اذان

جیلانی بی ۔اے۔

میں ایک لمبی مدت تک جگہ جگہ پھرتا رہا، اس تلاش میں کہ شاید کوئی ایسا اللہ کا بندہ مل جائے، جو مجھے اذان کہنا سکھا دے۔ ایسی اذان جو نیند کے ماروں کو جگادے اور قوم کے منتشر اجزاء کو یکجا کردے۔
میں نے ملک کے طول وعرض میں ایک ایک مدرسہ چھان مارا، چغوں والے اور لہراتی داڑھیوں والے عالموں کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔ وہ جو ہر وقت ضخیم جلدوں میں مستغرق رہتے ہیں، وہ جن کے سامنے عام انسانی زبان بات کرتے لڑکھڑاتی ہے، میں نے ان سے درس لیا اور انھوںنے مجھے علم سے اس قدر بھردیا کہ میرے دل میں جذبات کے لیے کوئی جگہ نہ رہی۔ اور جب میں اذان دینے کے لیے اٹھا تو میری آواز میں خشونت پیدا ہوگئی اور جب میں نے مزید کوشش کی تو وہ بھرا کر بالکل بیٹھ گئی، صرف ایک شخص مجھے ملا۔
اس قہوہ خانے میں شام کے وقت ملاقات ہوئی۔ وہ میرے بالمقابل آن کر بیٹھ گیا۔ اگرچہ اس کے پاس کوئی کتاب نہ تھی اور اس کی داڑھی میں لہریں نہ تھیں، تاہم ایک اندرونی حکم نے مجھے اکسایا کہ میں اس کے سامنے اپنا دامن سوال پھیلاؤں اور میں نے ایسا ہی کیا۔
وہ مسکرا پڑا اور اس کے موتیوں کے سے سفید دانت چمکے وہ اٹھا اور مجھے بازو سے پکڑا اور اپنے ساتھ باہر لے گیا۔ ہم بازاروں، گلیوں اور شاہراہوں سے گزرتے ہوئے دریا کے کنارے جاپہنچے۔
وہاں وہ مجھ سے ہم کلام ہوا :’’تم اذان سیکھنا چاہتے ہو؟‘‘’’ہاں‘‘’’مگر کیا تم سب سے پہلے مؤذن کو جانتے ہو؟‘‘ میں نے اپنی بے بضاعتی کا اظہار کیا۔
’’تو سنو۔‘‘ اس نے کہا ’’حبشی تھا، اور وہ اپنے آقا سے والہانہ عشق رکھتا تھا۔ ایسا عشق جو تم نے قصوں میں نہ پڑھا ہو۔ اس عشق سے کہیں بالا،جسے عام لوگ جانتے ہیں۔ جب وہ اپنے آقا سے دور تھا تو وہ اس کے پاس پہنچنے کے لیے تڑپتا۔ وہ شاہراہ کے موڑ پر بیٹھ جاتا اور حسرت بھری نگاہوں سے اس شاہراہ کو دیکھتا، جو اس کے شہر کو جاتی۔ اس نے عمر عزیز کی قیمتی راتیں رونے میں گزاردیں۔ اور جب وہ اپنے آقا کے پاس پہنچ گیا تو اس کی حالت رونے سے بدتر ہوگئی۔ اس کی وجہ میں اور تم نہیں سمجھ سکتے۔ اور اس کا آقا، تم جانتے ہو، دنیا کا حسین ترین انسان تھا، لیکن وہ اس سے بے پناہ محبت کرتا۔ کیونکہ وہ حق شناس تھا پھر اس کے محبوب نے اسے سرفراز کیا اور اسے اپنا پیغام نشر کرنے کے لیے مقرر کیا۔ مسجد کے صحن میں کھڑا ہوکر وہ لوگوں کو پکارتا۔ وہاں وہ نور کی طرح دکھائی دیتا۔ وہ لوگوں کو زندگی کا بنیادی راز بتاتا او رانہیں دارالاسلام کی طرف مدعو کرتا۔ ایسے طرز میں کہ کوئی دل اس کا مقابلہ نہ کرسکتا۔ کوئی کان اس کو اندر گھسنے سے نہ روک سکتا۔ وہ پلٹنے کی کوشش کرتے، مگر ان کے قدم خود بخود اس آواز کی طرف اٹھے چلے جاتے اور جب وہ ان الفاظ پر پہنچتا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میرا آقا بڑے بادشاہ کا سچا پیامبر ہے… تو وہ انگشت شہادت سے اپنے محبوب کی طرف اشارہ کرتا۔ اس پر عالم وارفتگی طاری ہوجاتا اور اس کا محبوب مسکراپڑتا۔‘‘
’’پھر ایک دن وہ آیا جب غلام اکیلا رہ گیا اور اس کا آقا بڑے بادشاہ کے پاس چلا گیا۔ تواس نے اپنی صدا بند کردی۔ دنیا اس آواز سے اس قدر مانوس ہوچکی تھی کہ جب لوگوں نے وقت مقررہ پر اس کی آواز نہ سنی تو انھوں نے محسوس کیا گویا ان کی زندگیوں کی کوئی قیمتی شے گم ہوگئی ہے۔ ان سب نے اس سے درخواست کی کہ ایک بار ، صرف ایک بار وہ پھر وہی تھرتھراتی آواز بلند کرے۔ مگر نہیں، جواب کی بجائے آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ انھوں نے مجبور کیا تو اس نے اپنی لرزتی ہوئی آواز کو ابھارا۔ اس کی بھیگی ہوئی آنکھیں افق کی جانب اٹھی ہوئی تھیں۔ گویا کہ وہ پہاڑی پر کھڑے اپنے آقا کا محل دیکھ رہا ہو۔ اور وہ ان الفاظ پر پہنچا ’’میں گواہی دیتا ہوں، میرا آقا بڑے بادشاہ کا سچا پیامبر ہے۔‘‘ تو اس نے انگلی اٹھا کر اپنے محبوب کی طرف اشارہ کیا، مگر وہ وہاں نہیں تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے تاریکی چھا گئی اور وہ لڑکھڑاتا ہوا نیچے گرپڑا اور… اس کا دل ریزہ ریزہ ہوگیا تھا۔‘‘
میرے دل میں جذبات کی لہر ابھر رہی تھی۔ میں نے دیکھا میرا ساتھی دور دیکھ رہا تھا، جہاں چھوٹی چھوٹی کشتیاں دریا میں افق کے کنارے تیر رہی تھیں۔ اس سے پرے ایک مسجد کے دو بلند مینار آسمان کے سینے میں کھبے ہوئے تھے۔ اور ان کے اوپرسفید چاند تھا، ہمارے کانوں میں شام کی اذان کی آواز آئی۔
’’بالکل بے اثر‘‘ اس نے کہا ’’ان کے پیٹ اور جیبیں پُر ہیں، لیکن دل خالی ہیں، خالی برتن کی طرح۔ وہ بھوکے اورغریب تھے، مگر اُن کے دل میں سوز تھا۔ انھوں نے اپنے سر سے دنیا کی خاک جھاڑ دی اور اپنے گوہر مقصود کو پالیا۔‘‘
’’کاش میںاس آوازکو سن سکتا۔‘‘ میں نے سرد آہ بھر کر کہا۔
’’چاند کی پہلی رات جب ہلال، آسمان پر باریک ناخن کی طرح نمودار ہوتا ہے تو صحرا سے میٹھی ہوا اٹھتی ہے، جو کھجور کے پتوں میں سے ترنم پیدا کرتی ہوئی گزرتی ہے۔ اگر تم غور سے سنو تو شاید تم بھی اس ترنم میں وہ آواز سن سکو۔‘‘’’کیا میں سن سکتا ہوں؟‘‘ میں نے بے تاب ہوکر پوچھا۔’’ہاں اگر تم متاع دنیا سے بے نیاز ہو اور دل میں درد رکھتے ہو۔ ‘‘ اس نے کہا۔ میں خاموش ہوگیا۔ ہم کچھ وقفہ بیٹھے رہے پھر یکایک وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’آؤ چلیں۔‘‘ ہم پھر قہوہ خانے کے سامنے کھڑے تھے۔’’اچھا دوست اب میں اجازت چاہتا ہوں۔ میں نے تمہارا کافی وقت ضائع کیا۔‘‘ ’’بالکل نہیں میرے دوست۔ مگر کیا تم مجھے اذان دینے کا وہ طریقہ بتاؤگے؟‘‘
’’کیا تم کو ابھی تک معلوم نہیں ہوا۔‘‘ پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑے ہوئے مصافحہ کیا اور وہ تین ڈگ بھر کر بھیڑ میں گم ہوگیا۔
میرا دل بے قرار ہوگیا۔ میں نے سوچا وہ طریقہ کبھی نہ حاصل کرسکوں گا۔ میں نے اسی وقت عازمِ وطن ہونے کا ارادہ کیا۔ جب جیب ٹٹولی تو تمام نقدی غائب، میں نے اس کا نام بھی نہ پوچھا تھا۔ میں تیزی سے اس جانب لپکا جدھر وہ گیا تھا۔ سب بے سود۔
’’دھوکے باز‘‘ میں نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
میں اس بڑے شہر میں بے یارومددگار تھا۔ اس لیے اس رات مجھے بھوکے ہی کسی مسجد میں گزارنا پڑی۔
نماز فجر کے وقت اذان کے لیے میں نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ جب میں نے اذان کہی تو لوگوں نے کہا ’’انھوں نے اس سے پہلے کبھی ایسی اذان نہ سنی تھی۔‘‘
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146