الاؤ کے شعلے اوپر کی جانب اٹھ رہے تھے۔ آگ کی روشنی ان کے چہروں پر پھیل گئی تھی، سب کسی سوچ میں گم تھے۔
سفید بال والے کی آنکھیں بند تھیں اور باقی آگ کو گھور رہے تھے۔
’’شاید ہمیں اب کچھ کرنا پڑے گا۔‘‘ ان میں سے ایک نے رائے دی۔
’’کیا مطلب؟‘‘ سفید بال والے نے یکدم آنکھیں کھول دیں۔
’’بہت سے لوگ کافی دیر سے انتظار کررہے ہیں۔‘‘ دوسرا شخص بولا۔
’’ہاں ہم سب اسی کے انتظار میں ہیں۔‘‘ سفید بال والے نے کہا۔
’’لیکن وہ ابھی تک کیوں نہیں آیا ہے؟ اس کا کچھ پتہ تو لگے۔‘‘ پہلے شخص نے کہا۔
سفید بال والا الاؤ کی دوسری جانب دیکھنے لگا۔ دوسرے سب سرنگوں ہوکر سوچ میں ڈوب گئے۔ ایک وقفہ کے بعد سفید بال والے نے مڑ کر باریش شخص کی طرف دیکھا اور کہا: ’’تم جاؤ۔‘‘
داڑھی والا چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔
’’وہ اس جانب گیا ہے۔ جاکر معلوم کرو کہ وہ کیوں اب تک نہیں لوٹا۔‘‘ سفید بال والے کا اشارہ سمجھ کر داڑھی والا چپ چاپ نکل گیا۔
الاؤ کی روشنی اندھیرے کو دھندلارہی تھی۔ سفید بال والے نے پھر سے آنکھیں میچ لیں۔
الاؤ سے دور ایک چٹان پر کوئی بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھیں سرخ انگارہ بن گئی تھیں۔ شاید وہ کافی دنوں سے لگاتار جاگ رہا تھا۔ اس نے اپنے ساتھی سے پوچھا۔
’’کیا ایسا ممکن ہے؟‘‘
’’ہاں! اسی لیے تو ہم نے اتنی مسافت طے کی ہے۔‘‘ اس کے ساتھی نے جواب دیا۔
’’کیا تمہیں یقین ہے کہ وہ لوگ ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں۔‘‘سرخ آنکھوں والے نے پوچھا۔
’’تم خواہ مخواہ مشکوک ہورہے ہو۔ ویسے تمہیں علم ہے کہ ہم سب کی منزل آگے ہے اور اسی کی تلاش میں وہ نکل گیا تھا، ابھی تک واپس نہیں ہوا ہے۔‘‘
اس کے ساتھی نے تفصیل بیان کی۔
’’چلو واپس چلیں۔‘‘ وہ بولا
’’اب واپسی مشکل ہے۔ پیچھے آگ لگی ہوئی ہے۔‘‘ اس کے ساتھی نے کہا۔
’’عجیب مصیبت میں پھنس گئے ہیں ہم۔ ‘‘ سرخ آنکھوں والا بڑبڑایا۔ پھر اس نے پوچھا: ’’کیا وہ امن کی جگہ ہمیں مل جائے گی!‘‘
’’شاید، جن لوگوں نے اس راستے کی نشاندہی کی تھی وہ تو یہی کہہ رہے تھے۔‘‘ اس کے ساتھی نے کہا۔
’’سنا ہے وہاں آگ کا دخل نہیںہے۔‘‘ سرخ آنکھوں والے پوچھا۔
’’وہاں تو سایہ دار درختوں کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔‘‘ اس کے ساتھی نے کہا۔
’’سنا ہے اس جگہ آٹھ دروازے ہیں اور دربان ہر کسی کو اند رجانے نہیں دیتا۔‘‘ سرخ آنکھوں والے نے پوچھا۔
’’ہوسکتا ہے کہ اندر جانے کا کوئی اور راستہ نکل آئے۔‘‘ اس کے ساتھی نے کہا۔ ’’جب ہم وہاں پہنچ جائیں گے تو ہمیں نجات مل جائے گی۔‘‘
’’نجات!‘‘ سرخ آنکھوں والے نے دور خلا میں گھورتے ہوئے کہا۔ پھر اس کی آنکھوںمیں عجب سی چمک پیدا ہوگئی اور وہ الاؤ کی جانب دیکھنے لگا۔
الاؤ بدستور روشن تھا۔
’’شاید وہ آرہا ہے۔‘‘ ایک شخص نے دوسرے سے کہا۔
دور سے ایک شخص آتا ہوا دکھائی دینے لگا۔
سفید بال والے نے بھی آنکھیں کھولیں اور اس جانب دیکھنے لگا۔
’’شاید وہ وہی ہو۔‘‘ان میں سے ایک چیخا۔
’’شاید وہ دو ہیں۔‘‘ دوسرے شخص نے کہا۔
دور سے ایسا لگتا تھا جیسے ایک شخص کسی دوسرے کے کندھے پر سوار ہے۔ اُن کی آنکھوں میں چمک آگئی تھی اور وہ آنے والے کی طرف غور سے دیکھنے لگے۔
جیسے جیسے وہ قریب ہورہا تھا، آنے والے کے خدوخال واضح ہورہے تھے۔ آنے والے کے چہرے پر داڑھی تھی، اس کے شانوں پر کوئی لدا ہوا تھا۔
داڑھی والے نے قریب آکر کندھے پر لدے ہوئے کو نیچے لٹادیا جو بری طرح زخمی تھا اور کراہ رہا تھا۔
’’ارے یہ تو وہی ہے‘‘ سب نے چیخا۔
’’اس کو ہوا کیا تھا۔‘‘ اور یہ تمہیں کہاں مل گیا۔‘‘ ان میں سے ایک نے سوال کیا۔
’’یہ کانٹوں کی باڑھ کے قریب زخمی حالت میں بے ہوش پڑا تھا۔‘‘ باریش آدمی نے جواب دیا۔
سفید بال والا زخمی پر جھک گیا۔ زخمی نے آنکھیں کھولیں اور اس کی طرف دیکھا۔
’’تم نے وہاں کیا دیکھا تھا۔ کیا تمہیں آگے جانے کا راستہ مل گیا تھا۔‘‘ سفید بال والے نے پوچھا۔
زخمی نے کچھ نہیں کہا بلکہ وہ دور خلا میں کھو گیا۔
’’بتاؤ نا، خاموش کیوں ہو۔‘‘ ان میں سے کسی کی مضطرب آواز ابھری زخمی نے اچانک قہقہہ لگایا اور مسلسل قہقہوں کے بعد ساکت ہوگیا اور وہ سب اس کی طرف حیرت سے دیکھتے رہے۔اور سفید بال والے کی آواز سنائی دی :
’’جائے پناہ کے لیے سیدھا راستہ اختیار کرو۔‘‘
الاؤ کی روشنی اندھیرے کو دور کررہی تھی۔
——