اس ماہ ہونے والے کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کرکے لوگوں کے اندازے کے عین مطابق اقتدار میں واپسی کرلی۔ کانگریس نے کل ۱۳۶ سیٹیں حاصل کیں اور برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی محض ۶۵ سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی اور اس کے ۱۴ وزیر اپنی سیٹ بچا نے میں کامیاب نہ ہوسکے جبکہ جے ڈی ایس کو ۱۹ سیٹیں ملیں۔ ہار اور جیت کا واضح فرق اور تیسری پارٹی کو محض ۱۹ سیٹیں ملنا بتاتا ہے کہ ایلکشن میں مقابلہ کتنا سخت تھا اور عوام کا ذہن اپنے ووٹ کے استعمال کے سلسلے میں کتنا صاف تھا کہ انہوں واضح اکثریت دے کر ہورس ٹریڈنگ اور توڑ پھوڑ کا راستہ بھی پختہ طریقے سے بند کردیا۔
کرناٹک کا یہ انتخاب دو پہلوؤں سے اہمیت کا حامل ہوگیا تھا۔ ایک تو یہ کہ اقتدار میں آنے کے بعد پارٹی نے ریاست میں جس طرح کی اقلیت مخالف صورت حال پیدا کی اس پر یہ ریفرنڈم کی حیثیت پا گیا تھا کہ آئندہ کرناٹک کے عوام اس فرقہ وارانہ سیاست کو آگے بڑھائیں گے یا اس کی بساط لپیٹ دیں گے۔ کرناٹک کے عوام نے اپنی اس ووٹنگ سے یہ بتا دیا کہ کم ازکم ریاست کرناٹک میں تو فرقہ وارانہ ایجنڈے پر سیاست کی گنجائش نہیں ہے۔ اس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی کی جنوبی ہندوستان کی سیاست میں شمالی ہند جیسی فرقہ وارانہ سیاست کی اسٹریٹجی ناکام ہوگئی۔ اس کی یہ ناکامی اس کے لئے اس حیثیت سے کافی اہم ہے کہ وہ کرناٹک میں داخلے کے ساتھ اس گیٹ وے کو استعمال کرکے دیگر جنوبی ریاستوں میں بھی توسیع اقتدار کا منصوبہ رکھتی تھی۔ شاید اس سلسلے میں اب پارٹی کو نئے سرے سے سوچنا ہوگا اور کچھ مختلف اسٹریٹجی بنانی ہوگی۔
دوسری بات یہ تھی کہ اب سے تقریباً ایک سال کے اندر اندر 2024ء میں پارلیمانی انتخابات بھی ہونے ہیں تو لوگ اسے اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور اندازہ لگا رہے ہیں کہ کہیں2024ء میں ریاست کرناٹک کی طرح ووٹروں کے درمیان یہی ٹرینڈ تو قائم نہیں ہوجائےگا۔ انٹی ان کمبینسی کی صورت میں اس کا پورا امکان ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ کانگریس کی اس واپسی کو اس کی’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کے تناظر میں دیکھ کرکانگریس کی اس کامیابی کو یاترا کے سیاسی فوائد کے طور پر دیکھ رہے ہیں جس کو کلی طورپر نظر اندازنہیں کیا جاسکتااور اگر یہ اس کا اثر ہے تو مرکزی حکومت کی آئندہ سال کامیابی کو بڑا چیلنج ہوسکتاہے لیکن ابھی لمبا وقت ہے اس لئے ’’آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا‘‘ کے مصداق انتظار کرنا ہوگا۔
ریاست کرناٹک کے اس الیکشن میں ایک بات بہت واضح طور پر سامنے آئی کہ برسر اقتدار گروہ نے فرقہ واریت کے ایجنڈے کو پوری قوت کے ساتھ پیش کیا اور اس کے ذریعہ ایلکشن جیتنے کی کوشش کی مگر کانگریس نے پوری قوت کے ساتھ عوام کے مسائل پر بات کی۔ نظریاتی اعتبار سے بھی کانگریس کے منصوبہ ساز کسی فرنٹ پر بھی کمزور نہیں پڑے۔ انہوں نے مسلم رزرویشن کو ختم کرنے کی بات کی تو کانگریس نے جمہوری حقوق کے حوالے سے اسے واپس لانے کی بات کی، انہوں نے پاپولر فرنٹ پر پابندی کی بات کی تو انہوں نے بجرنگ دل پر پاندی لگانے کی بات کی، جس کے نتیجہ میں برسر اقتدار گروہ کا ملک کے عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کا ایجنڈا ڈبیٹ میں آگیا اور جب ڈبیٹ میں آیا تو اس کی پول کھلتی چلی گئی اور باالاخر ناکام ہوا۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر نظریات اور عوام کے مسائل کی بنیاد پر الیکشن لڑا جائے تو ناکامی کا امکان کم سے کم ہوجاتا ہے اس لئے کہ اس طرح عوام کے حقیقی مسائل پر بحث ہوپاتی ہے۔
اس کامیابی میں جہاں کانگریس کے منصوبہ سازوں کی سوچ اور ان کی سوشل انجینئرنگ اہم رہی ہے وہیں کرناٹک کے عوام کی سیاسی بیداری، ان کا سیاسی فہم، ملک کے جمہوری نظام اور ملک میں پہلے سے موجود مذہبی، ثقافتی اور سماجی تانے بانے کا فہم اور اور اس کے بقا کی فکر کی مثبت سیاسی سوچ بھی کافی اہمیت کی رکھتی ہے، جنوبی ہند کی ان ریاستوں کے عوام کے برعکس جو فرقہ واریت کے سیلاب میں ایسے بہ جاتے ہیں کہ انہیں نہ عوامی مفاد کا خیال رہتا ہے اور نہ ملکی مفاد کا۔ اس کی مثال کے طور پر ہم اتر پردیش کے گزشتہ انتخابات کو لے سکتے ہیں جہاں کسانوں نے متنازعہ کرشی قانون کے خلاف سال بھر سے بھی زیادہ مدت تک احتجاج جاری رکھا اور جب وہ قانون واپس لے لئے گئے تو وہ سب کچھ بھول گئے، حالانکہ کسانوں سے ہوئے معاہدوں پر تا حال کسی پیش رفت کی رپورٹ نہیں ہے۔ یہ کرناٹک کے عوام کے مضبوط سیاسی فہم ہی کا نتیجہ تھا کہ عوامی رائے تقسیم نہیں ہوئی اور پورا ایلکشن سہ رخی ہی رہا بلکہ اصل مقابلہ صرف دو ہی پارٹیوں کے درمیان رہا۔
کرناٹک کے اس الیکشن میں اقلیتوں، دلتوں اور پسماند طبقات کے لئے بھی بہت کچھ سیکھنے کے لئے ہے، اگر وہ اس سے سیاسی فہم حاصل کریں تو مستقبل میں ان کے لئے راہیں آسان ہو سکتی ہیں۔