سب سے پہلے اس جگہ یوتام آیا۔
یوتام کے بعد امنون آیا۔
یوتام اور امنون کے بعد برکائیل آیا۔
ان تینوں کے بعد وہاں اور کوئی نہیں آیا۔
جس جگہ یہ تینوں آئے اور یکجا ہوئے وہ ایک وسیع و عریض غار تھا۔ اس کے سرسری جائزے سے ہی اندازہ ہوجاتا تھا کہ وہ ایسے چرواہوں کا وقتی ڈیڑہ تھا جو وہاں اپنی بھیڑیں اور بکریاں چراتے تھے۔ غار کے اندر ایک طرف مینگنیوں کا معمولی سا ڈھیر تھا۔ اس میں ایک چولہا بھی بنا ہوا تھا۔ اس کے آس پاس کھانے پینے کے کچھ برتن بھی رکھے ہوئے تھے۔ کہیں کہیں سبز چارے کی باقیات بھی بکھری ہوئی تھیں۔ ایک محفوظ کونے میں زیتون کا دیا روشن تھا۔ اس کی روشنی غار سے اندرونی ماحول کو خاصا پر اسرار بنایا ہوا تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ چرواہے جاتے وقت اسے بجھا کر نہیں گئے تھے۔
باہر موسلا دھار بارش ہورہی تھی، تیز ہوا بھی چل رہی تھی اور بجلی کے ساتھ بادل بھی گرج رہے تھے۔ اس غار کے دہانے پر ایک فیل قامت پتھر پڑا ہوا تھا۔ اس پتھر اور غار کے دہانے میں بس اتنا فاصلہ تھا کہ ایک وقت میں ایک آدمی غار کے اندر جاسکتا تھا یا باہر آسکتا تھا۔
یوتام، امنون اور برکائیل الگ الگ اپنے کام سے کہیں جارہے تھے کہ انہیں زور کی بارش اور آندھی نے آلیا تھا، وہ کسی محفوظ جگہ کی تلاش کرتے کرتے اس غار میں آپہنچے تھے، تینوں ہم علاقہ تھے لیکن باہم اجنبی تھے، تینوں ہم زبان تھے اور ایک دوسرے کے احوال جاننے کے لیے پرتول رہے تھے اور چاہ رہے تھے کہ ان کی بے گانگی دور ہو۔
سب سے پہلے یوتام نے کہا:
’’میرا قبیلہ میرے سوگ میں بیٹھے اگر میں جھوٹ بولوں، میں نے اتنا بڑا پتھر تو آج پہلی مرتبہ ہی دیکھا۔ اگر میرے قبیلے کے تمام افراد مل جل کر بھی زور آزمائی کریں تو بھی اسے ناخن برابر اپنی جگہ سے نہ ہٹاسکیں۔ ربِ موسیٰ ہی جانے کہ یہ کیسے ہل سکتا ہے اور کون سا سمسون اس کو ہلاجلا سکتا ہے۔‘‘
یوتام کے بعد امنون نے کہا:
’’یوتام تیرا قبیلہ پھلے پھولے، تیرے باغات ثمر بار رہیں، جو کچھ تو نے کہا اس میں جھوٹ اور مبالغے کی آمیزش نہیں ہے۔ میرے لیے بھی اس پتھر کا حجم، حیرت اور ہیبت کا باعث ہے، معلوم نہیں کہ ایسے پتھر کہیں اور بھی ہیں یا نہیں؟‘‘
امنون نے اپنی بات ختم کی تو برکائیل نے اپنی بات شروع کی:
’’اس پتھر کو دیکھ کر میں تو حیران نہیں ہوا ہوں، میری ناک خاک آلود ہو اگر میں کوئی مبالغہ کروں۔ میں نے تو اس پتھر سے کئی گنا بڑے پتھر دیکھے ہیں۔ اگر تم کبھی وادیِ ثمود سے گزرو تو وہاں کے پتھر دیکھ کر تم میرے کہے کی تصدیق کروگے۔ یہ پتھر ہمارے لیے تو کتنے ہی فیل قامت کیوں نہ ہو لیکن ربِ موسیٰ کے نزدیک یہ چیونٹی کے انڈے سے بھی کم اور ہلکے ہیں۔‘‘
تینوں اپنے اپنے تاثرات بیان کرکے ہی خاموش ہوئے۔ یوتام اور امنون کچھ چونکے ہوئے تھے۔ ان کو غالباً برکائیل کی اس بات نے چونکا دیا تھا کہ اس نے تو اس فیل قامت پتھر سے کہیں بڑے پتھر دیکھے ہیں اور ان کے بارے میں اندازے لگانے لگے کہ وہ دیکھنے میں کیسے ہوں گے اور ان سے کیسے حیرت اور ہیبت دیکھنے والوں پر طاری ہوتی ہوگی اور ایسے پتھر دیکھنے کی خواہش بھی ان کے اندر مچلی۔
پھر تینوں خاموش ہوگئے اور محسوس کیا کہ یہ خاموشی تو بے زار کرنے والی ہے اور خاصی حد تک اعصابی بوجھ بھی ہے اور یوں ان میں غیریت اور اجنبیت ہی قائم رہے گی۔ انہیں کوئی اندازہ نہیں تھا کہ بارش کب رکے گی یا اتنی ہلکی ہوجائے گی کہ وہ باہر نکل سکیں گے۔ یوں ایک کڑوا وقت کاٹے نہیں کٹ رہا تھا۔ اس خاموشی کا ایک اثر یہ بھی تھا کہ تینوں ایک دوسرے سے کچھ نہ کچھ سہمے سہمے بھی تھے۔
باہر بدستور بادل گرج رہے تھے، بجلی چمکتی تھی تو ایسے لگتا تھا کہ ہزار ہا مشعلیں پل بھرنے کے لیے روشن ہوتے ہی بجھ گئی ہوں، موسلا دھار بارش بھی جاری تھی۔ گھنے اور گہرے سیاہ بادلوں نے دن کو رات بنایا ہوا تھا۔ ان کا لرزہ کہہ رہا تھا کہ ابھی سورج کے شمس النہار ہونے میں بھی خاصا وقت تھا۔
اتنے میں یوتام نے کہا:
’’اگر ہم ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہی بنے رہے تو یہ کڑا وقت کہیں زیادہ کڑا ہوجائے گا۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ بات کریں، کوئی قصہ کہانی بیان کریں جو ہمارے دلوں کو مردہ نہ ہونے دے اور جب ہم رخصت ہوں تو بے گانوں کی طرح نہیں بلکہ یگانوں کی مانندرخصت ہوں۔‘‘
یہ سن کر امنون اور برکائیل نے کہا کہ یوتام نے بہت عمدہ بات کی ہے۔ دونوں نے یوتام سے کہا کہ وہی کوئی قصہ سنائے جس کی مثل وہ بھی کوئی قصہ بیان کرسکیں۔
یوتام نے امنون اور برکائیل کی بات مان لی اور کہا:
’’چند سال سے کی بات ہے کہ میرے پاس کچھ مزدور کام کررہے تھے۔ ایک روز یوں ہوا کہ جب وہ اپنا کام ختم کرکے جانے لگے تو میں نے انہیں ان کا حق محنت ان کا پسینہ خشک ہونے سے قبل ادا کردیا۔ میں تو ہر روز ہی ایسا کرتا تھا تاہم اس روز ایسا ہوا کہ ایک مزدور اپنی مزدوری لینے نہیں آیا۔ وہ کام ختم کرتے ہی شاید اپنے کسی کام کے لیے چلا گیا تھا۔ میں حتی الامکان اس کی راہ دیکھتا رہا لیکن وہ نہیں آیا۔ اور اس کے بعد بھی وہ نہیں آیا۔ اس کے حق محنت کو میں نے امانت سمجھ کر اپنے پاس رکھ لیا۔ باقی مزدوروں کو بھی علم نہیں تھا کہ وہ کہاں چلا گیا ہے اور جب خاصی مدت تک نہیں آیا تو میں نے اس کی اجرت تجارت میں لگادی اور اپنے تئیں یہ سوچا کہ اس پر جتنا نفع ہوگا وہ اس کے کھاتے میں جمع کرتا جاؤں گا اور جب بھی وہ آیا تو سب کچھ اس کے سپرد کردوں گا۔ اپنے اس احساس سے مجھے بڑی آسودگی محسوس ہوتی رہی۔ وقت گزرا، زمانہ بدلا، تجارت میں اس کا لگایا ہوا مال چند در چند بڑھتا ہی گیا۔ حتی کہ وہ اتنا ہوگیا کہ میں نے اس سے بھیڑوں، بکریوں او راونٹوں کے ریوڑ خرید لیے۔ یہ سب اس کی ملکیت تھے اور میں تو یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں ہے اور کیا کررہا ہے اور وہ کبھی آئے گا، آئے گا بھی یا نہیں۔
پھر کارِ قضا ایک روزوہ اچانک آگیا میں نے اس کو شناخت کرلیا۔
’’یوتام میں اپنی وہ اجرت لینے آیا ہوں جو میں نے اتنے سال قبل نہیں لی تھی۔‘‘
میں نے کہا:
’’یہ بھیڑ بکریاں اور اونٹ سب تیرے ہیں انہیں لے جاؤ۔‘‘
’’یوتام میرے ساتھ مذاق مت کرو، بس میرا حق مجھے دے دو۔‘‘
’’دیکھ اور جان لے کہ میں تیرے ساتھ ہرگز کوئی مذاق نہیں کررہا اور یہ تیرا حق ہی تو ہے جو دے رہا ہوں۔‘‘
اس گھڑی میں نے اندازہ لگایا کہ وہ کچھ آزردہ ہوگیا ہے، افسردوہ ہوگیا ہے اور اس کو یقین ہوگیا کہ میں اس سے مذاق ہی کررہا ہوں اور اس کو خالی ہاتھ واپس کرنے کے لیے مکرو فریب کررہا ہوں۔ مجھے یہ اندازہ لگانے میں بھی دیر نہیں لگی کہ اس کا شک بے وجہ نہیں ہے۔ اس کی بے یقینی بھی بلا سبب نہیں ہے تاہم میں اس کو یقین کرانے کی کوشش کرتا رہا کہ میں اس کے ساتھ کوئی مکر نہیں کررہا ہوں، کوئی مذاق بھی نہیں کررہا ہوں، نہ میری نیت میں کوئی فتور ہے اور نہ کوئی ایسا جتن کررہا ہوں کہ وہ خالی ہاتھ واپس جائے۔
میری کوشش رائیگاں نہیں گئی اور اس کو یقین آگیا کہ یہ تمام ریوڑ اسی کے ہیں۔ تب وہ مطمئن ہوگیا، خوش ہوگیا اور اپنے آپ کو خوش بخت اور مجھے نیک بخت قرار دیا۔
اس کے بعد وہ یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگیا کہ اگلے دن دوپہر کے وقت آکر اپنی امانت لے جائے گا۔وہ تو خوش وخرم واپس گیا اور میں اپنی جگہ خوش و خرم ہوگیا، ایسی خوش اور قلبی آسودگی میں نے اس سے قبل محسوس نہیں کی تھی اور مجھے تو ایسا لگتا تھا کہ ربِ موسیٰ نے میرے اندر سیکڑوں چاند سورج روشن کردیے ہیں اور میں نے شرفِ بندگی کی سرفرازی بھی پالی ہے۔
پھر معلوم نہیں کہ کیوں اور کیسے یہ ہوگیا کہ جب میں پاک و صاف احساسات سے سرشار ہورہا تھا تو میرے ازلی حریف ابلیس کی ذریت مجھ پر پل پڑی اور مجھے باور کرانے میں جٹ گئی کہ میں جو کچھ کررہا ہوں وہ غلط ہے، ناروا ہے، حماقت ہے، اس مزدور نے جو کچھ نہیں کمایا وہ اس کا ہو ہی نہیں سکتا، وہ سب میرا ہے اورفقط میرا ہے۔
ابلیس کی ذریت نے ایسا دام ہمرنگ زمیں بچھایا کہ میں اس امر کا قائل ہوگیا کہ میں حماقت کررہا ہوں۔ پس میری نیت بدل گئی اور میں علی الصبح اپنے گھر سے نکل پڑا تاکہ وہ مزدور جب آئے گا تو یقین کرے گا کہ میں نے اس کے ساتھ مذاق ہی کیا تھا، اس پر وہ خالی ہاتھ لوٹ جائے گا اور پھر یہ امر ایک قصۂ پارینہ ہوجائے گا کیو ںکہ میں بھی بڑے دنوں کے بعد لوٹوں گا۔ میں اپنے ایسے خیالات میں گم چلا آرہا تھا کہ موسلا دھار بارش شروع ہوگئی اور میں اس سے بچنے کے لیے اس غار میں آگیا۔‘‘
یوتام خاموش ہوا تو امنون نے کہا:
’’یوتام تیری سرگزشت بڑی المناک ہے۔ یہ تو تیری اپنے رب سے پہلے جڑنے اور بعد ازاں کٹنے کی روداد ہے۔‘‘
یوتام نے امنون کے ذہن رسا کی داد دی۔
عین اس وقت بادل گرجے، بجلی چمکی۔ ایک گھسیٹ اور گرگراہٹ کی آواز بھی سنائی دی۔ جس سے تینوں کے تینوں سراسیمہ اور دہشت زدہ ہوگئے۔
دوسرا قصہ گو امنون تھا۔
اس نے بھی اپنی ہی سرگزشت کا بیان مناسب سمجھا اور ایک پُر جوش انداز میں کہنا شروع کیا۔ تاہم یہ اندازہ لگانا ذرا بھی مشکل نہیں تھا کہ وہ اپنی داستان بیان کرتے وقت ایک ماتمی انداز بیان سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکا۔
’’میری ایک عم زاد تھی، اس کا اول و آخر ایک حسن تھا، اس کا ظاہر و باطن ایک حسن تھا اور مزید برآں یہ کہ وہ ایک حسن کا اول و آخر تھی اور ایک حسن کا ظاہر و باطن تھی۔ میں اس کا متوالا تھا اور اس کو دیکھتے ہی باؤلا ہوجاتا تھا اور یہی چاہتا تھا کہ اس کو بیوی بنائے بغیر ’بیوی‘ بنالوں۔ اس سے کئی بار کہا کہ مجھے وہ اپنے اوپر قابو دے لیکن وہ عفیفہ ہنس کر اس بات کو ٹال جاتی۔ شاید یہی خیال کرتی تھی کہ میں اس سے محض مذاق کررہا ہوں۔
پھر یوں ہوا کہ قحط شروع ہوگیا جس نے نخلستان جھلسادیے، فصلیں خرا ب ہوگئیں، آبی ذخائر بھی خشک ہونے لگے اور قحط کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ لوگ عاجز اور لاچار ہوکر لوگ اس قحط گرفتہ علاقے سے دور دراز ہجرت کرنے لگے۔
ان ہی ایام میں ایک بار وہ میرے پاس آئی۔ اس وقت وہ حسنِ ویران کا ایک دل گیر سراپا بنی ہوئی تھی۔ میں تو اس کو دیکھ کر تھراگیا، اس نے اپنے گھریلو کوائف بیان کرتے ہوئے کہا:
’’امنون مجھے ایک سو بیس اشرفیوں کی اشد ضرورت ہے۔‘‘
’’بس، صرف ایک سو بیس اشرفیوں کی!‘‘ میںنے پوچھا۔
’’ہاں‘‘ اس نے کہا۔
’’تم جتنی اشرفیاں چاہو لے لو۔‘‘
’’اچھا تم جتنی دے سکتے ہو دے دو۔‘‘
’’تم پہلے مجھے اپنے اوپر قابو دو۔‘‘
یہ سن کر وہ چکنا چور ہوگئی، روہانسی ہوگئی اور گہری سوچوں میں گم ہوگئی۔
’’اچھا تو یوں ہی سہی۔‘‘ اس نے انتہائی مریل آواز میں کہا۔
پھر وہ پلنگ پر دراز ہوگئی، اس گھڑی اس کا نقرئی جسم کپکپا رہا تھا اور وہ اپنے خلاف لڑرہی تھی اور جب میں اس سے قریب تر ہوا تو اس نے بلبلا کر کہا۔
’’اللہ سے ڈر۔ اے ظالم مہر کے بغیر مُہر مت توڑ۔‘‘
یہ سن کر میں اور میرا سارا معنوی وجود ہل گیا، خوفِ خداوندی مجھ پر محیط ہوگیا اور میرا سارا جوش و خروش ٹھنڈا پڑگیا۔ میں نادم ہوا، شرمسار ہوا، پچھتایا۔
برکائیل نے پوچھا: ’’امنون تیری عم زاد کا کیا بنا۔‘‘
’’میں نے اسے اشرفیاں دے کر عزت و تکریم کے ساتھ رخصت کردیا۔‘‘
’’کیا جاتے وقت وہ خوش تھی؟‘‘
’’ہاں وہ جاتے وقت خوش تھی، ممنون تھی اس کی طمانیت دیدنی تھی۔‘‘
اس کے بعد جیسے ہی وہ آنکھ سے اوجھل ہوئی تو میں نے بے اختیار رونا شروع کردیا،میرا احساسِ گناہ مجھے کچوکے لگاتا گیا اور میرا رونا تیز سے تیز تر ہوتا گیا۔ میں اللہ سے معافیاں مانگتا رہا، توبہ کرتا رہا۔ بکثرت گریہ نے میرے دل کا بوجھ کم کرکے مجھے نہال کر دیا اور ایک نشاۃِ ثانیہ کی نادیدہ اور سخت راہیں مجھ پر آسان کردیں۔ میری عم زاد بھی محسوس کرنے لگی کہ میں اس کے لیے کسی خطرے کی گھنٹی نہیں ہوں۔
اب ایک بار پھر کوئی ہفتے عشرے سے اس کے لیے باؤلا ہوچکا ہوں۔ میری دیرینہ نفسیانیت میری لگام اپنے ہاتھ میں لے چکی ہے، میں تین دن سے شہر میں تھا اور اپنی عم زاد کے لیے ایسے کپڑے ، زیورات، اور سولہ سنگھار کی اشیا خریدیں جن کو پانے کے لیے فولادی عورتیں بھی دھوپ تلے موم کی مانند پگھل جاتی ہیں۔
آج میں واپس جارہا تھا کہ اس وادی میں موسلا دھار بارش نے باقی سفر ناممکن کردیا اور میں بھی آپ کی مانند جائے پناہ کی تلاش میں اس غار میں آگیا۔
اس کے بعد یوتام اور برکائیل نے محسوس کیا کہ امنون ایک متاسف اور ماتمی انداز میں خاموش ہوگیا ہے۔ برکائیل بھانپ گیا کہ وہ ایک اندرونی کوفت بھگت رہا ہے۔ اس نے کہا:
’’امنون! تیرا قصہ عجیب ہے۔ تو پہلے اپنے رب سے کٹا ہوا تھا پھر اس سے جڑ گیا اور کچھ مدت کے بعد پھر کٹ گیا۔ اپنے رب سے جڑنے اور کٹنے کی یہ روداد بڑی المناک ہے اور میری سرگزشت سے مشابہ ہے۔ معلوم نہیں اس میں کیا حکمت ہے کہ ہماری سرگزشتیں باہم مشابہ ہیں اور ہمیں معلوم نہیں کہ ہم اس غار میں آرہے ہیں یا لائے جارہے ہیں۔‘‘
یوتام: ’’برکائیل تیری سرگزشت ہماری سرگزشتوں سے کیسے مشابہ ہے۔‘‘
اس وقت پھر بادل گرجے، گڑگڑائے، بجلی چمکی، ایک گھسیٹ کی آواز بھی آئی اور تینوں سراسیمہ ہوگئے۔ جب ان کے اوسان بحال ہوئے تو برکائل نے اپنی سرگزشت سنانی شروع کی۔
آپ کبھی میرے علاقے میں آئیں تو لوگوں کی زبانی یہ ضرور سنیں گے کہ کوئی ایسا نہیں ہے جو اپنے والدین کی ایسی خدمت کرنے والا ہو جیسا کہ برکائیل ہے۔ میرا قاعدہ تھا کہ جب تک والدین کو کھلا پلا کر آسودہ نہیں کرلیتا تھا اس وقت تک اپنے اہل و عیال کو بھی پوچھتا تک نہیں تھا۔ ایک روز جب میں بکریاں چرانے کے بعد گھر واپس آیا تو معلوم ہوا کہ اتنی دیر سے واپس آیا ہوں کہ میرے والدین بغیر کچھ کھائے پیے ہی سوگئے ہیں۔ اس سے میرے دل پر چوٹ لگی۔ میں نادم و شرمسار ہوا اور دودھ کا پیالہ لے کر ان کے قریب کھڑا ہوگیا مبادا کے رات میں کسی وقت میرے والدین جاگ جائیں اور بھوک کی کلفت محسوس کریں۔ میں رات بھر ان کے سرہانے کھڑا رہا۔ میرے بچے میرے پیروں سے لپٹتے رہے، روتے رہے اور آخر تھک ہار کر نڈھال ہوکر سوگئے۔ میں رات بھر والدین کی ہنگامی بیداری کا منتظر رہا لیکن وہ جاگے تو فجر دم ہی جاگے اور مجھے اپنے قریب یوں دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اس حد تک میری سعادت مندی کا احساس بھی پہلی مرتبہ ہوا، ان کی دعائیں میرے لیے رکتی نہیں تھیں، میں نے بھی محسوس کیا کہ اس شب بیداری نے مجھے پژمردہ نہیں کیا ، میں ہرا بھرا تازہ دم اور چاق و چوبند ہی تھا۔
پھر اس واقعے کی دور دراز تک شہرت پھیلی، اس کے ساتھ میری عزت پھیلی،ذکر خیر پھیلا، نیک نامی پھیلی، ربِّ موسیٰ کو بھی میری یہ بات بھا گئی اور میں ہر وقت اپنے اندر ایک لاہوتی رفعت محسوس کرنے لگا۔
اتنا کہنے کے بعد برکائیل نے ایک متاسف ٹھنڈی آہ بھری اور پل بھر کے لیے خاموش ہوگیا۔
یوتام: ’’مجھے شک ہوگیا ہے کہ برکائیل تو نے اپنا وتیرہ بدل لیا ہے۔‘‘
برکائیل: ’’تیرا شک درست ہے۔‘‘
امنون: ’’کیا تو نے اپنے والدین کی خدمت ترک کردی ہے؟‘‘
برکائیل: ’’نہیں امنون، ختم نہیں کی ہے لیکن مؤخر کردی ہے۔ اب میں پہلے اہل و عیال کو دیکھتا ہوں اور بعد میں والدین کو جو اکثر و بیشتر بھوکے پیاسے ہی سوجاتے ہیں اور میں دودھ کا پیالہ لیے ان کے قریب کھڑا بھی نہیں ہوتا۔‘‘
یوتام: بلاشبہ تیری سرگزشت ہماری سرگزشتوں سے مشابہ ہے۔ تیرا قصہ بھی اپنے رب سے جڑنے اور کٹنے کا ماجرا ہے، ہم سب ماجرا ہیں، ہم تینوں تو ہم آغاز ہیں اور ہم انجام بھی ہیں۔
عین اسی وقت بادل زور سے گرجا، بجلی کڑکی، گڑگڑاہٹ ہوئی اور تینوں دہشت زدہ ہوکر خاموش ہوگئے اور تادیر خاموش ہی رہے، سہمے ہی رہے۔
یوتام: ’’اس دئیے کا شعلہ دائیں بائیں نہیں ہورہا اور بیرونی شور بھی ساکت ہوچلا ہے۔
امنون: ’’تو اس سے کیا ہوتا ہے۔‘‘
یوتام: ’’نہیں، اس میں ایک راز کی خبر ہے۔‘‘
برکائیل: کیا راز ہے کیا خبر ہے، یوتام۔‘‘
یوتام: ’’خبر یہ ہے کہ بارش تھم گئی ہے اور ہوا بھی رک گئی ہے۔‘‘
امنون: ’’گویا اب اپنے رب سے جڑنے والے اور کٹنے والے، جدا جدا ہونے والے ہیں۔‘‘
تب ایسا ہوا کہ اپنے رب سے جڑنے والے اور کٹنے والے اٹھے اور غار کے دہانے کی طرف چلے اور اس کے قریب ہوکر ایک مہیب سناٹے میں آگئے۔
تینوں نے بیک وقت یہ عجوبہ اور مافوق الفطرت تماشا دیکھا کہ وہ فیل قامت پتھر اب غار کے دہانے سے ایسا پیوست ہوچکا ہے جیسے کوئی ڈھکن کسی برتن کو ڈھانپ لیتا ہے، تینوں بیک وقت ششدر ہوکر چلائے۔
’’یہ کیا ہوگیا ہے۔‘‘
’’یہ کیسے ہوگیا ہے؟‘‘
’’یہ کس نے کیا ہے؟‘‘
’’یہ کیونکر ہوگیا ہے۔‘‘
ایسے جملہ سوالات نے ان کے بخیے ادھیڑ نے شروع کردیے تھے۔
اتنی بات تو وہ تسلیم کرتے تھے کہ یہ کسی آدم یا آدم زاد کا کام نہیں ہے اور جب ایسا ہے تو پھر یہ کس کا کام ہوسکتا ہے، یہ سوچتے ہوئے وہ بھڑ ک گئے اور باہم الجھ گئے۔
یوتام: ’’امنون یہ سب تیرا کیا دھرا ہے۔‘‘
امنون: ’’نہیں یہ تیرے کالے کرتوتوں کا پھل ہے۔‘‘
برکائیل:’’ ہم میں سے کون ہے جس کے کرتوت کالے نہیں ہیں، وہ کم کالے ہیں یا زیادہ کالے ہیں لیکن ہیں تو کالے ہی کالے۔‘‘
برکائیل کی بات نے چڑھتی ہوئی ندی کا جوش کم کردیا۔
’’اب کیا ہوگا؟‘‘
’’اب ہم باہر کیسے جائیں گے؟‘‘
تینوں اب ایسے سوالات سے بھڑے ہوئے تھے کہ ان کو درپردہ ایک اور احساس بھی دبوچ دبوچ کر ستا رہا تھا کہ اب مزید سوالات بیکار ہیں، ان کے جوابات ممکن نہیں ہیں، اب وہ باہر نہیں جاسکتے اور نہ کوئی باہر ہی سے وہاں آسکتا ہے۔ اب تو انھیں معلوم ہی نہیں ہوسکتا تھا کہ دن کب شروع ہوا ہے اور کب ختم ہوا ہے۔ رات کب شروع ہوئی ہے اور کب ختم ہوئی ہے۔ ان کے لیے تو اب رات ہی رات ہے، اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ لامتناہی اندھیرا اور دائمی اندھیرا اور وہ اس اندھیرے میں زندہ درگور ہوچکے ہیں۔ وہاں نہ تو کچھ کھا پی سکتے ہیں نہ چل پھر سکتے ہیں۔ یہاں تو ان کا سونا جاگنا برابر ہوچکا ہے۔ صبح اگر چرواہے آتے بھی ہیں تو غار کا منہ بند دیکھ کر دہشت زدہ ہوکر لوٹ جائیں گے۔ زندہ درگور ہونے کا احساس بھی تیزابی ہورہا تھا۔ اس کی تیزابیت میں اضافہ ہورہا تھا جو ان کی مایوسی میں اضافہ کررہا تھا۔
انہیں یہ ادراک بھی ہوگیا تھا کہ یہ اپنے رب سے کٹنے کا نتیجہ ہے۔
اب وہ الزام تراشی سے بھی اپنے آپ کو مطمئن اور آسودہ نہیں کرسکتے تھے۔ انھوں نے اتنا تو ضرور کیا تھا کہ برملا یہ اعتراف کرلیا۔
یوتام: ’’میں اس مزدور کی وجہ سے یہاں لایاگیا ہوں۔‘‘
امنون: ’’میں اپنی عم زاد کی وجہ سے اس جگہ لایا گیا ہوں۔‘‘
برکائیل: ’’میں اپنے والدین کی بدولت یہاں لایا گیا ہوں۔‘‘
پھر تینوں نے ایک دوسرے سے پوچھا: کیا کوئی اور بھی ایسے ظلمات کدے میں لایا گیاتھا؟ اس کا جواب انہیں مل گیا۔
یوتام: ’’ہاں، ذوالنون۔‘‘
امنون: ’’ہاں، بلاشبہ ذوالنون۔‘‘
برکائیل: ’’مچھلی کا پیٹ بھی ایسا ہی ظلمات خانہ تھا۔‘‘
تب انہیں ذوالنون کے کلماتِ ظلمات کشا یا دآئے جو ان کے پہلے اور آخری ناجی ہوسکتے تھے۔ تینوں پورے عجز و انکسار کے ساتھ انہی کلماتِ ظلمات کشا کا بے اختیار و رد کرنے لگے۔ ایک سوز دروں کے ساتھ ایک جذبِ دروں کے ساتھ، ان کلمات کو اتنا کثیر ورد کیا کہ ان پر غنودگی طاری ہوگئی اور جب غنودگی ختم ہوئی تو غار کا دہانہ بند کرنے والا پتھر اتنا پرے ہوچکا تھا کہ وہ باہر نکل سکتے تھے۔
یوتام:’’اب اگر میں نے اس مزدور کو تلاش کرکے اس کا حق نہ دیا تو پھر کسی ایسے ہی ظلمات خانے میں لے جایا جاؤں گا۔‘‘
امنون: ’’میرا بھی یہی حشر ہوگا اب جو میں نے اپنی عم زاد کو عفیفہ نہ رہنے دیا۔‘‘
برکائیل: ’’برکائیل کے الوداعی رفیقو، ذرا سوچو، تو سہی کہ اگر ذوالنون نہ ہوتے تو ہمارا کیا حشر ہوتا؟‘‘
برکائیل کے الوداعی دوستوں نے جب یہ سنا اور سوچا تو تھر تھر کانپنے لگے۔ ان کا کانپنا بھی ایک دیدنی منظر تھا!