اس اعتراف میں کیاحجاب کہ میری اماں جان ایک گمنام دیہاتی خاتون تھیں اور ساتھ ہی اَن پڑھ اور غریب بھی! ہر چند کہ ان کا بیٹا یعنی راقم الحروف دس بیس آدمیوں میں پہچانا جاتا ہے۔ لاہور جیسے شہر میں رہائش رکھتا ہے اور دو چار حرف پڑھ لکھ بھی لیتا ہے۔ دولت مند تو قطعاً نہیں البتہ دھوبی کے دھلے کپڑے پہننے کی توفیق اسے نصیب ہے۔ اپنی سواری بھی اس کے پاس ہے، گاہے بگاہے کسی تقریب میں اونچی کرسی پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ ایک چھوٹے سے ادارے کا صدر نشین بھی ہے لیکن بایں ہمہ یہ ساری چیزیں اس کمی کو پورا کرنے سے قاصر ہیں جسے ماں کا پیار، ماں کی شفقت اور ماں کا سایہ کہتے ہیں۔
کہنے کو تو ملک کی صدارت سب سے بڑا عہدہ ہے۔ وزارت عظمیٰ، خوش بختی کی انتہا ہے، کارخانوں اورمربعوں کا مالک ہونا ترقی و خوشحالی کے افق کا بلند ترین سیارہ ہے مگر خدا لگتی بات یہ ہے کہ ملک کی صدارت، ماں کی شفقت، وزارتِ عظمیٰ، ماں کی دعا اور کارخانے اور مربعے ماں کے محبت آمیز لہجے کا بدل نہیں بن سکتے۔
ضروری نہیں ماں کا تعلق بڑے خاندان سے ہو، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور جدید دنیا کے رجحانات سے آگاہ ہو، آداب و اطوار میں جدید رویے کی حامل ہو اور سیاسی و معاشرتی اعتبار سے اونچا مقام رکھتی ہو تب ہی اس پرمضمون لکھا جائے بلکہ ماں فقط ماں ہوتی ہے اور بس،اس کے لیے باقی سب اضافتیں بے معنی ہیں، جس طرح گلاب کا کوئی نام رکھ دیا جائے اس کی طراوت اور لطافت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اسی طرح ماں شاہی خاندان سے تعلق رکھتی ہو یا معمولی محنت کش گھرانے سے، وہ حاکم وقت اور مجتہدِ عصر کے لیے بھی احترام کا مرکز ہوتی ہے۔
خدانگاہِ حق شناس دے، تو ماں اگر لیپا پوتی کررہی ہو تب بھی اس کے گارے میں لتھڑے ہوئے کپڑے خلعتِ شاہی سے زیادہ قیمتی نظر آتے ہیں، ماں اپلے تھاپ رہی ہو، تو اس کے ہاتھ تقدیر بدلنے کے لیے کافی ہوتے ہیں، ماں لوری دے رہی ہو تو اس کے لہجے میں جبرئیلؑ بولتا نظر آتا ہے، اور ماں روٹیاں پکارہی ہو تو وقت کے بادشاہ اس کے آگے ایک ٹکڑے کے سوالی نظر آتے ہیں، ماں دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دے تو کل جہانوں کا مالک عرش سے اتر کر اس سے ہمکلام ہوتا ہے۔ ماں کا دل کبھی اداس ہو تو جنت کے شگوفے مرجھانے لگتے ہیں۔ ماں کی آنکھیں نم آلود ہوں تو کارکنانِ قضا و قدر کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ ماں دامن پھیلادے تو خدا اپنی جنت کی ساری نعمتیں اس میں انڈیل دیتا ہے، ماں بچے پر اپنا میلا آنچل ڈال دے تو رحمتِ خداوندی گھٹا بن کر چھا جاتی ہے اور اللہ نہ کرے ماں کی نگاہ غضب آلود ہو، تو عرشِ الٰہی تھر تھر کانپنے لگتا ہے۔
کرسی صدارت پر بیٹھنے سے وہ عزت کہاں ملتی ہے جو ماں کے قدموں سے لپٹنے میں نصیب ہوتی ہے۔ وزارت کا حلف اٹھانے میں وہ لطف کہاں جو ماں کے جوتے اٹھانے میں آتا ہے۔ عالی جناب اور عزت مآب کہلوانے میں وہ سرور کہاں جو ماں کے ’’اوئے ببلو‘‘ کہنے میں ہے۔ اعلیٰ سول اور فوجی حکام کو اپنے ہاتھ سے اعزاز اور تمغے دینے میں وہ لذت کہاں جو ماں کے ہاتھ سے خرچ کے لیے ایک روپیہ لینے میں ہے۔ گارڈ آف آنر کا معائینہ کرنے اور چبوترے پر چڑھ کر سلامی لینے میں وہ خمار کہاں جو ماں کے ہاتھوں سے سر تھپ تھپانے میں آتا ہے۔ مخملی مسہریوں پر لیٹ کر نیند کا وہ نشہ کہاں جو ماں کی گود میں حاصل ہوتا ہے۔
ارسطو و افلاطون کے فلسفے اور رومیؓ و جامی کے شعرو سخن میں وہ حسن کہاں جو ان پڑھ ماں کی گود میں ہے۔ نثر و نظم کے شہ پاروں میں وہ رس کہاں جو ماں کی لوری میں گھلا ہوتا ہے۔ قوس وقزح کے حسین رنگ ضرب المثل بن چکے ہیں مگر ماں کے بے لوث اور بے ساختہ پیار کا رنگ اس سے زیادہ دلآویز اور نظر نواز ہوتا ہے۔ گلاب کی پنکھڑی لاکھ نازک سہی مگر ممتا کے موتی کی لطافت کی اور ہی بات ہے۔ کنول کاپھول بہت شفاف ہے مگر ماں کا آئینہ دل اس سے کہیں زیادہ شفاف ہوتا ہے۔ چاند کی چاندنی بڑی خنک مگر ماں کے ٹھنڈے سائے کا جواب کہیں بھی نہیں۔
نسیمِ سحر کا لطیف جھونکا اپنی جگہ مگر ماں کے دامن کی ہوا کا مقابلہ کون کرے؟ مٹی کے ذروں، سمندر کے قطروں اور جنگل کے پتوں کو کوئی نہیں گن سکتا پھر بھی ایسے کمپیوٹر ایجاد ہوچکے ہیں جن کے ذریعہ ذرّوں، قطروں اور پتوں کا حساب ممکن ہے لیکن ماں کے پیار کا شمار حدِ امکان سے باہر اور کمپیوٹر کی پہنچ سے دور ہے۔ خالقِ کائنات نے ماں کے سینے میں اپنی رحمت اور اس کی روح میں اپنی ربوبیت بھر دی ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ کوئی سمندر کے پاتال تک پہنچ جائے مگر کس میں دم ہے کہ وہ ماں کے پیار کا پاتال پاسکے۔
جب ماں اپنے جگر گوشے کو محبت سے دیکھتی ہے تو یوں لگتا ہے کہ خدا آج ساری نعمتیں اپنی مخلوق میں بانٹ دے گا۔ انسان بعض اوقات کسی کی خاطر ساری دنیا کو فراموش کردیتا ہے لیکن ماں اپنے نورِ نظر کو پاکر اپنا آپ بھی فراموش کربیٹھتی ہے۔ ماں کا وجود ایسی نعمت ہے کہ متحدہ ہندوستان کے فرمانروا اورنگ زیب عالمگیر کو کہنا پڑگیا: ’’ماں کے بغیر گھر قبرستان لگتا ہے۔‘‘
آخر اورنگ زیب کے ہاں کس چیز کی کمی تھی؟ بادشاہت ملی، پچاس برس حکومت کی، اورنگ زیب لقب پایا۔ عالمگیر کہلایا مگر وہ تاجِ مغلیہ زیب سر کرکے بھی ممتا سے بے نیاز نہ ہوسکا۔
نادر شاہ درانی جیسا تیر و تفنگ سے کھیلنے والا اور تیغ و سنان کے سائے میں پلنے والا حکمراں اپنی ساری سختی و صلابت کو بھول کر بول اٹھتا ہے:
’’ماں اور پھولوں میں مجھے کوئی فرق نظر نہیں آتا۔‘‘
مولانا محمد علی جوہر نے دنیا سے کیا کچھ نہ پایا اور زمانے میں کیا کچھ نہ دیکھا، آکسفورڈ کی ڈگری، ذوقِ شعر و سخن، اقلیم صحافت کی تاجداری، میدانِ خطابت کی شہسواری اور قیادت کی مسند، پھر بھی وہ کہتے تھے:’’دنیا کی سب سے حسین شے ماں اور صرف ماں ہے۔‘‘
علامہ اقبال ماں کی عظمت کو یوں سلام کرتے ہیں:’’سخت سے سخت دل کو ماں کی پُرنم آنکھوں سے نرم کیا جاسکتا ہے۔‘‘
دنیا کے مانے ہوئے فرانسیسی جرنیل نپولین نے ماں کے مزاج کا خوب نقشہ کھینچا ہے، کہتا ہے: ’’حسرتوں کے ہجوم اور خوشیوں کے تلاطم میں ماں کی عظمت دیکھو۔‘‘
انسان واقعی جب دکھوں میں گھرا اور غموں سے گھبرایا ہوا ہو یا بہت بڑی خوشی سے ہمکنار ہو، تو اس وقت احساس ہوتا ہے کہ کاش آج ماں ہوتی جو سارے دکھ درد سمیٹ لیتی یا اولاد کی خوشی میں خود بے کنار ہوجاتی۔
یورپ کے نامور شاعر ملٹن نے اپنے سارے ذخیرۂ ادب کو نچوڑ کر یہ فقرہ ادا کیا ہے: ’’آسمان کا سب سے بہترین اور آخری تحفہ ماں ہے۔‘‘
لیکن آئیے کائناتِ انسانی کی بہترین شخصیت کی بات سنئے۔ سچ ہے بادشاہوں کی بات، باتوں کی بادشاہ ہوتی ہے، حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جنت ماں کے قدموں میں ہے۔‘‘
جنت ابدی خوشی اور دائمی کامرانی کی آخری منزل ہے لیکن یہ آخری منزل ماں کی دہلیز کا پہلا قدم ہے۔ اس اونچی منزل کو پانے کے لیے سدرۃ المنتہیٰ پر جانے کی نہیں ماں کے قدموں میں بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ ماں کی قدرومنزلت کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ کونین کے والیؐ حلیمہ سعدیہؓ کے آنے پر سروقد کھڑے ہوجاتے اور ان کے بیٹھنے کے لیے اپنی مبارک چادر زمین پر بچھا دیتے تھے۔ حلیمہ ؓ آپ کی حقیقی ماں نہیں، دودھ کی چند دھاریں پلانے والی دایہ تھیں، سچ ہے جو ماں کی عاطفت کو نہیں سمجھ پایا وہ اللہ کی شانِ ربوبیت کا ادراک کب کر پائے گا؟
۲۲؍اگست ۱۹۷۴ء کو اماں جان مجھ سے جدا ہوئیں اور ۲۲؍اگست ۱۹۹۰ء کو میرے ہاں بیٹی کی ولادت ہوئی جسے دیکھ دیکھ کر ماں کی جدائی کی پیاس بجھاتا رہتا ہوں۔ جب کبھی آلامِ دنیا سے جی گھبرائے، غمِ روزگار سے دل گھٹے یا کسی طرف سے دکھ ملے تو گھر پہنچ کر اپنی بچی سعدیہ کو سینے سے چمٹا لیتا ہوں۔ تب یوں لگتا ہے جیسے اماں مرحومہ سے لپٹا ہوا ہوں، یوں میرے دکھ کا ایک ایک کانٹا نکل جاتا ہے۔ جب کبھی والدہ کے لیے اداس ہوں، تو نظر بھر کر بیٹی کو دیکھ لیتا ہوں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے برف کی ڈلی جگر پر رکھ دی ہو، یوں اداسی کی ساری جلن لمحوں میں کافور ہوجاتی ہے۔ جب کبھی ماں کا پیار یاد آئے، تو سعدیہ پر بے اختیار پیا رآتا ہے اور روح کو قرار مل جاتا ہے۔
میری ان پڑھ ماں میری یونیورسٹی تھی۔ میری غریب ماں میری جاگیر تھی، میری گمنام نام میرا نام و نشان تھی، میری چٹائی نشین ماں میرا سرمایۂ توقیر تھی، وہ الف ب نہیں پڑھ سکتی تھی مگر درسِ شفقت خوب ازبر تھا، وہ ’ایٹی کیٹ‘ سے آشنا نہ تھی مگر حسنِ خلق کا مجسمہ تھی، میں نے اپنے ہوش میں اس کے تن پر ہمیشہ پیوند لگا کپڑا دیکھا لیکن اس کا رشتۂ محبت بے گرہ تھا، اس کی جوتی ہمیشہ گرد آلود رہی لیکن اس کی قدروقیمت آج معلوم ہوتی ہے۔ زمانے کا مکروہ چہرہ دیکھ کر اس کا جھریوں بھرا چہرہ آج بے طرح یاد آتا ہے۔ جب سے دنیا کی پُر کاری سے آگہی ہوئی ہے، اس کی سادگی پر رشک آتا ہے۔
سرسید مرحوم سے کسی نے کہا تھا کہ آپ اپنا حاصلِ حیات بیان کریں، تو مرحوم نے جواب میں کہا تھا:
طفلی و دامانِ مادر خوش بہشتے بودہ است
چوں بپائے خود رواں گشتم و سرگرداں شدیم
(بچپن کی عمر اور ماں کی گود ہی حقیقی بہشت تھی ورنہ جب سے اپنے پاؤں کھڑا ہونا سیکھا ہے تب سے سرگرداں ہوں)
بہشت کا یہی تصور ہے کہ وہاں سب کچھ بن مانگے ملے گا اور من چاہی نعمت میسر ہوگی۔ ماں بھی تو اولاد کو بن مانگے سب کچھ حتی کہ منہ کا نوالہ تک دے دیتی ہے۔ خواہ اسے کسی کے برتن کیوں نہ مانجھنے پڑیں، آج دنیا دولت کی تلاش میں ہے حالانکہ سب سے بڑی دولت تو ماں کا وجود ہے، جسے ماں کا سایہ میسر ہے، وہ سب سے بڑا تونگر ہے۔ آج لوگ روشنیاں ڈھونڈ رہے ہیں، جبکہ ماں کے قدموں کی دھول میں کہکشاں آباد ہے۔ آج کا انسان غم غلط کرنے کے لیے تنہائی کا طالب ہے، وہ جام و پیمانہ میں گم ہونا اور اربابِ اقتدار کی پناہ میں آنا چاہتا ہے حالانکہ ماں کے آنچل سے بڑھ کر کوئی پناہ گاہ نہیں۔ جب والدہ نے آخری ہچکی لی میں اس وقت ان کے سرہانے موجود تھا۔ میں نے جھٹ سے اپنی ٹوپی اتار کر ان کے قدموں میں ڈال دی اور اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگی۔ اپنا سر ان کے پاؤں پر رکھ دیا اور یوں انہیں آخری سلامی دی تھی۔ آج جب کہ میری ٹوپی کی نوک اونچی رہتی ہے، تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ ماں کے قدموں سے مس ہوئی ہے۔ آج اگر مجھے اونچی کرسی پر بٹھایا جاتا ہے، تو وہ ماں کے پاؤں پر سر رکھنے کا صدقہ ہے، میں یہ سطریں لکھ رہا تھا کہ غیب سے اماں مرحومہ کی آواز کانوں سے ٹکرائی جیسے وہ کہہ رہی تھیں:’’بیٹا! میں اللہ کی گنہ گار بندی سہی مگر میں نے تیرے لیے اپنے رب سے پناہ مانگ لی ہے، تو میرے دامن کی ہوا اور پالنہار کی عطا سے کبھی محروم نہیں رہے گا۔‘‘
(اردو ڈائجسٹ پاکستان سے ماخوذ)