پیشہ ورانہ مصروفیت اور ازدواجی زندگی

امجد رفیق

کام کرنے والے میاں بیوی کے درمیان اکثر شیڈولز کے باہمی تصادم پر ٹکراؤ ہوجایا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر جس وقت میاں کو اپنے کسی کلائنٹ سے ملنے کے لیے جانا ہے، اسی وقت بیوی کو بھی اپنے آفس کی کسی میٹنگ میں شریک ہونا ہے، یا جس روز میاں کو گھر دیر سے پہنچنا ہے، اسی روز بیوی کو بھی آفس سے آنے میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ ایسی صورت میں گھریلو ذمہ داریوں کو سنبھالنے والا کوئی نہیں رہتا اور معمولات گڑبڑ ہوجاتے ہیں، جس کے نتیجے میں تصادم ہوتا ہے اور کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔

ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ میاں اور بیوی دونوں اپنی اپنی ترجیحات کا تعین کریں اور فیصلہ کریں کہ کس وقت کس کی مصروفیت زیادہ اہم ہے اور کسے اپنی مصروفیات ترک کر کے گھر لوٹ آنا چاہیے۔ یہ کام تھوڑا مشکل ہے کیوں کہ ہر ایک کے نزدیک اپنی پیشہ ورانہ مصروفیت اہم ہوا کرتی ہے، لیکن ایثار اور افہام و تفہیم سے کام لینے سے اس مشکل کا حل نکالا جاسکتا ہے۔

پیشہ ورانہ مصروفیات عملاً گھریلو مصروفیات پر مقدم رکھی جاتی ہیں۔ لیکن جب یہ نظر آرہا ہو کہ اس وقت تعاون نہ کرنے سے دوسرے فریق کا کیریئر دھچکا کھاسکتا ہے تو ایسے میں اپنی مصروفیات کو پس پشت ڈال دینا ہی مناسب ہوتا ہے۔ یاد رکھئے، کسی بھی ازدواجی تعلق کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو سہارا فراہم کریں اور سہارا فراہم کرنے کا بہترین موقع بحرانی حالات میں ہی ہوتا ہے۔

اپنی ذمہ داریوں کا ازسرنو تجزیہ کریں

اپنے کام، گھر اور دیگر مصروفیات کا بغور جائزہ لیجیے اور فیصلہ کیجیے کہ ان ذمہ داریوں میں سے کون سی ایسی ہیں جنہیں آپ ترک کرسکتے ہیں، کون سی ایسی ہیں جنہیں بانٹا جاسکتا ہے، اور کون سی ایسی ہیں جنہیں پورا کرنے کے لیے دوسروں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ بہت سے کام ایسے ہوں گے جنہیں آپ ضروری سمجھتے ہوں لیکن اصل میں وہ غیر ضروری نکلیں، بہت سے کام ایسے ہوں گے جنہیں آپ اپنے شوہر یا اپنے رفقائے کار کے ساتھ بانٹ سکتی ہیں اور بہت سے کام ایسے ہیں جنہیں آپ کی جگہ کوئی دوسرا بھی انجام دے لے تو ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

گھر کی ذمہ داریوں کے بانٹنے میں خصوصی طور پر احتیاط اور انصاف پسندی سے کام لیجیے۔ اکثر گھر کے کام کا زیادہ تر بوجھ بیوی پر ڈال دیا جاتا ہے کہ وہ گھر کو بھی چلائے، بچوں کو بھی پالے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے پیشہ ورانہ فرائض بھی انجام دے، ہمارے خیال میں یہ زیادتی ہے۔ گھر کے بھی بہت سے کام ایسے ہیں جن میں میاں کا تعاون بیوی کو غیر ضروری الجھنوں سے نجات دلا سکتا ہے۔

تان پھر وہیں آکر ٹوٹتی ہیں کہ جب تک میاں بیوی ایک دوسرے کا سہارا نہیں بنیں گے، ان کے تعلقات کی صحت کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ اپنی ذمہ داریوں کا ازسرنو تجزیہ کرنے اور غیر ضروری مصروفیات سے نجات حاصل کر کے ان پر صرف ہونے والا وقت دیگر ذمہ داریوں کو انجام دینے سے آپ اپنی زندگی کو پہلے سے زیادہ آسان اور ہموار بنا سکتے ہیں۔

ایک دوسرے کے لیے وقت نکالیے

ہمارا خیال ہے کہ اس کی اہمیت پر جتنا بھی زور دیا جائے، کم ہے۔ میاں بیوی کتنے بھی مصروف کیوں نہ ہوں، انہیں ایک دوسرے کے لیے وقت نکالنا چاہیے خواہ اس کے لیے انہیںکیسی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔

جب میاں اور بیوی دونوں گھر سے باہر کی مصروفیات میں پھنسے ہوئے ہوں توایک دوسرے کے لیے وقت نکالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ نہ ان کے پاس اتنا وقت بچتا ہے نہ اتنی توانائی کہ اپنے کام سے سر اٹھا کر اپنے رفیق حیات کی طرف بھی دیکھ سکیں۔ ایسے میں دونوں کے درمیان غیر محسوس انداز میں فاصلہ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے، دونوں ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں، اور جب تک دونوں میں سے کسی کو اس فاصلے کا احساس ہو، عموماً بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ ایسی صورت حال سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وقت کی منصوبہ بندی کی جائے۔ اپنے کام ایک شیڈول کے تحت انجام دیجیے اور اس شیڈول میں ہر روز یا کم از کم ہر ہفتے کچھ نہ کچھ وقت ایک ساتھ مل بیٹھنے کے لیے بھی نکالنے۔ سب سے اچھی بات یہ ہوگی کہ چھٹی کا پورا دن ساتھ گزارا جائے۔ ایسے صاحبان یا خواتین جنہیں چھٹی کے روز بھی دفتر کا کام کرنے کی عادت ہو، انہیں اس ضمن میں خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ غور کیجیے کہ جس ازدواجی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے آپ یہ کٹھنائیاں برداشت کر رہے ہیں اگر وہی برباد ہوگئی تو آپ کی ساری محنت مشقت کس کھاتے میں جائے گی؟ ایک دوسرے کے لیے وقت نکالنا، قربت کے لمحات تلاش کرنا آپ پر لازم بلکہ یوں سمجھئے کہ فرض ہے۔

اور یہ فکر بھی مت کیجیے کہ ایک دوسرے کو وقت دینے سے آپ کی پیشہ ورانہ مصروفیات کا حرج ہوگا۔ کچھ دیر ایک دوسرے کے ساتھ خوش گوار وقت گزارنے سے آپ کو جو سکون اور توانائی میسر آئے گی، اس کے بل بوتے پر آپ نہ صرف اپنے ذہنی دباؤ سے نجات حاصل کرسکیں گے، بلکہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں بھی پہلے سے زیادہ خوش اسلوبی اور سبک رفتاری سے نبھا سکیں گے۔ تجزیہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ خسارے کا نہیں، سراسر نفع کا سودا ہے۔

کبھی کبھی روٹین سے ہٹ جانے میں کوئی حرج نہیں

کام کرنے والے جوڑوں کوپیش آنے والا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی زندگی ایک روٹین کے چکر میں پھنس جاتی ہے۔ یہ روٹین یکسانیت اور یک رنگی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے بے حد اکتا دینے والی ہوتی ہے، لیکن چوں کہ ہمارے یہاں اکتاہٹ کو کام کا ایک ناگزیر حصہ سمجھا جاتا ہے، اس لیے اکثر لوگ زندگی کی مشکل بنانے والے ایک عنصر کو ’’ضروری برائی‘‘ سمجھ کر نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔

انفرادی حیثیت میں اس یکسانیت اور اکتاہٹ کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے (حالاں کہ ہم ایسا کرنے کے بھی خلاف ہیں کیونکہ جب تک آپ اپنے کام سے لطف اندوز نہ ہوں، اسے بہتر انداز میں نہیں کرسکتے) لیکن جہاں مسئلہ دو زندگیوں اور ایک خاندان کا ہو، وہاں اسے نظر انداز کرنا دانشمندی نہیں ہوگی۔ یہ اکتاہٹ آپ کی گھریلو زندگی پر اثر انداز ہوسکتی ہے اور ایسے حالات پیدا کرسکتی ہے کہ آپ کام کے ساتھ ساتھ گھر سے بھی بور ہونے لگیں۔ ہر سمجھ دار شخص یہ بات جانتا ہے کہ گھر سے بور ہونا گھر والے کے لیے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

اکتاہٹ سے نجات حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ کبھی کبھی اپنی روٹین سے ہٹ کر کوئی کام کرلیا جائے۔ مثال کے طو رپر، بغیر پیشگی اطلاع دیے اپنی بیگم اور بچوں کو کہیں باہر گھمانے لے جایا جائے یا انہیں کوئی تحفہ دیا جائے (ضروری ہے کہ ایسا تحفہ کسی تقریب یا تہوار سے ہٹ کر دیا جائے) اور کچھ نہیں تو اپنے جیون ساتھی کے حصے کا کوئی ایسا کام نپٹا دیا جائے کہ اس کے بوجھ میں کمی واقع ہوسکے۔

ماہرین ازدواجیات اپنے پاس ایسی مشکلات لے کر آنے والوں سے اکثر یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آپ ایسا کون سا کام کرسکتے ہیں جو آپ کے جیون ساتھی کی نگاہ میں لائق تحسین ٹھیرے، اور جب انہیں ایسے کسی کام کے متعلق بتایا جاتا ہے تو وہ مشورہ دیتے ہیں کہ جلد از جلد یہ کام کر ڈالیے۔ ایسا کرنے سے آپ کو اپنی زندگی کی یکسانیت ختم کرنے کا موقع ملے گا اور آپ اس اکتاہٹ سے بھی نجات پاسکیں گے جو نہ صرف آپ کے کام کو متاثر کر رہی ہے بلکہ آپ کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں سے بھی جونک کی طرح چمٹی ہوئی ہے۔ ماہرین نفسیات کے قول کے مطابق، انسانی جسم کو کام کی زیادتی نہیں تھکاتی لیکن کام سے اکتاہٹ تھکا دیتی ہے، اور جو لوگ انتھک کام کرنے کے خواہش مند ہوں انہیں مشورہ دیا جاتا ہے کہ اپنے کام سے لطف اندوز ہونا سیکھیں۔ کام سے ہونے والی تھکن کو آرام کر کے اتارا جاسکتا ہے لیکن اکتاہٹ سے ہونے والی تھکن دائمی شکل اختیار کر جاتی ہے، سیدھے سادے طریقے سے اس سے نجات حاصل کرنا ممکن نہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں