چند باتیں خواتین سے!

شمشاد حسین فلاحی

دنیا بھر میں امت مسلمہ کی دین اور روح دین سے دوری نے اس پر مختلف النوع منفی اثرات ڈالے ہیں۔ ان منفی اثرات میں سے سرفہرست یہ ہے کہ امت اپنے وجود کے حرکی تصور یا ڈائنامکس سے محروم ہوگئی اور زندگی کا وہ تصور ذہن سے محو ہوتا گیا جس کے لیے اور جس کے ساتھ وہ برپا کی گئی تھی۔ امت مسلمہ کا اہم ترین محرک یا جسے مقصد وجود بھی کہہ سکتے ہیں، یہ تھا کہ وہ بہترین امت کے طور پر برپا کی گئی تھی جو انسانوں کی ہمہ جہت خدمت کا مشن رکھتی تھی۔ اور انسانیت کی اس سے بڑی خدمت اور کیا ہوسکتی تھی کہ اسے خیر پر قائم کیا جائے اور شر سے اس کی حفاظت کی جائے۔ قرآن مجید یعنی رب کائنات کے الفاظ میں اس بات کو یوں بیان کیا گیا ہے:

’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے برپا کیے گئے ہو، تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوںسے روکتے ہو اور اللہ وحدہ کی وحدانیت پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘

انسانوں کو نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے بازرہنے کی تلقین کرنا وہ مشن ہے جو امت کو انسانیت کی قیادت و سیادت کے مقام پر پہنچاتا ہے۔ اور جس فرد یا قوم کو افراد یا اقوام کی قیادت کرنی ہوتی ہے وہ زندگی کے ہر میدان اور جملہ مراحل میں قیادت بلکہ بہترین قیادت کے لیے خود کو تیار کرنے کی فکر میں رہتی ہے اور مسلسل انفرادی و اجتماعی ارتقاء کے عمل سے خودکو گزارتی رہتی ہے۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ عہد اسلامی میں امت کے افراد اور پوری امت بہ حیثیت امت اس عمل کے لیے مشتاق اور فکر مند رہی۔ پھر اس شوق ارتقاء اورفکر ترقی نے اسے ہر میدان میں آگے بڑھنے کے لیے مہمیز کیا اور وہ ہر میدان زندگی میں ترقی کے مدارج طے کرتی گئی۔ یہی وہ تاریخ ہے جس پر آج ہم فخر کرتے نہیں تھکتے اور بڑے اعتماد کے ساتھ تاریخ کے اوراق کو پلٹتے ہوئے یہ کہتے جاتے ہیں کہ ہمارے اسلاف نے علم و فکر، بحث و تحقیق اور سیادت و قیادت کے میدان میں یہ یہ کارہائے نمایا انجام دیے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امت کی تاریخ بڑی روشن اور بڑی تابناک ہے مگر صرف تاریخ یا ماضی افراد یا اقوام کی ترقی کے ضامن نہیں ہوتے۔ ترقی کی ضمانت تو حال اور حال میں جاری جدوجہد ہوتی ہے جس سے بدقسمتی سے ہم بہ حیثیت ملت محروم ہوگئے ہیں۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ روشن و تابناک تاریخ رکھنے والی امت کا حال اتنا تاریک ہے کہ اسے خود اپنا ہاتھ تک سجھائی نہیں دیتا۔ عالم اسلام اورملت اسلامیہ ہند کی بے چارگی و مجبوری اور سیاسی، سماجی، معاشرتی اور تہذیبی و ثقافتی صورت حال اس بات کی گواہ ہے۔ ہندوستان میں امت مسلمہ کی صورت حال ہمارے لیے خاص طور پر اہم ہے کہ ہم یہاں جس ذہنی، فکری، معاشرتی اور تہذیبی طریقوں پر زندگی گزار رہے ہیں وہ ایک طرف تو روح دین اور مقصد وجود کے منافی ہیں، دوسری طرف وہ ہمیں گوناگوں مسائل سے دو چار کرنے والے ہیں۔ ذرا غور کیجیے کہ ملک میں اسلام اور مسلم مخالف طرز فکر و عمل اور اس کے داعی کس قدر جدوجہد کررہے ہیں اور ان کی کوششوں کی بار آوری کا کیا عالم ہے۔ اور یہ عین اللہ کے اس قانون کے مطابق ہے کہ ’’ہر انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے‘‘ اور یہ کہ ’’اللہ تعالیٰ کوشش کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘ شر و فساد کے جو خوگر اپنی کوششیں بلکہ انتہائی کوششیں کرنے میں مصروف ہیں اور ادھر ’خیر امت‘ عضو معطل بنی ہوئی محض تماشا دیکھ رہی ہے اوراس بات کا تصور بھی نہیں کر پا رہی ہے کہ ان کا یہ تعطل اور کسل مندی اور شر و فساد کے خوگروں کی دن رات کی جدوجہد کون سا کَل ہمارے سامنے لانے والی ہے۔ ہم کل کی فکر سے غافل اپنے آج میں ایسے مگن ہیں جیسے زندگی اسی طرز پر جاری رہنے والی ہے جب کہ تبدیلیوں کی دھمک صاف بتاتی ہے کہ آنے والا وقت آج سے نہ صرف مختلف ہوگا بلکہ بڑا تکلیف دہ اور مشکل ہونے والا ہے۔

