سیاہ نقاب

تحریر: چارلس ڈکنس تلخیص و ترجمہ: صائمہ عزیز

یہ قصہ ہے ۱۸۰۰ء کے جاڑے کے موسم کی ایک شام کا۔ ایک نوجوان سرجن ڈاکٹر نے پرائیویٹ پریکٹس شروع کرنے کے لیے نواحی علاقہ میں دوکمروں کی ایک چھوٹی سی کلینک بنائی اور ایک لڑکا ملازم رکھا تاکہ وہ بازار سے دوائیں لے آئے اور جب مریض آئے تو سرجن کو اطلاع کردے۔
آج کلینک کا پہلا دن تھا۔ سرجن اپنے پہلے مریض کا انتظار کررہا تھا۔ آتش دان میں آگ سلگ رہی تھی اور وہ باہر پڑتی ہوئی بارش کا شور سن رہا تھا۔ ٹھنڈ بڑھتی جارہی تھی۔ وہ اپنے خیالات میں غرق تھا کہ ملازم نے ایک خاتون کے آنے کی اطلاع دی۔ سرجن چونک کر اپنی کرسی پر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔ اس نے دروازے کی طرف دیکھا کہ ایک دراز قد عورت سوگ کا سیاہ لباس پہنے دروازے کے شیشے سے بالکل چپک کر کھڑی تھی۔ وہ اپنے چہرے پر نقاب ڈالے ہوئے تھی۔
’’برائے مہربانی اندر آجاؤ۔‘‘ سرجن نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی ایک کرسی آتش دان کے قریب کھینچی اور عورت سے بیٹھ جانے کو کہا۔ سرجن نے دیکھا کہ عورت کا گاؤن کیچڑ سے لتھڑا ہوا تھا۔ لگتا تھابہت دور سے چل کر آئی ہے۔
’’تم بہت بھیگ گئی ہو اور شاید بیمار بھی ہو۔‘‘
’’ہاں بہت بیمار‘‘ عورت نے جواب دیا: ’’مگر جسمانی نہیں بلکہ ذہنی طور پر۔ اس وقت میں اپنے لیے نہیں بلکہ کسی اور کے لیے آپ سے مدد مانگنے آئی ہوں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب اس کے لیے ہر قسم کی مدد کی کوشش بے کارہے۔ شاید میں پاگل ہوگئی ہوں۔ مجھے نظر آرہا ہے کہ اب سب کچھ بے سود ہے مگر پھر بھی میرا دل نہیں مانتا کہ بغیر آخری کوشش کیے ہوئے اس کو قبر میں اتار دوں۔‘‘ سرجن نے دیکھا کہ یہ کہتے ہوئے اس عورت کا پورا جسم کانپ رہا تھا۔ عورت کی اس کیفیت نے سرجن کو فکر میں ڈال دیا۔
’’وہ شخص جس کی آپ بات کررہی ہیں اگر اس قدر بیمار ہے تو میں ابھی آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہوں۔‘‘ سرجن نے ہمدردی سے کہا۔
’’جو کچھ درپیش ہے وہ میں آپ کو سمجھا نہیں سکتی، جبکہ وہ مجھے مار ڈالنے کے لیے کافی ہے۔‘‘ عورت نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا۔
عورت کی بے ربط باتیں سرجن کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ ’’جو کچھ آپ نے کہا ہے اور جس واقعہ کو آپ خفیہ بھی رکھنا چاہتی ہیں اس پر اظہارِ رائے بے کار ہے۔ آپ کے کہنے کے مطابق کوئی شخص ہے جو آج رات مرجائے گا اور کوئی اس کی مدد بھی نہیں کرسکتا، اگرچہ یہ امکان سے باہر بھی نہیں ہے۔ اگر کل تک ہرکوشش بے کار ہوگی تو کیوں نہ آج ہی اس کی زندگی بچانے کی کوشش کرلی جائے۔‘‘ سرجن نے عورت کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’مگر آپ اسے کل ہی دیکھ سکیں گے۔‘‘ عورت نے روتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ آپ پتا چھوڑ جائیں میں صبح آکر اس کا معائنہ کرلوں گا، جتنے سویرے بھی آپ کہیں۔‘‘
’’صبح نو بجے۔‘‘ عورت نے کہا۔
سرجن نے مقررہ وقت پر پہنچنے کا وعدہ کیا اور وہ عورت ایک غیر معروف مقام کا پتا سمجھا کر چلی گئی۔ اس عجیب اور پُراسرار ملاقات نے سرجن کو بہت متعجب کیا، وہ اس گتھی کو سلجھانے کے لیے گہری سوچ میں پڑگیا۔
کبھی کبھار ایسا ہوتا تو ہے کہ کسی کو اپنی موت کا پہلے سے گھنٹے اور منٹ کے تعین کے ساتھ علم ہوجاتا ہے، مگر ایسا کسی کو اپنی ذات کے بارے میں ہوتا ہے جب کہ یہ عورت اپنا نہیں بلکہ کسی اور کا ذکر کررہی تھی۔
ایسا بھی نہیں لگتا کہ اس نے کوئی خواب دیکھا ہو، یا کسی نشہ آور چیز کے زیرِ اثر ہو، یا کسی دماغی بیماری میں مبتلا ہو۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ آج کی رات کسی کا خون کیا جانے والا ہو اور یہ عورت بھی شریکِ جرم ہو اور پھر اس کو ترس آگیا ہو یا خوف زدہ ہوگئی ہو۔ ہونے والے جرم کو روکنے سے تو قاصر ہو مگر سوچتی ہو کہ پہلے سے طبی امداد کا انتظام کررکھے تو شاید مرنے والے کو بچالے۔ سوچ سوچ کر سرجن کا دماغ تھک گیا۔ وہ سونے کی کوشش کرنے لگا۔ بے چینی سے کروٹیں بدل کر سیاہ نقاب کو اپنے ذہن سے دور کرنے کی کوشش میں لگا رہا۔
ویل ورتھ(Well Worth) ایک نواحی علاقہ ہے جہاں کا پتا اس عورت نے دیا تھا۔ شہر سے بہت دور ایک بدحال اور اجا ڑ جگہ۔ صبح سویرے ہی سرجن وہاں کے لیے روانہ ہوگیا۔ راستہ کی جھاڑیاں، ٹوٹی پھوٹی جھونپڑیاں، جگہ جگہ ٹھہرے ہوئے پانی کے گندے بدبودار گڑھے، پچھلی رات کی بارش کی وجہ سے ہر طرف کیچڑ… یہ سب سرجن کے فکر و تردد میں اضافہ کررہے تھے۔
آخر سرجن منزلِ مقصود پر پہنچ گیا۔ اس کے سامنے ایک بوسیدہ چھوٹی سی عمارت تھی۔ اوپر ایک کمرہ نظر آرہا تھا۔ بادل ابھی تک گہرے تھے۔ مکان اور آس پاس بجلی بھی نہیں تھی۔ سرجن کو خوف محسوس ہوا مگر خوف پر قابو پاکر اس نے آہستہ سے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے دبی زبان میں کھسر پھسر سنائی دی۔ دروازہ کھلا اور ایک لحیم شحیم کالے گھنے بال اور کالی رنگت والا آدمی نمودار ہوا، اس نے سرجن کو اندر آنے کے لیے کہا۔ جب سرجن کمرے میں داخل ہوگیا تو وہ آدمی اپنے پیچھے دروازہ بند کرکے کہیں چلا گیا۔
کمرہ بہت تاریک اور سیلن زدہ تھا۔ آتش دان میں آگ روشن تو تھی لیکن کمرے کی خنکی کم کرنے کے لیے ناکافی تھی۔ گھر کے اندر اور باہر مکمل خاموشی تھی۔ کمرے میں دو پرانی کرسیاں پڑی تھیں۔ ان میں سے ایک پر سرجن بیٹھ گیا۔ چند منٹ بعد کسی گاڑی کے آنے کی آواز آئی۔ دو یا تین آدمی کوئی بھاری چیز اٹھا کر سیڑھیاں چڑھے۔ پھر لوگوں کے واپس سیڑھیاں اتر کر جانے کی چاپ سنائی دی۔ دروازہ بند ہوا اور پھرپہلے جیسا سناٹا چھا گیا۔ کچھ ہی دیر بعد وہی عورت چہرے پر سیاہ نقاب ڈالے آئی اور سرجن کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور ایک اندرونی کمرے میں لے گئی۔
کمرے میں معمولی سی روشنی کھڑکی کے پردے کے پیچھے سے آرہی تھی۔ وہ عورت اس کمرے میں ایک پلنگ کی طرف لپکی اور دوزانو ہوکر پٹی سے لگ کر بیٹھ گئی۔ سرجن کو پلنگ پر چادروں سے ڈھکا ہوا ایک بے حس وحرکت جسم جو ایک مرد کا تھا، دکھائی دیا۔ اس کا صرف چہرہ کھلا ہوا تھا۔ سر اور ٹھوڑی کے گرد پٹی بندھی ہوئی تھی۔ آنکھیں بند تھیں۔ ایک بے جان ہاتھ ایک طرف لٹکا ہوا تھا۔ اس ہاتھ کو عورت نے بڑی محبت سے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ سرجن نے آہستہ سے عورت کو ایک طرف ہٹا کر اس بے جان ہاتھ کی نبض چیک کی۔
’’یہ تو مرچکا ہے۔‘‘ سرجن نے کہا۔
عورت بے قراری سے اپنے ہاتھ ملنے لگی۔ اس کے آنسو بہہ رہے تھے۔ ’’یہ مت کہو، خدا کے لیے یہ مت کہو۔ میں برداشت نہیں کرسکتی۔ اس سے پہلے بھی ایسا ہوا ہے کہ طبی مدد سے بعض مردہ قرار دیے گئے لوگوں کو واپس زندگی کی طرف لوٹا دیا گیا ہے۔ تم بھی کوشش کرو۔ اس کو مرنے مت دو ۔پلیز کچھ کرو۔‘‘
’’آپ مجھے معائنہ کرنے دیں۔ اس کی موت طبعی معلوم نہیں ہوتی۔‘‘
یہ کہتے ہوئے سرجن تیزی سے کھڑی کی طرف بڑھا اور پردے ہٹا دیے۔ دن کی روشنی اندر آنے لگی۔ سرجن مردہ شخص کے قریب آگیا۔ اس نے پہلی بار عورت کے بے نقاب چہرے کی طرف دیکھا اور کہا ’’اس پرتشدد ہوا ہے۔‘‘
چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ عورت کس قدر تکلیف سے گزری ہوگی۔ اشک باری کے سبب چہرہ بے رنگ اور پیلا پڑ گیا تھا۔ ہونٹوں پر اعصابی کھنچاؤ اور آنکھوں میں سرخی اس کی اندرونی تکلیف کی غماز تھی۔
’’یہ بات یقینی ہے کہ اس پر تشدد ہوا ہے۔‘‘ سرجن نے اپنی بات دوہرائی۔
’’ہاں اس کو قتل کردیا گیا ہے۔ انتہائی بے رحمی اور ظلم سے ماردیا گیا ہے۔ عورت نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’ظالم قصائیوں کے دیے ہوئے اس گھاؤ کو دیکھو۔‘‘
سرجن نے مردہ شخص کے چہرے سے چادر کو نیچے کیا تو دیکھا کہ اس کا گلا سوجا ہوا تھا اور گردن کی گولائی میں بہت گہرا زخم تھا۔ یہ دیکھ کر سرجن پر پوری حقیقت واضح ہوگئی۔
’’یہ ان آدمیوں میں سے ایک ہے جن کو آج صبح پھانسی دی گئی ہے، مگر اس سے تمہارا کیا تعلق ہے؟‘‘ سرجن نے عورت سے سوال کیا۔
’’یہ میرا بیٹا ہے۔‘‘ عورت نے بمشکل جواب دیا اوربے ہوش کر گرپڑی۔
حقیقت اس طرح تھی کہ اس عورت کا بیٹا کسی جرم کی پاداش میں گرفتار ہوا تھا اور پھانسی کی سزا ہوگئی تھی جس پر آج عمل درآمد بھی ہوگیا۔
یہ کہانی بھی عام طور پر پیش آنے والی کہانیوں کی طرح ہی تھی کہ ایک بیوہ ماں جس کے پاس نہ پیسہ، نہ دوست، نہ کسی رشتہ دار کی سرپرستی… اپنے بیٹے کی ضرورت اور شوق کو پورا نہ کرسکتی تھی۔ بیٹا جوان ہوا تو ماں کی محبت، مشقت، دکھ درد سب نظر اندازکرکے جرائم پیشہ لوگوں میں شامل ہوگیا، جس کا نتیجہ یوں ہی نکلنا تھا کہ اس کے لیے تختہ دار اور ماں کے لیے غم، شرمندگی اورلاعلاج مرضِ دیوانگی۔
اس کے بعد کئی سال تک جبکہ لوگ عام طور پر اپنے روز مرہ کے کاموں میں مشغول ہوکر یہ یاد بھی نہیں رکھتے کہ کوئی اتنی ضرورت مند ہستی بھی ان کے درمیان موجود ہے، نوجوان سرجن نے اس پاگل اور بے سہارا عورت کو فراموش نہیں کیا۔ خیریت دریافت کرنا، اس کی ضروریات کا خیال رکھنا سرجن نے اپنا معمول بنالیا۔ وہ اجنبی عورت جب بھی ہوش و حواس میں ہوتی تو سرجن کے لیے دل سے دعا کرتی جو عرشِ معلی سے قبولیت پاتی۔ انہی دعاؤں کی بدولت سرجن نے لاتعداد نعمتیں پائیں۔ اپنی تمام کامیابیوں کے لیے سرجن اس سیاہ نقاب کا شکر گزار رہا۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146