دوسرے کو اپنے سے حقیر نہ جانو

محمد دانش غفار بجنوری

وعن سعد بن ابی وقاصؓ کنا مع النبی ﷺ: ستۃ نفر۔ فقال المشرکون للنبی ﷺ اطرد ہؤلاء لا یجترلون علینا وکنت انا وبن سعود ورجل من ہذیل وبلال ورجلان لست اسمیہا فوقع فی نفس رسول اللّٰہ ﷺ ماشاء اللہ ان یقع فحدث نفسہ فأنزل اللّٰہ تبارک و تعالیٰ ولا تطرد الذین یدعون ربہم بالغدو والعشی یریدون وجہہٗ۔
ترجمہ:’’حضرت سعد ابی وقاصؓ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ چھ آدمی تھے، پس مشرکوں نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ ان کا نکال دیجیے تاکہ یہ لوگ ہم پر جرأت نہ کرسکیں اور میں تھا اور ابنِ مسعود اور ایک آدمی ہذیل سے اور بلالؓ اور دو آدمی تھے جن کا نام مجھے معلوم نہیں پس گزری آپﷺ کے دل میں جو اللہ نے چاہا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ نہ نکالو ان لوگوں کو جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں اور اس کی رضا چاہتے ہیں۔‘‘
اس حدیث کے اندر کچھ باتیں قابلِ غور ہیں ایک تو یہی کہ کسی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے، اس لیے اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’فلم یرحم صغیرنا ولم تؤقر کبیرنا فلیس منا۔‘‘ جو چھوٹوں پر اور ناتواں لوگوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کی عزت وتوقیر نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ اس کے ساتھ ساتھ اسلام اونچ نیچ اور ذات پات کے بندھنوں کو بھی پاش پاش کردیتا ہے اور اس پر بے دریغ وار کرتا ہے۔ تبھی تو اللہ کے نبی ﷺنے ارشاد فرمایا: لا فضل لعربی ولا عجمی ولا لعجمی ولا عربی الا بالتقویٰ کلکم من آدم وآدم خلق من التراب۔ ’’نہ تو کسی عربی کو عجمی پر اور نہ کسی عجمی کو عربی پر فضیلت ہے مگر تقویٰ کے ذریعہ اور تم سب آدم سے ہو اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔‘‘ تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی نظروں میں بلند و برتر وہ ہے جو اعمالِ صالحہ سے اپنے دامن کو بھرلے اور یہی وجہ تھی کہ جب ایک قریشی شخص قافلہ ایمان میں شامل ہوتا تو وہ حضرت بلالؓ کو جو حبشی غلام تھے سید اور آقا کہہ کر پکارتا نظرآتا تھا۔
بات دراصل یہ ہے اور تاریخ کے اوراق سے یہ جواب مناسب و موزوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کمزورں ناتواں لوگ حلال روزی کھاتے ہیں اور حلال روزی سے قلوب سیاطع اور منور ہوتا ہے اور سچی بات کی طرف بھی وہی لوگ لپکتے ہیں جن کا دل روشن ہو اور وہ موتی کی طرح جگمگاتا ہو کیوںکہ ایمانایت اور شیطینیت کبھی بھی یکجا نہیں ہوسکتی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے اور مظلوم کی آہنوں کی حدیں پاش پاش ہوجاتی ہیں تو سماج کے لوگوں میں سے کوئی ایسا آدمی اٹھتا ہے جو ان کو صراطِ مستقیم کی منادی لگاتا ہے اور یہ پکارتا ہے کہ اس کے اندر ظلم نہیں بلکہ مظلوموں کا انصا ف ہے اور اس میں ظالم کو سزا کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور اس میں بالاو برتر کا بھی بھید بھاؤ نہیں بلکہ یہاں تو یکجہتی کا آب رواں ہے اور اخوت و مساوات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔ تو لوگ ظالم کا ساتھ چھوڑ کر اور مظلومیت کی زندگی کو تیاگ کر اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے سماج کا وہ طبقہ جو سب سے زیادہ کم تر سمجھا جاتا ہے وہ اعلیٰ مقام پر فائز ہوجاتا ہے۔ اسی کو دیکھ کر کفار و مشرکین کہتے کہ اپنی نشست سے ان رذیل اور کم ظرف لوگوں کو ہٹاؤ تو ہم ایمان میں داخل ہوں گے ورنہ نہیں تو قرآن نے ان کی بات کا دوٹوک لفظوں میں رد کرتے ہوئے کہہ دیا کہ
ولا تطرد الذین یدعون ربہم بالغدو العشی یریدون وجہہ۔
کہ یہ اے محمدﷺ آپ سے ان کو دھتکارنے کی بات کہتے ہیں تو ان کو اپنے پروردگار کا فیصلہ صاف صاف سنادو کہ جو لوگ اپنے پروردگار کو صبح و شام پکارتے ہیں تم ان کو رذیل کہتے ہو بلکہ وہ تو اپنے پالنہار کی رضا و خوشنودی چاہتے ہیں اور ایک دوسری جگہ کہا گیا ہے کہ ’’انما المؤمنون اخوۃ۔‘‘ یقینا مومن تو بھائی بھائی ہیں اور یہ بات صاف و عیاں ہے کہ بھائی بھائی کوئی بھی اونچ نیچ کا درجہ نہیں رکھتا لیکن جب ہم ان قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کے تحت اپنا موازنہ کرتے ہیں تو ہم اس میں صفر نظر آتے ہیں۔
——

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں