کافی عرصے بعد میرا وطن آنا ہوا تھا۔ دل میں تہیہ کرکے آیا تھاکہ کم از کم اِس باراپنے لئے زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا خرید ہی لوںتاکہ اگلی باراُس پر ایک مکانk کی بنیاد رکھ سکوں۔ ہم عصر ساتھیوں کی تقلید میںمیرے دل میں بھی پچھلے کچھ عرصے سے اپناایک نجی مکان بنوانے کی شدید خواہش انگڑائی لے کراُٹھی ہے۔
نجی مکان کی بات ہی کچھ الگ ہوتی ہے ۔ بفضلِ تعالیٰ میںنے اپنے خویش و اقارب کو زندگی کی ہر خوشی سے روشناس کروا یاہے اب اُن کو نجی مکان کا سکھ بھی دینا چاہتا ہوں۔
ابو ایک اسکول ٹیچر تھے۔ہم سب کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کراناہی اُن کا نصب العین تھاجس کے لئے ابو اور امی نے اپنی ہر خوشی قربان کر دی تھی۔ میںاپنے خاندان کا سب سے بڑا چشم و چراغ ہوں۔ بچپن سے میری خواہش تھی کہ ابو کا بوجھ اپنے کندھوں پر لے لوں ۔
میں نے پچھلے کئی برسوں سے اپنے گھر سے دور خلیجی ممالک میں نوکری کی ہے ۔خوب سے خوب تر کی تلاش میں کئی کمپنیاں تبدیل کرتے ہوئے ہمیشہ ہاتھ بھر کرپیسہ کمایا ہے ۔بڑی بہن کی شادی، چھوٹی بہن کی تعلیم اور شادی خانہ آبادی، پھر چھوٹے بھائی کی تعلیم ، سب سے مقدم فریضہ امی اور ابوکو حج کی زیارت کروانے کے بعد اپنے لئے بھی کچھ بنا نے کی آرزو میں جب بھی اِدھر آنا ہوامحض دلالوں کے چکر میں وقت کٹ گیا لیکن گوہرِ مقصود ہاتھ نہ لگا۔اِس طرح دل کاارمان دل میں لئے خالی ہاتھ واپس لوٹتا رہا ہوں۔
بہر کیف جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی کہ میں کچھ پیسہ ملکیت یا جائیداد خریدنے میں لگانا چاہتا ہوں توایک بار پھرنہ جانے کہاں کہاں سے ہمدرد و رہنماکی شکل میں ایجنٹ اُبل پڑے۔صبح ہونے کی دیر ہوتی کوئی نہ کوئی دروازے پر حاضرہتا۔دراصل ہر کوئی فوراََسودا کرواکے اپنا کمیشن بٹورنے کی دھن میں ابھی اور اِسی وقت ساتھ لے چلنے کا متمنی ہوتا ورنہ اُس کے مطابق ایک انوکھاچانس ہاتھ سے نکل جانے کا خدشہ رہتا۔
اِسی افرا تفری میں اُس نا معقول ایجنٹ کی باتوں میں آکر اِس علاقے میں آگیا تھا۔زمین خریدنا تو دور رہا اِس گندے اور پچھڑے علاقے میں سانس لینا بھی میرے لئے دوبھرہو رہا تھا۔ ابھی ناشتہ بھی نہیں کیا تھا،مارے بھوک کے آنتیں قُل ھُواللہ پڑھ رہی تھیںلِہٰذا جلد ازجلد گھر پہنچنا چاہتا تھا۔۔بہ آوازِ بلند اُس ایجنٹ کو کوستا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا چلا جارہا تھاکہ کسی نے پیچھے سے میرانام لے کر پکارا۔ آواز زنانی تھی۔چونکتے ہوئے مڑ کر دیکھا ۔۔۔۔ایک جوان عورت بچے کو کمر پر اُٹھائے ہوئے کھڑی تھی ۔ اِظہارِشناسائی و پُر جوش انداز میںمسکرا کر ہاتھ ہلا ئے جارہی تھی۔
جس مکان کے داخلی دروازے میںوہ کھڑی ہوئی تھی وہ ایک تین منزلہ عمارت تھی جو ایک مختصر سی جگہ پر کھڑی کردی گئی تھی۔میں نے ہتھیلی کا سائبان بناکر اپنی آنکھوں پر رکھتے ہوئے اوپر دیکھا ۔ اُس مکان کی سب سے اوپری منزل پر گہرے سبز رنگ کی ایک بہت بڑی تختی آویزاں تھی جس پر سفید حرفوں میں لکھا ہوا تھا’’بابا نوازو کا آستانہ‘‘ نیچے قوسین میں لکھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔مجبور، مظلوم،و غریبوں کے ہمدرد، اِنسانی زندگی کے ہر مسئلے کا حل بتانے والے، ہر ایک بیماری کے معالج بابا کے مرید بن کر فیض اُٹھایئے۔
یہ نام مجھے جانا پہچانا سا لگااور اُس عورت کا چہرہ بھی کچھ شناسا لگ رہا تھا۔ مارے تجسس کے میں نے اپنا رُخ اُس کی طرف موڑ دیا۔قریب پہنچتے ہی وہ لہک کر بولی۔
’’تم طارق ہی ہونا؟‘‘
پھر احتیاطََ اِر دگرد دیکھتے ہوئے کہا۔’’میں رضیہ، تمہارے دوست نوازو کی بہن ۔کچھ یاد آیا؟‘‘
دراصل اُسے پاس سے دیکھا تو مجھے سب کچھ یاد آگیا۔ اب سے برسوں پہلے ہمارا آبائی گھر جس گلی کے نکڑ پر تھا اُس گلی کے اندر ایک چھوٹے سے گھر میں انور ٹھیلے والے اپنی دو عدد بیویوں اور نو بچوں کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ چھوٹے بچے دن بھر گلی میں ننگ دھڑنگ گھومتے رہتے تھے ۔ سب سے بڑا لڑکا نوازالرحمن میرا ہم عمر اور تعطیل کے دنوں کا دوست تھا۔ اُن دنوں اُس کے بابا کو ٹھیلہ دھکیلنے کے لئے ایک سہارے کی ضروت تھی اِس لئے چوتھی جماعت کے بعد اُس نے اسکول آنا چھوڑ دیا تھا۔لیکن ہماری دوستی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔
بچپن کے وہ سہانے دن ۔ امتحان ختم ہونے کے بعد گرمیوں کی تعطیل۔ جیسے ہی ابوکسی کام سے گھر سے نکل جاتے۔ ماں کو جھانسہ دے کر ہم چپکے سے گیند بلا تھامے قریبی میدان میں کرکٹ کھیلنے کے لئے نکل پڑتے۔ وہ بے حد باتونی تھا۔ جب تک وہ ساتھ ہوتا ہم سب کھیلتے کم اور باتیں زیادہ کرتے تھے۔وہ دنیا جہاں کے قصے سنایا کرتا تھااور ہم سب حیرت سے منہ کھولے اُس کی لن ترانیاں سنتے رہتے ۔ حقیقتاََ دن بھرگلی گلی گھومنے کی وجہ سے ہمارے مقابلے میں وہ کافی تجربے کار اور چرب زبان بھی ہو گیا تھا۔
پر لیا تھا وہ یہاں سے کافی فاصلے پر تھا۔ لہٰذا وہاں منتقل ہو جانے کے بعد پھر کبھی ہمارااُس گلی میںآنا نہیں ہوا۔حصولِ تعلیم و تلاشِ معاش کی جستجو میں اِس قدر کھو گئے کہ پرانی باتیں خواب ہو کر رہ گئیں۔
عمارت کے داخلی دروازے کے ساتھ اوپری منزل کو جانے کیلئے سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں جس کے ذریعے کوئی نیچے آرہا تھا۔ اُسے دیکھتے ہی میںپہچان گیا ۔وہ نواز کا چھوٹا بھائی فضل الرحمان تھا۔ شاید اُس نے مجھے نہیں پہچانا اور ایک ملاقاتی سمجھ کر سلام اور مصافحہ کرتے ہوئے اوپر چلنے کی استدعا کی۔ میں نے رضیہ کی طرف دیکھا ۔اُس نے معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے آگے بڑھنے کا اِشارہ کیا۔بہر کیف تنگ سی سیڑھیوں کے ذریعے ہم اوپر پہنچ گئے ۔ اوپری منزل پر صرف ایک ہال اور کونے میں ایک چھوٹا سا کمرہ بنا ہوا تھا۔ہال بہت بڑاتھا۔اندرعود اور اگر بتیوں کا خوشبو دار دھواں فضا میںچکرا رہا تھا۔زمین پر قالین بچھا ہوا تھا۔ بیچوں بیچ دیوار سے لگا کرایک تخت بنا یاگیا تھا جس پر ایک با ریش بزرگ ہرا جبہ اور کالا تہبند زیب تن کئے ہوئے بیٹھے تھے ۔ سرمے سے سنی ہوئی لال لا ل آنکھیں،گلے میں کہروبہ کے علاوہ کئی قسم کے پتھروں کی مالائیںاور انگلیوں میں انگوٹھیاںپہنے ہوئے تھے۔ بغور اُنہیں دیکھتے ہی مجھ پر چودہ طبق روشن ہو گئے ۔ وہ بابا کوئی اور نہیں میرا بچپن کا یار نوازالرحمٰن یعنی نوازو تھا۔
پوراہال عقیدتمندوں سے بھرا ہوا تھا۔ کافی تعداد میں عورتیں کچھ مرد اور بچے بھی تھے۔اچانک اُس نے آنکھیں کھولیں ۔اپنے آگے دوزانو بیٹھی ہوئی عورت کو گھورتے ہوئے اپنی مٹھی کھول کر ایک تعویذ اُس کی ہتھیلی پر دھر دیا اوربا رعب آواز میں اُسے بچے کے گلے میں پہنانے کو کہا ۔اگلے پل مجھے دنگ رہ جانا پڑا کیونکہ وہ عورت مارے احسان مندی کے فوراََ اُس کے آگے سر بسجود ہو گئی تھی ۔مجھ سے رہا نہیں گیااوربے حد تلخ لہجے میں اُس کے بھائی فضلو سے بولا ۔
’’یہ کیا بے ہودگی مچا رکھی ہے تم لوگوں نے ! ‘‘
اُس نے شاید مجھے پہچان لیا تھا۔ میرے اعتراض پر فوراََ اپنے ہونٹوںپر اُنگلی رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اِشارہ کیا اور ارد گرد دیکھتے ہوئے با آوازِ بلند بولا ۔
’’ ہاں ہاں بابا آپ کو بھی شرفِ ملاقات بخشیں گے ۔ بس تھوڑی دیر اندر تشریف رکھیئے گا‘‘
پھر وہ میرا ہاتھ تھام کر اندر کمرے میں لے گیا اور منت بھرے لہجے میں بولا۔
’’ طارق بھیا! میں نے آپ کو پہچان لیا ہے ۔ دھندے کا ٹائم ہے ۔مہربانی کرکے ہمارے کام میں خلل نہ ڈالیں اور یہاں سے تشریف لے جائیں۔ ‘‘
’’میں اُس سے ملے بغیر نہیں جاؤں گا‘‘ میں نے بھی فیصلہ کن انداز میں کہا۔
’’ٹھیک ہے لیکن آپ کو تھوڑی دیر انتظار کرنا ہوگا‘‘ اُس نے جز بز ہوتے ہوئے کہااور کمرے سے چلا گیا۔ باہر وہ کہہ رہا تھا۔
’’ لَکُم دِینکُم وَلیَِ دِین ۔۔۔۔۔یعنی دین ولیوں سے چلتا ہے ‘‘
اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیااور مارے طیش کے باہر نکل آیا۔ ہال تقریباََخالی ہو چکا تھا۔ ایک عقیدت مند اُس کے آگے سر جھکائے بیٹھا ہوا تھا۔ میرے چہرے پر چھائی ہوئی جھنجھلاہٹ کو دیکھتے ہی فضلو نے جلدی سے اُسے اُٹھایا اوراُس کے کان میں کچھ کہتا ہواباقی لوگوںکو کل آنے کا اِشارہ کیا ۔ سب کے سب سر ہلاتے ہوئے اُلٹے قدموں باہر نکل گئے۔
نوازو اُٹھ کر مجھ سے بغل گیر ہو گیا۔ تیز عطر کی خوشبو نے میرا دماغ چکرا کر رکھ دیا ۔غالباََمیرے آنے کی اطلاع فضلو نے اُسے دے دی تھی ۔میں نے اُسے سر سے پیر تک دیکھا۔اُس کا بدن کافی فربہ ہو گیا تھا۔ ٹھوڑی اور گردن پر چربی کی موٹی تہیں چڑھی ہوئی تھیں۔ میں نے چھوٹتے ہی پوچھا۔
’’ یہ سب کیا کھڑاگ پھیلا رکھا ہے تم لوگوں نے اور تم کب سے ایک پہنچے ہوئے بزرگ اور بابا ہو گئے؟س طرح لوگوں کو گمراہ کرتے تمہیں شرم نہیں آئی۔‘‘
اُ س نے اپنی لال لال آنکھیں نکال کر میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
’’ تمہیں یہاں کا پتہ کس نے دیا؟
’’ دیا ہوگا کسی نے،تمہیں اِس سے کیا!ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ نے بے چارے لوگوں کو تمہارے چنگل سے نکالنے کے لئے مجھے تمہارے در پر بھیجا ہو!‘‘
شایدمیرے لہجے میں چھپے ہوئے اِستقلال سے وہ خوفزدہ ہوگیا۔ آگے بڑھ کر مجھے کندھوں سے پکڑ تے ہوئے تخت پر بٹھا دیا اورخود میرے پیروں کے پاس بیٹھ گیا۔ پھراپنے ہاتھوں میں میرا ہاتھ تھام کر ملتجی انداز میں کہنے لگا۔
’’ میں اور کیا کرتا ،بہت مجبور تھا۔بابا کے اچانک انتقال کے بعد چونکہ اُن کا ٹھیلہ میری تحویل میں دے دیا گیا تھالہٰذاپورے خاندان کی کفا لت کی ذمہ داری میرے کندھوں پر آ ن پڑی ۔ گھر کی حالت توپہلے ہی سے د گر گوں تھی ۔بھلا میں ایک چھوٹے سے ٹھیلے کی کمائی سے اتنے افراد کی دیکھ بھال کیسے کرتا۔ دن بھر کڑی محنت کے باوجود اُن سب کو بھر پیٹ کھلابھی نہیں پاتا تھا۔ ایک دن بہت اُداس اور تھکا ماندہ سڑک کے کنارے بیٹھا ہوا تھا۔سامنے پیڑ کے نیچے ایک سادھومہاراج بیٹھے ہوئے تھے ۔ لوگ اُن کے پاس آتے ، اپنا احوال کہتے پھر ہاتھ دکھاتے اور ازراہِ عقیدت کچھ پیسے اُن کی نذر کر جاتے ۔ بغیر کوئی محنت کئے پیڑ کی ٹھنڈی چھاؤں میںبیٹھے بٹھائے وہ شخص بڑے آرام سے اپنی جھولی بھرے جا رہا تھا۔ میں بھی اُٹھ کر اُس کے پاس چلا گیا اور اپنا ہاتھ آگے کر دیا۔ وہ نہ جانے کیا کیابکے جا رہا تھا لیکن اُسے قریب سے دیکھنے کے بعدمیں حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگاتھا۔ جانتے ہو وہ کون تھا؟ وہی خاک روب ۔۔۔۔۔۔۔۔جوکبھی کبھار گلی کی گندی نالیاں صاف کرنے کے لئے آیا کرتا تھا۔ اُس رات مجھے نیند نہیں آئی ۔ کافی غور و خوض کے بعد میں نے اپنے ذہن میں مستقبل کے لئے ایک لائحہ عمل تیار کر لیاتھا۔میں نے وہ علاقہ چھوڑ دیا اور ایک دور درازمقام پرآکر اپنی دکان کھول لی ۔ایک نئے بابا کی آمد کو غنیمت جان کر دکھیارے لوگ اپنی قسمت کا حال جاننے کے لئے جوق در جوق آنے لگے ۔تقدیر بنانا تو اوپر والے کے ہاتھ ہے لیکن زندگی سے ہارے مایوس اوربے چارے لوگ اُمید افزا باتیں سن کر خوش ہو جاتے ہیں بس ۔ میں اِسی نفسیات کا فائدہ اُٹھاتا ہوں اور اُنہیں خوش آئند مستقبل کے خواب بیچتا ہوں‘‘
’’اوراِس طرح بیٹھے بٹھائے اُن کی خون پسینے کی کمائی ہڑپ کر جاتے ہو؟ ‘‘
’’ دستِ سوال دراز نہیں کرتا ۔ لوگ اپنی مرضی سے دے جاتے ہیں۔ ویسے بھی اگر مفت میں کچھ بتایا جائے تو لوگوں کو اعتقادنہیں ہوتا۔‘‘
’’ بہر کیف، اپنی چرب زبانی کا خوب استعمال کر رہے ہو تم ! ‘‘میں نے طنز سے کہا تو وہ خجل ہوکر بولا۔
’’ بہت ہاتھ پیر مارے لیکن کچھ نہیں ہو سکا۔ میں بھی اگر تمہاری طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتا تو بات کچھ اور ہوتی۔‘‘
’’ اپنے اِس لغو دھندے کی خاطر قرآنی آیات کی بے حرمتی تو نہ کرو۔نعوذ باِللہ مِن ذالِک، اپنے معتقد کے آگے مطلب براری کی خاطر تم نے جس آیت کا غلط مطلب نکالا ،قرآنِ مجید میں اُس کے معنی یوں بیاں کئے گئے ہیں کہ’ تم کو تمہارا بدلہ ملے گا اور مجھ کو میرا بدلہ ملے گا‘۔اگر تم میں عقلِ سلیم موجودہے تو قرآنِ پاک کے اِس معجزے پر غور کرو کہ بہ زبان خود تم نے اپنے انجامِ بدکی پیشین گوئی کردی‘‘
مارے ندامت کے اُس کے ماتھے پر پسینہ پھوٹ نکلا اور آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ لوہا گرم دیکھ کر میں نے پھر ضرب لگائی۔
’’لگتا ہے تم نے کافی مال اکٹھا کر لیا ہے۔ اب تو باز آجاؤ وورنہ مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا۔‘‘میرے لہجے میں چھپے اِنتباہ کو وہ بھانپ گیااور ہاتھ ملتے ہوئے بولا۔
’’ آئندہ خیال رکھوں گا دوست۔ایک عرصے سے میں بھی یہ دھندہ چھوڑنے کی فکر میں تھاــ‘‘
’’ کسی اور دھندے میں اپنی رقم لگاؤ ۔ جی جان سے محنت کرو، پھر دیکھو اُس میں برکت کیسے نہیں ہوتی ۔ اللہ تعالیٰ اپنے ہر بندے کوزندگی میں سدھرنے کا ایک نہ ایک موقع ضرور دیتا ہے لیکن بندہ اُس سے آنکھیں موند کر اپنے پیروں پر آپ کلہاڑی مار لے تو اِس میں کسی کا کیا قصور‘‘
مجھے اُن عقیدت مندوں پر رحم کے ساتھ غصہ بھی آرہا تھاجو ایسے خود ساختہ ولیوں اور ڈھونگی پیروں کی پیروی کرکے نہ صرف اُن کا حوصلہ بڑھاتے ہیں بلکہ اپنے گاڑھے پسینے کی کمائی بھی اُن دھوکے بازوں کی نذر کر آتے ہیں۔ کچھ لو گ کیوں نہیں سمجھتے کہ داتا تو صرف ایک ہے اور اُس کے پاس دیر بھلے ہے لیکن اندھیرنہیںاور سوائے اُس کے اور کوئی معبود نہیں۔
کہتے ہیں کہ روئے زمین پر بیک وقت کم ازکم چالیس ایسے ولی صفت، نیک اور مقدس لوگ موجود ہوتے ہیں جن کے دم قدم سے زمین اپنے محور پر ٹکی ہوتی ہے۔ جو اللہ کے محبوب اورسچے ولی ہوتے ہیں وہ اپنا بیشتر وقت اکثر کسی گم نام و پوشیدہ جگہ پر یادِ خدا میں گزارنے کوترجیح دیتے ہیں۔ اپنے ساتھ بھیڑ لے کر نہیں چلتے اور یہاں وہاں سرِ راہ مجمع نہیں لگاتے۔
فی الحال تو میں نے اُسے خبردار کر دیا تھا لیکن مجھے یقین نہیں تھا کہ وہ اتنی آسانی سے راہِ راست پر آ جائے گا۔بغیر ہاتھ پیر میلے کئے آسانی سے مل رہے پیسوں سے ہاتھ دھو لینا کوئی آسان بات نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔
’’خیر اگلی بار پھر دیکھا جائے گا۔‘‘ اپنے دل میں تہیہ کئے ہوئے میں باہر نکل آیا۔lll