س: قارئین حجاب کے لیے آپ کا تعارف؟
ج: میں پونے کی رہنے والی ہوں۔ پہلے میرا نام دیپالی مسورکر تھا اور اب کلثوم ہے۔ میں نے بی کام کیا ہے۔ شوہر کا انتقال ہوچکا ہے۔ وہ ہندو تھے، ایک نو سال کی بیٹی ہے جو چوتھی جماعت میں پڑھ رہی ہے۔ شوہر کے انتقال کے بعد میں میکہ میں ہی رہنے لگی۔ میں صرف مراٹھی اور انگلش جانتی ہوں، لیکن اب اردو سیکھ رہی ہوں۔ میرے گھر پر والد اور والدہ ہیں ہم دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔
س: اپنے اسلام لانے کے بارے میں کچھ بتائیے۔
ج: آج میری عمر ۲۶ سال ہے، ہم لوگ اپنی زندگی ہندو طور طریقے سے خوشی خوشی گزار رہے تھے، اچانک ایک حادثہ میں میرے شوہر کا انتقال ہوگیا، شوہر کے انتقال کے بعد میں سسرال اور میکے دونوں سے کٹ کر رہ گئی۔ ہندو معاشرے میں ایک بیوہ عورت کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے، وہی کچھ میرے ساتھ ہونے لگا۔ سب سے پہلے میرے سامنے جو مسئلہ آیا وہ معاش کا مسئلہ تھا۔ ایک بچی گود میں ہے اس کی پرورش کیسے کروں؟ سسرال والوں نے مجھے بالکل الگ کردیا۔ میکہ والے بھی گھبرانے لگے، اب میں مجبوراً نوکری کی تلاش میں نکلی اور آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آج کے دور میں مناسب نوکری ملنا بھی بہت مشکل کام ہے۔ حالات بد ہوگئے، میرے قدم ڈگمگانے لگے، کہیں سے کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا، آخر میں نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ معاش کا جو بھی راستہ ملے گا، اپنا لوں گی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احسان کیا اور فرشتے کی طرح اللہ تعالیٰ نے ایک عورت کو میری طرف بھیج دیا۔ اور میری دوست بنادیا۔ ان سے ملاقات کی بھی عجیب داستان ہے جس کا ذکر یہاں مناسب نہیں ہے۔ اپنا سارا دکھڑا سنایا، انھوں نے مجھے دلاسا دیا اور مجھ سے بہت ہمدردی کا برتاؤ کیا۔ اپنے اخلاق سے انھوں نے مجھے بہت متاثر کیا۔ چند دنوں میں ہم دونوں بالکل گھل مل گئے وہ میری ہر پریشانی کو سنتیں اور اس کا حل تلاش کرنے میں میری مدد کرتیں۔
اپنی گفتگو کے درمیان اسلام کے بارے میں بھی بات کرنے لگتیں۔ پھر انھوں نے مجھے اپنے پروگرام میں بلانا شروع کیا، یہ سلسلہ کافی دنوں تک چلتا رہا، اس کے بعد انھوں نے میرے سامنے اسلام کا پورا تعارف پیش کیا، اسلام تو بڑا عظیم مذہب ہے۔ اس کے بارے میں میں پہلے سے جانتی تھی۔ اب مجھے قریب سے اسلام کو دیکھنے کا موقع مل رہا تھا اور میں تو پہلے ہی سسرال اور میکہ والوں کی طرف سے ٹھکرائی ہوئی تھی، ظلم کی شکار، خلوص و محبت اور ہمدردی کی پیاسی تھی، پھر میںنے ان سے کتابیں مانگ کر پڑھنی شروع کیں۔ آہستہ آہستہ اسلام کی بہت ساری کتابوں کا میں نے مطالعہ کرلیا۔ پھر میں نے بہت سوچ سمجھ کر ا ور گہرا مطالعہ کرنے کے بعد یہ فیصلہ لیا کہ اسلام ہی مجھے انصاف بھی دلاسکتا ہے، اور یہی سب سے اچھا مذہب بھی ہوسکتا ہے۔ پھر میں نے اسلام قبول کرلیا۔ آج آٹھ ماہ ہوگئے اسلام قبول کیے ہوئے۔
س: اسلام لانے کے بعد آپ کے سسرال والوں اور میکہ والوں کی طرف سے مخالفت نہیں ہوئی؟
ج: سسرال تو پہلے ہی چھوٹ چکی تھی، اب انہیں بھی اس بات کا علم ہوچکا ہے، والد کو نہیں معلوم، والدہ کو معلوم ہوچکا ہے۔ اس کی کوئی خاصل مخالفت نہیںہے۔ میں ابھی میکہ میں ہی رہ رہی ہوں، اور ایک کمپنی میں نوکری کررہی ہوں ۔ بھائی بہنوں کی بھی کوئی خاص مخالفت نہیں ہے۔
س: مستقبل کے سلسلہ میں آپ کا کیا اراردہ ہے؟
ج: تحریکی گھرانے سے میرے لیے کوئی اگر رشتہ آتا ہے تو میں نکاح کے لیے راضی ہوں۔ اور شادی کرکے ایک اچھی اور داعیانہ زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔
س: آپ نے اپنی بچی کی تربیت کا کیا انتظام کیا؟
ج: قرآن اور دین کی تعلیم اردو میں دے رہی ہوں، وہ اسکول بھی جاتی ہے۔ بیٹی ماشاء اللہ ذہین ہے، اور تیزی سے قرآن پڑھ رہی ہے۔
س: موجودہ سماج کی سب سے بڑی برائی آپ کی نظر میں کیا ہے؟
ج: میری نظر میں سماج کے لیے سب سے خطرناک چیز ہماری فلمی دنیا ہے۔ اگرچہ میں پہلے فلمیں وغیرہ دیکھتی تھی لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد یہ سب چیزیں گندی اور خراب محسوس ہونے لگیں۔ چنانچہ میں نے سب کچھ چھوڑ دیا۔ میرے خیال میں آج جو ہندوستانی سماج اخلاقی و معاشرتی تباہی کے کگار پر کھڑا ہے ، اس میں سب سے بڑا رول ان فلمی دنیا والوں کا ہے۔ میں تو ہندو معاشرے سے نکل کر آئی ہوں۔ وہاں بھی دیکھا کہ ہندو معاشرہ بھی ان چیزوں کو پسند نہیں کررہا ہے۔ اور کہتا ہے یہ لوگ سماج کو برباد کررہے ہیں۔ لیکن وہ لوگ مجبور ہیں کیونکہ ان کے پاس آخرت کا تصور نہیں ہے، مسلمانوں کو آگے آنا چاہیے ان ساری بیہودہ چیزوں کی سخت مخالفت کرنی چاہیے۔ اگر یہ لوگ پہل کریں گے تو مجھے امید ہے کہ ہندوستان کے پریشان حال ہندو بھی ان لوگوں کی مدد کریں گے۔
س: آپ ماشاء اللہ پردے میں رہتی ہیں اور نماز کی بھی پوری پابندی کرتی ہیں۔ مسلم عورتوں اور لڑکیوں سے کیاکہنا چاہیں گی؟
ج: میں کہوں گی کہ دنیاکا سب سے اچھا مذہب اسلام ہے۔ اور قرآن بہت قیمتی کتاب ہے۔ جو بھی اسے پڑھتا ہے، وہ اسلام سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں نے قرآن کو ہندی اور مراٹھی میں ترجمہ پڑھ کر سمجھا ہے۔ میں تو اپنی بہنوں سے کہوں گی کہ قرآن کو اپنی زبان میں پڑھ کر دیکھئے۔ نماز کی پابندی اور پردہ لازمی ہے۔ عورت کی فطرت میں شرم و حیا شامل ہے۔ اور وہ حجاب (نقاب) کے ذریعہ ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ عریاں لباس، بیہودہ باتیں یہ سب شیطان کی تبلیغ ہے۔ اپنے عمل کے ذریعہ اللہ اور اس کے رسول کے دین کی تبلیغ کریں تو ہندوستان کی ساری ہندو عورتیں اسلام قبول کرلیں گی۔
میں ان افراد کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی جنھوں نے مجھے کھوئی ہوئی بہت بڑی دولت واپس دلادی۔ میں عہد کرتی ہوں کہ انشاء اللہ تبلیغ دین کا کام دوسری ہندو عورتوں پر کرتی رہوں گی۔ (آمین)