جس دن سے سیلی کی آمد کی اطلاع آئی تھی گھر میں تیاریاں شروع ہوگئی تھیں، جبکہ ابھی اس کے آنے میں پورے تین ماہ باقی تھے۔
یہ وقت بیگم صاحبہ نے اس طرح گزارا کہ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جب انھوں نے بازار کا چکر نہ لگایا ہو یا اپنے شوہر سعید جاہ سے اس سلسلے میں کوئی بات نہ کی ہو۔ سیلی کی آمد پر اس قدر جوش و خروش کیوں نہ ہوتا، آخر وہ صباحت اور سعید جاہ کی اکلوتی بیٹی ڈاکٹر رابعہ کی لختِ جگر یعنی ان کی نواسی تھی اور پہلی دفعہ پاکستان آرہی تھی۔
صباحت جاہ کو اپنے خاندانی پس منظر پر بہت فخر تھا، اور کیوں نہ ہوتا! ان کے والد ایک نہایت اعلیٰ اور روایت پسند خاندانی تھے، تعلیم نے جن کو اور چمکادیا تھا، اور یہ ان کی اعلیٰ ظرفی ہی تھی جو انھوں نے اپنی بیٹی کو اُس دور میں تعلیم دلوائی جب ایسا کوئی تصور نہ تھا، مگر اس کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی شاندار اسلامی اقدار کا بھی خیال تھا، لہٰذا انھوں نے اپنے خصوصی اختیارات کے ذریعے کلاس روم میں پردہ ڈلوا رکھا تھا اور اس طرح سے صباحت جاہ نے ایم اے کیا۔
ان کی شادی بھی ایک اعلیٰ تعلیمی اور خاندانی پس منظر کے حامل شخص سے ہوئی۔ حالانکہ ان کے شوہر کو ان کے برقعہ اوڑھنے پر سخت اعتراض تھا مگر صباحت جاہ اپنے والد کی پاسداری اور احترام میں اس کو ترک نہ کرسکیں، یہاں تک کہ پاکستان وجود میں آگیا اور صباحت اور سعید جاہ پاکستان چلے آئے۔ جبکہ ان کے والد وہیں ہندوستان میں رہ گئے۔ پاکستان آکر صباحت جاہ کو ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کی لیکچرر شپ کی آفر ہوئی جسے انھوں نے قبول کرلیا۔ اس موقع پر ان کا رواں رواں اپنے والد کے لیے احسان مندی کے جذبات میں ڈوب گیا۔
بہت جلد وہ اس ادارے کی پرنسپل بن گئیں۔ اس زمانے تک پردے کا رواج برقرار تھا، لہٰذا یہ ان کے لیے کبھی نکو کا باعث نہ بنتا، حالانکہ ان کے شوہر جو سول سرونٹ تھے، ان کی آنکھ میں پھانس کی طرح چبھتا تھا۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ دونوں کسی جگہ پارٹی میں گئے۔ موٹر سے اترتے ہوئے سعید جاہ نے اپنی بیگم کو برقع اتار کر شریک ہونے پر اصرار کیا جسے بادلِ ناخواستہ انھوں نے مان لیا۔ پارٹی میں نکو بننے کے خیال سے لامحالہ انھو ں نے اسے اتار کر موٹر میں رکھ دیا۔ پارٹی مخلوط تھی، اور ہر کوئی ان کی تعریف کررہا تھا جو صباحت جاہ کو اتنی اچھی لگی کہ دل میں چھپی شرمندگی کی برف بھی پگھل گئی اور ایسی پگھلی کہ انہیں گھر واپسی پر برقع پہن کر جانا اچھا نہ لگا!!
ویسے بھی جب آدمیوں سے ہی پردہ نہ رہا تو موٹر میں کس سے پردہ! اور گھر میں کیا صرف نوکروں کے لیے برقع اوڑھا جائے؟ بیگم کی اس سوچ کو سعید جاہ نے پڑھ لیا اور برقع کا گولا سا بناکر موٹر سے باہر پھینکنے لگے، مگر اسی لمحے ان کی حسِ مزاح پھڑک اٹھی اور انھوں نے گاڑی میں پڑا ہوا جوتے کا فالتو ڈبہ اٹھایا اور اس میں برقع ٹھونس دیا۔ اس مزاح پر دونوں نے ایک زندہ دل قسم کا قہقہہ لگایا۔
صباحت جاہ اور سعید جاہ کی اکلوتی بیٹی رابعہ عرف رابی پچھلے بیس برسوں سے امریکہ میں تھی۔ پہلے تعلیم اور پھر ملازمت کے بعد اس کو امریکہ ایسا بھایا کہ وہیں مستقل رہائش کا پروگرام بنالیا۔ شادی بھی وہاں مقیم ایک پاکستانی ڈاکٹر سے بڑے تزک و احتشام سے ہوئی۔ امریکی تہذیب میں مکمل طور پر رنگی ہوئی رابی کی شادی کاروایتی مشرقی انداز میں انعقاد ہوا۔ یہ تقریب مقامی افراد کے لیے حیران کن تھی اور دلچسپ بھی! پھر جب ان کی پہلی بیٹی پیدا ہوئی تو اس کا نام دادا دادی کے اصرار پر صالحہ رکھا گیا، مگر امریکی معاشرے میں اتنے نامانوس نام کی گنجائش نہ تھی، لہٰذا وہ صرف سیلی ہوکر رہ گئی۔ دس سال تک وہ تنہا والدین اور خاندان کے لیے آنکھ کا تارہ بنی رہی، پھر جب کلثوم دنیا میں آئی تو سب کو ایک نیا کھلونا مل گیا مگر سیلی کی حیثیت میں کمی نہ ہوسکی بلکہ مزید بڑھ گئی۔ اب سیلی کی عمر سترہ سال تھی اور کلثوم سات برس کی پیاری سی بچی تھی۔
یہ دونوں کبھی پاکستان نہ آئی تھیں، مگر نانا، نانی نے ان کو درجہ درجہ بڑے ہوتے دیکھا تھا کیونکہ اکثر کسی نہ کسی بہانے وہ دونوں امریکہ کا چکر لگا آتے تھے۔ اور اب سیلی کی پہلی دفعہ پاکستان آمد نے ایک نئی لہر دوڑادی تھی۔ صباحت جاہ کو چونکہ ٹین ایجز کے ذوق کا خوب اندازہ تھا لہٰذا اس کا کمرہ ٹھیک کرواتے وقت انھوں نے ان تمام باتوں کو مدنظر رکھا جنھیں عام طور پر نانیاں، دادیاں نہیں رکھتی ہیں۔ اور پھر وہ دن بھی آپہنچا جب سیلی کو آنا تھا۔
ایئر پورٹ پر سیلی کے حلیہ پر ان کو بڑی حیرت ہوئی۔ ’’چلو جینز تو ٹھیک ہے مگر…‘‘ صباحت جاہ کو اس کے لمبے سے کوٹ اور کندھے پر پڑے اسکارف سے بڑی الجھن سی لگی۔ ’’کوئی بات نہیں، اس وقت تو سفر سے آرہی ہے نا، کیسا بھی حلیہ ہو چلے گا، اور پھر ٹین ایجرز تو ہوتے ہی سرپھرے ہیں! کب کیا فیشن بن جائے، کچھ پتا نہیں چلتا! خیر یہاں آنے جانے اور گھومنے پھرنے کے لیے تو اسٹائلش کپڑے سلوائے ہیں، وہی پہنے گی…‘‘ انھوں نے پیار بھرے فخر سے سوچا۔
تھوڑا آرام کرنے کے بعد اس نے ان کے ساتھ باہر آنا جانا شروع کیا تو انہیں بڑی حیرت ہوئی کہ وہ کہیں آتے جاتے وقت جدید فیشن کے لباس کے اوپر بھی وہی اول جلول سا کوٹ پہن لیتی اور اوپر سے اسکارف لپیٹ لیتی۔ صباحت جاہ سوچتیں کہ رابی نے کچھ زیادہ ہی سہمادیا ہے اس کو یہاں کے ماحول کے بارے میں! حالانکہ یہاں لوگ کافی بدل چکے ہیں۔ اپنے اس خیال کا اظہار جب وہ سیلی کے سامنے کرتیں تو وہ ان کی بات مذاق میں اڑادیتی۔
سیلی بڑی عجیب لڑکی تھی یا شاید ان دو برسوں میں بدل گئی تھی۔ باتونی تو خیر وہ پہلے بھی تھی مگر اب تو بس کرید کرید کر نانا نانی سے پرانی باتیں ہی پوچھتی رہتی۔ اس کو ان تمام چیزوں اور مشاغل سے کوئی دلچسپی نہ تھی، جو نانا نانی نے اس کے لیے جمع کیے تھے۔ وہ تو بس پرانے البموں پر تبادلہ خیال کرتی، کبھی اپنا خاندانی شجرہ بناتی۔ ہر وقت پرتجسس رہتی۔ کسی چیز کی تلاش اس کو ہر وقت گھر کے کونے کھدروں میں مصروف رکھتی۔
آج تو وہ صبح سے ہی اسٹور میں گھسی ہوئی تھی۔ دوپہر کے کھانے کا وقت قریب آرہا تھا،وہ اس کو بلانے کا سوچ رہی تھیں کہ وہ خود ’’نانو نانو!!‘‘ پکارتی ہوئی لاؤنج میں داخل ہوئی۔ وہ سیاہ رنگ کے برقعے میں ملبوس تھی۔ اس کے ہاتھ میں جوتے کا بوسیدہ ڈبہ تھا اور اس کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ ’’کیسی لگ رہی ہوں نانو؟‘‘ یہ کہتی ہوئی وہ قد آدم آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ ’’یہ آپ کا تھا ناں نانو؟‘‘ کتنا فٹ آیا ہے مجھے! مجھے اسی کی تو تلاش تھی۔ میں بالکل ایسا سلواؤں گی۔ نانو! امریکہ میں ہمیں اپنی شناخت چاہیے۔ اس کے لیے ہم نے ’ینگ مسلم لیڈیز آرگنائزیشن‘ بنائی ہے۔ مگر ہماری سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ ہم کس طرح اپنی شناخت ان سے الگ بنائیں۔ اب میں یہ لے جاؤں گی تو سب دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔‘‘
وہ بول رہی تھی اور صباحت جاہ کو اپنے بوڑھے والد کا ندامت اور شرمندگی سے بھر پور چہرہ یاد آرہا تھا، جو ان کو بے پردہ دیکھ کر زیادہ دن تک جی نہ سکے تھے۔ مگر اب ان کو یوں محسوس ہوا جیسے ان کے والد کی آنکھوں کے بجھتے دیپ پھر سے جگمگا اٹھے ہوں!!!
رمضان کا دوسرا عشرہ شروع ہوچکا تھا۔ آج ۴؍ستمبر ہے اور کینیڈا کے طول و عرض میں مسلمان خواتین خصوصاً طالبات عالمی یوم حجاب منا رہی ہیں جس کا فیصلہ چند سال قبل کیا گیا تھا۔
اسکارف جو حجاب کی جدید شکل ہے، مسلم خواتین کا شعار! اس کے خلاف جتنا غلغلہ بلند کیا جارہا ہے یہ اتنا ہی مقبول ہورہا ہے۔
یقین نہ آئے تو اس کالج کے ہال میں چلئے جہاں مسلم طالبات کے ساتھ یکجہتی کے لیے غیر مسلم طالبات بھی اسکارف میں ملبوس ہیں۔
جی ہاں! اس سلسلے میں یہاں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا ہے۔ رنگا رنگ سماں ہے! ایک دوسرے کو تحفے میں قسم قسم کے اسکارف دیے اور لیے جارہے ہیں۔ اس سرگرمی کی روح رواں ثومی سرخ تمتمایا چہرہ لیے ادھر سے اُدھر بھاگتی پھر رہی ہے۔ اس اہتمام کی تیاریاں تو پہلے سے ہی ہوگئی تھیں مگر مروہ الشربینی نے اپنی جان دے کر اس کو ایک نئی جہت عطا کردی تھی۔
ہال رنگ برنگے اسکارف سے ڈھکے سروں سے بھرا ہوا تھا جس کے مشرقی حصے میں مروہ کا بڑا سا پوسٹر طالبات کو جذباتی کررہا تھا اور وہ ہمہ تن گوش تھیں۔
’’یہ انسانی حقوق کی کھلی پامالی ہے! یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک عورت محض اپنے لباس پہننے کے حق کی وجہ سے قتل کردی جائے…!‘‘ مروہ کا ذکر آتے ہی ہال شیم شیم کے نعروں سے گونج اٹھا اور ثومی کا لہجہ گلوگیر ہوگیا! ثومی یعنی کلثوم! صباحت جاہ کی چھوٹی نواسی، وہی صباحت جاہ جن کا برقع مذاق مذاق میں جوتے کے ڈبے میں گھسیڑدیا گیا تھا، جس کا انہیں قلق رہا تھا، مگر وہ دوبارہ ان کے جسم کی زینت نہ بن سکا تھا اور آج بڑے وقار سے ایک دوسرے گو گفٹ کیا جارہا تھا۔ مگر اس کے درمیان اٹھاون سال کا وقفہ ہے!
جی ہاں! جب سیلی نے آج سے بارہ سال پہلے وہ بوسیدہ ڈبہ اٹھا کر اپنے نانا اور نانی کے سامنے رکھا تو بڑا عجیب سا منظر سامنے آگیا۔
چھیالیس سال پہلے کا واقعہ یاد کرکے نانا تو ہنسنے لگے،جبکہ نانو ر و پڑی تھیں۔ اپنے آپ کو بے پردہ کرنے کے احساس نے ان کو اشکوں میں ڈبو دیا اور سعید جاہ ہکا بکا رہ گئے۔ یہ ٹھیک ہے کہ یہ حرکت اُن کی تھی، مگر صباحت نے کوئی احتجاج، کوئی شکایت کبھی نہ کی تھی؟ انہیں کیا پتا، یہی احساسِ جرم تو انہیں اس وقت آنسو بہانے پر مجبور کررہا تھا اور یہ کوئی جذبہ ہی تو تھا کہ وہ فالتو ڈبہ اتنے عرصے بعد بھی آج تک وہ پھینک نہ پائی تھیں!
بہرحال برقعے کو نئی زندگی اسی وقت مل گئی جب سیلی نے درزی کے سامنے اس کا ماڈل رکھا اور پھر کراچی سے امریکہ واپسی کا سفر اپنے نئے برقعے کے ساتھ کیا۔ یہی نہیں بلکہ اس کے سوٹ کیس میں کوئی درجن بھر برقعے تھے جو وہ سب دوستوں کے لیے تحفے میں لے جارہی تھی۔
ائیر پورٹ پر ڈاکٹر رابی اس کو دیکھ کر ششدر رہ گئیں! اور پھر بہت کچھ بحث و مباحثہ ہوا جس کی تفصیل بے کار ہے! ہاں بس اس کا انجام یہ تھا کہ جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس ڈاکٹر رابعہ اب سرتاپا نقاب میں ملبوس ہوگئیں! ایسا بھی ہوتا ہے۔ کبھی کبھار والدین کے بجائے اولاد ہی مشعل راہ بن جاتی ہے۔ جب صبغت اللہ کا رنگ چڑھا تو معاملاتِ زندگی خود بخود بہتر ہوتے گئے۔ اس کے بعد نائن الیون سامنے آتا ہے، جس نے ردِ عمل کے طور پر اس سفر کو مزید تیز کردیا۔
بعد میں بہتری کے حصول کے لیے وہ کینیڈا شفٹ ہوگئے تھے جہاں پہنچ کر صالحہ کی شادی ایک انڈین مسلمان ڈاکٹر سے ہوئی اور یوں وہ بہت سے مفروضے دم توڑ گئے جو رابی اور ان کے شوہر کے سامنے سلی کو باپردہ پاکر ان کے ہمدرد اور دوست پیش کیا کرتے تھے۔
’’اس معاشرے میں ہماری بچیوں کی شادی ویسے بھی مسئلہ ہے اور یہ پردہ تو مزید رکاوٹ پیدا کرے گا۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ مگر وہ سب انگشت بدنداں رہ گئے جب سیلی کے لیے پاکستانی اور غیر پاکستانی رشتوں کے ڈھیر میں سے انتخاب اس کے والدین کے لیے مسئلہ بن گیا، اور جسے اپنی آبائی مشترک تہذیب کی بنیاد پر انھوں نے حل کیا، اور یوں اب وہ اپنے شوہر اور دو بچوں کے ہمراہ خوشگوار زندگی گزار رہی تھی اور ان سے تین گھنٹے کے سفر کی دوری پر رہتی تھی۔
صباحت جاہ اور سعید جاہ ایک سال کے وقفے سے انتقال کرگئے مگر ایک اطمینان کے ساتھ… جو اپنی اقدار اور روایات کو مستحکم دیکھ کر حاصل ہوا تھا۔ اور وہ ننھی ثومی جس نے ہوش سنبھالنے کے بعد گھر میں عملی اسلام کی شکل دیکھی تھی بارہ سال کی عمر سے ہی برضا و رغبت شرعی پردہ کرنے لگی، جس پر صباحت جاہ بہت خوش تھیں۔ ’’میں نے بھی اسی عمر سے پردہ شروع کردیا تھا۔‘‘ اور سعید جاہ چھیڑتے کہ ’’اور اگر اسے بھی تمہاری ہی طرح مجھ جیسا کوئی باذوق شوہر مل گیا تو!‘‘ اب اس عمر میں ان کو بھی اپنی حماقت کا احساس ہونے لگا تھا۔
’’نہیں! ایسا نہیں ہوسکتا!‘‘ وہ بات کاٹ کر بول پڑتیں۔ ’’اب بہت کچھ بدل گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور آن جاب تو خیر میں بھی تھی، مگر اپنے حقوق کا جیسا شعور یہ نسل رکھتی ہے، اس کے ہوتے ہوئے کوئی بھی ان کا استحصال نہیں کرسکتا۔‘‘ وہ ثومی کو گلے لگا کر کہتیں۔
آج یہی ثومی اسٹیج پر کھڑی اسلامی، نسوانی حقوق کی علم بردار بنی فکر و عمل کی راہ متعین کررہی تھی اور ہال کی آخری نشستوں پر بیٹھی ڈاکٹر رابی اپنی انیس سالہ بیٹی ثومی کو پیار سے دیکھ رہی تھیں اور سوچ رہی تھیں ’’اللہ کا وعدہ سچا ہے! جو اس کا سہارا لیتا ہے واقعی مضبوط ہوجاتا ہے! میں اس عمر میں کہاں اتنی گہری سوچ رکھتی تھی؟ واضح اور روشن راہِ عمل! سچ ہے بہت کچھ بدل رہا ہے…!‘