’’اور تم کیا کروگے؟‘‘
’’میں تو آرٹسٹ بنوں گا۔‘‘ صلاح الدین نے جواب دیا۔
’’اور آپ مسٹر؟‘‘
’’میں … میں برلاؔ، امبانی اور ڈالمیاؔ بنوں گا۔‘‘ حیدر نے قریب قریب چیختے ہوئے کہا۔
’’اور آپ کا کیا ارادہ ہے؟‘‘
’’جی … ویسے تو کوئی خاص ارادہ نہیں۔‘‘ شاکر نے کہنا شروع کیا۔ ’’لیکن اگر قسمت نے ساتھ دیا تو میں ہندوستانی فلموں کا معیار اتنی بلندی پر پہنچا دوں گا کہ اگر ہالی ووڈ والے اس کی طرف نظر اٹھائیں تو ان کے سر سے ہیٹ گرجائے۔‘‘
’’واہ صاحب واہ۔ اور حضرت آپ کے کیا ارادے ہیں؟‘‘
میں! میں نے بہت سوچا کہ کیا بنوں مگر میرا ذہن کچھ بھی بننے کو نہیں چاہتا۔ ہاں میں جب اس سوال پر غور کرتا ہوں تو میرا فرض مجھے جھنجھوڑتا ہے۔ میری غیرت اور شرافت مجھے اکساتی ہے کہ میں جو چاہتا ہوں اپنے دوستوں سے کہہ دوں۔ لہٰذا
’’کلیجہ تھام لو پہلے، سنو پھر داستاں میری‘‘
’’میں کیا چاہتا ہوں؟ میں ایک انقلاب چاہتا ہوں۔‘‘ سعید نے کہنا شروع کیا۔
’’ایک ایسا انقلاب جس میں نہ امیر غریب ہوجائے اور نہ غریب امیر بن جائے۔ اور میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ اونچے اونچے محلوں میں گھپ اندھیرا اور گھناؤنی تاریکی قبضہ کرلے۔ اور میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ بھگوان کے سوتیلے بیٹوں کی کالی قسمت پر، ان کی زندگی اور ان کے چھوٹے چھوٹے گھروں پر بھی مفلسی، غربت اور تنگدستی کے کالے اور بھیانک بادل اژدہا بن کر لہراتے رہیں!!
میں یہ چاہتا ہوں کہ اونچے اونچے محلوں کی کھڑکیاں اور دروازے کھول دئے جائیں تاکہ سفید اور چمکیلی روشنی جب چھن چھن کر غریبوں کی کٹیا میں پہنچے تو ان کی زندگی بھی دودھیا اور چمکیلی ہوجائے۔ لیکن اس کے لیے مارکس جیسی روشن فکر، لینن کی طرح جدوجہد، اسٹالین کی طرح ہمت، اور گورکی طرح ایک مستقل عزم کی ضرورت ہے اور میں تو یہاں تک کہوں گا کہ اس وقت تک تو لینن اور اسٹالین پیدا ہی نہیں ہوسکتے جب تک گور کی کا وجود نہ ہو۔ اسی لیے میں گورکی بننا چاہتا ہوں۔ ایک اخبار کا ایڈیٹر! اور پھر… پھر میں اسٹالن پیدا کرسکتا ہوں۔ لینن بناسکتا ہوں… سفید، دودھیا روشنی پھیلاسکتا ہو، گھر گھر پہنچا سکتا ہوں، اسے۔‘‘
’’اللہ اکبر … اللہ اکبر‘‘ دور سے اذان کی دل کشا آواز آنے لگی۔
’’ارے اذان ہوگئی۔ بھئی دیکھنا کیا وقت ہوا ہے؟‘‘
’’پونے نو۔‘‘ صلاح الدین نے کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہائیں کیا کہا! پونے نو۔ ارے بھائی جلدی چلو ورنہ فلم چھوٹ جائے گی۔ وہ تو کہیے اذان نے چونکا دیا۔‘‘ شاکر نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا۔ اور مؤذن اپنی حلق کی آخری گہرائی سے پکار رہا تھا۔
’’اللہ اکبر ۔ اللہ اکبر‘‘
’’لا الہ الا اللہ‘‘
مسجد کے گنبد پر ایک بوڑھا گدھ سر لٹکائے یوں بیٹھا تھا جیسے وہ کوئی بہت بڑا فلسفی ہے اور ہماری گفتگو پر تنقید و تبصرہ کررہا ہے۔ یا کسی پیچیدہ مسئلہ کو سلجھا رہا ہو۔ پھر اس میں گرہیں پڑگئی ہوں۔ پھر وہ گھبرا کر اُڑ گیا اور مسجد کا گنبد اکیلا ہوگیا۔
اب مسجد کے دروازے بند ہوگئے۔ اور سنیما ہال کا دروازہ کھل گیا۔ اور ہر طرف دودھیا، سفید، چمکیلی اور نرم روشنی پھیل گئی۔
تیسری گھنٹی کے ساتھ ہال میں گھپ اندھیرا چھا گیا۔ اور مجھے ایسا معلوم ہوا کہ یہ سنیما کی گھنٹی نہیں بلکہ کسی خوفناک دیو کی آواز تھی۔
فلم ختم ہوگئی اور پھر ہر طرف سفید روشنی پھوٹ پڑی اور میرے خیالات پھر الف لیلیٰ کے اوراق الٹنے لگے۔
’’اماں کس خیال میں غرق ہو۔‘‘ صلاح الدین نے کہا ’’کہو فلم پسند آئی؟‘‘
’’سوچ رہا ہوں… سوچ رہا ہوں کہ اندھیرے اور اجالے میں جو فرق ہے وہ کس طرح ختم ہوگا؟ کب ختم ہوگا؟ کیوں نہیں ساری دنیا روشن ہوجاتی۔ امیر اور غریب کا یہ فرق کس طرح دنیا سے مٹے گا۔ دونوں ہی ماں کے پیٹ سے ننگے پیدا ہوئے تھے۔ دونوں ہی بھوکے تھے پھر آج کس طرح ایک کے پاس سیکڑوں جوڑے موجود ہیں اور دوسرا ایک گز کو ترس رہا ہے۔ ایک داد عیش دے رہا ہے اور دوسرا دو دن سے بھوکا ہے۔ آخر کیوں؟
اور وہ سب ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ جیسے وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوں کہ بتاؤ ایسا کیوں ہوا؟ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
لیکن سب کی نظریں ٹکرا کر زمین میں دھنس گئیں اور سب تھکے تھکے قدموں سے چلتے رہے۔ بالکل خاموش بالکل اداس۔
’’بارہ بج گئے۔ بھئی میں تو چلتا ہوں۔ ورنہ کل کی خیر نہیں! دو بجے امتحان ختم ہوا ہے، اور اب تک گھر نہیں گیا۔‘‘حیدر نے سبھوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
’’وہ دیکھو! … وہ دیکھو!‘‘ سعید نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اور سب کی نظریں آسمان میں گڑ گئیں۔ ایک ستارہ اپنے پیچھے دودھیا، چمکیلی روشنی کی ایک لمبی ڈور کھینچتے ہوئے تاریکی کی کود میں دفن ہوگیا۔ جیسے وہ کہہ رہا ہوکہ اکیلے تم اس سیاہی اور تاریکی کو دور نہیں کرسکتے۔ سب مل کر اس پر چھپٹو۔
ایک چوراہے پر پہنچ کر سب لوگ رک گئے۔
’’پھرکب ملنا ہوگا؟‘‘ حیدر نے سلسلہ کلام شروع کیا۔
’’جب آپ لوگوں کی رائے ہو؟‘‘ سعید نے ایک مختصر سا جواب دیا۔
’’کل شام کو پانچ بجے۔‘‘ شاکر نے اپنی رائے پیش کی۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ سبھوں نے ایک ساتھ کہا۔ اور چاروں الگ الگ راستے پر چل پڑے۔
میں گھر پہنچا اور لیٹ گیا۔ میں نے ہزاروں کروٹیں بدل ڈالیں مگر نیند نہیں آئی۔ اور ہر کروٹ کے ساتھ میری چارپائی چُر مُرانے لگتی۔ شدید گرمی، مچھر اور بجلی غائب۔ جیسے اسے بھی سکون نہ ہو اور وہ بھی میرے ساتھ پریشان ہو۔ اور میں اکتا کر چارپائی سمیت باہر آگیا۔ باہر مسجد کے سامنے دو ایک زندہ لاشیں سانس لے رہی تھیں۔ نہ جانے میں کتنی دیر تک جاگتا رہا، اور کس وقت مجھے نیند آئی نہیں معلوم۔ لیکن صبح کو جب میری آنکھ کھلی تو مسجد کے دروازے بند ہورہے تھے۔ اور لوگ نکل رہے تھے۔ ایک بوڑھے کو کھانسی آئی۔ کھوں! کھوں!! کھوں!!! آخ تھو… اور مجھے ایسا معلوم ہوا کہ اس نے میری جوانی پر بلغم پھینک دیا۔ جیسے اس نے تھوک کر میری فطرت کو جھنجھوڑدیا۔ مجھ کو اپنی اصلیت سے روشناس کرانا چاہا۔ مجھ کو اپنے نام سے اور اپنے آپ سے نفرت معلوم ہونے لگی۔ اپنی جوانی سے گھن آنے لگی۔ کیوں میں خدا اور اس کے رسول کو دھوکہ دے رہا ہوں۔ جب کہ میں نے اتنی ساری عمر میں اس کے ایک بھی حکم کی تعمیل نہیں کی۔ اس کی ایک بھی بات نہیں مانی اس کی……
’’بابوجی!‘‘ مہتر نے کہا ’’ذرا پیر…!‘‘
’’اوہ… ہاں…ہاں… یہ لو‘‘ اور میں اپنے کمرہ میں چلا آیا۔
………
وقت گزرتا گیا۔ صلاح الدین، شاکر، سعید اور حیدر آتے رہے۔ مسجد کا موذن پکارتا رہا۔ اور پھر اس آواز سے گدھ پھڑپھڑاتا رہا۔ بوڑھا نمازی کھانستا رہا۔ اور میری جوانی پر بلغم کی تہہ جمتی گئی۔ کہ ایک روز صبح ہی صبح مجھے کسی کی آواز نے چونکا دیا۔ میرے ایک جاننے والے میری والدہ کی بیماری کی خبر دینے آئے تھے۔ اور فوراً گھر چلے جانے کو کہہ رہے تھے۔ کہ گھر سے ٹیلی فون آیا ہے اور تمہیں فوراً بلایا گیا ہے۔
بس میں کسی سے ملے جلے بغیر چل پڑا۔ راستہ بھر میرے ذہن میں طرح طرح کے خیال آتے رہے۔ یہی کہ ماں کیسی ہے۔ کہیں طبیعت زیادہ خراب تو نہیں ہوگئی ہے۔ نہ جانے انھیں …… لا حول ولاقوۃ
اور زندگی میں پہلی بار میرا سر ان دیکھی طاقت اور شعور سے بالا طاقت کے سامنے جھکا جارہا تھا۔ اور عقیدتمندی کے آنسو آنکھوں میں چھلک رہے تھے۔ اور میں زندگی میں پہلی مرتبہ خدا سے دعا مانگ رہا تھا کہ میری ماں کو اچھا کردے! مجھے الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ مجھے دعا کے طریقے اور بول تک یاد نہیں تھے۔ مگر پھر بھی مجھے ایسا معلوم ہورہا تھا کہ خدا میری دعا قبول کرے گا۔ اور جب میں گھر پہنچا تو دیکھا ماں چارپائی پر بیٹھی ہیں۔ وہ مجھے دیکھ کر اٹھنے لگیں۔ میں نے انھیں بٹھاتے ہوئے کہا:
’’اب طبیعت کیسی ہے آپ کی؟‘‘
’’اچھی ہوں بیٹا! بہت اچھی ہوں، ڈاکٹروں نے تو جواب دے دیا تھا۔ نہ جانے کس کی دعا خدا نے سن لی۔‘‘
مسجد کے موذن نے پکارا ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘
’’جاؤ بیٹا۔‘‘ ماں نے کہا ’’غسل کرلو سفر کی تھکاوٹ دور ہوجائے گی۔‘‘
اور میں پہلی مرتبہ خدا کے دربار میں حاضر ہوا۔ اور مجھے ایسی خوشی اور ایسی مسرت ہوئی جو ایک بھولے ہوئے مسافر کو راستہ مل جانے کے بعد، ایک قیدی پرندہ کو آزاد ہوجانے کے بعد، اور ایک مجرم کو پھانسی کے تختے پر سے اترنے کے بعد ہوتی ہے۔
ماں کی بیماری اور گھر کے دیگر مسائل نے مجھے نہ تو ایم اے کا موقع دیا اور نہ ہی روزگار کی تلاش میں باہر نکلنے کی مہلت دی اور دیکھتے ہی دیکھتے سال گزرگیا۔ اب مجھے نوکری کی فکر لاحق تھی اور اس کے لیے پھر میں نے شہر جانے کا فیصلہ کیا۔ ایک سال سے کچھ زیادہ پہلے بھی گرمی اسی طرح تھی اور تقریباً یہی موسم تھا جب میں یہاں پہنچا۔ پانچ بج رہے تھے میں نے سوچا چلو پہلے تمام دوستوں سے مل آؤں۔ نہ جانے وہ لوگ کیا کررہے ہوں گے۔ میں سب کے پاس گیا۔ لیکن کسی سے ملاقات نہیں ہوئی۔ میں گھر کی طرف لوٹ رہا تھا کہ میں نے دیکھا۔ وردی میں ملبوس، ہاتھ میں دو تین موٹی موٹی کتابیں لیے حیدر چلا آرہا ہے۔ جب وہ میرے بالکل قریب پہنچا تو میں نے دیکھا کہ اس کی بائیں طرف نیلی وردی میں نیلے حروف سے رلائنس لکھا ہوا ہے۔ اور پھر اس نے مجھ سے کہا۔ ’’دیکھو! دیکھو میں کیا نہ کہتا تھا کہ میں امبانی اور ڈالمیا بنوں گا۔ دیکھتے ہو میرے سینے پر کیا لکھا ہے۔ اور یہ کہتے کہتے اس کے ویران اور خشک آنکھوں میں دو موٹے موٹے قطرے لرزنے لگے اسے سخت محنت کے بعد رلائنس موبائل میں معمولی نوکری مل گئی تھی۔ میں نے پوچھا ’’اور سب کہا ہیں۔‘‘
’’اور سب… سبھوں کا ایک حال ہے۔‘‘ اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’صلاح الدین بھی آرٹسٹ بن گیا اور ادھر آگے ایک لکڑی کے کھوکے میں بیٹھا اپنی مفلسی اور غربت کی تصور بناتا ہوگا۔ شاکر بھی فلمی دنیا میں ہے، اب وہ سٹی سنیما میں ٹکٹ بیچتا ہوگا۔ سعید بھی اخبار میں کام کررہا ہے۔ وہ ابھی ابھی اسی راستے سے چیختا اور چلاتا ہوا گزرے گا۔ دیکھو، وہ دیکھو سعید آرہا ہے۔ دیکھو اس کے ہاتھوں میں اخباروں کا ایک بنڈل ہے۔ سنا تم نے وہ کیا چلا رہا ہے؟ ‘‘اور میں نے غور سے سننا شروع کیا۔ سعید چلا رہا تھا۔ آج کی تازہ خبر ’’امریکہ نے عراق پر حملہ کیا۔ صدام کی تلاش جاری۔‘‘
آج کی تازہ خبر… آج کی تازہ خبر!!
اور میرے دماغ نے آج سے ایک سال پہلے کی باتیں اگلنی شروع کردیں۔
’’میں آرٹسٹ بنوں گا!‘‘
’’میں امبانی اور ڈالمیا بنوں گا!!‘‘
’’میں ہندوستانی فلموں کا معیار بلند کروںگا!!!‘‘
’’میں اسٹالن پیدا کروں گا۔ میں گورکی بنوںگا !!!‘‘
خیالات کا ہجوم، اسٹالن؟ لینن؟؟ گورکی؟؟؟
’’نہیں نہیں یہ تو کبھی کے ختم ہوگئے۔ ان کی بنائی عظیم مملکت بھی ٹوٹ پھوٹ گئی، ان کے مجسموں کو تو خود ان کے ماننے والوں نے اپنے پاؤں تلے روند ڈالا۔ یہ خود بھی رسوا ہوئے اور پوری قوم کو بھی رسوا کیا۔
میں آج بھی انقلابی جذبات سے بھرپور ہوں۔ انقلابی جدوجہد میں مصروف بھی۔ مگر میرا مشن لینن، اسٹالن اور گورکی پیدا کرنا نہیں انسانوں کو ان راستوں پر چلانا نہیں جو اس کی رسوائی کا سامان کریں جیسا کہ مارکس اور لینن نے کیا۔ میں تو انسانوں اور انسانیت کی عزت و تکریم کے پیغام سے آشنا کرانے میں جٹا ہوں۔یہ وہ پیغام ہے جو نیو کلیر بم نہیں بناتا بلکہ اخوت و محبت سکھاتا اور پوری دنیا کے انسانوں کو بھائی بھائی بنادیتا ہے۔
’’اللہ اکبر اللہ اکبر‘‘ اور میرے قدم خود بخود مسجد کی طرف اٹھنے لگے!!