زندگی کی گاڑی جب اپنے آخری اسٹیشن پر پہنچتی ہے تو سفر بڑا مختصر محسوس ہوتا ہے مگر اپنے آخری مرحلہ پر پہنچنے سے پہلے بڑے اہم تجربات کرا جاتی ہے جو وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کا سرمایہ بن جاتے ہیں۔ کچھ ایسے ہی تجربات بالکل غیر شعوری طور سے سامنے آئے اور ذہن پر اپنے اثرات چھوڑ گئے۔
٭۱۹۶۲ء کی بات ہے۔ ہاپوڑ میں ہمارے ایک دوست گپتا جی تھے۔ ان سے ان کے ہوسٹل ملنے گئے تو دیکھا لال ٹین انتہائی صاف ستھری رکھی ہے۔ میں نے پوچھا کیا بھائی! رات میں اس کو جلاتے نہیں ہو؟ (اس وقت اتنی بجلی نہیں تھی) نہیں روزانہ جلاتا ہوں۔ لیکن صبح ہی صاف ستھری کرکے رکھ دیتا ہوں۔ بات بڑی معمولی تھی! لیکن بڑی اہم۔ عام طور سے اندھیرا پڑے ہی لال ٹین صاف کی جاتی ہے اور سیاہ چمنی دن بھر بدنما سیاہی اور بدذوقی کا مظہر بنی رہتی ہے۔ لیکن گپتا جی کا ذوق صفائی جدا تھا، جو رات کے اندھیرے میں لالٹین صاف کرنے کی زحمت سے بھی بچاتا تھا۔
٭نگینہ میں اپنے رفیق جمیل صاحب تھے خدا وندکریم ان کی غریق رحمت فرمائے نہ بیڑی پیتے تھے نہ سگریٹ مگر ماچس ہر دم پاس رکھتے تھے اور اکثر ان کی ماچس بہت کام آتی تھی۔
٭محمد پور معافی (مظفر نگر) کے اپنے ایک رفیق سے ایک اجتماع کے موقع پر خلال مانگی۔ فوراً موصوف نے ماچس کی تیلی نکال کر دے دی۔ تیلی سرے پر جلی ہوئی تھی کہنے لگے جو تیلیاں استعمال ہوجاتی ہیں انہیں پھینکتا نہیں ہوں بلکہ پھر ایک خالی ماچس باکس میں رکھ لیتا ہوں اور یہ ایسے ہی مواقع پر کام آتی ہیں۔
٭ڈاک پتھر میں اپنے رفیق کے یہاں گئے۔ ان کو دیکھا بیت الخلاء سے آکر لوٹا بھر کر بیت الخلاء میں رکھ دیا۔ ان کے یہاں جو بیت الخلا استعمال کرتا ایسا ہی کرتا۔ ہم نے جب اس اصول کو برتا تو بڑی راحت محسوس کی۔
٭ایک اجتماع کے موقع پر مولانا عبدالعزیز (آندھرا پردیش) کو دیکھا اپنی قیام گاہ سے چلے تو سارا سامان سمیٹ دیا۔ جو چیز اٹیچی کی تھی اٹیچی میں رکھ دی اور تھیلے کی تھیلے میں۔ اس طرح موصوف سامان تیار رکھتے۔ یہ بھی دیکھا کہ پرانے اخبار بھی رکھتے ہیں۔ فرمانے لگے یہ ردّی کے اخبار بعض وقت بہت کام آتے ہیں۔
٭مولانا سراج الحسن صاحب (سابق امیر جماعت) سفر کررہے تھے۔ کچھ لوگ مونگ پھلی کھا کر چھلکے وہیں پھینک رہے تھے۔ موصوف نے چھلکے ہاتھ میں رکھے ایک صاحب نے کہا یہاں تو بہت چھلکے پڑے ہیں، پھینک دیجیے۔ محترم نے فرمایا ’’اگر ہم گندگی کم نہیں کرسکتے تو کم از کم اس میں اضافہ تو نہ کریں۔‘‘
٭کسی موقع پر موصوف ایک غیر مسلم نیتا سے ملنے گئے۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کو کہا گیا۔ ایک بچی پانی لے کر آئی۔ آپ نے پانی لیا۔ بچی سے اس کا نام پوچھا، سر پر ہاتھ پھیرا، دعائیں دیں۔ بچی نے ماں سے جاکر کہا: ماںجی! جو صاحب پتا جی سے ملنے آئے ہیں انھوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے بڑے آشیرواد دیے، کتنے ہی لوگ آتے ہیں ، مگر ایسا پریم کوئی بھی نہیں دکھاتا۔ ماں نے باپ سے کہا اور نیتا جی جب ڈرائنگ روم میں آئے تو بڑے تشکر کے انداز میں بچی کے الفاظ دہرائے اور بڑی محبت سے پیش آئے حالانکہ وہ بڑی ہندو تنظیم کے ایک بڑے نیتا تھا۔
٭ارشاد حسین جعفری مرحوم و مغفور (مرادآباد) ایک رکشا سے اترے، پوچھا: بھائی کیا دیں؟ حافظ جی جو چاہے دے دیجیے۔ ارشاد صاحب نے اس کو پیسے تو دے دیے مگر راستہ بھر سوچتے رہے، اس نے مجھ کو حافظ جی کیوں کہا؟ اور پھر اسی دن حفظ کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا اور دو سال نہیں ہوئے کہ پورا قرآن حفظ کرلیا اور پھر اس میں ایسے غرق ہوگئے کہ کالج جاتے اور آتے وقت ہی کئی کئی پارے پڑھ جاتے، فجر یا عشاء میں کسی مسجد میں درس دیتے تو جو آیات نماز میں پڑھی گئیں انہی کا درس دیتے۔
٭اپنے ایک رفیق کو دیکھا جس رکشا میں بیٹھتے اجرت دیتے وقت رکشا پُلر سے مصافحہ کرتے۔ اس سے اس کا نام پتہ، بچوں کی خیریت ان کی تعلیم وغیرہ پوچھتے اور رکشا والا یہ محسوس کرتا گویا کسی نے میری اندھیری کوٹھری میں دیا جلادیا ہو۔ اس کی ساری تھکن دور ہوجاتی۔ اس میں تازگی آجاتی۔
٭ایک رفیق کا حال یہ ہے کہ کبھی ملئے کسی وقت ملئے کھانے کو ضرور معلوم کرتے اور اس لہجہ میں باپ ہی نہیں ماں کی محبت بھی جھلکتی۔ اسی طرح ایک رفیق چہرہ دیکھ کر اندرونی کیفیات کا اندازہ لگالیتے ان کے پاس رفقاء آتے اور وہ حتی الامکان ان کے مسائل حل کرتے۔
٭ایک مقام سرائے ترین کے دو رفیق، بہت غریب، دونوں رکشا پُلر، مگر دونوں مطالعہ اور دعوتی کام میں یکتائے روزگار۔ انفاق کا اوسط بڑے بڑے سرمایہ داروں سے کہیں زیادہ۔ بہت مہمان نواز، دعوتی کام کی دھن ۔دیگر مقامات اور دیگر رفقاء و کارکنان کے حالات معلوم کرنے میں ہر وقت بے چین۔ سردیوں کی ایک رات قیام کا مسئلہ پیش آیا۔فوراً اپنے یہاں لے گئے۔ بہت سے کپڑوں کو جوڑ کر بڑا نواس دار بستر بنادیا اور اپنے آپ اپنی فیملی کو لیے رات بھر سکڑتے رہے۔ اللہ! اللہ!!