قارئین حجاب میں اکثر و بیشتر اخبارات پڑھتے ہیں۔ اخباروں میں خواتین کے جرائم، قتل، اغوا، عصمت دری، جہیز کے لیے جلا ڈالنے، گھر سے نکال دینے، خود کشی، خواتین سے چھیڑ خوانی اور لوٹ مار کے واقعات یقینا نظر سے گزرتے ہیں۔ لیکن کیا کبھی آپ نے غورکیا کہ آپ کے آس پاس روزانہ اس قسم کے کتنے واقعات پیش آتے ہیں اور جو واقعات و حادثات پیش آتے ہیں ان میں کتنے ایسے ہیں جو اخباروں تک پہنچ پاتے ہیں یا پولیس کے ریکارڈ میں درج ہوتے ہیں۔ یقینا واقعات و حادثات کی کافی بڑی تعداد ایسی ہے جو اخباروں کی گرفت میںنہیں آپاتی۔ اس کیفیت کے باوجود آج کل اخبارات خواتین کے خلاف جرائم سے بھرے پڑے ہیں۔ پہلے اس قسم کی خبریں صرف شہری علاقوں ہی سے آتی تھیں لیکن اب صورت حال بدل گئی ہے اور دیہی علاقوں سے بھی اس قسم کے جرائم کی خبریں مسلسل آنے لگی ہیں۔ شہروں، خصوصاً بڑے شہروں میں تو اب خواتین کے خلاف جرائم بہت عام ہوگئے ہیں۔ دہلی جو ملک کی راجدھانی ہے دھیرے دھیرے خواتین کے خلاف جرائم کی بھی راجدھانی بنتی جارہی ہے اور اب یہ سوال بڑے پیمانے پر اٹھ رہا ہے کہ دہلی میں ’’خواتین کتنی محفوظ ہیں؟‘‘
اسی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے دہلی سے شائع ہونے والے راشٹریہ سہارا اردو کی جو شمالی ہند کا کثیر الاشاعت اردو روزنامہ ہے، ایک ماہ کی ان تمام خبروں کو جمع کیا جن کا تعلق خواتین کے خلاف جرائم سے ہے۔ یکم ستمبر ۲۰۰۷ء سے ۳۰؍ستمبر تک کی مدت میں کوئی ڈیڑھ سو سے زیادہ ایسی خبریں مذکورہ روزنامے میں شائع ہوئیں جن کا تعلق خواتین کے خلاف جرائم سے ہے۔ ان میں سے بعض ایسی خبروں کو ہم نے چھوڑدیاجن میں جرم کی نوعیت غیر واضح اور واقعات کی صداقت مشکوک معلوم ہوتی تھی۔ ان جملہ واقعات میں سے ہم نے صرف ان ہی کو اپنے مطالعے میں جگہ دی ہے جن کی جرم کے اعتبار سے نوعیت واضح نظر آئی ۔ اسی طرح صرف وہ واقعات منتخب کیے گئے جن کی مقام، فرد، (مجرم و مظلوم) کے نام اور دیگر تفصیلات موجود تھیں اورخبر سے واقعہ کی صداقت کی تحقیق ہوتی نظر آتی تھی۔ ہم نے ذیل میں دیے گئے عنوانات کے مطابق ہی خبروں کو اپنا موضو ع بنایا۔ عنوانات اور اس سے متعلق خبروں فیصد اس طرح ہے:
قتل اور اقدامِ قتل کے واقعات : 18.11%
چھیڑ خوانی لوٹ اور استحصال : 5.07%
اغوا : 6.52%
خودکشی : 7.24%
جہیز کے لیے جلانے اور گھر سے نکالنے کی خبریں : 18.84%
عصمت دری کی خبریں : 25.36%
دیگر متفرق خبریں : 18.84%
یہ حادثات جس معاشرہ کے ہیں وہ ہمارا اپنا معاشرہ ہے۔ ہم اسی میں رہتے، بستے اور زندگی گزارتے ہیں۔ ان چشم کشا حقائق کے بعد ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملک کی آبادی کانصف کس صورت حال سے دوچار ہے اور اخلاقی گراوٹ کس قدر تیز رفتاری کے ساتھ پورے سماج کو دیوالیہ پن کی طرف لیے جارہی ہے۔
خواتین کے خلاف جرائم میں اگرچہ مذھب اور ذات برادری کی کوئی قید نہیں لیکن جب طبقاتی کشمکش اور فرقہ وارانہ منافرت کی آتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ عنصر بھی خواتین کے خلاف جرائم میں خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قتل اور عصمت دری کے واقعات میں کئی واقعات ایسے ہیں جن میں اونچی ذات کے لوگوں نے دلت خاندان کی لڑکی اور عورت کو انتقامی جذبہ سے قتل کیا اور ان کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ اور ذات پات کا یہ عنصر اس قدر غالب رہا کہ تھانے میں رپورٹ بھی آسانی سے درج نہیںہوسکی بلکہ اس وقت درج ہوئی جب اعلیٰ حکام کی طرف سے احکامات صادر ہوئے یا اخباری رپورٹوں کے نتیجے میں پولیس رپورٹ درج کرنے پر مجبور ہوئی۔
عصمت دری کے واقعات جن کا تناسب جرائم میں سب سے زیادہ 25.26%ہے کافی تشویشناک ہیں۔ اور کئی کڑوی حقیقتوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان میں سب سے پہلی بات سماج کے مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں کا اخلاقی دیوالیہ پن ہے جہاں ا س کے رشتہ داروں کے ذریعہ یہ سیاہ جرائم انجام دیے گئے۔ ان میں لڑکیوں کے باپ، بہنوئی اور پھوپھا تک شامل ہیں۔ اور دوسرا انتہائی خطرناک پہلو یہ ہے کہ ان جملہ جرائم کا شکار ہونے والیوں میں تقریباً نصف تعداد ان معصوم بچیوں کی ہے جن کی عمر ۱۴؍سال یا اس سے کم ہیں اور ان میں بھی بھاری اکثریت ۶ سال سے ۹ سال کی معصوم بچیوں کی ہے۔ جبکہ تیسری طرف اس کے شکارہونے والوں میں ۸۰ سالہ شادی شدہ خواتین تک شامل ہیں۔ یہ بات بھی مسلم سماج کے لیے تشویش کا باعث ہونی چاہیے کہ عصمت دری کا شکار ہونے والی خواتین یا مجرمین کی فہرست میں 30فیصد کے قریب مسلمان شامل ہیں۔
خواتین کے قتل میں یہ بات حیرت ناک ہے کہ پچاس فیصد کے قریب قتل عورتوں کے قریبی رشتہ داروں نے کئے جن میں شوہر اور سسرال کے دیگر افراد، باپ، بھائی، یا ظالم عشاق شامل ہیں۔ اور ان کی بنیادی وجہ جہیز ، ناجائز تعلقات کا شبہ یا مال و دولت کا لالچ ہے۔ قتل کے ان واقعات میں دس فیصد واقعات ایسے ہیں جن میں شوہر نے بیوی اور ایک سے زیادہ بچوں کو قتل کرنے کے بعد خود کشی کرلی اور اس کا سبب بیوی کے سلسلے میں شبہ کا شکار ہونا تھا۔
جہیز خواتین کے خلاف جرائم میںدوسرے نمبر پر ہے، جہاں نئی نویلی دلہنوں سے لے کر ایک سے زیادہ بچوں کی مائیں اس کا شکار ہوئی ہیں۔ جہیز کے لیے زیادہ تر عورتوں کو قتل کردیا گیا ہے اور اس کے لیے جلانے، پھانسی پر لٹکانے ، گرم پانی سے جلادینے اور زہر دے دینے کے طریقے اپنائے گئے ہیں۔ شاید ایسا اس وجہ سے ہوا کہ ان طریقوں سے مارنا قانون کی آنکھ میں دھول جھونکنے کے اعتبار سے زیادہ آسان اور قانونی کیس میں شبہات پیدا کردینے والا ہے۔ جبکہ جہیز کے سبب دلہن کو گھر سے نکال دینے کے واقعات کا تناسب صرف ایک فیصد ہے۔ ایسا شایدا س وجہ سے ہے کہ دلہن کو گھر سے نکال دینے سے معاملہ عوامی ہوجاتا ہے اور اس طرح بدنامی کا اندیشہ ہوتا ہے۔
ایک خاص بات جہیز کی اموات میں یہ بھی ہے کہ یہاں جملہ جرائم میں مسلمانوں کامعلوم تناسب ۳۸ فیصد ہے جو آبادی میں ان کے تناسب سے تین گنے سے بھی زیادہ ہے۔ یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ جہیز کے لیے دلہنوں کو جلانے اور قتل کرنے میں مسلم سماج بھی اسی طرح حصہ دار ہے جس طرح عام معاشرہ۔ اگرچہ ۳۸ فیصد کاتناسب یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلمانو ںمیں یہ تناسب زیادہ ہے لیکن اگر ان واقعات میں ’’اتفاقی طور پر مسلمانوں کی تعداد کا زیادہ ہونا‘‘ مان لیا جائے تب بھی مسلم سماج کے ان افراد کے لیے یہ چشم کشا ضرور ہونا چاہیے جو اس قسم کے بے بنیاد عوے کرتے ہیں کہ مسلم سماج میں جہیز کے لیے دلہن سوزی اور قتل کے واقعات ’’نہیں ہیں‘‘ یا ’’نہیں‘‘ کے برابر ہیں۔
جہیز کے لیے عورتوں کے قتل کے واقعات میں یہ پہلو بھی اہم ہے کہ یہ واقعات سب سے زیادہ دہلی شہر اور مغربی یوپی کے چند اضلاع، میرٹھ، مظفر نگر، بلند شہر، غازی آباد، بجنور اور سہارنپور کے ہیں اور متوسط خاندانوں کے ہیں جہاں عام استطاعت سے بھی زیادہ جہیز دینا عام روایت ہے۔ یہاں اچھے اچھے لوگ زمین بیچ کر اور قرض لے کر اپنی لڑکیوں کی شادیاں کرتے ہیں اور خاصی شان و شوکت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہمارے معاشرہ میں خواتین اور مردوں کے درمیان خود کشی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور یہ صحت مند معاشرہ کی علامت نہیں۔ مردوں میں خود کشی کے اسباب کی وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں لیکن عورتوں میں خود کشی کے واقعات میں زیادہ تر سبب مردوں کی جانب سے زیادتیاں اور ستایا جانا ہے۔ عورت کیونکہ سماجی اعتبار سے مرد کے مقابلہ میں ہر اعتبار سے کمزور بناکر رکھی گئی ہے اس لیے اس کے سامنے زندگی کی دشواریوں سے نکلنا مشکل ہوتا ہے اور انتہائی مجبوری کی صورت میں وہ خود کشی تک کے اقدام کے لیے آمادہ ہوجاتی ہے۔ اور واقعات یہی بتاتے ہیں کہ اکثر اوقات میں عورت گھر کے مردوں کے مقابلہ میں مجبور بنادی جاتی ہے اور بالآخر خود کشی کرلیتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ مردوں کے جانب سے قتل کے واقعہ کو خود کشی کا رخ دے دیا جاتا ہے۔
اغوا کے واقعات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں زیادہ تر سبب آپسی رنجش، پھروتی وصولی اور لڑکیوں کو بیچ دینا ہوتا ہے۔ راشٹریہ سہارا کی ان ایک ماہ کی اغوا کی خبروں سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ۹۰ فیصد لڑکیاں جن کو اغوا کیا گیا ان کی عمریں ۶ سے ۱۶ سال کے درمیان تھیں۔ اور ان میں ۳۰ فیصد طالبات تھیں جن کو اسکول سے لوٹتے ہوئے اغوا کیا گیا۔
جرائم کے مختلف النوع واقعات میں جن کا خواتین کے خلاف جرائم میں تناسب 18.11% ہے، ایسے واقعات ہیں جہاں بیوہ عورتوں کے ساتھ نازیبا سلوک کیا گیا، انہیں ستایا گیا، مارا پیٹا گیا، گھر سے نکال دیا گیا یا بالآخر قتل کردیا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ سماج میں بیوہ کے خلاف نفرت کاماحول ہے یا توہم پرستی جس کے نتیجے میں بیوہ کو منحوس تصور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اس کے پیچھے متوفی کے مال ودولت اور وراثت پر اس کے سگے رشتہ داروں کے قابض ہونے کی خواہش بھی ہے۔
اسی ضمن میں وہ متفرق حادثات بھی ہیں جہاں کسی عورت کو لفٹ دے کر لوٹ لیا گیا۔ یا راہ چلتے پرس، چین، یا زیور چھین لیا گیا۔ اس میں عورتوں کے چہروں پر تیزاب پھینکنے، نوکری یا شادی کرانے کا جھانسہ دے کر ٹھگی کرنے یا استحصال کرنے اور بیوی کو نشے کی حالت میں مارنے پیٹنے کے واقعات شامل ہیں۔ ان واقعات میں مختلف وجہسے پر ماؤں کے اپنی بچیوں کے قتل کردینے کے واقعات بھی شامل ہیں۔ یہ واقعات خواتین کے خلاف جرائم کی مختلف شکلوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔
روزنامہ راشٹریہ سہارا دہلی کی ایک ماہ کی اشاعتوں میں خواتین کے خلاف جرائم کے واقعات جن کا تجزیہ اوپر پیش کیا گیا، ہوسکتا ہے پورے ملک کی صورت حال کی نمائندگی نہ کرتے ہوں مگر یہ طے ہے کہ شمالی ہند کے ایک بڑے حصہ اور بڑی آبادی والے علاقے کا حال ضرور بیان کرتے ہیں۔ ان واقعات سے اس خطہ کی امن و قانون کی صورت حال کا بھی اندازہ ہوتا ہے او ریہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ اس طرح کے واقعات میں بااثر لوگ کس طرح مختلف حیلے اور راستے اپنا کر قانون کی گرفت سے بچ رہتے ہیں۔
مذکورہ واقعات ہمارے لیے اور سماج کے ارباب اقتدار کے لیے الارم ہیں، جن کے بعد اربابِ اقتدار کو خواہ امن و قانون کے نفاذ کی فکر لاحق ہوتی ہویا نہیں ہمیں اپنی اور سماج و معاشرہ کی حفاظت کی فکر ضرور لاحق ہونی چاہیے۔