اسے اپنے وقت کا بڑا مصلح قرار دیا گیا تھا۔ ہر محفل میں اس کا ذکر لازمی ہوگیا تھا۔ اکثر جلسوں میں اس کی مثال پیش کی جانے لگی تھی۔ صرف اس لیے کہ اس نے ایک ایسے زمانے میں جرأت مندانہ قدم اٹھایا تھا جب ہر طرف تاریکی ہی تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔ بدچلنی، بے حیائی، اور عریانی اپنے شبابپر تھی۔ آزادی اور مساوات کے نام پر بے راہ روی رواج پارہی تھی۔ سماج کا نقطۂ نظر بدل رہا تھا۔ اصناف کا اختلاف ختم ہوتا نظر آنے لگا تھا ۔ ٹھیک ایسے ہی دور میں اس نے اعلان کردیا تھا کہ وہ اپنی ذات سے ایک مثال قائم کرے گا، نوجوانوں کو عمل کی طرف مائل کرے گا اور انہیں ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی طرف رجوع کرائے گا۔ وقت کا ایک اہم مسئلہ جو معاشرے کو پریشان کررہا تھا اس کے پیش نظر تھا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ ہر گھر اس آگ کی لپیٹ میں ہے۔ باپ بچی کی پیدائش پر خوشی منانے کے فوراً بعد غموں کا مجسمہ بن جاتا ہے۔ غم اس بات کا نہیں ہوتا کہ اس کے پیسے خرچ ہوں گے، اس کی ذمہ دایوں میں اضافہ ہوگیا ہے کہ اسے کسی کی عصمت و عفت کی حفاظت کرکے امانت کافرض انجام دیتے ہوئے اس کے اصل مالک کو پہنچانا ہے۔ بلکہ اسے یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ اب انگلیاں اٹھیں گی، ایڑیاں گھسیں گی، جھڑکیاں ملیں گی۔ عذابِ مسلسل و مستقل سے واسطہ پڑے گا۔ وہ باہر نکلے گی تو ہوس پرست نگاہوں کے تیرو نشتر اس کے پیراہنِ عصمت کو تار تار کریں گے۔ وہ گھر میں رہے گی تو دقیانوسی اور ازکار رفتہ کا خطاب پائے گی۔ ہر اس باپ کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا ہے جو زندہ ضمیر رکھتا ہے، جو پاکیزگی و پاکبازی کو نگاہِ پسندیدگی سے دیکھتا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب فضا پر ایسے مہیب بادل منڈلا رہے ہوں کسی کا یہ اعلان کہ وہ مساواتِ انسانی کا قائل ہے، استحصال خواہ سماج و معاشرہ کے کسی بھی حصہ میں کسی بھی شکل میں ہو، اس کا کٹر مخالف ہے اور نسوانیت کو اس کا جائز مقام دلانے کے لیے اپنے تن من دھن کو نثار کرنے کو ہمہ وقت تیار ہے۔ وہی مقام جو دورِ جاہلیت کے سراج منیرؐ نے عطا کیا تھا، وہی مقام جس میں عورت کو مردوں کے ہم دوش کھڑا کرنے کے لیے دونوں کو ایک دوسرے کا ساتر قرار دیا گیا تھا، دونوں کے مساوی حقوق کا بہ بانگِ دہل اعلان کیا گیا تھا اور جس اعلان کے بعد لڑکیاں ذبح ہونے کے بجائے کارگہِ حیات میں اپنے نمایاں کارنامے دکھانے کے لائق ہوگئی تھیں۔ جس کے بعد عورتیں عائلی ہی نہیں ملکی اور بین الملکی معاملات میں رائے زنی و راہ نمائی کے قابل سمجھی جانے لگی تھیں۔ چنانچہ جب اس نے اپنے تصوراتی جرأت مندانہ اقدام کا اعلان کردیا تو لازمی تھا کہ اس کا ذکر ہر بزم میں ہو اور یہی ہوا بھی۔ مردوں سے زیادہ عورتوں کی محفل میں اس کانام لیا جانے لگا۔
’’اللہ بہن کتنی خوش نصیب ماں ہوگی جس کا وہ بیٹا ہے۔‘‘
’’اللہ ایسا سپوت سب کو دے۔‘‘
بڑی بوڑھیوں کی زبانی جب یہ ذکر دوشیزائیں سنتیں تو رات اور دن کے کسی نہ کسی وقفے میں اس کا نام لے لینا ان کے لیے بھی معمول بن گیا۔ وہ کسی کا آئیڈیل شوہر اور کسی کا آئیڈیل محبوب بن گیا۔ رسم و راہ کی بہتیری دوکانوں میں یہی میزانِ عدلِ جہانگیری کے لیے برسرِ عام نصب ہوگیا۔ کوئی طعنے دیتی:
’’ارے آپ کیا مثال قائم کریں گے ، مثال تو شمیم صاحب نے قائم کی ہے۔ پرسوں بھی وہ تعلیمِ نسواں اور معاشرتی مساوات پر کتنی سلجھی اور پُر مغز تقریر کررہے تھے۔ کاش! آپ ان کے پاؤں کی گرد بھی ہوتے۔‘‘
نہ جانے کتنے بوالہوسوں کی مٹی پلید ہوگئی۔ یہ ذکر پھیلا تو قلمی دوستی کی تمنا لیے ہر روز سیکڑوں توصیفی خطوط آنے لگے، عمر دریافت کی جانے لگی۔ تمام عمر موٹا جھوٹا پہن کر اور بھوکی رہ کر رفاقت کے وعدے ہونے لگے۔ والد کے بینک بیلنس اور زبردست بیک گراؤنڈ کے سبز باغ دکھائے جانے لگے۔ الغرض خطوط کے انبار میں تمناؤں کا طومار باندھا جانے لگا۔ وہ ہر روز خطوط کے ڈھیرے سے چند خطوط چن لیتا، انہیں بغور پڑھتا، سرخ و سبز روشنائی پھیر کر انہیں رنگین بناتا،تصویریں سامنے آتیں تو کئی زاویوں سے ان کاجائزہ لیتا۔ آہستہ آہستہ اس کاآدھے سے زیادہ وقت اسی کی نذر ہونے لگا۔ نتیجتاً اس کی تحریکی سرگرمیاں سرد پڑنے لگیں لیکن ماضی کا بنایا ہوا شاندار ریکارڈ برے وقتوں کے لیے پس انداز کردہ جائیداد کی شکل میں کام آرہا تھا۔ البتہ اسے بامِ عروج پر متمکن ہوجانے کا احساس ہورہا تھا اور وہ نیک نامی کے ایورسٹ پر چڑھا چند قدم کے فاصلے پر پھیلی گمنامی کی کھائیوں کو دیکھ رہا تھا۔ قدم کی ایک لغزش یا طوفانِ وقت کاایک جھونکا جس میں پہنچادینے کے لیے کافی تھا۔ وہ وقت کا نباض تھا۔ اسے بخوبی احساس ہوچکا تھا کہ فولاد اب اس سے زیادہ گرم ہونے سے قاصر ہے۔ چنانچہ اس نے انتہائی دانشمندی سے ایک ہتھوڑا چلا ہی دیا جو زیبا کی چمکتی پیشانی پر پڑا۔
جمشید پور تلک ہٹاؤ کمیٹی کے جنرل سکریٹری قمر صاحب نے بڑے ہی فخرو احتشام کے ساتھ یہ اعلان کردیا کہ جناب شمیم ربانی صاحب کا عقد نکاح محترمہ زیبا یاسمین صاحبہ سے انتہائی سادہ طور پر مسجد میں ہوگا۔ اس اعلان نے ان گنت چہروں پر مایوسی کی سیاہی پوت دی۔ دعاؤں کے لیے اٹھے ان گنت ہاتھ اچانک آغوشوں میں گر پڑے۔ ان گنت خواب دوبارہ تحیر کی وادی میں بھٹکنے لگے۔ البتہ ایک بات قدرِ مشترک کی حیثیت اختیار کرگئی تھی کہ ’’دیکھا تم نے ، عقدسادہ طور پر ہوا نہ؟‘‘
’’ارے اس سے کیا؟ زیبا ایم اے فائنل کی طالبہ ہے تو کون سی بڑی بات ہے۔‘‘
’’اچھا ہاں مان لیا۔ وہ بہت خوبصورت بھی ہے۔‘‘
’’چلو اچھا ہوا۔ کوئی لڑکی ٹھکانے تو لگی۔‘‘
زیبا مبارکبادیوں کے ٹوکرے اپنے کاندھوں پر سجائے پیار کے گلدستے اپنے ہاتھوں میں لیے، دعاؤں کے گل بوٹے اپنے جوڑوں میں ٹانکے شمیم کے گھر داخل ہوگئی۔
وقت جو سب سے بڑا مسیحا ہے اس نے دلوں سے اس خیال کو محو کردیا۔ لوگ بھول گئے۔ اس لیے نہیں کہ انھیں ناکامی نصیب ہوئی تھی بلکہ اس لیے بھی کہ شمیم کی تمام دوڑ دھوپ مفقود ہوکر رہ گئی تھی۔ عام خیال تھا : اوڑھنی کی نئی نئی مہک سے نکلنے کے لے کچھ دن تو لگیں گے ہی جب ہوش ٹھکانے لگے گا۔ پھر ساری سرگرمیاں شروع ہوجائیں گی اور زمانہ نئے انقلاب سے یقینا دوچار ہوگا لیکن عام لوگوں کی یہ رائے بھی نہ ہوپائی تھی کہ شمیم اور زیبا کا نام پھر گھروں میں لیا جانے لگا۔
’’ارے نہیں باجی! یہ سب افواہ ہوگی۔‘‘
’’بنو تم مانو بھی تو، مجھ سے خود شکن آپا نے کہا ہے۔ شکن آپا اتنی جھوٹی نہیں ہوسکتیں۔‘‘
’’لیکن باجی مجھے یقین نہیں آتا کہ شمیم صاحب کی اتنی دل کش شخصیت کے اندر اتنی کریہہ روح پوشیدہ ہوگی۔‘‘
’’بنو یہ سب تمہاری خوش فہمی ہے جو تم نے اس لونڈے کی تقریریں سن کر قائم کرلی ہے۔ کیا تم نہیں جانتیں کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔‘‘
’’لیکن باجی میں تو دیکھتی ہوں کہ شمیم صاحب شروع سے آخر تک جہیز کے کٹّر مخالف رہے اور زیباسے شادی کرکے انھوں نے اس عہد کو پورا بھی کردکھایا۔‘‘
’’دیکھو بنو، تمہیں اگر میری بات پر یقین نہ آئے تو اس کی تحقیق کرلینا۔‘‘
’’ہاں ہاں، میں ضرور تحقیق کروں گی۔‘‘
اور یہ ذکر پھیلنے لگا۔ ٹھیک اسی سرعت سے جس طرح اس سے قبل نیک نامی کی بادِ صبا چلی تھی۔ پھر بھی بنّو کو یقین نہ آتا۔ عقیدے اور ایمان کا لوگ اپنے ہاتھوں مسمار کردینا پسند نہیں کرتے جب تک کہ کوئی دیوزاد اس پر حملہ آور نہ ہوجائے اور شکار بے بس و مجبور نہ ہوجائے۔
بنّو کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی حادثہ ہورہا تھا۔ وہ شمیم ربانی کی دیو قامت شخصیت پر ایمان لائی تھی۔ اور آج ہر طرف سے اس کے ایمان پر حملہ ہورہا تھا۔ وہ کچوکے کھا کر کچھ خجل بھی تھی اور کچھ حیرت زدہ بھی۔ جب راشدہ نے اسے بتایا کے عن قریب زیبا شمیم سے باضابطہ طور پر علیٰحدگی اختیار کرنے والی ہے صرف اس لیے کہ زیبا مشرقی معاشرے کی لڑکی ہے اسے خاتونِ خانہ بننا پسند ہے۔ حصولِ تعلیم کا مقصد اس کے نزدیک حصولِ معاش نہیں تہذیبِ نسل ہے لیکن شمیم اس بات کے لیے بضدہیں کہ ملازمت کرکے زیبا کو اس خلا کو پُر کرنا ہوگا جو سادہ طور پر شادی کرنے سے ہوا ہے اور زیبا کہتی ہے کہ جب وہ ملازمت کرے گی تو اپنے ضعیف والدین کی خدمت کرے گی جنھوں نے اپنا جگر خون کرکے اسے پڑھایا لکھایا ہے نہ کہ ایک نکھٹو نوجوان کی جو دوسروں کی کمائی پر لیڈری کی دکان کھولنا چاہ رہا ہو۔ بنّو کانوں میں انگلی ٹھونسے پوچھ رہی ہے:
’’تو کیا راشدہ آپا جہیز لینے کا یہ بھی ڈھنگ ہے۔‘‘