اجتماعی تبدیلیاں راتوں رات نہیں آتیں۔ نہ زوال راتوں رات آجاتا ہے اور نہ عروج پلک جھپکتے میں حاصل ہو جاتا ہے، اس زوال کے پیچھے صدیوں کا تعطل ہوتا ہے اور عروج کی پشت پر بھی طویل جدوجہد کار فرما ہوتی ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ ہم مسلمان جمود اور تعطل کی کیفیت سے نکلیں اور حرکت و عمل اور جدوجہد کے مرحلے میں آجائیں۔ اور یہ بھی طے ہے کہ بہ حیثیت مسلمان ہماری جدوجہد کا مرکز اور ہمارے عروج و ارتقاء کا زینہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے اور یہی ہمارے وجود اور ہمارے لیے عافیت و ترقی کو یقینی بنانے والا ہے۔

حجاب اسلامی کی مخاطب کیوں کہ خواتین ہیں اس لیے ہم انہیں متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کم از کم اپنے محاذ پر بیدار ہوں اور اپنی حد تک دینی ذمہ داریوں کی ادائگی کے لیے خودکو آمادہ اور تیار کریں۔ مردوں کے محاذ پر جو کام انہیں کرنا ہے وہ کریں یا نہ کریں لیکن گھر اور خاندان کے محاذ پر اگر معاشرے کی عورت بیدار ہوکر ڈٹ گئی تو ایک نئی بیداری مسلم معاشرے میں رنگ دکھا سکتی ہے۔

l خواتین کے لیے سب سے پہلا، اہم اور آسان ترین میدان کار ان کا اپنا گھر اور خاندان ہے اور حقیقت میں اس وقت یہی سب سے اہم اور بڑا محاذ ہے جسے بچانا اور مستحکم رکھنا اور مضبوط کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مغربی تہذیب کے سب سے مہلک حملے کا ہدف بھی یہی ہے اور اگر وہ اسے توڑنے اور اس پر غلبہ پانے میں کامیاب ہوگئے تو مزید کسی زحمت کی ضرورت نہیں۔ اس لیے مسلم خواتین کی سب سے بڑی مہم یہی ہے کہ وہ اپنے گھر اور خاندان کو ہلاکت خیز تہذیب کے اثرات سے بچانے کی کوششیں آج ہی سے شروع کریں۔ اور اس کی ابتدا اس بات سے ہونی چاہیے کہ اہل خانہ کے درمیان دینی معلومات اور دینی شعور کی بیداری کے ساتھ دین کے عملی نفاذ کی طرف توجہ دی جائے۔ گھر میں قرآن و حدیث، دینی لٹریچر کے مطالعے اور دینی موضوعات پر گفتگو کا ماحول بنایا جائے۔ گھروں میں تلاوت قرآن مجید، نمازوں کی پابندی اور دینی احکامات کو عملی طور پر نافذ کرنے کی کوشش کی جائے اور نئی نسل کو اسلام کا نمائندہ بنا کر وقت اور حالات کے تقاضوں سے باخبر کیا جائے۔

l آج ہمارے گھروں میں غیر محسوس طریقے پر بے شمار ایسے رسوم و رواج جڑ پکڑ چکے ہیں جو دین کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے گھروں کو ان غلط چیزوں سے پاک کریں۔ جب ہم ایک غلط چیز کو ختم کریں گے تو اس کی جگہ لازماً ایک اچھی چیز آئے گی اوراس طرح ہم خیر سے قریب اور برائی سے دور ہوتے جائیں گے۔

lلوگ کہتے ہیں عورت کمزور اور مرد کی محکوم ہے۔ یہ غلط ہے۔ عورت بہت طاقت ور اور مرد کی حاکم ہے۔ کیا ہم نہیں دیکھتے کہ عورت کس طرح مرد کو اپنی بات ماننے پر مجبور کردیتی ہے۔ ہاں اس طاقت کا راز اگر خیر کی چاہت اور مرد کے خاندان کی فلاح اور بھلائی ہوجائے توکون ہے جو اس کی طاقت کو کمزور کرے۔ خواتین نے تو مردوں کی زندگیاں بدل ڈالیں اور ایسے افراد تیار کر ڈالے جنہوں نے زمانے میں انقلابات برپا کئے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم عورت اپنی اس قوت کا ادراک کرے اوراس میں مزید اضافہ اور تاثیر کے لیے قرآن و حدیث کی تعلیمات کو نافذ کرے۔

؟ خواتین کے لیے ایک اہم، آسان اور کارآمد میدان دوسری خواتین اور رشتہ داروں کا حلقہ ہے جہاں وہ بڑے موثر انداز میں دینی بیداری لاسکتی ہیں۔ بس وہ دینی تعلیمات اور وقت و حالات کے تقاضوں کو لے کر ان کے درمیان جائیں۔ اور ان سے گفتگو کر کے اس بات کے لیے آمادہ کریں کہ وہ بھی اپنے گھروں میں دین کوعملاً نافذ کریں اور اپنے گھروں سے ان برائیوں کو دور کریں، جو جہالت کا مظہر ہیں۔

ان تمام باتوں میں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ایک مسلم عورت اور کامیاب داعیہ کبھی بھی اپنے تذکیے، دینی علم کے اضافے اور اپنے گھر نیز اپنے شخصی ارتقا سے کبھی غافل نہیں ہوسکتی۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں