مشہور سپہ سالار طارق بن زیاد نے موسیٰ بن نصیر کے زیر سایہ پرورش پائی۔ وہاں ان کے یہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام فاطمہ رکھا گیا۔ فاطمہ کے والد طارق ابن زیاد نے اپنی بیٹی کو قرآن، حدیث، فقہ، ادب کی تعلیم دلائی۔ فاطمہ بہت ذہین اور بہادر لڑکی تھی۔ اس کے استاد شیخ غنم ابن عدیؒ فرماتے ہیں: ’’فاطمہ اخلاقی اعتبار سے بہت بلند و بالا مقام رکھتی تھی، نہایت ہی مسکین نواز، ہنس مکھ، سنجیدگی و متانت کی حامل تھی۔ غیبت سے احتراز کرتی تھی، شجاعت اس کا خاص وصف تھا۔‘‘
جب طارق بن زیاد نے اندلس جانے کا ارادہ کیا تو فاطمہ کے دل میں بھی امنگ پیدا ہوئی اس نے اندلس جانے کی خواہش ظاہر کی اور طارق نے اس کو باز رکھنے کی امکان بھر کوشش کی، اور کہا کہ میدانِ جنگ میں تلواریں چلتی ہیں۔ غیر مسلح عورتوں کا کوئی کام نہیں۔ تو فاطمہ نے جواب دیا کہ اے ابا جان! حضور ﷺ نے تو عورتوں کو عزت دی، ورنہ عورت مردوں کے ہاتھوں ایک کھلونا تھی۔ ہم غریب الوطن نہیں ہیں بلکہ حضور ﷺ کی امت میں سے ہیں، ہم ان کو حق کی دعوت دیں گے۔ وہ اگر اس کی خلاف ورزی کریں گے تو ہم ان سے جنگ کریں گے۔ اس لیے کہ حضور ﷺ نے بھی اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر جہاد کیا۔ شاید اللہ تعالیٰ مجھ کو بھی قبول فرمالے۔ آپ ہمیں غیر مسلح نہ خیال فرمائیں، صبر ہماری تلوار ہے؟ یقین ہماری کمان ہے، تحمل ہمارے تیر ہیں۔ شکر ہماری زرہ ہے۔ توکل ہمارا خود ہے۔ ثابت قدمی موزے ہیں، خدا کا فضل ہماری ڈھال ہے۔
ابن زیاد نے کہا بیٹی! جنگ میں عورتوں کا کوئی کام نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عورتوں پر جہاد فرض نہیں کیا ہے۔ فاطمہ نے جواب دیا کہ ’’میدانِ جنگ میں عورتیں بہت کام کرتی ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے غزوات کی تاریخ آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوگی۔ امہات المومنینؓ میدانِ جہاد میں بہت کام کرتی تھیں۔ مجاہدین کو پانی پلانا، زخمیوں کی دیکھ بھال کرنا، اللہ کے سپاہیوں کی مدد کرنا بھی ایک اہم فریضہ ہے۔
طارق بن زیاد بیٹی کے جذبہ ایمانی سے بہت خوش ہوئے، اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا کہ میری بیٹی ضعیف الاعتقاد نہیں ہے۔ الحمدللہ جاؤ… بیٹی میری طرف سے اجازت ہے، مگر موسیٰ ابن نصیر سے ضرور پوچھ لو۔
فاطمہ موسیٰ بن نصیر کے پاس آئیں اور پورا واقعہ سنایا۔ موسیٰ نے کہا تم اکیلی کیسے جاؤگی؟ اچھا ایسا کرو کہ اپنی ہم عمر کچھ لڑکیوں کو اپنے ساتھ کرلو۔
فاطمہ نے چوبیس لڑکیوں کو جمع کرلیا تو موسیٰ ابن نصیر نے اپنے طبیب خاص سے ان لڑکیوں کو نرسنگ کی تربیت دلائی۔ جب ان کو یہ کام آگیا اور پوری مہارت ہوگئی تو انھوں نے پھر جانے کی اجازت طلب کی، موسیٰ نے اجازت دے دی اور کہا بیٹی! ایک نصیحت یاد رکھنا تم اپنے فرائض کو اس طرح بحسن و خوبی انجام دینا کہ آج ہی کی نہیں کل کی بھی دنیا تم سے درس نصیحت لے اور یہ جان سکے کہ میدانِ جنگ کی خون آشام فضاؤں میں مریضوںکی دیکھ بھال اور مرہم پٹی کی راہ بھی اسلام نے نکالی۔
اس کے بعد فاطمہ اپنے باپ طارق کے ساتھ اندلس کے لیے روانہ ہوگئیں۔ مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ سات ہزار بربر اور تین ہزار عرب تھے۔ اسلامی لشکر جبل الطارق پر پہنچا اور ہسپانیوں کی فوج جس کی تعداد ایک لاکھ تھی، مقابلہ پر آئی۔ جنگ ہوئی اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے فتح نصیب کی۔ پچاس ہزار ہسپانوی قتل ہوئے، تیس ہزار قید ہوئے باقیماندہ بیس ہزار فوجیوں نے بھاگ کر جان بچائی۔ اس فتح تک مریضوں کی دیکھ بھال کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا اس جنگ میں جو بیشمار ساز وسامان ہاتھ لگا تو فاطمہ نے کچھ خیمے کچھ گدے اور کچھ تکیے لیے کر باقاعدہ اسپتال قائم کیا۔ اس جنگ کے بعد اسلامی لشکر طارق کی قیادت میں قرمونہ پہنچا اور اس کا محاصرہ کرلیا۔ تھوڑی دیر بعد اہلِ شہر باہر نکلے اور گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ فاطمہ کا دستہ میدانِ جنگ میں پانی پلانے پر مامور تھا۔ فاطمہ ایک ہاتھ سے مشکیزہ بھر رہی تھیں اور دوسرے ہاتھ میں تلوار تھی۔ اچانک ایک زخمی نے پانی طلب کیا۔ فاطمہ پانی پلا رہی تھیں کہ دو ہسپانیوں نے موقعہ دیکھ کر نیزہ مارا۔ جو سر کے پار ہوگیا۔ فاطمہ کو گرتے طارق ابن زیاد نے دیکھ لیا۔ وہ لشکر کو چیرتے ہوئے آپہنچے اور دونوں کو واصل جہنم کیا۔ اور فاطمہ کو گلے لگا لیا۔ فاطمہ نے کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھا اور جان جان آفریں کے حوالے کردی۔یہ پہلی خاتون تھیں جنھوں نے اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر میدانِ جنگ میں زخمیوں کو پانی پلاتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