فاطمہ شیخ تعلیم نسواں کی علم بردار اور مصلح

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

فاطمہ شیخ، آزاد ہندوستان کی پہلی مسلم خاتون معلمہ، کے بارے میں اگر کچھ کہنا اور لکھنا ہو تو ان کا تعارف کرانے کے لیے جیوتی راؤ پھلے اور ساوتری بائی پھلے کا ذکر کرنا پڑتا ہے۔ جی ہاں! کیوںکہ آخر الذکر دونوں ہندوستانی سماج میں دلتوں اور پچھلے طبقات کے مسیحا، سماجی مصلح اور طبقاتی کش مکش کے خلاف جدوجہد کی علامت کے طور پر جانے جاتے ہیں، مگر فاطمہ شیخ کو نہ تو ہندوستانی سماج جانتا ہے اور نہ وہ دلت اور پس ماندہ طبقہ ان کا نام لیتا ہے، جس کے لیے انھوںنے جدوجہد کی اور نہ وہ مسلم سماج ان سے اور ان کی خدمات سے واقف ہے جس سے وہ تعلق رکھتی تھیں اور جس سماج میں لڑکیوں کی تعلیم کا انھوں نے اس وقت بیڑا اٹھایا جب وہ تعلیمی اعتبار سے بہت پس ماندہ تھیں۔
فاطمہ شیخ کی جدوجہد نے نہ صرف ہندو، دلت اور پس ماندہ طبقات کو فائدہ پہنچایا، بلکہ مسلم سماج بھی ان کی کوششوں سے فیض یاب ہوا، جہاں انھوںنے مسلم خواتین کے کئی سماجی مسائل کو حل کرنے اور ان کے حقوق کی بازیابی کے لیے بھی مہم چلائی۔
ہندوستان کے وزیر اعظم نے ساوتری بائی پھلے کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا:
ترجمہ: ’’میں عظیم خاتون ساوتری بائی پھلے کو ان کے یومِ پیدائش پر خراجِ عقیدت پیش کرتا ہوں۔ ان کی پوری زندگی غریبوں اور بچھڑے لوگوں کو ان کا حق دلانے کے لیے تھی۔‘‘
پونے یونی ورسٹی کو اب ساوتری بائی پھلے یونی ورسٹی کردیا گیاہے۔ مہاراشٹر حکومت نے ان کے نام پر کئی ایوارڈس شروع کیے ہیں اور ٹیلی ویژن پر ان کی حیات و خدمات پر ایک سیریز بھی چلائی ہے، مگر اس میں کہیں بھی اس شخصیت کا نام نہیں نظر آتا جس کے بغیر ان کی ان تمام خدمات کی ابتدا نہیں ہوسکتی تھی جو انھوںنے انجام دیں اور وہ شخصیت ہے فاطمہ شیخ اور ان کے بھائی میاں عثمان شیخ کی، جنھوں نے پونے میں انہیں رہنے کے لیے اس وقت جگہ دی جب ان کے گھر والوں نے انہیں ان کے آبائی گھر سے نکال دیا تھا۔
فاطمہ شیخ غیر معروف ہیں اور لوگوں کو ان کا یومِ پیدائش تو کیا، ان کی خدمات تک کا علم نہیں ہے، جب کہ ساوتری بائی پھلے کو دنیا نہ صرف اچھی طرح جانتی ہے، بلکہ چند سالوں پہلے وزارت فروغ انسانی وسائل کے پاس ایک اور ٹیچرس ڈے منانے کی تجویز آئی تھی، جو ان کے یومِ پیدائش پر منایا جانا چاہیے۔ واضح رہے کہ ہندوستان میں ملک کے دوسرے صدر جمہوریہ سروپلی رادھا کرشنن کے یومِ پیدائش کو یوم اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔
ہندوستان میں تعلیم نسواں کے میدان میں جیوتی راؤ پُھلے اور ان کی اہلیہ ساوتری بائی کے ساتھ مسلم خاتون فاطمہ شیخ کی خدمات زرّیں حروف سے لکھے جانے کے لائق ہیں ، لیکن ان سے ملک کی اکثریت واقف نہیں ہے۔
فاطمہ شیخ کی پیدائش مہاراشٹر کے پونے شہر میں 9 جنوری 1831 کو ہوئی۔ ان کا تعلق ایک معزز اور تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ انیسویں صدی عیسوی میں تعلیمِ نسواں کے حق میں آواز بلند کرنا آسان نہ تھا، لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی تصور نہ تھا، اس زمانے میں سماجی مصلح جیوتی راؤ پُھلے اور ان کی اہلیہ ساوتری بائی نے تعلیمِ نسواں کی مہم چلائی تو ان کی زبردست مخالفت کی گئی۔ ان کے گھر والوں نے انہیں گھر سے نکال دیا۔ ایسا اس وجہ سے ہوا کےہندوسماج برہمنی نظریات کی اساس پر کھڑا ہوا تھا اور اس میں دلتوں اور پس ماندہ طبقات کے لیے علم کا حصول روا نہ تھا۔ ہندو سماج کے اسی دباؤ اور مخالفت کے سبب جیوتی راؤ پھلے کو ان کے والد نے اپنے گھر سے نکال باہر کیا۔جائے پناہ تلاش کرتے ہوئے ان کو ایک مسلم گھرانہ ملا، جو پونے کے گجن پیٹ علاقہ میں رہتا تھا ۔ عثمان شیخ اور ان کی بہن فاطمہ شیخ انہیں اپنا گھر دینے پر راضی ہو گئے ۔یکم جنوری 1848 کو انہی کے گھر میں ساوتری بائی پُھلے نے لڑکیوں کے لیے ایک مقامی لائبریری اور اسکول کی بنیاد رکھی ۔ اسے ملک میں لڑکیوں کا پہلا اسکول سمجھا جاتا ہے ۔ فاطمہ شیخ نے اسی اسکول میں تدریسی خدمت شروع کی ۔وہ بچوں کو گھر گھر سے بلاکر لاتی اور اسکول میں داخل کرواتی تھیں ۔
فاطمہ شیخ کی سوچ اور ان کا وژن کتنا وسیع اور بلند تھے اس کا اندازہ آج لگایا جاسکتا ہے کہ جب پوری مسلم قوم ہندوستان میں لڑکیوں کے درمیان تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں ہے اور یہ تقریباً ڈیڑھ صدی سے بھی زیادہ مدت گزرجانے کے بعد کی صورتِ حال ہے۔ گویا وہ آج کے سماج کے مقابلے 170 سال آگے کا وژن رکھتی تھیں۔ فاطمہ شیخ کے بارے میں یہ بات بھی یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مسلمان گھرانے سے تعلق رکھنے کے سبب وہ یقینا علم کے حصول کی اہمیت سمجھتی رہی ہوں گی اور یہ لڑکیوں کی تعلیم کی سماجی، معاشرتی اور دینی اعتبار سے کیا اہمیت ہے، اس کا بھی شعور انھیں ضرور رہا ہوگا۔
آج کا ہندوستانی سماج سرسید احمد خاں کو مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور یقینا ان کی خدمات قابلِ قدر اور عظیم ہیں لیکن سرسید احمد خان نے اپنی مہم 1875 میں اورینٹل کالج کی صورت میں شروع کی جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل اختیار کرگئی۔ فاطمہ شیخ نے اپنی مہم 1848 میں شروع کی اور وہ بھی لڑکیوں کی تعلیم سے جس کی اس دور میں خود مسلم سماج نے اپنی فکری پس ماندگی اور تہذیبی پچھڑے پن کے سبب مخالفت کی۔
سرسید احمد خاں نے تو لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ بعض چیزیں ایسی بھی ملتی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف تھے، مگر فاطمہ شیخ نے اس دور میں مسلم لڑکیوں کی تعلیم کی مہم چلائی جب مسلمانوں میں اس کا تصور بھی مفقود تھا اور اسی سبب انہیں مسلم سماج کی جانب سے بھی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔
فاطمہ شیخ نے تعلیمِ نسواں کے ساتھ بیوہ عورتوں کے نکاح اور باز آباد کاری اور حقوقِ نسواں کے میدان میں بھی کام کیا اور سماجی عدم مساوات کے خلاف عَلَم بلند کیا۔ انھوں نے 1851 میں بمبئی میں دو اسکولوں کے قیام میں بھی حصہ لیا ۔
فاطمہ شیخ کی انہی خدمات کی بنا پر 9؍جنوری کو ان کے 191 ویں یومِ پیدائش کی مناسبت سے گوگل نے ان کا ڈوڈل بنایا ہے ۔

یہ بھی پڑھیں!

ذکر چند عظیم خواتین کا

امپاورمنٹ اور مسلم خواتین

ہندوستانی مسلم خواتین کی سماجی صورتحال

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146