپ کو بے قصور اور نرسوں کو بدکردار، کھوکھلی اور گمراہ قرار دیا۔ ملک بھر میں نرسوں کی ہڑتال‘‘ ۔ ڈیوڈ نے اخبار کمال کے ہاتھ میں دے دیا اور رومال سے آنکھیں خشک کرتے ہوئے بولا:

’’کس سوچ میں ڈوب گئے دوست؟‘‘ کمال جذباتی ہوگیا اور اس کی آنکھیں غصے میں پھیل گئیں۔

’’ڈیوڈ! یہ بہت برا ہوا۔ ہر طبقے میں اچھے برے انسان ہوتے ہیں۔ نرسوں کے خلاف لکھنے والوں اور ڈاکٹروں کی پشت پناہی کرنے والوں نے نہ صرف اپنے کاروبار کو مدِّ نظر رکھا ہے بلکہ ایسا کرکے انھوں نے اس طبقے کی زندگی کے روشن پہلو سے انحراف ہی نہیں کیا بلکہ اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش بھی کی ہے اور سسٹر نلنی جیسی محترم نرس کو اپنے پیشے سے متنفر کردیا ہے۔ ڈیوڈ! سسٹر نلنی پیشے کے وقار سے محبت کرتی تھی۔ وہ ہمیں صحت دینے کے لیے بے لوث خدمت کرتی تھی۔ اس کے پاس زندگی کے پھول تھے، بہن اور بیٹی کا پیار تھا، ممتا سے بھر پور ماں کی محبت تھی۔ ڈیوڈ! کاش میں اس سے آخری بار مل سکتا اور اس کی عظمت کو سلام کرسکتا! کاش!‘‘

وہ اٹھا اور ڈیوڈ سے گلے مل کر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا گیٹ کی طرف بڑھ گیا۔ جیسے قبرستان میں جوان بہن کو قبر میں اتار کر آرہا ہو۔ چیڑ کے درختوں میں شوخ رنگ کے سبزجھومر ہوا کی لہروں میں تیر رہے تھے اور نرسنگ ہوم کی بلڈنگ سے ہلکا ہلکا دھواں سا اٹھ کر فضا میں تحلیل ہورہا تھا ۔ دور کہیں سے آواز آرہی تھی۔‘‘ میں نرس ہوں۔ خدمت اور محبت میرا پیشہ ہے۔ میں عقیدت کا جواب محبت سے دیتی ہوں۔ اس لیے کہ مجھے تمہاری زندگی عزیز ہے۔ مجھے تمام مریضوں کی زندگی عزیز ہے!!

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں