جوں ہی عرب جمہوریہ مصر کا نام کانوں سے ٹکراتا ہے، ایک خوبصورت، صاف ستھرے، ترقی یافتہ، فیشن ایبل اور خوشحال ملک کی تصویر ذہن میں ابھر آتی ہے۔ اور یقینا ایسا ہونا بھی چاہیے۔ کیونکہ مصری حکومت، ذرائعِ ابلاغ، بیرونی ممالک میں مصری سفارتخانے اور ثقافتی مراکز، مصری ٹیلیویژن اور سنیما، اخبارات و رسائل یہی تصویر پیش کرتے ہیں۔ لیکن اگر مصر کے اندرونی حالات کا جائزہ لیا جائے تو تیسری دنیا کے کسی بھی ملک سے کسی چیز میں بھی بہتر نہیں، بلکہ مصری عوام کی پریشانیاں اور ضرورتیں دوسرے ملکوں کے عوام سے کہیں زیادہ ہیں۔
مصر میں سہولتیں، ترقی اور خوشحالی صرف ایک طبقہ کا مقدر بنی ہوئی ہیں، اور وہ ہے حکومت کا تائیدی طبقہ جس میں وزراء، اعلیٰ عہدہ دار، جانبدار صحافی اور ادباء، سیاستدانوں کے عزیز و اقارب اور سرمایہ کار ملیں گے۔ اور ظاہر ہے یہ طبقہ مصر کی جو تصویر پیش کرے گا وہ صرف حکومتی سطح کی تصویر ہوگی۔ عوامی سطح کی تصویر اس کے بالکل برعکس ہے۔
مصری عوام سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر بالکل غیر محفوظ ہیں۔ چونکہ مصر میں جمہوریت کی جو شکل رائج کی گئی ہے، اسے درمیانی جمہوریت کہا جاتا ہے، جس میں صدرِ مملکت کے پارلیمانی انتخاب کے لیے ہر شہری کو حق رائے دہی حاصل نہیں ہوتا، بلکہ چند سیاستدانوں اور اعلیٰ سرکاری عہدہ داروں کی موافقت کو کافی سمجھا جاتا ہے، جو کہ بنیادی طور پر حکومت کے حمایتی ہوتے ہیں اور اسی طرز جمہوریت کے بل بوتے پر ’’السابقون الاولون‘‘ جمال عبدالناصر نے انیس برس، اور انور سادات نے دس برس مصری عوام پر حکمرانی کی اور آخری سانس تک صدارت کی کرسی پر براجمان رہے۔ موجودہ صدر صاحب بھی اسی جمہوری نظام کی بنیاد پر حکومت کررہے ہیں، اور کرسیِ صدارت پر قائم و دائم رہنا چاہتے ہیں۔(۱۱فروری ۲۰۱۱ء کو وہ اقتدار سے محروم ہوکر فرار ہوگئے)
پھر عوام کی رائے معلوم کرنے کا کونسا راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں کسے قیادت سونپنا چاہتے ہیں، کس قسم کی تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں۔ چند سیاستدان اور حکمراں پارٹی کے تیار کردہ اعلیٰ عہدہ دار کروڑوں انسانوں کو ان کی مرضی کے خلاف محکوم بنائے ہوئے ہیں اور جدھر چاہتے ہیں ہانک لے جاتے ہیں۔
کسی کو اظہارِ خیال کی آزادی کا حق حاصل نہیں۔ حکومت طاقت کے زور پر جاری ہے۔ بلکہ حکومت عملاً پولیس اورخفیہ پولیس کی ہے، جن کے ظلم کے بغیر حکمرانوں کا باقی رہنا ممکن نہیں، اسی لیے حکومت کی ساری سہولتیں انہی کے لیے مختص ہیں، عوام کو ہڑتال، مطالبات اور احتجاج کرنے کا بھی حق نہیں۔
مصری عوام کی معاشی حالت بھی سیاسی حالات سے کچھ مختلف نہیں۔ بلکہ مصری سیاسی پالیسی کا رنگ عوام کی معاشی پریشانیوں میں صاف نظر آتا ہے کیونکہ یہ پریشانیاں عوام کے لیے جان بوجھ کر پیدا کی گئی ہیں اس پر طرفہ تماشا یہ کہ سیاسی مطالبات تو کجا عوام کو معاشی مطالبات کرنے کا بھی حق حاصل نہیں۔
اوسط درجے کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اس قدر کم ہیں کہ بمشکل ہی گزارہ ہوسکتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ اوسط درجے کے ملازم کی تنخواہ سو سواسو مصری پونڈ ہے اور آپ بازار میں معمولی سا جوتا یا قمیص یا پتلون خریدنا چاہیں تو ۲۰-۲۵ پونڈ سے کم میں نہیں ملے گا۔ اس پر مزید دوسرے اخراجات سارے خاندان کی گزر بسر، رہائش، تعلیمی اخراجات، ٹرانسپورٹ، لباس، علاج معالجہ کی تکلیفیں اور ہر جگہ لمبی لمبی قطاریں، اس پر کمر توڑ مہنگائی اور ٹیکس، اور آئے دن اشیاء خورد و نوش کی قلت ایک عام مصری کی روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں۔
گویا عوام کو مکان، خوراک، لباس اور دوسری تکلیفوں میں مبتلا رکھنا حکومت کی ایک سوچی سمجھی تدبیر ہے، جس پر غور کرنے سے کئی باتیں واضح ہوتی ہیں، جن کا فائدہ صرف حکومت کو پہنچتا ہے اور جوحکمرانوں کی بقا کی ضامن ہیں۔
سب سے پہلے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حکومت یہ چاہتی ہے کہ عوام کی زندگی تفکرات کی نذر ہوجائے۔ اور انہیں اپنی پریشانیوں کو دور کرنے سے ہی فرصت نہ ملے۔ اس طرح وہ اپنے انسانی، جمہوری اور ملی حقوق کا مطالبہ کرنے کے قابل نہ ہوں گے اور حکمراں ملک کو جس راہ پر ڈالنا چاہتے ہیں اس میں رکاوٹ پیدا کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ اور عوام ملک کی داخلہ و خارجہ پالیسیوں میں کوئی مداخلت نہ کریں گے۔ اس طرح حکمرانوں کے سامنے میدان بالکل صاف ہوگا اور جب تک چاہیں گے حکومت کرتے رہیں گے۔
دوسری سب سے بڑی بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ عوام کو کسی بھی تنظیم سے دور رکھا جائے جو حکومت کے لیے مستقبل قریب یا بعید میں خطرہ بن سکتی ہو۔ بطورِ خاص اسلامی تنظیموں سے جن کا زور اندرونی طور پر آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے اور تمام ازموں سے بیزاری کے بعد عوام اب صرف اسلام کو ہی آخری حل مان چکے ہیں۔ اور حکومت کے سامنے جو آسان ترین راستہ ان تنظیموں کو کمزور کرنے کا ہے وہ یہی ہے کہ ہر فرد کو پریشانیوں میں مبتلا رکھے تاکہ وہ کوئی منظم طاقت بن کر نہ اٹھے۔ اس پر مزید ظلم یہ کہ ہر فرد کو اس بات کا خدشہ رہتا ہے کہ پتہ نہیں اس کے کن تعلقات، یا مطالبات یا سرگرمیوں کو بنیاد بناکر ملازمت سے علاحدہ کردیا جائے اور اس کو دہشت گردوں، بنیاد پرستوں اور انقلابیوں میں شمار کرلیا جائے۔پھر سمجھئے کہ ایک سیل بلا ہے جو ختم ہی نہیںہوتا۔
یہی وجہ ہے کہ مصری عوام کا ایک بڑا طبقہ دیندار ہونے کے باوجود اپنی طرف سے پوری کوشش کرتا ہے کہ اس کا تعلق کسی اسلامی تنظیم سے باقاعدہ نہ رہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی مبالغہ نہیں کہ اگر مصر میں آزادانہ طور پر انتخابات کرائے جائیں تو مصری مسلم عوام الجزائر کے عوام سے کسی قدر پیچھے نہ رہیں گے۔
جس طرح الجزائر کی حکمراں جماعت نے اسلامی نجات دہندہ محاذ کو اقتدار سنبھالنے سے روکے رکھا اور اس پر مصری حکومت نے خوشی اور مبارکباد ی کا اظہار کیا، ورنہ اس بات کا قوی امکان تھا کہ الجزائر کے بعد مصری عوام میں وہ شعور اور امید پیدا ہوجاتی جس کا دبانا آسان نہ ہوتا۔ اور مصر میں حکمرانوں کی نیند اس وجہ سے بھی حرام ہوچکی ہے۔ اور مصر سے کئی ماہرین کی ایک ٹولی جس میں مصر کی جیلوں میں الاخوان المسلمون کی ایذا رسانی میں مہارت دکھا چکے تھے، اب الجزائر کو مصری حکومت نے روانہ کیے۔ اور الجزائر کے حکمرانوں نے ماہرین پروپیگنڈہ کو فرانس اور دوسرے یورپی ممالک اور امریکہ سے طلب کیا۔
یہ تو تھیں مصری عوام کے معاشی اور سیاسی طور پر غیر محفوظ ہونے کے تعلق سے چند ایک باتیں۔
اب دیکھئے کہ کس طرح مسلم عوام سماجی طور پر افراتفری کا شکار بنائے جارہے ہیں اور اس معاشرہ کی بنیادیں کھوکھلی کی جارہی ہیں۔ خاندانی نظام کا خاتمہ کیا جارہا ہے تاکہ جو افراد اس معاشرہ سے نکلیں ان کی اپنی کوئی پختہ فکر رکھنے والی شخصیت باقی نہ رہے۔ بلکہ افراد ’’چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘ کے موافق ہوجائیں۔ اور حکمراں ان پر بآسانی قابو پاسکیں اور اپنی طاغوتی پالیسیوں میں کامیاب ہوتے رہیں اور مغربی طرزِ معاشرت اختیار کرکے خداوندانِ مغرب کو خوش رکھ سکیں۔ اور اس کا بھی آسان ترین اور مختصر ترین راستہ انھوں نے یہی اختیا رکیا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کو بھی سرکاری ملازمتوں میں مردوں کے برابر حقدار قرار دیا گیا اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں خواتین کا تناسب ۵۰ فیصد ہے اور اس دہے کے اختتام تک یہ تناسب ۵۶ فیصد ہوجائے گا۔
یہ بھی حکومت کی سوچی سمجھی پالیسی کا نتیجہ ہے تنخواہیں دانستہ اس قدر کم رکھی گئی ہیں کہ ایک ہی گھر کے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی کام کرنا پڑے اور اس کے بعد جو مشکلات پیدا ہوتی ہیں، وہ اس امر کا قدرتی نتیجہ ہوتی ہیں۔ معاشرہ میں ترقی کے نام پر بیہودگی، فیشن کے نام پر عریانی اور مغرب کی اندھی تقلید، آزادیِ نسواں کے نام پر استحصال نسواں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جو گود نسلوں کی بہترین پرورش اور تربیت کے لیے ہوتی ہے اسی گود کو ان نسلوں سے چھین لینا۔ پھر بھلا کیا تربیت ہوگی اور کیسی تربیت ہوگی!
لیکن ان سب کوششوں کے باوجود بڑے شہروں میں خواتین کا ایک معقول طبقہ اب بھی باپردہ ہے اگرچہ ملازم پیشہ بھی ہے اور اب مردوں اور نوجوانوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور لڑکیوں میں بھی اسلامی شعور بیدار ہورہا ہے اور یہ بیداری نئی چیز نہیں ہے بلکہ پچھلے کئی برسوں سے بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اور اس ضمن میں بطور خاص کئی سابقہ فلمی اداکاراؤں کا تائب ہوکر پردہ کا استعمال کرنا اور دعوتی سرگرمیوں میں مصروف کار ہوجانا ہے۔ جس کا اثر عام مصری خواتین پر بھی پڑا ہے اور باپردہ خواتین کا تناسب بڑھتا ہی جارہا ہے اور مصری حکومت نہیں چاہتی کہ جو ترقی اس نے کی ہے وہ تنزل اور قدامت پسندی میں تبدیل ہوجائے اور مصر مغربی دنیا کی نظر میں پردہ کی وجہ سے روایتی اور رجعت پسند کہلائے۔ اسی لیے جہاں تنخواہیں کم رکھی گئی ہیں اور عوام کو مجبور بناکر رکھا گیا وہیں خواتین کو پردے سے اور گھر سے نکالنا بھی ایک حکومتی پالیسی ہے۔
بہرحال وہ وقت اب زیادہ دور نہیں جب مسلمان مصری عوام انجام کی پروا کیے بغیر سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ اور اپنے مطالبات حکومت کے سامنے رکھ دیں گے اور اس بات کا تہیہ کرلیں گے کہ دو دو ہاتھ حکومت کے ساتھ ہوہی جائیں۔ کیونکہ مصری عوام کے ساتھ تمام عرب عوام کا اپنے اپنے حکمرانوں پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے لیکن صرف ڈنڈے کے زور پر ابھی تک باقی ہیں اور عرب عوام ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہتے ہیں کیونکہ حکمرانوں سے کوئی امید رکھنا مایوسی کے مترادف ہوگا۔
——